’’میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں‘‘ پٹھانے خان
اسپیشل فیچر
پٹھانے خان 1920ء میں بستی تمبوں والی میں پیدا ہوئے ،جو کوٹ ادو سے چند میل دور صحرا میں واقع ہے۔ پٹھانے خان کا اصل نام غلام محمد تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب وہ صرف 5 سال کا تھا، اس کا باپ اپنی تیسری بیوی گھر لے آیا۔ پٹھانے خان کی ماںکو یہ برداشت نہ ہوا، اس نے گھر چھوڑ دیا اور کوٹ ادو اپنے باپ کے گھر میں آ کر رہنے لگی۔ بچپن میں پٹھانے خان ایک بار شدید بیمار ہوا، تو اس کی ماں اسے کسی بزرگ کے پاس لے گئی۔ اس بزرگ نے کہا کہ یہ نام اس بچے کے لئے بھاری ہے اس کا نام بدلا جائے۔ کسی نے کہا یہ پٹھان کی طرح دکھتا ہے، پٹھان کا لفظ اس خطے میں پیار اور خوبصورتی کیلئے بولا جاتا ہے، اس طرح اس کی زندگی بچانے کے لئے اس کی ماں نے بچے کا نام پٹھانے خان رکھ دیا۔ پٹھانے خان اپنی ماں کے بہت قریب تھا۔ اسی لاڈ پیار میں اس کی تربیت ہوئی۔ پٹھانے خان اب اپنے نانا کے گھر میں تھا۔ یہ ہندو اکثریتی آبادی کا علاقہ تھا اور مسلمان گھر چند ہی تھے، مگر سب مل جل کر رہتے تھے۔ مذہبی منافرت کا نام و نشان نہ تھا۔ نانا کے گھر کے معاشی حالات بھی زیادہ بہتر نہ تھے۔ شاید باپ سے دوری کا سبب تھا کہ اسے اپنے باپ دادا کے پیشے سے نفرت ہو گئی۔ اس کی والدہ نے اپنے بھائیوں پر بوجھ بننے کی بجائے گھر میں تندور لگا لیا اور پٹھانے خان جنگل سے لکڑیاں چن کر لاتا۔ اس کی ماں ان لکڑیوں سے تندور جلاتی اور محلے بھر کی روٹیاں پکا کر اپنا اور بچوں کا پیٹ پالتی۔ اس نے کوٹ ادو کے پرائمری سکول میں داخلہ لیا اور پھر لیہ کے ہائی سکول میں ساتویں درجے تک ہی پڑھا تھا کہ اس کی طبیعت میں آوارگی در آئی اور وہ اکثر سکول سے دور ویرانے میں نکل جاتا اور وہاں بیٹھ کر خواجہ فرید کے ہمعصر شاعر خیر شاہ کے عوامی زبان میں کہے ہوئے دوہڑے اور خواجہ فرید کی کافیاں گانا شروع کر دیتا، جو اس کا حوالہ بنیں۔ سکول میں وہ اسمبلی میں دعا پڑھتا اور کلاس روم میں ترنم کے ساتھ نعت پڑھتا۔ ہندو دوستوں کے ساتھ مل کر بجھن گاتا۔ جلد ہی سکول بھر کے طالب علم اور استاد اس کی آواز کے شیدائی ہو گئے۔ میوزک سیکھنے کے حوالے سے اسے گھر میں کافی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی پڑھائی چھوٹ گئی، مگر گائیکی سے رشتہ نہ ٹوٹا۔ اس نے کھلی فضاؤں میں بیٹھ کر دوہڑے گائے، صحرا میں دور تک کوئی سامع نہ ہوتا تھا مگر وہ گاتا رہا۔ آغاز میں اس نے ایک پنڈت سے موسیقی سیکھی۔ اس کے دوستوں میں زیادہ تر ہندو اور سکھ تھے۔ وہ ہندو تقاریب اور دیوالی میں بھرپور شرکت کرتا اور اکثر اس نے رام اور سیتا کے ڈرامے میں رام کا کردار بھی ادا کیا۔ تقسیم کے وقت اس کے بہت سے ہندو دوست واپس چلے گئے، جن کو یاد کر کے وہ ہمیشہ بہت دکھی ہو جاتا تھا۔ پٹھانے خان کی زندگی بہت مشکل حالات میں گزری۔ اس کے پہلے استاد بابا امیر خان تھے۔ اس نے جنگل سے لکڑیاں چن چن کر گاؤں والوں کے لئے کھانا پکا کر زندگی کا سامان کیا۔ پٹھانے خان جب بھی ان دنوں کو یاد کرتا اس کی آنکھیں بھر جاتیں وہ کہتا کہ یہ میرا خدا پر یقین، موسیقی اور خواجہ فرید کی محبت تھی ،جس نے مجھے برداشت کرنا سکھایا۔ ماں کی وفات کے بعد پٹھانے خان نے گائیکی کو پیشے کے طور پر اپنایا اور پھر ساری عمر کوئی اور کام نہیں کیا۔ وہ گھنٹوں گاتا رہتا اور اس کے چاہنے والے جھومتے رہتے۔ انہیں فن گائیکی کے ایک نابینا استاد نذر حسین سے سیکھنے کا موقع ملا، جو موسیقی کے حلقوں میں ’’حافظ‘‘ کے نام سے معروف تھے۔ استاد نذر حسین لیہ کے بازار حسن کی مشہور رقاصاؤں کو گائیکی سکھایا کرتے تھے۔ موسیقی سیکھنے کے جنون میں پٹھانے خان بھی بازار حسن جا پہنچتے۔ استاد نذر حسین نے انہیں اپنی شاگردی میں لینے سے انکار کر دیا تو وہ ان کا قرب حاصل کرنے کے لئے امیر بائی نامی رقاصہ کے بالا خانے میں ہارمونیم بجانے لگ گیا۔ پٹھانے خان نے استاد کی بے پناہ خدمت کی ،جس کے نتیجے میں استاد نے ان پر شفقت کی اور موسیقی کے اسرار و رموز سکھائے۔ پٹھانے خان نے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک تھیٹریکل کمپنی بھی بنائی ،جس میں مقامی فنکار شامل تھے۔ وہ لیہ کے مقامی میلوں پر ’’خونی ہمشیر‘‘ کے نام سے ایک ڈراما سٹیج کرتے تھے۔ اس ڈرامے کے علاوہ بھی پٹھانے خان نے کئی تھیٹروں میں اداکاری اور گلوکاری کا مظاہرہ کیا۔ وہ اپنا دکھڑا سنانے صوفیوں کے حجرے میں چلے جاتے۔ کوٹ ادواور اس کے مضافات میں خانقاہوںکے ماحول اور فقرا کی ہم نشینی نے انہیں مکمل درویش بنا دیا۔ پٹھانے خان ،اﷲ کی وحدانیت میں کسی بھی قسم کے شرک یا دوئی کے تصور کے خلاف تھے اور اسی کا پرچار کرتے رہے۔ پٹھانے خان نے عمر بھر کچی زمین اور فرش پر سونے کو ترجیح دی۔ انہوں نے مخملی بستروں کو ٹھکرایا اور کبھی اعلیٰ ہوٹلوں میں ٹھہرے تو بھی فرش پر ہی سوئے۔ وہ گھر میں سادہ لباس پہنتے جو ایک دھوتی، کرتہ اور کھسے پر مشتمل ہوتا۔ انہیں کہیں جانا ہوتا تو شلوار پہن لیتے۔ انہیں پرندوں اور جانوروں سے بہت زیادہ محبت تھی۔ پٹھانے خان نے گائیکی کو عبادت کا درجہ دیا۔ ریڈیو پاکستان ملتان کے سٹیشن ڈائریکٹر آصف خان کھیتران کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ میں نے آج تک خواجہ غلام فرید کی کافی بغیر وضو کے نہیں پڑھی۔ جب بھی خواجہ غلام فرید کا نام ان کے سامنے لیا جاتا وہ سر کو جھکا لیتے۔ انہیں خواجہ غلام فرید کا تمام دیوان حفظ تھا۔ پٹھانے خان کافی کی طرف دوہڑے کے راستے آئے اور پھر کافی کے ہو رہے۔ اپنے عروج کے دور میں وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’اے کافی میکوں کافی ہے‘‘ وہ کافی کو ایک مکمل راگ کی صورت میں گاتے تھے۔ 1979ء میں پٹھانے خان کو پرائیڈ آف پرفارمنس دیا گیا۔ پٹھانے خان 9 مارچ 2000ء کو وفات پا گئے اور اپنے آبائی قصبے میں آسودۂ خاک ہیں۔’’جندڑی لُٹی تے یار سجنکدی موڑ موہاراں تے ول آ وطن‘‘جب بھی خواجہ فرید کے روضے میں بارش ہو گی، پھول کھلیں گے، پٹھانے خان کی آواز وہاں کے باسیوں کے دلوں سے ابھرے گی۔ پٹھانے خاں روہی کا ایسا پھول ہے ،جو ہمیشہ مسکراتا رہے گا۔٭…٭…٭