رائے احمد خان کھرل:دھرتی کا ایک عظیم سپوت
اسپیشل فیچر
تاریخ دان لکھتے ہیں کہ اگر راوی کی روایت کو کسی کھرل پر فخر ہے تو وہ رائے احمد خان کھرل ہے جس نے برصغیر پر قابض انگریز سامراج کی بالادستی کو کبھی تسلیم نہیں کیا تھا اور بالآخر ان کے خلاف لڑتے لڑتے اپنی جان تک دے ڈالی۔1849ء میں انگریزوں نے سکھ حکمرانوں سے اقتدار چھین کر جب پنجاب پر قبضہ کر لیا تو راوی کے علاقے سے کھرل، فتیانہ، کاٹھیہ اور دیگر خوددار خاندانوں کی مزاحمت پر قابو پانے کے لیے پاکپتن، اوکاڑہ، منٹگمری (موجودہ ساہیوال) گوگیرہ اور ہڑپہ کے علاقوں پر مشتمل ایک ضلع بنایا گیا جس کا صدر مقام پہلے پاکپتن اور پھر گوگیرہ کو رکھا گیا۔بعدازاںضلع کچہری، بخشی خانہ اور جیل تعمیر کی گئی۔گوگیرہ کے بالمقابل راوی کے دوسرے کنارے پر واقع گاؤں جھامرہ میں کھرل قبیلے کا سردار احمد خان کھرل رہائش پذیر تھا۔انگریز سرکار کی جانب سے صدر مقام پر لارڈ برکلے نامی گورے کو اسسٹنٹ کمشنر تعینات کیا گیا تو اْس نے علاقے کے سرداروں کو طلب کیا۔ معروف تاریخ دان محمد حسن معراج لکھتے ہیں کہ جون کی ایک صبح، گوگیرہ میں تعینات انگریز افسر برکلے نے علاقے کے معتبر سرداروں کو طلب کیا۔ راوی کے اس پار سے احمد خان کھرل اور سارنگ خان نے برکلے سے ملاقات کی۔ انگریز افسر نے بغاوت سے نپٹنے کے لئے گھوڑے اور جوان مانگے۔ احمد خان نے جواب دیا؛’’صاحب، یہاں کوئی بھی اپنا گھوڑا، عورت اور زمین نہیں دیتا‘‘ اور اس کے بعد واپس چلا آیا۔یہ وہ فیصلہ کن مرحلہ کن تھا جو بعدازاں پیش آنے والے واقعات کی بنیاد بنا۔اگلے کچھ عرصہ میں انگریز نے علاقے کے بہت سے لوگوں کو جیل میں ڈال دیا جس کے نتیجہ میں احمد خان کھرل نے تمام قبائل کو متحد کرکے 26 جولائی 1857ء کو گوگیرہ جیل پر حملہ کرتے ہوئے تمام قیدیوں کو رہا کروالیا۔انگریزوں کے صبر کی انتہا نے جواب دیا تو احمد خان بھی زیر عتاب ٹھہرے۔ انگریز فوج نے اْن کی گرفتاری کے لیے جھامرے پر حملہ کیا۔ سردار نہ ملا تو بستی کو آگ لگا کر عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا۔بے گناہوں پر حملہ اس سردار کو للکار تھی سو اْس نے دیگر سرداروں کے ساتھ مل کر انگریز چوکیوں پر ایک ساتھ حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا جس کی کمالیہ کے سردار کمال کھرل نے مخبری کر دی۔21 ستمبر کو انگریزوں اور سکھوں کے فوجی دستوں نے گشکوریاں کے قریب ’’نورے دی ڈل‘‘ کے مقام پر دورانِ نماز احمد خان پر حملہ کر دیا۔ احمد خان اور اس کے ساتھی بہادری و جانفشانی سے لڑے اور انگریز فوج کے کم و بیش 20 سپاہی مارڈالے۔اس جنگ میں احمد خان کھرل، ان کا بھتیجا مراد کھرل اور سارنگ کھرل بھی شہید ہو گئے۔باعثِ افسوس امر تو یہ ہے کہ انگریز نے ساہیوال میں اپنے افسر برکلے کی ایک یاد گار بنوائی جو آج بھی یہاں موجود ہے۔انگریز چلے گئے، برصغیر آزاد ہو گیا لیکن حکومتِ پاکستان اور ساہیوال کی ضلعی انتظامیہ کے افسران کو آج تک اس بہادر مجاہد کے نام سے ایک چوک تک منسوب کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔دوسری طرف ضلعی انتظامیہ فیصل آباد نے نہ صرف گیٹاں والا چوک کو احمد خان کھرل کے نام سے منسوب کیا ہے بلکہ جڑانوالہ کی تحصیل انتظامیہ نے بھی سید والا سے ہو کر جھامرہ جانے والی سڑک پر اس شہید کی یادگار بنوائی ہے۔ایک غیر سرکاری تنظیم پنجاب لوک سْجاگ ساہیوال میں احمد خان کھرل کی یاد گار تعمیر کروانے کے لیے گزشتہ کئی برسوں سے مہم چلا رہی ہے۔ساہیوال میںمذکورہ ادارے کے سربراہ شفیق بٹ بتاتے ہیں کہ اکتوبر 2013ء میں سْجاگ کی جانب سے ایک تھیٹر فیسٹیول کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں ساہیوال کے لگ بھگ ڈیڑھ ہزار لوگوں نے ایک درخواست کے ذریعے انتظامیہ سے احمد خان کی یادگار تعمیر کرنے کا مطالبہ کیا جسے انتظامیہ نے یکسر نظر انداز کر دیا۔ہم نے اْس وقت کے کمشنر کو لوگوں کا مطالبہ پیش کیا تو وہ کہنے لگے کہ احمد خان تو غدار تھا۔ اْس نے تو ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رکھا تھا۔ آپ نے اْن کی یادگار کی تعمیر کے لیے یہ مہم جوئی کیوں شروع کررکھی ہے؟انہوںنے مزیدکہا کہ اس سے پہلے کئی حکومتی عہدیداروں نے لوگوں کا یہ مطالبہ پورا کرنے کے وعدے کیے لیکن کوئی بھی اپنا وعدہ وفا نہ کر سکا۔ دوسری جانب جڑانوالہ کے اسسٹنٹ کمشنر ظہیر انور، احمد خان کھرل کو اس دھرتی کا ہیرو تسلیم کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ احمد خان ایک بہادر سپاہی تھا جس نے غلامی قبول کرنے کی بجائے انگریز سامراج کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اسی بات کو دیکھتے ہوئے یہاں اْن کی یاد گار تعمیر کروائی گئی ہے۔اْن کا ماننا ہے کہ بطور قوم جب تک ہم بھگت سنگھ، گنگا رام اور احمد خان کھرل جیسے اپنے اصل ہیروز کی قدر نہیں کریں گے تو ترقی کرنا ممکن نہیں ہے۔ جو قومیں اپنی تاریخ اور ثقافت کو بھول جاتی ہیں، تاریخ انھیں بھول جاتی ہے۔(نیٹ نیوز)نیٹ نیوز