دنیا رنگ برنگی…دلچسپ اور عجیب وغریب واقعات
اسپیشل فیچر
انسانی زندگی مختلف واقعات کا مرقع ہے۔ روزمرہ زندگی کے واقعات دلچسپ ، عبرت ناک اور سبق آموز بھی ہوتے ہیں۔درجِ ذیل چند دلچسپ واقعات قارئین کی توجہ کیلئے پیشِ خدمت ہیں تا کہ معلومات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ اصلاح کا باعث بھی بن سکیں۔ پہلے دو واقعات پاکستان کی دو الگ الگ شخصیات کی وصیتوںسے متعلق ہیں جو پوری نہ ہو سکیں مگران دونوں کا انجام کتنا مختلف اورباعثِ عبرت ہوا ۔قارئین ان دونوں واقعات کو پڑھ کر جو بھی نتیجہ اخذ کریں لیکن قدرت کے رنگوں پر حیران ضرور ہوں گے ۔وصیتیں جو پوری نہ ہو سکیںدنیا کے کسی بھی شہ سوار سے شکست نہ کھانے والا کوہِ گراں رستم زماں گاماں پہلوان 23مئی 1960ء کی صبح موت سے شکست کھا گیا ۔گاماں پہلوان کو رمضان المبارک میں سحری کے وقت ایک نہایت ہی زہریلے سانپ نے کاٹ لیا تھا۔گاماں پہلوان کو ان ہی کے ذاتی تانگے پر میو ہسپتال لایا گیا۔یہ ایک بہت ہی زہریلا سانپ تھا اور کسی عام آدمی کو کاٹتا تو وہ فوراًہی لقمہ اجل بن جاتا مگر گاماں پہلوان اس سانپ کے زہر سے بھی بچ گئے ۔ صحت یاب ہونے کے بعد گاماں پہلوان نے کہا کہ سانپ نے دانت میرے پائوں میں گاڑھ دیئے لیکن میں نے پوری قوت سے اسے زمین پر رگڑا تویہ الگ ہوااورمجھے یوں لگا جیسے میں جلتے تنور میں گرگیا ہوں۔گاماں پہلوان اس واقعہ کے بارہ سال بعد طبعی موت کا شکار ہوئے ۔ان کی وصیت کے مطابق انہیں پیر مکی کے مزار احاطہ میں دفن کیا جانا تھا ۔پیر مکی کے صحن میں قبر کی کھدوائی شروع ہوئی تو ایک مجاور خاتون نے ڈپٹی کمشنر کو دہائی دی کہ کچھ لوگ پیر مکی کے صحن میں زبردستی قبر بنانے جا رہے ہیں جنہیں ایسا کرنے سے روکا جائے ۔طویل بحث کے بعد گاماں پہلوان کو جوگی خاندان کے ذاتی قبرستان میں دفن کردیا گیا ۔عبرت ناکایک دوسرے واقعہ پر نظر دوڑائیں توعبرت کی ایک بدترین مثال ابھر کر سامنے آتی ہے ۔ 29اگست 1952ء کو پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد فوت ہوئے ۔ان کی وصیت کے مطابق انہیں سعودی عرب میں دفنایا جانا تھا لہٰذا انہیں امانتاًکراچی میں سپردِخاک کر دیا گیا۔کچھ عرصہ بعد وصیت کے مطابق ان کی لاش کو قبر سے نکال کر سعودی عرب روانہ کرنے لگے توایک ڈاکٹر، فوج کے کیپٹن، پولیس اہلکا ر، دوگورکن اور غلام محمد کے قریشی رشتہ دار قبرکشائی کے لیے قبر ستان پہنچے۔ گورکن نے جیسے ہی قبر کھودی اور تختے ہٹائے تو تابوت کے گرد ایک سانپ چکر لگاتا دکھائی دیا، گورکن نے لاٹھی سے اس سانپ کو مارنے کی کوشش کی ،مگر وہ ہر وار سے بچ گیا ۔پولیس کے سب انسپکٹر نے اپنی پستول سے چھ گولیاں داغ دیں،مگر سانپ کو ایک بھی گولی نہ لگی۔ڈاکٹر کی ہدایت پر ایک زہریلے سپرے کا چھڑکائوکر کے قبر عارضی طور پر بند کر دی گئی۔دو گھنٹے کے بعدجب دوبارہ قبرکھودی گئی تو سانپ اسی تیزی سے قبر میں چکر لگا رہاتھا ۔چنانچہ باہمی صلاح مشورے کے بعد قبر کو بند کر دیا گیا اور اگلے دن ایک مشہور اخبار میں چھوٹی سی خبر شائع ہوئی جو کچھ یوں تھی: ’’سابق گورنر جنرل غلام محمد کی لاش سعودی عرب نہیں لے جا ئی جاسکی اور وہ اب کراچی ہی میں دفن رہے گی ۔‘‘ شہزادہ چارلس کی شرمندگی ایک معروف سکالر و دانشور راوی ہیں کہ شہزادہ چارلس اپنی محبوبہ اور دوسری بیوی کمیلا پارکر کے ہمراہ بادشاہی مسجد کی سیر کو آئے تو بلند و بالا دروازے کا جاہ ء جلال دیکھ کر مہبوت رہ گئے ۔دروازے کی چوکھٹ پر کھڑے ہو کر انہوں نے حضوری باغ، بارہ دردی اور روشنائی دروازوں کا بھی نظارہ کیا۔یہ منظر سحر انگیز تھا۔شہزادے نے اپنے تاثرات یوں بیان کیے۔’’اس ملک میں کسی قد ر شاندار تہذیبی ورثہ موجود ہے۔‘‘ شہزادہ چارلس کو اس عظیم ورثے کے ساتھ روا رکھے جانے والے انگریزی سلوک کی تھوڑی سی جھلک دکھائی گئی جب انہیں بتایا گیاکہ انگریز فوجی یونٹ نے شیش محل کو فوجی رہائش گاہ میں بدل دیا ۔گر یائی محل کو گودام بنادیا گیا اور یہاںسے قیمتی پتھر اٹھا کر لے گے ۔یہ سن کر چارلس نے کہا ’’ہم اپنے نو آبادتی نظام پر شرمندہ ہیں ‘‘۔ گدھوں کا ایک سا رنگ خواجہ حسن نظامی انگریزوں سے کافی میل جول رکھتے تھی۔ ان کے ایک دوست رچرڈ ولیم نے خواجہ صاحب سے ازراہِ مذاق کہا: ’’انگریز تو سب ایک ہی رنگ کے ہوتے ہیں لیکن یہ کیا بات ہے کہ ہندوستانیوں کا رنگ ایک جیسا نہیں ہوتا۔‘‘ خواجہ حسن نظامی نے برجستہ جواب دیا: ’’گھوڑے مختلف رنگ کے ہوتے ہیں لیکن گدھوں کا ایک سا ہی رنگ ہوتا ہے‘‘۔حاضر جواب صدر امریکا کے سابق صدر ابراہام لنکن بڑے حاضر جواب تھے۔ایک بار کسی ملک کا سفیر ان کے کمرے میںداخل ہوا تو دیکھا کہ وہ اپنا جوتا صاف کررہے ہیں۔ اس نے حیرت سے پوچھا: ’’کیا آپ اپنا جوتا صاف کررہے ہیں؟‘‘ لنکن نے جواب دیا: ’’جی ہاں، لیکن کیا آپ دوسروں کے جوتے صاف کرتے ہیں؟‘‘سیاستدان کا جواب ایک معروف سیاستدان کے منہ سے نکل گیا کہ ایک بار ہرن کے شکار کے دوران انہوں نے گولی چلائی تو گولی ہرن کے کھر میں لگنے کے بعد سر سے نکل گئی۔ اینکر پرسن معترض ہوئے کہ یہ ناممکن ہے کہ گولی پیر میں لگے اور پھر سر میں بھی جا لگے۔ مذکورہ سیاستدان پہلے تو سٹپٹائے پھر گویا ہوئے کہ ہم جب اقتدار میںہوتے ہیں توآپ لوگ ہمارا میڈیا ٹرائیل شروع کردیتے ہیں۔ اینکر نے کہا جناب! یہ تو کوئی میڈیا ٹرائل نہیں ہے؟ تو انہوں نے یہ بتا کر اینکر پرسن کے 14 طبق روشن کر دیے کہ جب انہوں نے گولی چلائی تو ہرن اپنے کھر سے سر کھجا رہا تھا۔ نایاب بادشاہ ایک مرتبہ ایک شہنشاہ شکار کھیلتے کھیلتے دور نکل گیا، ایک دیہاتی کی جھونپڑی میں جاکر پوچھا: ’’کچھ کھانے کوہے؟‘‘ کہا: ’’صرف ایک انڈا ہے‘‘۔ فرمایا: ’’بھون لائو‘‘۔ کھانے کے بعد انڈے کی قیمت پوچھی، اس نے کہا: ’’سو دینار۔‘‘ سلطان نے حیرت سے پوچھا: ’’کیا اس علاقے میں انڈے نایاب ہیں؟‘‘ کہا: ’’انڈے تو بہت ہیں ‘بادشاہ نایاب ہیں‘‘۔ سلطان اس جواب سے خوش ہوا اور اسے ایک ہزار دینار انعام میں دیے۔ بے چارے مرد جان ملٹن (انگریز شاعر) سے کسی نے پوچھا: ’’آپ اپنی بیٹیوں کو کتنی زبانوں میں ماہر کرنا چاہیں گے؟‘‘ ملٹن نے جواب دیا: ’’عورتوں کی ایک ہی زبان سے بے چارے مردوں کو پناہ نہیں ملتی۔ اگر وہ چار زبانیں جان جائیں تو خدا کی پناہ‘‘۔ نپولین کا جواب نپولین جب پولینڈ کی جنگ میں مصروف تھا تو اس کے سامنے روسی فوج کے بعض افسر گرفتار کرکے پیش کیے گئے۔ ان افسروں کا شہنشاہ نپولین سے رویہ گستاخانہ تھا۔ ان میں سے ایک نے کہا: ’’روسیوں کو فرانسیسیوں پر ہر لحاظ سے برتری حاصل ہے۔ مثلاً روسی محض عزت کی خاطر جنگ لڑتے ہیں اور آپ ہیں کہ صرف مالی مفاد کی خاطر جنگ آزما ہیں‘‘۔ ’’تم نے بالکل ٹھیک کہا ہے‘‘ شہنشاہ نپولین نے کہا: ’’ہر شخص اْس چیز کے لیے لڑتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہوتی۔‘‘٭…٭…٭