تصوف اور سائنس
اسپیشل فیچر
کائنات کی پیدائش کے سبھی نظریے عقلی ہیں اور انہیں سمجھنے کے لئے دلیل اور منطق کی ضرورت ہے جبکہ تصوف کے حوالے سے کائنات کو سمجھنے کے لئے دل اور جذبے کی ریاضت چاہئے۔ صوفی حقیقت کی تہہ کو پہنچ جانے کووصال سمجھتا ہے اور سائنسدان اسے جان لینا کہتا ہے۔ وصال اور جان لینے میں کیا فرق ہے۔ وصال کے بعد جان لینے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے، راستوں میں فرق منزل کو الگ الگ تو نہیں کر سکتا۔ میں سائنسدان نہیں، باقاعدہ معنوں میں صوفی بھی نہیں لیکن جاننے کی طلب ضرور ہے۔ آدمی کیا ہے، کیا صرف اپنے ڈی این اے کا عمل ہے۔ سی ڈی پلیئر میں سی ڈی لگا دی جائے تو سکرین پر جو کچھ ہوتا ہے وہ سی ڈی کے عین مطابق ہوتا ہے، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سی ڈی میں کچھ اور ہو اور سکرین پر کچھ اور دکھائی دے۔ تو کیا ڈی این اے بھی ہماری ریکارڈ ڈ کاپی ہے۔ اس میں تقدیر ہے تو تدبیر کہاں ہے۔ اگر ہر لمحہ، ڈی این اے کا اسیر ہے تو خودی کے کیا معنی ہیں۔ حرکت و عمل کہاں کہاں اپنا وجود رکھتے ہیں۔ کیا آدمی کی تخلیق پہلے ہوتی ہے اور ڈی این اے بعد میں بنتا ہے یا ڈی این اے پہلے تیار ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں آدمی وجود میں آتا ہے۔ یہ ڈی این اے کی فیکٹری کہاں ہے اور کون اس کے ڈیزائن بناتا ہے۔ تصوف کی راہیں بھی مختلف اصطلاحوں کے ساتھ یہی جاننے کی طرف جاتی ہیں۔ یہی وہ غیر معمولی کیفیت ہے جو اس دنیا میں ایک اور مستور دنیا کی نشاندہی کرتی ہے۔ پرانا داستان گو کہتا تھا اس جہان کے اندر ایک اور جہان پوشیدہ ہے اور میں اپنی داستان کے ذریعے اسی جہانِ دگر کی سیر کراتا ہوں۔ مجھے بچپن سے اس جہانِ دگرنے اسیر کیا ہوا ہے لیکن میں صوفی نہیں، شاید بن بھی نہ پاتا کہ میر ی ترتیب میں اگرچہ پراسراریت اور کسی حد تک مذہبی رویے شامل تھے لیکن یہ رویے کسی نظریے کے تحت نہیں تھے۔ امی کے ساتھ مزاروں پر جانے کی وجہ سے میرے اندر اسرار پیدا ہوئے، پھر کچھ مجتبائی قسم کے مراقبوں اور مشقوں نے مجھے ایسے اسراروں سے قریب کر دیا۔ کبھی کبھی مجھے اپنے علاوہ کسی دوسری ہستی کا احساس ہوتا جو کبھی کبھی واضح اور کبھی کبھی غیر مرئی طور پر میرے ساتھ ساتھ رہتی۔ پرانے گھر میں بڑے ہال میں سنگ مرمر کے گنبد میں سعدیہ کو سلانے کی کوشش کرتے ہوئے میں اونگھ جاتا تو لگتا کوئی اور بھی میرے ساتھ بیٹھا ہے۔ اسراریت کے حوالے سے کئی لوگوں سے بات ہوئی لیکن کامل استاد نہیں ملا۔ سلسلہ شہابیہ کے لوگ کرامتی اور کرشماتی باتوں کو تصوف کہتے تھے۔ ممتاز مفتی غیر عقلی قصے سناتے، بابوں کا ذکر کرتے لیکن تصوف کے نظری پہلوئوں پر کبھی بات نہ کرتے۔ میں نے کئی بار کریدا لیکن وہ اس معاملے میں کورے تھے۔ ان کا تصوف او روحانیت غیر عقلی اور غیر منطقی قصے کہانیوں تک محدود تھی۔ شہاب صاحب سے بھی کئی بار کوشش کی کہ اس موضوع پر بات ہو مگر وہ لب نہ کھولتے، یا تو مجھے اس قابل ہی نہیں سمجھتے تھے یا پھر وہ بھی مفتی صاحب کی طرح روحانیت کی گہرائیوں سے نا آشنا تھے۔ یہی حال اشفاق احمد کا بھی تھا کہ وہ بابوں کا ذکر کر کے ان کی دانائی کی باتیں کر کے، ایک اسرار تو پیدا کر دیتے تھے لیکن اس کے فکری پہلوئوں پر کبھی بات نہیں کرتے تھے۔غیر مرئی کا تجربہ اور مشاہدہ جہانِ دگر میں تو ہوتا ہے لیکن موجود میں اس طرح کے مواقع کبھی کبھار ہی آتے ہیں۔ ممکن ہے بہت سی غیر مرئی اشیاء یا وجود ہمارے آس پاس ہوں لیکن چونکہ ان کا مشاہدہ حواسِ حمسہ سے نہیں ہو سکتا اس لئے وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ مگر بعض واقعات ایسے ضرور ہیں جن کی عقلی توجیح نہیں کی جا سکتی۔ڈاکٹر طیب منیر نے ایک واقعہ سنایا کہ ان کے بچپن میں ایک شام ایک شخص ان کے والد کے پاس آیا اور کہا کہ میں اس گائوں میں رہنا چاہتا ہوں آپ کا مہمان بن کر۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ رہیں۔ یہ شخص حکیم تھا اور اس کے ہاتھ میں ایسی شفا تھی کہ دور دور سے لوگ آنے لگے۔ ہم لوگ گائوں سے پڑھنے کے لئے روز پتوکی جاتے تھے۔ حکیم صاحب ہر ہفتے ہمیں دس دس کے دو نئے نوٹ دیتے کہ پنسار خانے سے یہ یہ بوٹیاں لیتے آئیں۔ وہ کسی شخص سے علاج کا کوئی پیسہ نہیں لیتے تھے۔ ہمیں بڑا تجسس تھا کہ حکیم صاحب کا ذریعہ آمدنی بھی کوئی نہیں تو پھر یہ نئے نوٹ کہاں سے آتے ہیں؟ ہمارے ایک تایا نے اصرار کر کے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ تہجد کے بعد میں وظیفہ کرتا ہوں اور جائے نماز کے نیچے مجھے دو نوٹ مل جاتے ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ یہ اسی دن راہ ِ خدا میں خرچ کر دئیے جائیں۔ دوسرے دن وہ ایسے غائب ہوئے کہیں سراغ نہ ملا۔اب اس واقعہ کی کوئی عقلی توجیح پیش نہیں کی جا سکتی۔ میرے ساتھ بھی اس طرح کے کئی واقعات پیش آئے ہیں، تو معلوم ہوا کہ عقلی دنیا کے اندر بھی کچھ غیر عقلی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔(رشید امجد کی کتاب ’’عاشقی صبر طلب‘‘ سے اقتباس)