برصغیر کی تاریخ کا منفرد صوفی شہزادہ داراشکوہ
اسپیشل فیچر
دارا شکوہ برصغیر کی تاریخ میں ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ برصغیر کے مسلمان حکمرانوں اور خاص کر مغلیہ سلسلہ شہنشاہت میں دارا شکوہ کی حیثیت کئی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے۔ آپ شہنشاہ اکبر کی روایت کو لے کر آگے چلے اور برصغیر میں مذاہب کی ہمہ گیریت کا نعرہ بلند کیا۔ آپ تصوف میں وحدت الوجودیت کے پیروکار تھے اور حضرت میاں میرؒ کے مریدوں میں شامل تھے۔ آپ نے ویدک ادب کا مطالعہ کیا اور اسلام اور عیسائیت کا آپسی موازنہ بھی کیا۔ فلسفہ ویدانت سے آپ نے ہندو یوگی لائی داس کے ذریعے آگاہی حاصل کی، جو سنت کبیر کے پیروکاروں میں سے تھے۔ انھوں نے بھگت راما نند اور مسلمان صوفی مرزا سالک لاہور اور مرزا لاہوری سے بھی اکتساب فیض کیا۔ آپ سے سکینۃ الاولیا، مجموعہ البحرین، سرّاکبر اور در سوال و جواب دارا شکوہ بابا لال داس جیسی کتابیں منسوب ہیں۔ سکینۃ الاولیا میں بنیادی طورپر حضرت میاں میرؒ کے حالات زندگی مذکور ہیںجبکہ مجموعہ البحرین میں جس کا مطلب دو سمندروں کا ادغام ہے، اسلامی تصوف اور ہندو مت کے نظریہ ویدانت کے باہمی موازنے پر مشتمل ہے۔اس میں ہندو یوگیوں اور مسلمان صوفیا سے طویل مباحث موجود ہیں، جن کا موضوع جوہر خداوندی اور نظریہ آفرینش ہے۔ سرّاکبر میں داراشکوہ ہندو مت اور سنسکرتی ادب کا تفصیل میں جائزہ لیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سنسکرت میں گیان یعنی علم کے حصول کے لیے نہایت منظم طریقہ کار موجود ہے۔ انھوں نے سنسکرت کے باون اپنشدوں کا فارسی میں ترجمہ بھی کیا۔ وہ اس کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ انھوں نے بنارس سے ہندو پنڈتوں اور یوگیوں کی بڑی تعداد سے ملاقات کی اور دہلی میں چھ مہینوں میں اس کتاب کو مکمل کیا جب ان کی عمر بیالیس برس تھی۔ یوں اس کتاب کی صورت میں وہ ایک بڑے وژن کے ساتھ ایک مذہبی عالم کے طورپر سامنے آتے ہیں۔ کوئی ایک صدی کے وقفے کے بعد اس فارسی متن کا فرانسیسی میں اور پھر انیسویں صدی کے آغاز میں لاطینی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ یورپ میں ان تراجم نے داراشکوہ کی علمیت کا اعتراف جید علمائے دین نے کیا۔ بعدازاں اس کے تراجم جرمن اور دیگر زبانوں میں ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کتاب کا فارسی سے پنجابی زبان میں ترجمہ سکھوں کے دسویں گرو ’گرو گوبند سنگھ‘ نے کیا تھا جنھوں نے خالصہ سنگھ کی بنیاد رکھی تھی۔ مجموعی طورپر نو کتابیں داراشکوہ سے منسوب کی جاتی ہیں، جو سبھی فارسی میں لکھی گئیں۔ ان سب کا مرکزی موضوع مذاہب عالم کی ہمہ گیریت ہے اور یہ نظریہ ہے کہ یہ تمام مذاہب واحد ذات مطلق کی تبَلیغ اور خیر کی ترویج کا مقصد رکھتے ہیں۔ شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر نے آپ کی اسی مذہبی ہمہ گیریت کی طرف مائل سوچ کے خلاف علما سے فتویٰ حاصل کیا اور آپ کو میدان جنگ میں شکست دے کر قتل کروایا۔ گرو گوبند سنگھ پر شہنشاہ اورنگ زیب نے بغاوت کے الزام میں حملہ کیا اور انھیں شکست دی تھی۔ اسی طرح ’در سوال و جواب دارا شکوہ وا بابا لائی داس‘ میں ان دونوں علما کے درمیان مکالمہ کو قلم بند کیا گیا ہے، جو ہندو مت اور برصغیر کی صوفیانہ روایت کے موضوع پر رونما ہوا تھا۔ بابا لائی داس معروف کوی کبیر کے پیروکاروں میں سے تھے اور قصور میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ حضرت میاں میرؒ کے قریبی مصاحبین میں شمار ہوتے تھے۔ یہ مکالمہ سات ملاقاتوں کے دوران رونما ہوا جب دسمبر 1653ء میں داراشکوہ قندھار میں ایک جنگ سے لوٹے تھے اور لاہور میں قیام کیا تھا۔ داراشکوہ ایک شاعر، خطاط اور مصور بھی تھے۔ وہ فارسی میں شعر کہتے تھے جبکہ ان کی شاعری کا موضوع بھی تصوف اور وحدت الوجودیت کا پرچار ہی ہے۔ اسلامی تاریخ میں وحدت الوجودیت کے فلسفہ کی بنیاد رکھنے کا سہرا معروف صوفی ابن عربی ؒکے سر بندھتا ہے، تاہم سنسکرتی ادب اور برصغیر کی تاریخ میں اس کی ابتدائی صورتیں موجود ہیں۔ داراشکوہ نے معروف کتابوں یوگ وششت اور گیتا کا بھی فارسی میں ترجمہ کیا تھا۔ وہ اپنے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو دیگر مذاہب سے متعارف کرانے کے لیے تاکہ وہ ان کے رہن سہن کو سمجھ سکیں اور ان کے ساتھ ایک پرامن معاشرہ قائم کرسکیں، یہ تراجم کیے جا رہے ہیں۔ داراشکوہ ،شہنشاہ شاہجہاں کے سب سے بڑے بیٹے تھے اور شہنشاہ کی طرف سے نامزد ولی عہد بھی۔ آپ کی والدہ ممتاز محل تھیں، جو شہنشاہ شاہجہاں کی سب سے چہیتی بیوی تھی اور جس کی وفات پر شہنشاہ نے تاج محل تعمیرکرایا، جسے دنیا کے عجائبات میں شمار کیا جاتا ہے۔ آپ 20مارچ 1615ء کو اجمیر میں پیدا ہوئے اور کہاجاتا ہے کہ آپ کی پیدائش کے لیے شہنشاہ شاہجہاں نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ میں جا کر منت مانی تھی۔ آپ کا نام آپ کے دادا شہنشاہ جہانگیر نے رکھا، جس کا مطلب عظیم بادشاہ ہے۔ 1675ء میں جب شہنشاہ شاہجہاں بیمار ہوئے تو انھوں نے دارا شکوہ کو، جسے وہ اپنی اولاد میں سب سے عزیز جانتے تھے، اپنا ولی عہد منتخب کرنے کا اعلان کیا کہ ان کی وفات کے بعد ان کا یہ بیٹا تخت پر بیٹھے گا۔اس اعلان کے بعد تینوں بھائیوں میں سموگڑھ میں جنگ چھڑگئی ،جس میں دارا شکوہ کو شکست فاش ہوئی اور اورنگ زیب مغلیہ سلطنت کے تخت پر جلوہ افروز ہوا۔ داراشکوہ نے پنجاب میں شاہ عباس دوم سے مدد حاصل کی، لیکن ایک افغان بلوچ سردار ملک جیون کی غداری کی وجہ سے مغل فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ یہ وہی سردار تھا، جسے ایک مرتبہ داراشکوہ نے شہنشاہ شاہجہاں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچایا تھا اور انھیں اس پر کامل اعتبار تھا، لیکن اسی اعتبار کے ہاتھوں انھوں نے دغا کھائی۔ داراشکوہ اپنے بیٹے سپر شکوہ اور دو بیٹیوں کے ساتھ گرفتار ہوئے۔ اورنگ زیب عالمگیر کی سربراہی میں مذہبی علما کی ایک مجلس نے داراشکوہ کے مقدر کا فیصلہ کیا اور انھیں بدعتی قرار دے کران کے قتل کا فتویٰ جاری کیا۔ کہاجاتا ہے کہ داراشکوہ کو قتل کرکے ان کی لاش کو ایک ہاتھی پر لدوا کر اسے دہلی میں پھروایا گیا۔ انھیں ہمایوں کے مقبرے کے احاطے میں ایک غیر معلوم جگہ دفن کیا گیا۔ مغلیہ دور حکومت بغاوتوں، یورشوں اور آپسی جنگ و جدل سے عبارت ہے۔ داراشکوہ کو گرفتار کرانے میں ان کی بہن روشن آرا بیگم نے بنیادی کردار ادا کیا تھا اور اس نے اس خاندان کے خلاف سازش کی تھی، لیکن وہ بھی شہنشاہ اورنگ زیب کے اعتماد کو بحال نہیں رکھ سکی اور بعدازاں اسے بھی شہنشاہ اورنگ زیب کے حکم پر زہر دے کر ہلاک کردیا گیا کیونکہ اس پر الزام تھا کہ اس نے شہنشاہ اورنگ زیب کے بیٹے اکبر کو باپ کے خلاف بغاوت پر اکسایا تھا۔ داراشکوہ نے معروف صوفی شاعر سرمد کو بھی قتل کرادیا تھا، جس کے بارے میں کہاجاتا تھا کہ وہ عالم دیوانگی میں دہلی کی گلیوں میں گھومتے تھے اور داراشکوہ کے حامیوں شامل تھے۔ سکھ مت کی تاریخ میں بھی داراشکوہ کی طویل علالت کا ذکر ملتا ہے، جس کے علاج کے لیے شہنشاہ شاہجہاں نے کرتا پور، پنجاب میں سکھوں کے ساتویں گُرو ’گرو ہر رائے‘ کے زیر انتظام جاری مطب سے خاص جڑی بوٹیاں منگوائی تھیں۔ اپنی علالت کا ذکر داراشکوہ نے اپنی کتاب سکینۃ الاولیا میں بھی کیا ہے۔ بعدازاں جب داراشکوہ کی اپنے بھائیوں سے جنگ شروع ہوئی تو گرو ہر رائے نے انھیں جنگی امداد فراہم کی تھی۔ اس کے خلاف داراشکوہ کی مدد کرنے پر شہنشاہ اورنگ زیب نے سکھوں کو کبھی معاف نہیں کیا اور جب اس نے دہلی کا تاج و تخت حاصل کرلیا تو اس نے گرو ہر رائے کو اپنے دربار میں طلب کیا، لیکن گرو نے وہاں جانے سے انکار کردیا اور اپنی بجائے اپنے بیٹے بابا رام رائے کو بھیجا۔ اس حکم عدولی کے نتائج بھی گرو کو بھگتنے پڑے۔ دارا شکوہ کو9 ستمبر 1659کو قتل کیا گیا۔ ان کی موت کی خبر نے لاہور میں جو ان کا پسندیدہ شہر تھا ، سوگواری کی لہر دوڑا دی۔ داراشکوہ کے حوالے سے تاریخ میں مختلف روایات موجود ہیں، تاہم اس سے انکار ممکن نہیں کہ وہ مغلیہ سلطنت کے ایک صاحب علم چشم و چراغ تھے، جن سے فکری ، مذہبی اور فلسفیانہ موضوعات پر نو کتابیں منسوب کی جاتی ہیں۔ آپ برصغیر میں مذہب کی بنیاد پر روا رکھی جانے والی منافرت اور تنگ نظری کو ختم کرنے کے خواہاں تھے اور اس خواہش کا اظہار ان کی کتابوں میں ایک سے زائد جگہوں پر ملتا ہے۔ (کتاب ’’دانش ِ مشرق‘‘ سے مقتبس)