رپور تاژ نگاری کا بانی اور دیگر لکھنے والے
اسپیشل فیچر
رپورتاژ (Reportage)کو انگریزی زبان کے لفظ رپورٹ (Report)کے ہم معنی قرار دیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس صنف کو عموماً صحافتی تحریر سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔The feber book of reportageکے مصنف جان کیری( John carry)نے رپورتاژ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’رپورتاژ عینی شاہد کے ذریعے ضابطۂ تحریر میں لائے گئے ایسے ٹھوس حقائق ہیں جو حادثے یا واقعے کے وقوع پذیر ہونے کے بعدقلمبند کئے گئے ہوں۔ وقت اور تاریخ کا تعین اور خود مصنف کا عینی شاہد ہونا رپورتاژ کو زیادہ معتبر بنا دیتا ہے ‘‘ اُردو کے معروف نقاد محمد حسن عسکری رپورتاژ کے متعلق کہتے ہیں کہ ’’یہ نام ہی اس لیے اختراع کیا گیا تھا کہ بعض تحریروں کو صحافت اور ادب دونوں سے الگ کیا جا سکے‘‘ اگر عالمی ادب میں رپورتاژ کی ابتدا کی بات کی جائے تو اس صنف کا وجود ہمیں فرانسیسی ، انگریزی ، امریکی اور روسی ادب میں انیسویں صدی کے آخری سالوں میں ملتا ہے تاہم اس صنف نے بیسویں صدی کے شروع میں اپنے آپ کو مستحکم کیا ۔ حقیقت نگاری کی تحریک کے زیر اثر دوسری عالمی جنگ کے دوران انگریزی ادب میں کثرت سے رپورتاژ لکھے گئے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اردو ادب میں رپورتاژ کا سہرا ترقی پسند ادیبوں کے سر ہے ، تو بے جا نہ ہو گا ۔ ترقی پسند ادبیوں نے اپنی کانفرنسوںاور جلسوں کی روداد رقم کرنا شروع کی تو اردو ادب میںرپورتاژکی روایت قائم ہوئی۔قدوس صہبائی کے ہفتہ واراخبار’’نظام‘‘ میں حمید اختر کی انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسوں کی روداد شائع ہونا شروع ہوئی تو اسے رپورتاژ کی ابتدائی شکل مانا گیا جس کا تذکرہ معروف ترقی پسند ادیب سجاد ظہیر نے اپنی کتاب ’’روشنائی‘‘ میں کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ حمید اختر ایک نئی ادبی صنف کے موجد سمجھے جا سکتے ہیں ۔ ان کی یہ ہفتہ واری سرگزشت دراصل ایک دلچسپ رپورتاژ تھی‘‘۔ اگرچہ سجاّد ظہیر نے اردو میں حمید اختر کو اس صنف کا بانی کہا ہے لیکن حقیقتاًسجاّدظہیر خود اس صنف کے باقاعدہ بانیوں میں سے تھے کیونکہ اردو ادب میں قیام پاکستان سے قبل ۱۹۴۰ء میں ’’یادیں‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی سجاد ظہیر کی تحریر کو اردو کا پہلا باقاعدہ رپورتاژ قرار دیا گیا ۔ سجاد ظہیر نے ایک اور رپورتاژ ’’سینڈھرسٹ روڈ‘‘ کے نام سے بھی لکھا لیکن اسے ’’یادیں‘‘ جیسی مقبولیت حامل نہ ہو سکی۔ اردو میں دوسرا باقاعدہ رپورتاژ کرشن چندر کے رپورتاژ ’’پودے‘‘ کو مانا جا تا ہے جو ۱۹۴۷ء میں شائع ہوا۔ یہ رپورتاژ ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس جو اکتوبر ۱۹۴۵ء میں حیدر آباد میں ہوئی، کی روداد ہے جسے کرشن چندر نے اپنے مشاہدات کی روشنی میں قلمبند کیا تھا۔ کرشن چندر کا ایک اور رپورتاژ ’’صبح ہوتی ہے‘‘ ۱۹۴۹ء میں تریچور میں منعقد ہونے والی ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس کے دوران پیش آنیوالے واقعات پر مبنی تھا تاہم اسے وہ شہرت نہ ملی جو ’’پودے‘‘ کے حصّے میں آئی ۔ ’’پودے‘‘ کے بعد ابراہیم جلیس کا رپورتاژ ’’شہر‘‘ منظر عام پر آیا جس میں ۱۹۴۶ء کے دور پر مبنی ابراہیم جلیس کے قیام ِبمبئی کی مکمل روداد پیش کی گئی۔ ابراہیم جلیس کے دیگر رپورتاژ وں میں ’’دو ملک ایک کہانی‘‘ ، ’’جیل کے دن جیل کی راتیں‘‘ اور ’’سپید اور سرخ ستارے کے درمیان‘‘ شامل ہیں ۔ ۱۹۴۸ء میں دہلی سے لاہور کی طرف ہونے والی ہجرت کو موضوع بنا کر شاہد احمد دہلوی نے ’’ دلی کی بپتا‘‘ کے نام سے رپورتاژ لکھا جو ہندو مسلم فسادات کی روداد ہے ۔ تقسیم ہند کے تناظر میں لکھا گیا ایک اور رپورتاژ فکر تونسوی کا ’’چھٹا دریا‘‘ ہے جو ۱۹۴۹ء میں شائع ہوا۔ عصمت چغتائی نے ۱۹۵۲ء میں منعقدہ کل ہند اُردو کانفرنس میں شرکت کے لئے بمبئی سے بھوپال تک کا سفر کیا جسے بعد ازاں انہوں نے ’’بمبئی سے بھوپال تک‘‘ کے نام سے رپورتاژ کی شکل میں شائع کیا ۔ ۱۹۵۹ء میں شائع ہونیوالا قراۃالعین حیدر کا رپورتاژ ’’ستمبر کا چاند‘‘ بھی ایک اعلی پائے کا رپور تاژ ہے جو ستمبر ۱۹۵۷ء میں ٹوکیومیں منعقد ہونے والی ادیبوں کی بین الاقوامی کانفرنس کے انتیسویں اجلاس کی روداد ہے ۔ ’’ستمبر کے چاند‘‘ کے علاوہ قراۃ العین حیدر کے رپورتاژوں میں ’’پدماندی کے کنارے ‘‘ ، ’’گل گشت‘‘، ’’کوہ دماند‘‘ ، ’’لندن لیٹر‘‘ اور ’’ دکن ساٹھ نہیں سنسار میں ‘‘ شامل ہیں ۔ حجاب امتیاز علی کا لکھا ہوا رپورتاژ ’’ ہم سفر‘‘ ۱۸اپریل ۱۹۷۰ء کے اس دلخراش واقعے کے تناظر میں لکھا گیا جس میں ان کے شوہر سید امتیاز علی تاج کو ان کے اپنے گھر میں نا معلوم قاتلوں نے قتل کر دیا۔ عصمت چغتائی ،قراۃالعین حیدراورحجاب امتیاز علی کے علاوہ دیگرخواتین نے بھی رپورتاژ نگاری میں نام کمایا ۔ خواتین کے لکھے گئے رپورتاژوں میںخدیجہ مستور کا ’’پوپھٹے‘‘ مسز انور رضا کا ’’ یادوں کے جھروکے‘‘ صفیہ اختر کا ’’ایک ہنگامہ‘‘ ممتاز شیریں کا ’’ادیبوں کی بین الاقوامی کانفرنس‘‘ سائرہ ہاشمی کا ’’ کل پاکستان اہل قلم کانفرنس ‘‘ کشور ناہید کا ’’آجائو افریقہ ‘‘اور بشری رحمان کا ’’ بائولی بھکارن‘‘ قابل ذکر ہیں ۔ممتاز مفتی کے رپورتاژ ’’لبیک‘‘ کے ذکر کے بغیر اُردو رپورتاژ کی تاریخ ادھوری ہے ۔ یہ رپورتاژ سفر حج کی روداد ہے جسے ممتاز مفتی نے نہایت عقیدت سے قلمبند کیا ۔ یہ سفر اگرچہ ممتاز مفتی نے قدرت اللہ شہاب کے ہمراہ ۱۹۶۸ء میں کیا لیکن ۱۹۷۵ء میں اسے کتابی شکل دی گئی ۔ درج بالا رپورتاژ وں کے علاوہ محمود ہاشمی کا ’’کشمیر اداس ہے‘‘ ، خواجہ احمد عباس کا ’’سرخ زمین او ر پانچ ستارے ‘‘ قدرت اللہ شہاب کا ’’شملہ کانفرنس ‘‘عبداللہ ملک کا ’’مستقبل ہمارا ہے ‘‘ اے حمید کا ’’الحمرا کی ایک شام ‘‘ ڈاکٹر انور سدید کا ’’ تلاش ِسفر‘‘ ــ اور ڈاکٹر عبادت بریلوی کا ’’جشن ِ اقبال ‘‘ قابلِ ذکر رپورتاژ ہیں۔