تلہ گنگ
اسپیشل فیچر
ضلع چکوال کا قصبہ اور تحصیل۔ چکوال شہر سے میاں والی جانے والی سڑک پر 45 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ایم ٹو موٹروے یہاں سے 30 کلومیٹر دُور ہے۔ لاہور سے اسلام آباد جانے والی موٹروے کے ذریعے سے بلکسر انٹر چینج سے اُتریں تو بائیں جانب سڑک تلہ گنگ کو جاتی ہے۔ پہلے یہ ضلع جہلم کی تحصیل تھی۔ جب 1945ء میں چکوال کو ضلع بنایا گیا تو اس میں شامل کردی گئی۔ اِس علاقے کی تہذیب بڑی قدیم ہے۔ سُون سکیسر کے پہاڑ اس کے قریب ہیں۔ ہندوئوں کی روایت ہے کہ جب پانڈوراجے جلاوطن ہوئے تو وہ ایک مدت تک اِسی پہاڑ میں رہے تھے۔ اِس پہاڑی علاقہ کی سطح سمندر سے بلندی تقریباًدو ہزار سے اڑھائی ہزار فٹ ہے۔ مسٹر برنیڈرتھ اس علاقے کو شمالی ہند کے خوبصورت ترین علاقوں میں سے ایک قرار دیتا ہے۔ یہ علاقہ کافی حد تک ہموار ہے اور اسے ہر طرف پہاڑیوں نے اس طرح اپنی گود میں لے رکھا ہے کہ یہاں زمین کے کٹائو کا کچھ زیادہ خطرہ نہیں ہے۔تحصیل تلہ گنگ کا سارا پانی دو بڑے نالوں کے ذریعے خارج ہوتا ہے اور ان دونوں نالوں کا نام گبیھر ہے۔ مشرقی گبیھر اس تحصیل اور علاقہ دھنی کے درمیان حد فاصل کا کام دیتا ہے۔ مغربی گبیھر اس کی مغربی سرحد ہے۔ دونوں کا منبع کوہستان نمک میں واقع جابہ ہے۔ دونوں دریائے سواں میں جا گرتی ہیں۔ ماضی قدیم میں ایک شاہراہ کبیر تلہ گنگ مویشی پتیال کے قریب سے نشیب میں اُتر جاتی تھی اور کلّو کے مقام پر جا کر میدانی علاقہ میں اُبھرتی تھی اور پھر کلرکہار کے سنگم پر بڑیـ’’ شاہراہ بھیرہ‘‘ سے مل جاتی تھی۔تلہ گنگ کو اعوان قبیلے نے آباد کیا تھا۔ جو سلطان محمود غزنوی کے دَور میں برصغیر میں آئے تھے۔ ان کے سالار قطب حیدر شاہ نے دریائے سندھ عبور کر کے سُون سکیسر کے راجہ کو شکست دی۔ انھوں نے زندگی کا بیشتر حصہ انگہ میں گزارا۔ کچھ عرصہ کالا باغ کے نواح دھنکوٹ میں بھی قیام کیا۔ آخری ایام میں اپنے دو بیٹوں کے ہمراہ آبائی وطن غزنی پلٹنے سے پہلے انہوں نے اپنے زیر دسترس علاقے اپنے باقی نو بیٹوں میں تقسیم کر دئیے تھے۔ ان کے بیٹے مزمل علی کلگان کے حصے میں قلعہ دین کوٹ یادھنکوٹ، چکٹرالہ، سکیسر، نمل، کالاباغ اور تلہ گنگ آئے۔ جہاں تک اس کے نام کا تعلق ہے تو یہاں ایک بہت بڑا تالاب تھا۔ اس کا پانی کھاری تھا۔ جبکہ اس کے ساتھ ایک کنواں تھا جس کا نام گنگا جل مشہور تھا۔ اس کنویں کا پانی میٹھا تھا۔ تالاب اور گنگاجل کے ناموں کو ملا کر اس کا نام تلہ گنگ مشہور ہوا۔ انگریزی عہد میں اسے ضلع راولپنڈی میں شامل کیا گیا تھا۔ 1904ء میں اٹک ضلع بنا تو اس کی تحصیل بنایا گیا اور یہاں تحصیل کچہری، تھانہ، ڈسپنری، سکول اور بنگلہ تعمیر ہوئے۔ انگریزوں نے ابتداء میں یہاں فوجی چھائونی بھی قائم کی تھی مگر 1882ء میں اسے ختم کر دیا گیا۔ 1911ء میں اسے نوٹیفائیڈ ایریا قرار دیاگیا اور 1924ء میں سمال ٹائون کمیٹی بنا دیا گیا۔ 1931ء میں اس کی آبادی 1746 افراد پر مشتمل تھی۔ آجکل یہ ضلع چکوال کی ایک تحصیل کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ تحصیل 23 یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔ شہر تلہ گنگ میں دویونین کونسلیں ہیں۔ یہاں تحصیل سطح کے دفاتر، تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال جس کا ایک حصہ شہر کے مرکز میں اور دوسرا بنگلہ نورشاہ میں ہے اس کے علاوہ طلباوطالبات کے ڈگری کالجز، ہائی اور مڈل سکول کامرس کالج، فوجی فائونڈیشن ماڈل سکول اینڈ کالج بھی ہیں۔ منصور مارکیٹ، قاضی مارکیٹ، مکّہ پلازہ، لنڈابازار، نیومارکیٹ، نیازی مارکیٹ، بسم اللہ مارکیٹ اور غلہ منڈی یہاں کے اہم تجارتی مراکز ہیں۔ یہاں کا بوائزڈگری کالج 1959ء میں قائم ہوا تھا۔ علاقے میں مونگ پھلی کی کاشت کثرت میں ہوتی ہے جبکہ تلہ گنگ کی منڈی میں اس کی تجارت عام ہے۔ یہاں کے بنے ہوئے کُھسّے اور چپلیں بہت مشہور ہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل تک تلہ گنگ میں لکڑی اور گُڑکی تجارت عام ہوتی تھی۔ یہاں سرحد اور پنجاب سے آنے والا گُڑ نیلام ہوا کرتا تھا۔ علم واَدب کے حوالے سے پروفیسر فتح محمد ملک، پروفیسر غلام جیلانی اصغر کے نام نمایاں ہیں۔ پروفیسر فتح محمد ملک کا شمار ملک کے نامور نقاد کے طور پر ہوتا ہے۔ آپ 1936ء میں تلہ گنگ کے گائوں ٹہی میں پیدا ہوئے۔ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر رہے۔ پھر ہائیڈل برگ یونیورسٹی، جرمنی میں اُردو کے اُستاد مقرر ہوئے، آپ کی تنقیدی تصانیف میں تعصباّت، اندازِ نظر، نیا طرزِ احساس، اقبالی، فکرواعمال شامل ہیں۔ عزیزبھائی، سیّدشوکت علی شاہ اور خلش ہمدانی کے نام بھی علم واَدب کے حوالے سے نمایاں ہیں۔ خلش ہمدانی اُردو اَدب کے معروف ادیب اور ناول نگار تھے۔ وہ1921ء میں پیدا ہوئے اور1999ء میں وفات پائی۔ خون میں ڈوبی سحر دیکھی، تنویر لہو کی، پیاس کا صحرا، سنگ علامت، رسوائیاں کیا کیا، روئے دکھ کا ساگر، لمحوں کی آگ، بات چھپائے گوری،اک آبلہ پاہتیا آپ کی تخلیقات ہیں۔ یہاں کے صوفی شاعر سیّد منظور حیدر شاہ جو 1934ء میں پیدا ہوئے تھے اور 2001ء میں وفات پائی تھی مترجم اقبال بھی تھے۔ رشتہ ہے کوئی اور ہن کی کریئے (منظوم پنجابی ترجمہ پس چہ باید کرد) آپ کی تصانیف ہیں۔ تلہ گنگ کی ثمینہ اعوان کی کتاب فاطمہ جناح بھی شائع ہوئی۔یہاں کی ادبی تنظیم بزم دانش اَدب کے فروغ کے لیے پیش پیش ہے۔ اس کی بنیاد سید منظور حیدر شاہ مرحوم نے رکھی تھی۔ آجکل ملک محمد اکرم ضیاء اس کے روح رواں ہیں۔ معروف مُصوّر منیر احمد مُصوّر کا تعلق بھی تلہ گنگ کے قریبی موضع ڈھرنال سے ہے۔ انہوں نے یہاں مُصوّری کے فروغ کے لیے مُصوّر مثالی اکیڈمی کے نام سے ادارہ بھی قائم کر رکھاہے۔( اعزاز فضیلت پانے والے لکھاری اسد سلیم شیخ کی تصنیف ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس)٭…٭…٭