سکندر اعظم کا بچپن
اسپیشل فیچر
سکندر کی بہترین شباہت ہمیں لسی پس کے بنائے ہوئے مجسموں میں ملتی ہے۔ یہ اس کا پسندیدہ سنگ تراش تھا۔ سکندر کے نقوش میں کئی خصوصیات تھیں جنہیں بعد میں آنے والے مصوروں نے بھی ظاہر کرنے کی کوشش کی، مثلاً گردن کا بائیں جانب خفیف سا جھکاؤ اور آنکھوں میں ایک خاص تاثر جس کی وجہ سے ایسا لگتا تھا جیسے نگاہیں دل میں اتری چلی جا رہی ہوں اور انسان گویا پگھلنے سا لگتا تھا۔ مذکورہ سنگ تراش کے بنائے ہوئے مجسموں میں یہ خصوصیات نظر آتی ہیں جبکہ اپیلز (Apelles) نے سکندر کی جو تصویر بنائی اْس میں سکندر کی رنگت بہت سانولی دکھائی تھی حالانکہ روایات میں آیا ہے کہ سکندر کا رنگ خاصا گورا تھا۔ اس کے چہرے اور سینے پر ایک مخصوص فاخرانہ بے نیازی جھلکتی تھی۔ ارسٹوکسینس کے بیان کے مطابق سکندر کی جلد بہت خوبصورت تھی اور اس سے خوشبو آتی تھی۔ اس کی سانس بلکہ پورے جسم سے خوشبو آتی تھی اور اس کا اثر اْن کپڑوں پر بھی رہتا تھا جنہیں وہ پہنتا تھا۔ سکندر کم عمر ہی تھا کہ اس میں اپنے نفس پر قابو پانے کا مادہ ظاہر ہو گیا۔ وہ بہت تندمزاج تھا لیکن جسمانی تعیش سے اسے چنداں لگاؤ نہ تھا۔ اگر کبھی اسے اس قسم کی چیزوں میں حصہ لینا بھی پڑتا تو وہ ضبط کا مظاہرہ کرتا۔ البتہ اس میں شہرت کی خواہش بدرجہ اتم موجود تھی اور اِس نے اْس میں ایک ایسا فخر اور اس کے انداز میں ایسا جاہ و جلال پیدا کر دیا تھا جو اس کی عمر سے کہیں بڑھ کر تھا۔ اس کے باوجود اس میں کبھی یہ خواہش پیدا نہ ہوئی کہ وہ اس شہرت و عظمت کے حصول کے لیے کوئی گھٹیا راستہ اختیار کرے۔ فیلقوس اپنی فصاحت کے چرچے کرتا تھا اور جب اْسے اولمپک کھیلوں میں رَتھ کی دوڑ میں جیت ہوتی تو وہ اس کے اعزاز میں نئے سکے جاری کرتا۔ لیکن سکندر کے رویے کی وضاحت صرف چند مکالموں سے ہو جاتی ہے جو ایک دفعہ اس کے اور اس کے دوستوں کے درمیان ہوئے۔ اس کے دوستوں نے پوچھا: ’’تم اولمپک دوڑوں میں حصہ لینا چاہو گے کیونکہ تم تیز دوڑتے ہو؟‘‘ ’’ہاں !‘‘ سکندر نے جواب دیا۔ ’’اگر میرے مقابلے پر کوئی بادشاہ ہو !‘‘ بہرحال بعد میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد اگرچہ اس نے کئی قسم کے مقابلے منعقد کیے جن میں المیہ ڈرامے، شاعری، سونٹے بازی اور مختلف قسم کے شکار شامل تھے لیکن کبھی کْشتی یا مْکا بازی کے لیے انعامات نہ دئیے۔ ایک دفعہ فارس سے ایک سفارت کار مقدونیہ آئے۔ فیلقوس ان دنوں باہر گیا ہوا تھا لہٰذا اس کی جگہ سکندر نے سفیروں کا استقبال کیا اور ان کے دل جیت لیے کیونکہ نہ صرف یہ کہ اس نے اْن سے انتہائی دوستانہ سلوک روا رکھا اور بے تکلفی سے پیش آیا بلکہ انہیں بچگانہ سوالوں سے پریشان بھی نہ کیا اور نہ ہی تکلف کے طور پر فضول باتیں کیں۔ اس کی بجائے سکندر نے ان سے سنجیدہ اور اہم سوالات کیے مثلاً یہ کہ فارس اور مقدونیہ کے درمیان سڑک پر کتنا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے؟ فارس کے حالات اور تہذیب؟ بادشاہ کا کردار؟ اس کی جنگی صلاحیتیں اور تجربہ؟ اس کی عسکری قوت؟ لوگوں کی انفرادی جنگی صلاحیتیں ؟ وغیرہ، وغیرہ۔ جب یہ سفیرواپس اپنے دیس لوٹے تو سکندر کے مداح ہو چکے تھے اور جان چکے تھے کہ فیلقوس کا تدبر جس کی اتنی شہرت ہے بیٹے کی جوانمرد ی اور امنگوں کے مقابلے میں کچھ نہیں۔ جب کبھی سکندر کو یہ خبر ملتی کہ ا س کے باپ نے کوئی مشہور شہر فتح کیا ہے یا کسی کٹھن محاذ پر شاندار کامیابی حاصل کی ہے تو وہ کسی خوشی کا اظہار نہ کرتا بلکہ اپنے ساتھیوں سے کہتا: ’’میرے والد صاحب ہر کارنامہ جس کی مجھے آرزو ہے مجھ سے پہلے انجام دے لیں گے اور پھر میرے اور تمہارے لیے عظمت کا کوئی شاہکار نہیں رہ جائے گا کہ دنیا کو دکھایا جائے!‘‘ اسے دولت و عشرت کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ اسے صرف عظمت اور شجاعت کے کارنامے سرانجام دینے کی خواہش تھی۔ اسی لیے اس کا خیال تھا کہ جتنا زیادہ ورثہ ملے گا اتنا ہی کم کام خود اس کے کرنے کے لیے رہ جائے گا۔ لہٰذا جب بھی فیلقوس کوئی کارنامہ انجام دیتا یا اسے کوئی شاندار فتح حاصل ہوتی تو سکندر کو یہ افسوس ہوتا کہ عظیم کام کرنے کا ایک اور موقعہ اس کے لیے کم ہو گیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا باپ شاندار سلطنت اور خزانے اس کی جھولی میں ڈال دے۔ وہ تو ایک ایسی زندگی چاہتا تھا جس میں جدوجہد ہو، خطرات ہوں اور خطروں میں کودنے کی آرزو اور امنگ ہو۔ سکندر کی تربیت کے لیے کئی عورتیں اور مرد مقرر کیے گئے۔ ان سب کا سردار لیونی دس نامی ایک شخص تھا۔ یہ نظم و ضبط وغیرہ کے معاملے میں بہت سخت تھا اور سکندر کی ماں کا رشتہ دار بھی تھا۔ لائیکی میکس جو جاہل اور اجڈ تھا ان غلاموں میں سے ایک تھا جن کے ذمے یہ کام تھا کہ صبح کی دوڑ کے وقت اور اس قسم کے دوسرے تربیتی مواقع پر سکندر کے ساتھ رہیں اور اس کا خیال رکھیں۔ یہ شخص سکندر کو ایکیلیز کہتا تھا۔ایک دن ایسا ہوا کہ تھسلی سے گھوڑوں کا ایک سوداگر مقدونیہ آیا۔ اس کا نام بھی فیلقوس تھا اور وہ بادشاہ کے لیے ایک گھوڑا لایا تھا۔ بیوسیفالس نامی اس گھوڑے کی قیمت اس نے تیرہ ٹیلنٹ بتائی۔ فیلقوس اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک میدان میں پہنچا تاکہ گھوڑے کی آزمائش دیکھ سکے۔ آزمائش دیکھ کر وہ سب اس فیصلے پر پہنچے کہ گھوڑا بالکل وحشی ہے کیونکہ کوئی بھی اس پر سوار نہ ہو سکا تھا اور وہ کسی کو اپنے قریب نہ پھٹکنے دیتا تھا۔ بادشاہ کو سخت غصہ آیا کہ ایسا گھوڑا اس کے سامنے کیوں پیش کیا گیا۔ اس کے حکم پر گھوڑے کو لے جایا ہی جانے والا تھا کہ قریب کھڑے سکندر نے کہا:’’ایک شاندار گھوڑے سے محض اس لیے ہاتھ دھوئے جا رہے ہیں کہ کوئی اسے سدھانا نہیں جانتا یا ایسا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔‘‘ فیلقوس خاموش رہا لیکن جب سکندر نے کئی بار یہ الفاظ دہرائے تو وہ بول اٹھا۔ ’’کیا تم اپنے سے زیادہ جہاندیدہ لوگوں کو اس لیے بیوقوف سمجھ رہے ہو کہ تمہارا خیال ہے تم ان سے زیادہ جانتے ہویا گھوڑے کو رام کرنے میں ان سے زیادہ مہارت رکھتے ہو؟‘‘ ’’کم از کم اس گھوڑے کو قابو میں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں ،‘‘ سکندر نے جواب دیا۔ ’’اور اگر تم ایسا نہ کر سکے؟‘‘ فیلقوس نے پوچھا۔ ’’تو میں اس گھوڑے کی قیمت ادا کر دوں گا!‘‘ یہ سن کر حاضرین ہنس پڑے مگر باپ اور بیٹے میں شرط لگ گئی۔ سکندر گھوڑے کی طرف بڑھا، اس کی لگام ہاتھ میں لی اور اس کا منہ سورج کی طرف کر دیا۔ سکندر نے یہ بات محسوس کی تھی کہ گھوڑا دراصل اپنے سائے سے ڈر رہا تھا۔ کچھ دیر وہ گھوڑے کے ساتھ دوڑتا رہا اور اس پر ہاتھ پھیر کر اسے رام کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر اس نے اپنی چادر کندھوں سے پھینکتے ہوئے ایک ہلکی سی جست لگائی اور گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ کچھ دیر تک اس نے گھوڑے کی لگام ڈھیلی چھوڑے رکھی تاکہ گھوڑا کسی قسم کی تکلیف محسوس نہ کرے اور جب اس نے دیکھا کہ گھوڑا خوف سے آزاد ہو چکا ہے اور اپنی تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے کو بیتاب ہے تو اس نے اسے تیز دوڑانا شروع کر دیا۔ فیلقوس اور اس کے رفیق یہ تماشا دم سادھے دیکھ رہے تھے۔ وہ منتظر تھے کہ اب کیا ہوتا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ سکندر دوڑ کی حد عبور کر چکا ہے۔ اس نے سرکش گھوڑے کو واپس موڑا جو اب پوری طرح اس کے قابو میں تھا۔ سب لوگوں نے آفرین کے نعرے لگائے اور، کہتے ہیں ، فیلقوس کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آ گئے۔ سکندر نیچے اترا تو فیلقوس نے اسے گلے سے لگا لیا، چوما اور کہا۔ ’’میرے بیٹے!تمہیں اپنی امنگوں کی تکمیل کے لیے ایک بہت بڑی سلطنت چاہئے۔ مقدونیہ تمہارے لیے بہت چھوٹا ہے!‘‘(پلوٹارک کی معروف تصنیف Parallel Lives سے اقتباس)