ورجینیا وولف معروف ادیبہ کے ناول ’’ٹودی لائٹ ہاؤس‘‘ کو جدید ناولوں کی تاریخ کا سنگِ میل سمجھا جاتا ہے
اسپیشل فیچر
عورت ازل سے مرد کی تابع رہی ہے۔ مردوں کی بنائی ہوئی دنیا نے اسے ہمیشہ اپنے مقابلے میں ثانوی حیثیت دی۔ اپنی مرضی کی تنی رسی پر اسے چلنے کا حکم دیا۔ ہمیشہ اپنی منوائی ،اس کی نہ مانی۔ اسے چاردیواری میں رکھا تا کہ وہ اس کے لیے بچے پیدا کرے، ان کی دیکھ بھال کرے۔ نسل بڑھانے والی اس عورت نے جب اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی، اس آواز کو دبا دیا گیا، لیکن عورتوں نے ہارنہ مانی اور اپنے حق کے لیے جنگ جاری رکھی اور سوسائٹی میں اپنی حیثیت منوانے کے لیے جدوجہد کرتی رہی، جن عورتوں نے اپنی ذہانت اور اپنی تحریروں سے مظلوم عورتوں کو یہ جنگ جاری رکھنے کی ہمت دی اور منزل کی طرف پہنچنے کا راستہ دکھایا، ان میں ایک نام ورجینیا وولف کا بھی ہے۔ورجینیا وولف نے بہت کام کیا۔ باوجود اعصابی بیماری کے جس نے اسے کئی بارخودکشی پر مجبور کیا۔ ورجینیا نے بہت کچھ لکھا ،اس کے ناولوں میں1. The Voyage Out2. Night and Day3. Mrs Dolloway4. To the Light House5. Orlando6. The Waves7. The Yearsاس کے مشہور ناول ہیں۔ اس نے عورتوں کے بارے میں بہت مضامین لکھے ،جو Nonfictionمیں شمار ہوتے ہیں۔ مضامین کے کئی مجموعے چھپے۔ ان میں A room of his own بہت مشہور ہے، جس کی شہرت نے اسے Feminist icon بنا دیا۔ورجینیا نے مختصر کہانیاں بھی لکھیں ،جن کا ایک مجموعہ بھی چھپا، جس کا نام The Complete Shorter ہے۔ ورجینیاوولف کی ساری زندگی اعصابی دوروں کا شکار رہی۔ پہلا دورہ اسے ماں کی موت پر پڑا، دوسرا دورہ باپ کی وفات پر اور پھر یہ مرض دائمی ہو گیا۔ ان دوروں سے بچنے کے لیے اس نے بلومزبری گروپ بنایا۔ ادیبوں کا ہجوم اپنے گرد رکھا۔ ویٹا سے تعلقات استوار کیے، لیکن وہ ان اعصابی دوروں سے نہ بچ سکی۔ ورجینیا 1882ء میں پیدا ہوئی، 1941ء تک بیماری کا شکار رہی۔ دو بار خودکشی کرنے کی کوشش کی، لیکن بچالی گئی۔اس کا آخری ناولBetween the Acts ہے۔ اس نے اس کا مسودہ مکمل کیا اور پھر موت کی طرف روانہ ہو گئی۔یہ 28 مارچ 1941ء کا واقعہ ہے۔ ورجینیا وولف رات کے پچھلے پہر اٹھی۔ اپنا اوورکوٹ پہنا اور دریا کے کنارے چلی گئی۔ اپنے اوور کوٹ کی جیبوں میں بھاری بھاری پتھر کے ٹکڑے بھر لیے اور پھر چلتی ہوئی دریا میں داخل ہو گئی، چلتی رہی اور پھر پانی میں ڈوب گئی۔ اس کی لاش کو بہت تلاش کیا گیا۔ اس کے خاوند نے تلاش جاری رکھی، پھر18 اپریل کو لاش ملی اور اسے Monk House کے باغ میں دفنا دیا گیا۔ اپنے خاوند کے نام اس نے ایک خط چھوڑا جو کچھ یوں تھا:’’میرا خیال ہے، میں پھر پاگل پن کا شکار ہو رہی ہوں۔ میرا خیال ہے اب ہم زیادہ دن اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ مجھے اب پھر یونانی پرندوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں چنانچہ اب میں وہی کر رہی ہوں، جو مجھے کرنا چاہیے۔ تم نے مجھے زندگی کی ہر خوشی دی ہے۔ مجھ سے اب ہر چیز چھن گئی ہے۔ بس تمہارا اچھا سلوک باقی ہے۔ اب میں مزید تمہاری زندگی خراب نہیں کرنا چاہتی۔ میرا خیال ہے کہ ہم دونوں سے زیادہ اچھی زندگی کسی نے نہیں گزاری۔‘‘ورجینیا کے ناول’’ٹودی لائٹ ہاؤس‘‘ کو جدید ناولوں کی تاریخ کا سنگِ میل سمجھا جاتا ہے۔اس ناول نے جدید ناول نگاری کی روایت کو پروست Proust اور جیمز جوائسJames Joyce کی طرح آگے بڑھایا ہے۔ اس ناول میں پلاٹ کی حیثیت ثانوی ہے اور فلسفیانہ اور نفسیاتی بہاؤ کو اولیت دی گئی ہے۔ بچپن کے جذبات اور جوانی کے تعلقات کو نمایاں کیا گیا ہے ’’دی ٹائم میگزین‘‘ نے اسے انگریزی زبان کے 100 بہترین ناولوں میں شمار کیا ہے۔یہ ناول تین حصوں میں منقسم ہے:1. Window2. Time Pass3. To the Light Houseناول کا آغاز رمزے خاندان کے گھر سے ہوتا ہے، جو ایک جزیرے میں واقع ہے اور سارا خاندان یہاں چھٹیاں منانے آیا ہوا ہے۔ مسز رمزے Ramsay کھڑکی میں بیٹھی سویٹر بن رہی ہے۔ اس کا چھ سالہ بیٹا جیمز اس کے پاس بیٹھا رسالوں اور اخباروں سے تصویریں کاٹ رہا ہے۔ مسز رمزے اسے بتلاتی ہے کہ اگر دن آج کی طرح صاف اور اُجلا رہا، تو کل وہ کشتی میں بیٹھ کر لائٹ ہاؤس دیکھنے جائیں گے۔ مسٹر رمزے اپنی بھرپور آواز میں کہتے ہیں: شاید دن کل اتنا صاف اور اجلانہ ہو۔ اس گھر میں کچھ اور ملاقاتی اور مہمان بھی آجاتے ہیں۔ ان میں للّی Lilly بھی ہے، جو ایک مصور ہے اور مسز رمزے اور جیمز کی تصویر بنانے کے لیے اپنا ایزل لگاتی ہے۔ مسٹر رمزے بار بار اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ کل کا دن اُجلا اور صاف نہیں ہو گا۔ جیمز کا دل بار بار اس بات سے ٹوٹتا ہے کیونکہ وہ لائٹ ہاؤس جانے کے لیے بیتاب ہے۔ مہمانوں میں ایک کردار بوڑھے آگسٹس کارمیکل کا بھی ہے، جو شاعر ہے۔ اس کی بڑی بڑی مونچھیں اور بال سفید ہیں، مگر اس نے بالوں پر مہندی لگا رکھی ہے اور وہ جھولنے والی کرسی پر بیٹھا دھوپ سینک رہا ہے۔ یہ حصہ ڈنر پارٹی پر ختم ہوتا ہے۔دوسرا حصہ جو Time Pass کے عنوان سے شروع ہوتا ہے اس میں ورجینیا نے بتلایا ہے کہ ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے۔ پہلی جنگ عظیم شروع ہو کر ختم ہو چکی ہے۔ پروبچہ جننے کے دوران مر گئی۔ اینڈریو Andrew جنگ میں مارا گیا۔تیسرا حصہ ’’لائٹ ہاؤس‘‘ دس سال بعد کے واقعات بیان کرتا ہے۔ جوان کردار بوڑھے ہو چکے ہیں اور بچے اب جوان ہیں چنانچہ اب وہ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ لائف ہاؤس دیکھنے کا وہ پروگرام جواب تک تکمیل کو نہیں پہنچا اسے مکمل کیا جائے لہٰذا وہ لائٹ ہاؤس دیکھنے کے لیے کشتی پر سوار ہو کر لائٹ ہاؤس کی طرف بڑھتے ہیں۔ جیمز جواب سولہ سال کا ہو چکا ہے، کشتی چلا رہا ہے۔ انہوں نے للّی کو بھی لائٹ ہاؤس چلنے کے لیے کہا تھا ،مگر وہ نہ مانی کیونکہ اسے گذشتہ دس سالوں سے نا مکمل تصویر کو مکمل کرنا تھا۔ للّی اب جب ناشتے کی میز پر جاتی ہے تو اسے دس سال پرانے تمام واقعات یاد آجاتے ہیں کہ کس طرح دس سال پہلے مسز رمزے ناشتے کی میز پر بیٹھی باتیں کر رہی تھی اور کس طرح سارا گھر قہقہوں سے گونجتا تھا۔ اس ناول میں فلیش بیک کی تکنیک سے واقعات پیش کیے گئے ہیں اور کہانی کو آگے بڑھایا گیا ہے۔للّی لوگوں کے ساتھ لائٹ ہاؤس نہیں جاتی اور اپنی تصویر مکمل کرتی رہتی ہے۔ اسے لائٹ ہاؤس نظر آرہا ہے اور وہ کشتی بھی نظر آرہی ہے جس میں بیٹھ کر لوگ لائٹ ہاؤس کی طرف جا رہے ہیں۔کشتی جب آدھے راستے میں پہنچی تو ہوا تیز ہو گئی۔ مسٹر رمزے نے کہا کہ کشتی واپس کی جائے کل لائٹ ہاؤس چلیں گے، لیکن جیمز نے کہا کہ کشتی واپس نہیں ہو گی، اگر اب ہم واپس چلے گئے، تو دس سال کا وقفہ پڑ جائے گا چنانچہ سفر جاری رہتا ہے اور آخر کار وہ لائٹ ہاؤس پہنچ جاتے ہیں۔ للّی دور سے دیکھتی ہے اور خوش ہوتی ہے کہ چلو آخر ایک منزل سر ہو گئی۔یہ ناول جتنا مشہور ہے، اتنا ہی مشکل بھی ہے اور قاری قدم قدم پر ابلاغ کی رقت پسندی سے دو چار ہوتا ہے۔ سارے ناول میں قاری کی رہنمائی کرنیوالا کوئی رہنما دکھائی نہیں دیتا۔ پہلے حصے میں واقعات اور کردار بالکل قاری کے سامنے رہتے ہیں۔ کرداروں کا آپس میں تعلق، ان کی کارکردگی، واقعات کا بہاؤ، جو دوسرے حصے، یعنی Time Pass میں ناپید ہے۔اس ناول کا سارا پلاٹ، اس کے سارے کردار دراصل ورجینیا وولف کے گرد گھومتے ہیں مسٹررمزے اور مسز رمزے اس کے ماں باپ ہیں اور ان کے بچے اس کے بہن بھائی۔ ناول میں باقی ابھرنے والے کردار وہ آنے جانے والے لوگ ہیں ،جو ان کے گھر آکر ادبی محفلیں برپا کرتے تھے۔ ورجینیا وولف نے اپنی پرانی یادوں، اپنے بچپن اور پرانے گھر میں ہونے والے واقعات کو اس ناول کا حصہ بنا دیا ہے، لیکن اس نے ناول کا جو اسلوب رکھا ہے ،وہ بالکل جدید ہے جس میں جیمز جوائس نے بھی اپنے ناولوں کی فضا تیار کی۔اس ناول کو نقاد آٹو بائیگرافی طرز کا ناول قرار دیتے ہیں کیونکہ واقعات، ماحول اور کرداروں کی مناسبت سے یہ ورجینیا کے ذاتی اور نجی حالات کے بہت قریب ہے۔ (علم و دانش کے معمار از احمد عقیل روبی)٭…٭…٭