حسین ؓسب کا...!
اسپیشل فیچر
اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے، لیکن سانحہ کربلا کے بعد جب بھی محرم الحرام کا نام آتا ہے تو فوراً تذکرہ شہدائے کربلا اور حضرت امام حسین ؓ کا پاکیزہ نام دل و دماغ میں گونجنے لگتا ہے۔ حضرت امام حسین ؓ کی شہادت نے ضمیروں کو بیدار کیا، دلوں کو بدلا، ذہنی انقلاب کی راہیں ہموار کیںاور انسانی اقدار کی اہمیت کو متعارف کروایا۔ کوئی بھی نر م دل ایسا نہیں جو واقعہ کر بلا کو سن کرآ بدیدہ نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیاکاہر انسان حضرت امام حسین ؓ سے عقیدت و محبت جبکہ یزید سے نفرت کا اظہار کرتا ہے۔ امام حسین ؓ کے بارے میں پیغمبرؐ اسلام کی مشہور حدیث مبارکہ ہے، جس میں آپ ﷺ نے فرمایا ’’حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں‘‘ جس کا مقصد یہ ہے کہ شہادت حسینؓ سیرتِ مصطفیﷺ کا ایک باب ہے۔ سرکار دو عالمﷺ نے مسجد نبوی میں اپنے خطبہ کے دوران امام حسین ؓ کو اپنی گود میں بٹھایا اور صحابہ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’ اے لوگو! پہچان لو، یہ میرا نواسہ حسین ؓہے‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا ’’جو اس سے محبت کرے گا ،وہ خدا سے محبت کرے گا اور جو خدا سے محبت کرے گا، وہ جنت میں جا ئے گا ‘‘ اور جو حسینؓ سے دشمنی رکھے گا، وہ مجھ سے دشمنی کر ے گا اور جو مجھ سے دشمنی کرے گا، وہ خدا سے دشمنی کرے گا او رہ جہنم میں جا ئے گا۔ اُم المومنین حضرت بی بی اُم ِ سلمیٰ ؓ فرماتی ہیں ایک دفعہ پیغمبرؐ اسلام امام حسین ؓ کو اپنے سینہ اقدس پر لٹا کر بہت پیار فرما رہے تھے اور اس کے ساتھ رو بھی رہے تھے۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ سے عرض کی یا رسولؐ اللہ !رونے کا سبب کیا ہے ؟تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے اُم سلمیٰؓ ابھی جبریل ؑ، وحی لے کر آئے اور ساتھ یہ مٹی بھی لائے اور کہا کہ آپﷺ کا یہ نواسہ تین دن کا بھوکا پیاسا میدان ِکربلا میں شہید کیا جائے گا۔ اے اُم سلمیٰ!ؓ یہ مٹی اسی جگہ کی ہے، اسے حفاظت سے رکھنا اور جس دن یہ مٹی سرخ ہو جائے، تو سمجھ لینا میرا نواسہ شہید ہو گیا ہے۔اُم ِ سلمیٰ ؓ نے ایک شیشی میں وہ مٹی رکھ دی۔اُم ِ سلمیٰ ؓ کا روزانہ کا یہ دستور تھا کہ اس شیشی پر نگاہ کرتیں۔عاشورہ محرم الحرام کے دن عصر کے قریب اُم ِ سلمیٰ ؓ نے پیغمبر اسلام ﷺ کو خواب میںدیکھا کہ بہت پریشان ہیں، سرِ اقدس پر عمامہ نہیں۔عرض کی یہ کیفیت کیا ہے؟فرمایا: اے اُم ِ سلمیٰ ؓ تمہیں نہیں معلوم میرا نواسہ حسینؓ کربلا میں شہید ہو گیا۔اُم ِ سلمیٰ ؓ فرماتی ہیں کہ میں گھبرا کر بیدا ر ہوئی ۔ اب جو شیشی پر نگاہ پڑی ،تو دیکھا وہ مٹی خون آلود ہو چکی تھی۔ شہادتِ حسینؓ اورواقعہ کر بلا کے بارے میں آ پ ﷺ نے اپنی زند گی میں ہی ذکر فر ما دیا تھا۔امام حسینؓ نے جب مد ینہ سے ہجرت فرمائی ،توآپؓ نے فر ما یا تھا کہ میں اقتدار کیلئے نہیں بلکہ امر باالمعروف و نہی عن المنکر ، یعنی نیکیوں کا حکم دینے اور برائیوں سے روکنے کے لئے نکلا ہوں تا کہ اپنے نا نا کے دین کی حفا ظت اور اُمت کی اصلاح کر سکوں۔اس سے قبل جب آ پ ؓسے در بار ولید میں بیتِ یزید کاسوال کیا گیا، تو آ پؓ نے فر ما یا کہ ہم اہل ِبیت نبوت اور معدن رسالتﷺ ہیں، مجھ جیسا ’’ اس جیسے ‘‘ کی بیت نہیں کر سکتا۔انکار کر کے امام حسین ؓ نے دین ِمصطفیٰﷺ کو بچانے کے لئے شہادت عظمیٰ پر فائز ہو کر دنیائے انسانیت کو یہ درس دیا کہ حق و صداقت کے لیے باطل کے سامنے سر کٹایا جا سکتا ہے، مگر جھکایا نہیں جا سکتاہے۔ امام حسین ؓ کو علم تھا کہ لشکر یزیدی ان کے خون کا پیاساہے۔ آپ ؓ نے شب ِعاشور اپنے باوفا اصحاب اور اپنے اعزا کو ایک جگہ جمع کر کے فرمایا کہ میرے جدﷺ نے خبر دی ہے کہ زمین ِکربلا میں میری شہادت ہو گی اور اس کا وقت قریب آ چکا ہے۔ کل دسویں محرم کو میری شہادت ہو گی،میں تم سب کو اجازت دیتا ہوں ،رات کا پردہ حائل ہے، ہر شخص جہاں چاہے، واپس جا سکتا ہے، مگر امام حسین ؓ کے وفادار اور جانثار ساتھیوں نے اپنی جگہ سے جنبش تک نہ کی بلکہ یک زباں ہو کر کہا کہ اے فرزند رسول ﷺاگر ہم قتل کر دئیے جائیں اور پھر زندہ کر دئیے جائیں تو بھی آپ کی نصرت و رفاقت سے منہ نہ موڑیں گے اور آخر سانس تک ہر گز آپ کا ساتھ نہ چھوڑیں گے۔ امام حسین ؓ کے ساتھیوں نے جس عہد وفا کو نبھایا قیامت تک کے لئے وہ بہترین مثال ہے۔ حضرت امام حسین ؓ نے روز عاشور افواج یزید کو مخاطب ہو کر فرمایا (تا کہ روز محشر کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے علم نہیں تھا )کہ اے لوگو ! مجھے پہچانو، میں کون ہوں، پھر میرے قتل کا فیصلہ کرنا،میں تمہارے نبی کا نواسہ ہوں، کیا میں تمہارے نبی کی بیٹی کا بیٹا نہیں ہوں؟ میں فاتح خیبرعلی بن ابی طالب کا فرزند نہیں ہوں؟ کیا میرے نانا کا فرمان یاد نہیں کہ حسن و حسین ،نوجوانان ِجنت کے سردار ہیں، اگر میری باتیں صحیح ہیں، تو پھر کیا ساری باتیں تمہیں میرے قتل سے باز نہیں رکھتیں؟ امام حسین ؓ نے صبح عاشور نماز کے وقت اپنے جوان بیٹے علی اکبر ؓسے اذانِ صبح دلوائی تا کہ اس آواز کو سن کر شائد لشکر یزیدی ،آپ ؓ کے قتل سے باز آ جائے۔ امام حسین ؓ کا استغاثہ ’ ’ ہے کہ کو ئی جو اس مصیبت میں میری مدد کو آئے‘‘ آ ج بھی فضا میں گو نج رہا ہے، جس سے ہمیں یہ پیغا م ملتا ہے کہ حق کی سر بلندی کیلئے ہم امام حسینؓ کی صدا پر لبیک پر کہتے ہوئے پرچم حسینی تلے ہر قسم کے ظلم کے خلاف متحد ہو جائیں۔آخر روزِ عاشورہ، امام حسین ؓ کو آپؓ کے جانثاروں سمیت تین دن کابھوکا پیاسا شہید کر دیا گیا۔ یہاںتک کہ آپ کے6 مہینے کے شیر خوار بیٹے علی اصغرؓ کو زہر آلود تیر کا نشانہ بنایا گیا۔ واقعہ کربلا نے عظمت انسانی کی سر بلندی کے لیے جو نقوش چھوڑے ہیں، وہ پوری دنیائے انسانیت کے لیے نمونہ عمل ہیں۔ آج اقوام عالم کو جن مسائل کا سامنا ہے ،ان سب کا بہترین حل پیغام حسینی میں مضمر ہے۔