ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے آپ اُلّوکے بارے میں کیا جانتے ہیں
اسپیشل فیچر
اُلّوبھی اللہ کی بے شمار مخلوق میں سے ایک ہے ،جو اپنی وضع قطع ، اپنی سج دھج، اپنی دیومالائی اہمیت کے ساتھ ساتھ اپنی نحوست کے حوالے سے بھی بہت ہی مشہور ہے۔ اسی لیے کسی شخص کو غلطی کرنے پر اسے اُلّوکے لقب سے نواز دیا جاتا ہے۔یہ بات قابلِ غور ہے کہ کسی کو عقل کا کمتر یا بیوقوف کہنے کے لیے اس پرندے کا نام کیوں لیا جاتا ہے؟ حالانکہ انسانی نفسیات میں یہ بات شامل ہے کہ بڑی آنکھوں والا اور بڑے سر والا انسان ذہین سمجھا جاتا ہے، لیکن اُلّو کی آنکھیں بھی بڑی ہوتی ہیں اور سر بھی بڑا ہوتا ہے، پھر بھی بیوقوف لوگوں کی مثال اکثر اُلّو سے ہی دی جاتی ہے۔ عام طور سے عوام اُلّو کو منحوس پرندہ مانتے ہیں، لیکن انگریزی ادب کی بچوں کی کہانیوں، جیسے (ہیری پوٹر ) میں اُلّو کو اعلیٰ خوبیوں والا اور عقلمند پرندہ مانا گیا ہے۔اُلّو سے متعلق دیگر باتوں کے علاوہ انسان کو مخاطب کرتے ہوئے ایک غلط بات یہ بھی بولی جاتی ہے ’’اُلّوؤں کی طرح دیدے نچا رہے ہو!‘‘جبکہ اُلّو بیچارہ اپنی آنکھوں کو گھمانے میں معذور ہے، وہ صرف سامنے دیکھ سکتا ہے، لیکن 270 ڈگری تک اپنی گردن گھما کر ایک ہی جگہ پر بیٹھ کر چاروں طرف دیکھ سکتا ہے۔اُلّو سے تعلق رکھنے والی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے جُھنڈ کو انگریزی میں پارلیمنٹ کہا جاتا ہے۔A Group of owls is called a parliament. دنیا میں کل 205 قسم کے اُلّو پائے جاتے ہیں،لیکن ان کی پوری قوم کو دو خاص قبیلوں میں ہی بانٹا گیا ہے:۱۔ بارن اُلّو ( owls Barn)اس کا سائنسی نام Strigiformes ہے۔ یہ اوسط جسامت کا اور ہلکے سرمئی رنگ کا پرندہ ہوتا ہے۔ جسم کا اوپری حصہ لالی لیے ہوئے اور پنکھ و پر سفید رنگ کے ہوتے ہیں۔اس کے پروں اور سر پر بھورے رنگ کے دھبّے ہوتے ہیں۔ چہرے کی بناوٹ گولائی لیے ہوئے دل کے شکل کی ہوتی ہے ،جو بھورے رنگ کے بارڈر سے گھری ہوتی ہے۔ بارڈر سے گھرا ہوا حصہ سفید ہوتا ہے۔ اس کے پیروں کی رنگت پیلا پن لیے ہوئے یا بھورے رنگ کے ہوتے ہیں۔ مادہ کے جسم پر دھبے کچھ زیادہ ہوتے ہیں۔ پیر قدرے بڑے اور پروں سے ڈھکے ہوتے ہیں۔ شکاری پرندہ ہونے کی وجہ سے اُلّو کے پنجے اور ناخن بڑے مضبوط ہوتے ہیں۔ پروں کا پھیلاؤ ساڑھے تین فِٹ تک ہوا کرتا ہے۔ ان کا وزن ڈھائی سو گرام سے لے کر 480 گرام تک ہوتا ہے۔ مادہ نر کی نسبت کچھ زیادہ بھاری ہوتی ہے۔ اس طرح کے اُلّو 16قسم کے ہوتے ہیں۔ان میں سے صرف تین قسمیں ہی برصغیر میں پائی جاتی ہیں۔۲۔ٹُرو اُلّو ( owls True)بارن اُلّوؤ ں سے یہ کافی مختلف ہوتے ہیں۔ اس کا سائنسی نام Striginae ہوتا ہے۔ ویسے تو یہ 190خاندانوں میں بٹے ہوتے ہیں، لیکن 23 خاندان نمایاں ہوتے ہیں۔ ان میں درجِ ذیل معروف ہیں:سکریچ اُلّو(Owls Screech) ہارنڈ اُلّو(Owls Horned) سا-وہیٹ(whet Owls Saw-)یہ مختلف جسامت والے ہوتے ہیں، بہت چھوٹے بونے اُلّو سے لیکر بھاری بھرکم اور مختلف رنگوں میں پائے جاتے ہیں۔اس طرح کے اُلّوؤں کا چہرا گول و بڑا ہوتا ہے، دُم چھوٹی ہوتی ہے۔ اُلّو کے پر دھبّے دار ہونے کی وجہ سے بڑے شکاری پرندوں، باز وغیرہ کی نظر ان پر جلدی نہیں پڑتی۔ اُلّو اپنے سے چھوٹوں کا شکار کرتا ہے اور خود کو شکار ہونے سے بچاتا ہے۔ چوہے، گلہریاں، خرگوش، چڑیاں، کیڑے مکوڑے وغیرہ کسانوں کے دشمن ہوتے ہیں، لیکن اُلّو ان کو اپنی خوراک بنا کر کروڑوں کا اناج بچاتا ہے اور لوگوں کی مالی مدد کرتا ہے۔ اس لیے اُلّو کسانوں کا دوست کہلاتا ہے۔عام طور سے ان کی عمر ایک دو سال ہی ہوتی ہے۔اُلّو چھوٹے شکار کو پورا پورا نگل جاتا ہے اور بڑے شکار کو ٹکڑے کر کے نگلتا ہے۔ نہ ہضم ہونے والی اشیاء جیسے ہڈیاں، بال اور پر وغیرہ پورے کا پورا ملغوبہ بیلن نما ٹھوس کی شکل میں اُگل دیتا ہے۔عام طور سے اُلّو اپنا گھونسلہ پیڑوں کے کھوہ میں بناتے ہیں ،جو زمین سے قریباً بیس میٹر کی اونچائی پر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کھنڈر یا ویران عمارتوں، کنوؤں میں بھی گھونسلہ بناتے ہیں۔اس کے جسم کے پَر دیگر پرندوں کی بہ نسبت بہت ہلکے اور ملائم ہوتے ہیں اور اسی لیے جب یہ اُڑتا ہے، تو اس کے اُڑنے کی آواز بالکل نہیں ہوتی اور یہ آسانی سے اپنے شکار پر جھپٹ سکتا ہے۔اندازہ لگایا گیا ہے کہ پندرہ سے بیس ہزار سال پہلے اُلّوؤں کا رشتہ انسانوں کے ساتھ قائم ہو چکا تھا، جس کی شہادت فرانس کے غاروں میں کنندہ فنکاری میں پائی جاتی ہے۔اُلّوؤں کی قوت سماعت بہت زیادہ ہوتی ہے، لیکن ان کے کان دکھائی نہیں دیتے کیونکہ وہ آنکھوں کے پیچھے پروں کے گچھے میں یہ چھپے ہوتے ہیں۔ رات کے اندھیرے میں اپنے شکار کی ہلکی سی آواز سے سمت کا اندازہ لگا کر اس پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ان کے پنجے خاص قسم کے ہوتے ہیں ،جس میں چار نوکیلی انگلیاں دو آگے اور دو پیچھے کی جانب ہوتی ہیں۔ ضرورت پڑنے پر پیچھے والی انگلیوں میں سے ایک کو گھما کر آگے کی جانب کیا جا سکتا ہے۔ان کی چونچ دیگرگوشت خور پرندوں کی طرح نوکیلی اور ٹیڑھی ہوتی ہے۔ پروں سے ڈھکی ہونے کی وجہ سے چھوٹی دکھائی دیتی ہے۔مختلف ممالک میں اُلّو سے متعلق کچھ دلچسپ باتیں٭ برطانیہ میں اُلّو کے بولنے یا اس کے رونے کی آواز کومنحوس سمجھا جاتا ہے۔٭ جنوبی افریقا میں اُلّو کی آواز کو موت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔٭ کناڈا میں تین رات لگاتاراُلّو کے بولنے پر خاندان میں کسی کے موت یقینی سمجھی جاتی ہے۔٭ امریکا کے جنوبی اور مغربی دونوں حصوں میں اُلّو کا دیکھا جانا منحوس سمجھا جاتا ہے۔٭ چین میں اُلّو دکھائی دینے پر پڑوسی کی موت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔٭ ایران میں اُلّو کی اچھی آواز کو خوشی کی علامت مانتے ہیں، رونے جیسی آواز کو بُری علامت مانی جاتی ہے۔٭ ترکی میں بھی اُلّو کی آواز کو تو منحوس ہی سمجھا جاتا ہے، لیکن سفید اُلّو کو سعد مانا جاتا ہے۔اُلّو کے نام کے ساتھ جڑے محاورے اُلّو کے نام کے ساتھ کئی محاورے جڑے ہیں جیسے ’اپنا اُلّو سیدھا کرنا‘،’اُلّو بنانا‘، ’اُلّو بننا‘، ’کاٹھ کا اُلّو‘،’اُلّو کی ہوشیاری‘،’اُلّو کا پٹھا‘،’اُلّو کا ڈھکّن‘، ’کھاٹ پہ بیٹھا اُلّو، بھر بھر مانگے چلّو‘،’اُلّو کہیں کا‘، ’اُلّو پنا‘ وغیرہ۔ ان محاوروں کی تفصیل دینے کی ضرورت نہیں، جس طرح اُلّو ایک سیدھا سادہ پرندہ ہے، اسی طرح سے اس سے متعلق محاورے بھی آسان اور سیدھے سادھے ہیں، ہر کوئی ان کا استعمال کرتا رہتا ہے۔اب اس اُلّو پنے سے آگے بڑھتے ہیں اور آپ کی معلومات میں اور تھوڑا اضافہ کرتے ہیں۔ مغربی موسیقی کے ’پاپ سانگ‘ کو پسند کرنے والوں کے لیے انٹرنٹ پر’اُلّو شہر‘ یعنی City Owlکی ’ویب سائٹ موجود ہے ۔اس سے اپنا ناتا جوڑ کر آپ خود کو اپڈیٹ کر سکتے ہیں۔ اس کا قیام امریکا میں 2007ء میں ’آدم ینگ‘ نام کے ایک شخص نے کیا تھا، جس کے تحت چالیس منصوبے(Projects) ہیں۔مجھے یقین ہے کہ اُلّو کے بارے میں جو بھی معلومات آپ کے پاس رہی ہوں گی۔ اس میں کچھ نہ کچھ اضافہ ضرور ہوا ہوگا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ اب اُلّو کے بارے میں اب کچھ بتانے کو بچا ہی نہیں۔اب اُلّو کو تھوڑا ادب کی طرف موڑتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہاں اس کے ساتھ کیا برتاؤ کیا گیا۔یوں تو بہت سے شاعر ہوں گے، جنھوں نے اپنے اشعار میں ’اُلّو‘ کو نظم کیا ہوگا۔ حضرت بومؔ میرٹھی کو اُلّو اتنا پسند تھا کہ انہوں نے اپنا تخلص ہی بومؔ یعنی اُلّو رکھ لیا، لیکن سید ریاست حسین رضوی شوق بہرائچی کی بات ہی کچھ اور ہے۔ہو سکتا ہے کہ اُلّو سے متعلق کوئی ’ریسرچ سنٹر‘ کھول رکھا ہو؟۔ان کے دیوان ’طوفان‘ میں اُلّو سے متعلق بے شمار اشعار موجود ہیں، لیکن یہاں ایک شعر پر اکتفا کیا جا رہا ہے:بربادیٔ گلشن کی خاطر بس ایک ہی اُلّو کافی تھاہر شاخ پہ اُلّو بیٹھے ہیں انجامِ گلستاں کیا ہو گا؟٭…٭…٭