تاریخ ساز شخصیت ۔۔۔۔ حضرت مولانا مفتی محمود
اسپیشل فیچر
حضرت مولانا مفتی محمود ۱۹۱۹ء میں ڈیرہ اسماعیل خان کے گائوں پنیالہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گائوں میں ہی مکمل کی۔ ۱۹۳۳ء میں آپ نے میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول پنیالہ سے امتیازی حیثیت سے پاس کیا اور بعد میں اعلٰی تعلیم کے لیے دیوبند تشریف لے گئے ۔ ایک سال دارلعلوم دیوبند میں رہے اور بعد میں تعلیم مکمل کرنے کے لیے آپ جامعہ قاسمیہ مراد آباد تشریف لے گئے ۔ حضرت مولانا مفتی محمود کی سیاسی زندگی کا آغاز زمانہ طالب علمی سے ہوا۔ دوران تعلیم ہی آپ نے جمعیت علماء ہند میں شمولیت اختیار کی۔۱۹۴۲ء میں آپ نے تعلیم سے فراغت حاصل کی تو ـ\"ہندوستان چھوڑدو\"کی تحریک زوروں پر تھی۔ انگریزی دور کی یہ تحریک بڑی اہم اوردور غلامی کی آخری متحدہ تحریک تھی آپ نے اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔۔ آپ ۱۹۴۴ء کو ہندوستان سے واپس وطن آگئے اور سرحد جمعیت کے پلیٹ فارم پر جدوجہد آزادی کی مہم میں مصر وف ہوگئے ۔بے پناہ صلاحیتوں اور بھر پور ساسی سرگرمیوں کی بدولت جلد ہی جمعیت علماء سرحد کی مجلس عاملہ کے رکن اور آل انڈیا جمعیت علماء کے کونسلر منتخب ہوگئے۔قیام پاکستان کے بعد آپ نے ملتان کے سب سے بڑے دینی تعلیمی ادارے مدرسہ قاسم العلوم کے مدرس کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور آپ بہت جلد شیخ الحدیث اور مفتی کے مناسب پر فائز کر دیئے گئے۔ افتاء کے سلسلے میں آپ کی شہرت و عظمت ملک و بیرون ملک تسلیم کی گئی۔ فقہی مسائل میں آپ کی باریک بینی ،نکتہ آفرینی وسعت علمی اور بلند نظری آپ کے مخالفین بھی مان گئے آپ نے چالیس ہزار سے زائد شرعی فتوے جاری کئے۔ جنہیں علمی اور فنی اعتبار سے چیلنج نہیں کیا جا سکا۔ آپ کا شمار اسی صدی کے ممتاز ترین علماء کرام میں ہوتا ہے۔ آپ ایک بلند پایہ مفکر ،دور بین محقق ،نکتہ سنج فقہیہ،عمدہ مفسر ، بہترین ادیب اور مورخ ہی نہیں تھے بلکہ قانون وسیاست اور سائنس وفلسفہ پر بھی عبور رکھتے تھے آپ کئی زبانوں کے ماہر تھے بالخصوص عربی ،فارسی اور اردو ادب پر آپ کو گہری دسترس حاصل تھی ۔مفتی صاحب کی شخصیت کا سیاسی پہلو بڑا تابناک اور شاندار تاریخی روایات کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے، آپ نے برصغیر کی تقسیم سے پہلے سیاست کی پرخار وادی میں قدم رکھا برٹش استعمار کے خلاف قوی آزادی کی جدوجہد میں بھر پور حصہ لیا۔ قیام پاکستان کے بعد جب سیاست اور معشیت پر مخصوص مفادات کا حامل برطانوی اقتدار کا پیدا کردہ طبقہ مسلط ہوگیا اور اسلام جمہوریت انسانی حقوق اور معاشی آزادی کے داعی افراد اور جماعتوں پر قدغن لگا دی گئی اور علمائے دین (جو برصغیر کی سیاست کا اہم عنصر تھے) کا ملک کی سیاست سے اثر ختم کر دیا گیااور انہیں محض مساجد مدرسوں اور خانقاہوں تک محدود کر دیا گیاتومولانا مفتی محمود پہلے شخص تھے جو نہایت نامساعد حالات ، مالی وسائل اور پروپیگنڈیائی ہتھیاروں سے تہی دست ہوتے ہوئے علماء کی سیاسی اہمیت کو ملک بھر میں تسلیم کروانے سیاسی میدانوں میں علمائے حق کا سکہ پھر سے رائج کرنے اور ملک میں اسلام کی باقی اور قائم رکھنے کے لئے ۱۹۵۶ء میں سکندر مرزا کی صدارت کے دوران سیاسی سٹیج پر نہایت آہستگی اور توازن سے نمودار ہوئے۔یہ وہ دور تھا جب ملک سیاسی عدم واستحکام اور افراتفری کا شکا ر تھاسکند ر مرزا نے وزارتوں کو اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا امریکہ سے چند در چند معاہدوں کی وجہ سے ملکی سیاسی معیشت ، معاشرت اور ثقافت پر امریکی اثر ونفود بڑھتا جا رہا تھا حکومت کا نظام مکمل طور پر نوکر شاہی کے ہاتھوں میں جا چکا تھا۔۱۹۵۶ء میں ہی پاکستان کا پہلا آئین دستور ساز اسمبلی نے منظور کیا تھا جن میں اسلام کا صرف نام ہی استعمال کیا گیا تھاحقیقی اسلام کی عکاسی اس سے نہیں ہوتی تھی۔مولانا مفتی محمود صاحب نے ۱۹۵۶ء کے وسط میں علماء کا ملک گیر کنونشن بلایا جس کی غرض وغایت یہ تھی کہ حقیقی اسلام کے حامی افراد کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے اور پوری تندہی خلوص اور سرگرمی سے ملکی سیاست میں حصہ لیا جائے۔ اگرچہ یہ مفتی صاحب کا پہلا سیاسی اقدام تھا مگر اس کے نتائج بہت حوصلہ افزاء رہے اور اس کنونشن میں جمعیت علمائے اسلام کا باقاعدہ قیام عمل میں لایا گیا اور شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری کو جمعیت کا پہلا امیر چناگیا جو ایک طویل سیا سی تجربہ رکھتے تھے جمعیت کی تاریخ چلتی رہی ملک میں آئین بنتے رہے ان کے بنوانے میں جمعیت اور حضرت مولانا مفتی صاحب نے نمایا ںکردار داکیا اور وقت آیا کہ حضرت مولانا مفتی محمود مئی 1972ء میں صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے،مفتی صاحب نے وزیراعلیٰ سرحد بننے کے بعد اسلامی روایات کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی‘ انہوںنے امتناع شراب کے قوانین جاری کئے اور پہلی مرتبہ صوبہ سرحد میں شراب پر مکمل پابندی عائد کردی گئی مفتی محمود نے وزیراعلیٰ سرحد کی حیثیت سے قرون اولیٰ کے مصنف درویش حکمرانوں کی یاد تازہ کی اور ان کی وزارت اعلیٰ کے دور میں ایک دن بھی دفعہ144کا نہ لگنا ،جہیز پر پابندی ،سرکاری اداروں میں قومی لباس کی تاکید سادگی کی اعلیٰ ترین مثالیں ہیں۔۔جمعہ کی تعطیل کی سفارش‘ اردو کو سرکاری زبان قرار دیناان کی حکومت کے ایسے کارنامے ہیں جو فراموش نہیں کئے جاسکتے ۔پاکستانی سیاست میں یہ روایت بھی پہلی مرتبہ مولانا نے قائم کی کہ جس اکثریت کی نمائندہ حکومت کو بلاوجہ برخواست کیا گیا تو انہوںنے بھی احتجاجاً اپنی حکومت کا استعفیٰ پیش کردیا۔جب1973ء میں بھٹو مرحوم نے مسلمہ جمہوری اقدار کو پامال کرتے ہوئے صوبہ سرحد اور بلوچستان کے گورنر برطرف کردیئے اور بلوچستان کی کابینہ کو بھی سبکدوش کردیا تو مولانا مفتی محمود نے بھٹو کے اس اقدام پر نہایت جرأت وبے باکی سے صدائے احتجاج بلند کی اور وزیراعلیٰ کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا ،ذوالفقارعلی بھٹو کو یہ خیال بھی نہ تھا کہ مولانا مفتی محمود استعفیٰ دیںگے، انہوںنے مفتی صاحب کو کہا کہ حضرت آپ تو ہمارے امام ہیں، آپ کو کسی نے نہیں چھیڑا ،آپ نے استعفیٰ کیوں دیا؟آپ استعفیٰ واپس لیں، مولانا نے جواب دیا کہ پہلے ہمارے اس شکایت کا تدارک کریں جو استعفیٰ کا باعث بنی ہے ‘ بھٹو نے کئی دن تک ان کا استعفیٰ منظور نہ کیا اور مولانا مفتی محمود صاحب کو استعفیٰ واپس لینے پر مجبور کرتے رہے مگر انہوںنے اصولی سیاست پر اپنے منصب کو قربان کردیا اور پاکستان کی سیاست میں ایک روشن وتابندہ مثال قائم کی۔ انہوں نے اس بارے میں مفتی صاحب کو پیغام بھیجا اور ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا لیکن مفتی صاحب نے یہ تجویز مسترد کردی اور کہا کہ:’’ ہم آئین کے پابند ہیں اور اس کی بالادستی کا حلف لیا ہے اس لئے غیر آئینی اقدامات کی حمایت یا اسے درست قرار دینا حلف کی خلاف ورزی ہے۔ وہ کوئی اور ہوں گے جن کو اقتدار سے پیار ہے، میں ایسا نہیں کرسکتا‘‘۔مولانا مفتی محمود نے وزارت اعلیٰ کوٹھوکر مار دی اور یہ یوں ممکن ہوا کہ انہوں نے وزارت اعلیٰ سے کوئی مادی، سیاسی فائدہ نہیں اٹھایا۔ سرکاری کار دفتر کیلئے ضرور استعمال کی کہ اس کی ضرورت تھی ، مگر کوئی تنخواہ اور مراعات حاصل نہیں کیں۔ وزارت اعلیٰ کے منصب کو عوام کی امانت جانا اور ان کی فلاح و بہبود کیلئے وقف کردیا اور یہ ایسا واقعہ ہے جس کی ملکی تاریخ میں مثال نہیںملتی۔ اقتدار چھوڑنا مشکل کام ہے۔ 1973 ء کے آئین کو اسلامی آئین بنانے میں مولانا مفتی محمودکا کلیدی کردار ہے ،مولانا ؒنے سیاسی حقوق کی بازیابی کے علاوہ آئین سطح پر بھی ہر فوجی وسول آمر سے ٹکر لی،1962 کے دستورپر مدلل تنقید کی بلکہ معقول ترامیم بھی پیش کیں۔ 1977 کی تحریک میں قبائلی عوام نے تحریک میں شامل ہونے کی پیش کش کی تومفتی صاحب نے انہیں منع کیا اور فرمایا کہ اگر قبائلی تحریک میں آگئے تو وہ بندوق اٹھائیں گے بندوق اٹھانے سے شدت آئے گی اور میں شدت پسندی کا قائل نہیں۔ مفتی صاحب نے بہت سے قبائلی رہنمائوں اور عمائدین کا رخ مسلح جدوجہد سے سیاسی جدوجہد کی طرف موڑا، اس وجہ سے آج تک قبائلی عوام علماء کرام و جے یو آئی پر اعتماد کرتے ہیں، جس کے لئے جے یو آئی کے تحت قبائلی عمائدین پر مشتمل ’’قبائلی جرگہ ‘‘ہی واحداورپراثر پلیٹ فارم ہے ۔ وزارت اعلیٰ کے منصب تک پہنچے اور بڑے بڑے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی موجودگی میں بھی نوسیاسی جماعتوں کے متحدہ محاذ نے قیادت کی ذمہ داری بھی ان کو سونپ دی اور وہ پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ منتخب ہوئے۔1919ء میں ڈیرہ اسماعیل خان کی سرزمین میں روشن ہونے والا علم کا یہ سورج 63سال تک دنیا کو روشن کرنے کے بعد 14اکتوبر1980ء کو کراچی میںغروب ہوگیا۔ان کے قابل فخرصا حب زادے جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن نے اپنے سیاسی بصیرت اور تدبر و حکمت سے خود کو مولانا مفتی محمود کا صحیح جانشین ثابت کیا ہے اورمولانا فضل الرحمٰن ودیگر اکابر علماء کرام کی قیادت میں جمعیت علماء اسلام کا قافلہ منزل کی جانب رواں دواں ہے۔