’’خدا کی بستی‘‘ کا نوشہ آج بھی زندہ ہے جوانمرگ ظفر مسعود نے فن اداکاری کو نئے معانی سے روشناس کیا
اسپیشل فیچر
پاکستانی فلمی صنعت اور ٹی وی کی کچھ نامور شخصیات ایسی بھی تھیں جو جوانی میں ہی عالمِ جاوداں کو سدھارگئیں۔ اگر فلمی صنعت کا تذکرہ کیا جائے تو ہمیں ظریف، منور ظریف ، اسماعیل شاہ اور کچھ اور فنکار ملتے ہیں جو آندھی کی طرح آئے اور طوفان کی طرح چلے گئے۔ اسی طرح ٹی وی کے کچھ فنکار بھی ایسے تھے جنہوں نے بہت کم مدت میں اپنے فن کا سکہ جمایا لیکن جب وہ عروج کی منزلیں طے کر رہے تھے تو فرشتۂ اجل نے آلیا۔ ان میں ایک نام تھا ظفرمسعود اور دوسری فنکارہ کا نام تھا طاہرہ نقوی۔ظفر مسعود کی اصل پہچان مشہور ڈرامہ سیریل ’’خدا کی بستی‘‘ سے ہوئی۔ ’’خدا کی بستی‘‘ شوکت صدیقی کا معرکۃ آلارا ناول ہے اوربلاشبہ اس کا شمار اردو کے عظیم ترین ناولوں میں ہوتا ہے۔ ظفرمسعود نے اس ڈرامے میں نوشہ کا کردار ادا کیا تھا۔ اس ناول میں سرمایہ دارانہ نظام کو ہدف تنقید بنایا گیا تھا اور ناظرین کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ سرمایہ داری اپنے ساتھ جو اخلاقی نظام لے کر آئی وہ سوائے تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ نظام لوگوں کوریاکاری، ہوس زر، دھوکہ دہی اور بے حسی کا پیغام دیتا ہے۔ اس ڈرامے میں ایک لالچی شخص ایک بیوہ عورت سے شادی کرلیتا ہے اور پھر اس کا بیمہ کراتا ہے۔ یہ شخص دولت کی ہوس میں بری طرح مبتلا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ وہ اپنی بیوی کو سلوپوائزننگ کے ذریعے موت کی وادی میں اتار دے تاکہ بیمے کی خطیر رقم حاصل کرسکے۔ ظفر مسعود نے اس میں اس بیوہ عورت کے بیٹے کا کردارادا کیا تھا جو اپنے سوتیلے باپ کے مکروہ عزائم سے بخوبی آشنا ہے۔ نوشہ کا کردار ایک مشکل کردار تھا لیکن ظفر مسعود نے اس کردار کو بڑی مہارت سے ادا کیا تھا۔ وہ ایک ایسا اداکار تھا جس کے چہرے پر ذہانت رقص کرتی تھی۔ ویسے تو ذہین طاہرہ، ظہور احمد اور قاضی واجد نے بھی شاندار اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا لیکن ظفر مسعود کی خیرہ کن صلاحیتوں نے لاکھوں ناظرین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ ظفر مسعود کی فطری اداکاری نے ہر کسی کو اپنا گرویدہ بنالیا۔’’خدا کی بستی‘‘ کے بارے میں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ یہ ڈرامہ سیریل 60ء کی دہائی کے آخر میںپیش کی گئی تھی۔ اس کے بعد یہ سیریل ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں دوبارہ بنائی گئی۔ اس دفعہ نوشہ کا کردار بہروزسبزواری نے ادا کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب کو یہ ڈرامہ سیریل بہت پسند تھی۔ظفر مسعود نے ’’خدا کی بستی‘‘ کے بعد جن اور سیریلز میں کام کیا انہیں بھی کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔اس ڈرامہ سیریلز میں ’’زیرزبر پیش‘‘ ، انکل عرفی، بندش، آبگینے، کرن کہانی اور آپے رانجھا ہوئی‘‘ شامل ہیں۔ ان سب میں ظفر مسعود کا فن اوج کمال کو پہنچ گیا تھا۔ اگرچہ ’’زیرزبرپیش‘‘ میں جمشید انصاری جیسے فنکار بھی تھے لیکن ظفر مسعود نے اپنی الگ شناخت برقرار رکھی۔ اسی طرح ’’انکل عرفی‘‘ میں شکیل نے مرکزی کردار ادا کیا تھا لیکن ظفر مسعود نے اس سیریل میں بھی اپنی فطری اور بے ساختہ اداکاری سے ناظرین کے دل موہ لئے تھے۔ انہوں نے ٹی وی کی صف اول کی اداکارائوں کے ساتھ کام کیا جن میں روحی بانو جیسی فنکارہ بھی شامل تھیں۔ اسے ظفر مسعود کی خوش بختی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ٹی وی کے بہترین ڈرامہ پروڈیوسرز کے ساتھ کام کیا جن میں عشرت انصاری، یاور حیات، راشد ڈار اور کنور آفتاب احمد جیسے لوگ شامل ہیں۔ ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ میں اشفاق احمد نے یادگار ڈرامے تحریر کیے۔ ان ڈراموں کی وجہ سے بہت سے نئے فنکار بعد میں منجھے ہوئے اداکار بن گئے۔ ظفر مسعود کوبھی اشفاق احمد کے کچھ ڈراموں میں کام کرنے کا موقع ملا اورانہوں نے ہر ڈرامے میں اپنے کردار سے پوری طرح انصاف کیا۔ ان ڈراموں میں بھی ان کی اداکاری کو بہت سراہا گیا۔ظفر مسعود کی ایک اور یادگار سیریل ’’آپے رانجھا ہوئی‘‘ ہے جسے 1975ء میں پیش کیا گیا‘ اسے سرکاری ٹی وی کی بہترین پنجابی سیریل کہا جاسکتا ہے۔ دراصل یہ ڈرامہ سیریل مشہور روسی ادیب دوستووسکی کے شہرئہ آفاق ناول ’’ذلتوں کے مارے لوگ‘‘(Insulted and Humiliated) سے ماخوذ تھا۔ اس ڈرامے میں ظفر مسعود نے ایک بیمار ادیب کا کردار ادا کیا تھا اور انہوں نے اتنی شاندار اداکاری کی کہ بڑے بڑے فنکاروں نے دانتوں تلے انگلیاں دبالی تھیں۔ کسی کو یہ توقع نہیں تھی کہ ظفر مسعود اتنی فطری اداکاری کا مظاہرہ کریں گے۔ یہ ڈرامہ سیریل بلیک اینڈ وائٹ تھی کیونکہ ابھی رنگین ٹی وی کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ اس کے باوجود اس ڈرامہ سیریل کی یادیں اب تک ناظرین کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ ظفر مسعود کے علاوہ دوسرے اداکاروں نے بھی متاثر کن اداکاری کی جن میں عاصم بخاری اور ممتاز علی کے نام لئے جاسکتے ہیں ۔ یہاں ممتاز علی کے بارے میں ہم اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ یہ ٹی وی کے بانی اداکار قمر چودھری کے بھائی تھے۔ یہ قمر چودھری کون تھے؟ ان کے بارے میں ہم یہ بتاتے چلیں کہ سرکاری ٹی وی سے نشر ہونے والے پہلے پنجابی ڈرامے ’’ٹاہلی تھلے‘‘ میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ’’ٹاہلی تھلے‘‘ میں قمر چودھری نے پُھتو کا کردار ادا کیا تھا جوایک طویل عرصے تک ناظرین کے ذہنوں پر نقش رہا۔’’آپے رانجھا ہوئی‘‘ میں ظفر مسعوداور ممتاز علی کے باہمی مکالمے بھی انتہائی اثرانگیز تھے۔ ممتاز علی کا تکیہ کلام بہت مشہور ہوا تھا۔ جب بھی انہیں چائے لانے کیلئے کہا جاتا تھا تو وہ اپنے مخصوص انداز سے یہ بولتے ہوئے کمرے سے باہر نکل جاتے ’’تک شیدا پیا جاندا ای‘‘ ۔بہرحال یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ’’آپے رانجھا ہوئی‘‘ نہ صرف سرکاری ٹی وی کے عدیم النظیر ڈرامہ سیریلز میں سے ایک ہے بلکہ یہ سیریل ظفر مسعود کے فن کا نچوڑ ہے۔ مجبوریوں، لاچاریوں اورافلاس کی مکروہ شکل اس ڈرامہ سیریل میں دکھائی گئی تھی۔ اس ڈرامہ سیریل میں ان لوگوں کو دکھایا گیا تھا جن کے لئے زندگی گزارنا ایک چیلنج تھا اور وہ ہر قدم پر اپنی لاچاریوں کا خون پیتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن انہوں نے امید کے چراغ روشن رکھے اور امکانات کے دروازے بند نہیں کیے۔ رسواکن زندگی گزارنے کے باوجود وہ رجائیت پسند ہیں اور زندگی سے جنگ کرنے پر ہرپل آمادہ نظر آتے ہیں۔ظفرمسعود نے ٹی وی ڈراموں کے علاوہ پانچ فلموں میں بھی کام کیا۔ ان میں تین اردو اور دو پنجابی فلمیں تھیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ظفر مسعود کو فلموں میں کام کرنا راس نہیں آیا۔ ظفرمسعود بعد میں مصر چلے گئے اور قاہرہ کی ایک شپنگ کمپنی میں ملازم ہوگئے۔ 24مئی 1981ء کو قاہرہ میں ہی ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہو کر ظفرمسعود خالق حقیقی سے جا ملے۔ کچھ لوگوںکا یہ کہنا ہے کہ وہ جس حادثے کا شکار ہوئے تھے وہ 1981ء سے پہلے ہوا تھا۔ اس سلسلے میں بہرحال کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی لیکن یہ بات طے ہے کہ ’’خدا کی بستی‘‘ کا نوشہ عین جوانی میں ہی اس جہان فانی سے رخصت ہوگیا۔٭…٭…٭