حسن ابدال جغرافیائی، تاریخی اور ثقافتی اہمیت
اسپیشل فیچر
ضلع اٹک کا مشہور تاریخی قصبہ راولپنڈی سے پشاور جانے والی شاہراہ پاکستان پر42کلومیٹر جبکہ اٹک سے 32کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں سے شاہراہ ہزارہ ایبٹ آباد سے ہوتی ہوئی کشمیر جاتی ہے۔ یہ ایک انتہائی قدیم قصبہ ہے۔ حسن ابدال سے مارگلہ تک مختلف ادوار میں کئی انسانی تہذیبوں نے فروغ پایا اور ہر اگلی تہذیب پچھلی کو مٹا کر اس کی جگہ لیتی رہی۔ ان میں سے کئی کے نام و نشان مٹ چکے ہیں۔ اب تک ٹیکسلا کے تین برباد شہروں میں سات ( یونانی، موریہ، یونانی، باختری، شاکا، پہلوی اور کشان اور سرائے کھولا) میں چار مدفون تہذیبوں کے آثار دریافت ہوئے ہیں۔ ٹیکسلا حسن ابدال سے صرف اٹھارہ کلومیٹر کے فاصلے پر موجودہے۔حسن ابدال کا موجودہ نام ایک ولی اللہ حضرت حسن ابدال کے نام پر ہے۔ آپ کو قندھار میں باباولی اور اس علاقے میں ولی قندھاری کہتے ہیں۔ آپ سبزوار میں پیدا ہوئے، جہاں سے آپ کا ذوقِ سفر آپ کو حجاز لے گیا۔ حرمین شریفین اور ارضِ مقدس کی زیارت سے مشرف ہوئے اور چند سال وہاں رہنے کے بعد وطن واپس آگئے۔ ایک روایت کے مطابق آپ امیر تیمور کے بیٹے، شاہ رخ کے مُرشد تھے اورتیمور کے لائو لشکر ہی کے ساتھ برصغیر پاک و ہند آئے تھے۔ آپ کئی سال یہاں مقیم رہے، پھر افغانستان منتقل ہو گئے اور لنگرقندھار نامی ایک سرسبز و شاداب جگہ پر قیام کیا۔ وہاں ایک پہاڑی چوٹی پر بیٹھک بنائی۔ پاکستان میں اپنے قیام کے دوران یوں توولی قندھاری کئی جگہوں پر گئے، مگر آپ کا زیادہ تر قیام اس مقام پر رہا، جس کا نام آپ کے نام پر بابا حسن ابدال پڑ گیا۔ آہستہ آہستہ اس میں سے بابا کا لفظ حذف ہو گیا اور یہ قصبہ حسن ابدال کہلانے لگا۔ یہاں ولی قندھاری اپنا زیادہ وقت گزاراکرتے تھے۔ یہاں سِکھوں کا مشہور گوردوارہ پنجہ صاحب بھی ہے۔ اس گوردوارے میں جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے جرنیل ہری سنگھ نلوانے بنوایا تھا ۔حسن ابدال کے بعض چشموں کا پانی ندیوں کی شکل میں داخل ہوتا ہے اور پھر عمارتوں کے نیچے بہتا ہوا ندیوں ہی کی شکل میں باہر نکل جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ اس گوردوارے کی بعض عمارتیں بوسیدہ ہوگئیں چنانچہ وقتاً فوقتاً ان کی جگہ نئی عمارتیں تعمیر ہوتی رہیں۔ یہاں ایک چٹان پر باباگورونانک کے پنجے کے نشان ثبت ہیں۔ سکھوں کا عقیدہ ہے کہ یہ چٹان بابا ولی قندھاری نے پہاڑی کے اوپر سے لڑھکادی تھی اور نیچے بابا گورونانک نے اسے اپنے پنجے پر روک لیا تھا۔ چٹان پر باباگورونانک کے پنجے کا نشان بن گیا ،جو آج تک موجود ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بابا گرونانک یہاں پہاڑی پر آئے اور شاہ ولی قندھاری سے پانی مانگا۔ انہوں نے نہ دیا۔ اس وقت بابا گورونانک نے اپنے باطنی زور سے پنجہ مارا اور پانی کا چشمہ جاری ہو گیا۔ بعد میں رنجیت سنگھ نے یہاں بڑا تالاب اور پختہ مندر بنوادیا۔ اس روایت کی صداقت کے بارے میں ناقدین کا خیال یہ ہے کہ یہ روایت سکھوں کی بنیادی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب میں درج نہیں ۔ اسے بعد میں سکھ مذہب میں بعد کے کسی مرحلہ میں داخل کیا گیا۔ یہ گوردوارہ بہرحال سکھوں کا بہت بڑا مقدس مقام ہے۔ جنرل کننگھم کی تحقیق کے مطابق یہ سکھوں کے دورِ حکومت کے آخری ایام کا واقعہ ہے۔ یہاں ایک لنگڑا سنگ تراش ’’کمّا‘‘ رہا کرتا تھا۔ ایک روز سکھ اپراجیوں کے ایک دستہ نے قصبہ کو لُوٹنے کے لیے یورش کی۔ سب مردوزن بھاگ نکلے۔ کمّا لنگڑا معذور ہو نے کی وجہ سے بھاگ نہ سکا اور اس کے زرخیزذہن نے ایک تجویز سوچی۔ ہتھوڑے چھینی سے پنجے کا نشان چٹان پر کھود کر خاموش بیٹھ گیا۔ سکھ جب لوٹ مار کرتے ہوئے اس طرف آئے تو اُس سے پوچھا کہ مُسلے تو یہاں بیٹھا کیا کرتا ہے۔ اس نے اپنی چرب دستی کے علاوہ حاضردماغی کا بھی ثبوت دیتے ہوئے ایک فرضی کہانی انہیں سنائی کہ میں گورونانک جی کے اس متبرک پنجے کی حفاظت کر رہا ہوں اور یہ چشمہ ان ہی کی کرامت سے پھوٹا تھا۔ ہمارا خاندان کئی پشتوں سے اس کا نگران ہے۔سکھ بہت خوش ہوئے۔ ان کی عقیدت مندانہ سادگی کوتازہ رُخ عطا ہو گیا اور اس نئی دریافت نے دل کی کلی کھلا دی۔ کمّا کو انعام واکرام سے نوازا اور یہاں گوردوارہ کی بنیاد رکھی، بیساکھی کے موقع پر یاترا کی رسم چل نکلی جواب تک برقرار ہے۔ یہ تحقیق اپنی جگہ خاصی وزنی ہے کیونکہ سکھوں کی مذہبی کتابوں میں ان کی اپنی روایت کو سہارا دینے والا کوئی اشارہ موجود نہیں۔ نہ جہانگیر نے اپنی سرگزشت میں اس کا کوئی ذکر کیا ہے۔ وہ تز ک حصہ اول میں لکھتا ہے: ’’بابا حسن ابدال کے مقام سے مشرق جانب ایک کوس کے فاصلے پر ایک آبشار ہے، جس کا پانی نہایت تیزی سے گزرتا ہے۔ کابل کے پورے راستے میں اس جیسا کوئی آبشار نہیں۔ کشمیر کے راستے میں دو تین جگہ اس قسم کے آبشار ہیں۔ اس تالاب کے درمیان جو اس آبشار کا منبع ہے راجہ مان سنگھ نے ایک مختصر سی عمارت تعمیر کرائی تھی۔ اس تالاب میں مچھلیاں بکثرت ہیں۔ میں نے وہاں کے رہنے والوں سے اور مورّخوں سے باباحسن کے حالات پوچھے۔ کسی نے بھی کوئی صحیح بات نہیں بتائی، جو جگہ اس مقام میں مشہور ہے وہ ایک چشمہ ہے، جو ایک پہاڑی سے نکلتا ہے۔ اس کے پانی کی انتہائی لطافت شیرینی اور لطافت پر امیر خسرو کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎درتبہ آبش زصفا ریگ خوردکود تو اند بدل شب شمرد!( اعزاز فضیلت پانے والے لکھاری اسد سلیم شیخ کی تصنیف ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس)٭…٭…٭