قحط الرجال بے مثال نثر نگار مختار مسعود کی شاندار تحریر
اسپیشل فیچر
قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی۔ مرگ انبوہ کا جشن ہو تو قحط، حیات بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال۔ ایک عالم موت کی ناحق زحمت کا دوسرا زندگی کی ناحق تہمت کا۔ ایک سماں حشر کا دوسرا محض حشرات الارض کا۔ زندگی کے تعاقب میں رہنے والے قحط سے زیادہ قحط الرجال کا غم کھاتے ہیں۔بستی، گھر اور زبان خاموش۔ درخت، جھاڑ اور چہرے مرجھائے۔ مٹی، موسم اور لب خشک۔ ندی، نہر اور حلق سوکھے۔ جہاں پانی موجیں مارتا تھا واں خاک اُڑنے لگی، جہاں سے مینہ برستا تھا وہاں سے آگ برسنے لگی۔ لوگ پہلے نڈھال ہوئے پھر بے حال۔ آبادیاں اجڑ گئیں اور ویرانے بس گئے۔ زندگی نے یہ منظر دیکھا تو کہیں دور نکل گئی، نہ کسی کو اس کا یارا تھا نہ کسی کو اس کا سُراغ۔ یہ قحط میں زمین کا حال تھا۔ابردل کھول کر برسا، چھوٹے چھوٹے دریاؤں میں بھی پانی چڑھ آیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایسا جل تھل ہوا کہ سبھی تر دامن ہو گئے۔ دولت کا سیلاب آیا اور قناعت کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا۔ علم و دانش دریا برد ہوئے اور ہوش و خرد میٔ ناب میں غرق۔ دن ہوا و ہوس میں کٹنے لگا اور رات ناؤ نوش میں۔ دن کی روشنی اتنی تیز تھی کہ آنکھیں خیرہ ہو گئیں، رات کا شور اتنا بلند تھا کہ ہر آواز اس میں ڈوب گئی۔ کارواں نے راہ میں ہی رختِ سفر کھول دیا۔ لوگ شادباد کے ترانے گانے لگے، گرچہ منزل مراد ابھی بہت دور تھی۔ زندگی نے یہ منظر دیکھا تو کہیں دور نکل گئی، نہ کسی کو اس کا یارا تھا نہ کسی کو اس کا سراغ۔ یہ قحط الرجال میں اہلِ زمین کا حال تھا۔ شاعر نے یہ حال دیکھا تو نوحہ لکھابے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوقبے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیںدل گرفتگی نے کہا ایسی شادابی اس ویرانی پر قربان جہاں مادرِ ایام کی ساری دخترانِ آلام موجود ہوں مگر وبائے قحط الرجال نہ ہو۔ اس وبا میں آدمی کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ مردم شماری ہو تو بے شمار، مردم شناسی ہو تو نایاب۔ دل کی خاطر مجھے منظور تھی کہ اس کو آرزدہ رکھنا کفر ہے۔ اس کی کشادگی کے بہت سے طریق ہیں جو موقع کی مناسبت سے اختیار کرتا ہوں۔ مجھے یاد آیا کہ دل جوئی کے لئے ایک بادشاہ چھپ کر پُرانی پوستین سر آنکھوں سے لگاتا تھا۔ ہر شخص کے پاس اس کی پوستین ہوتی ہے مگر اکثر اس سے منکر ہو جاتے ہیں کیونکہ اسے قبول کرنے کے لئے جس جرأت کی ضرورت ہوتی ہے اس کی کمیابی قحط الرجال کی پہلی نشانی ہے۔ خود فراموشی کے فریب سے بچنے کے لئے پوستین ہمیشہ سنبھال کر رکھنی چاہیے اور جب دل تنگ ہو جائے یا سنگ بن جائے تو اس سے کشادگی اور گداختگی مستعار لینی چاہیے۔ میرے پاس سر و چشم پر رکھنے کے لئے چند چیزیں ہیں جو میں نے ایک بے رنگ آہنی صندوقچی میں رکھی ہوئی ہیں۔ پرائمری سکول میں یہ میرا بستہ ہوا کرتا تھا۔ اب اس سے بہت سے کام لیتا ہوں۔ یہ کبھی پوستین ہے کبھی چراغ اور کبھی جامِ مے۔ میں اس کی رعایت سے کبھی سبکتگین بن جاتا ہوں کبھی الہ دین اور کبھی جمشید یعنی کبھی خودشناس کبھی دم بخود اور کبھی خود مختار۔ میرے اس بستے میں تحریروں، تصویروں اور تمغوں کے ساتھ ایک چھوٹی سی البم بھی رکھی ہوئی ہے۔13 ستمبر 1938ء کا ذکر ہے، میں مسلم یونیورسٹی ہائی اسکول میں پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔ والد محترم نے فرمایا کہ آج ایک چینی مسلمان عالم ہمارے گھر چائے پر آئے گا، مجھے چاہیے کہ اس سے ملوں اور اس کے آٹوگراف حاصل کروں۔ مہمان کی آمد کی وجہ سے گھر میں سب مصروف تھے مگر اس تجویز کے بعد میری مصروفیت دوسروں سے کچھ زیادہ بڑھ گئی۔ نہ میرے پاس آٹوگراف البم تھی نہ آٹوگراف حاصل کرنے کا تجربہ۔ میں اس کے آداب سے بالکل نا واقف تھا اور واقفیت حاصل کرنے کے لئے صرف دو گھنٹے ملے تھے۔ میں بازار گیا۔ درما فوٹو گرافر کے یہاں بہت سے البم پڑے تھے۔ مجھے نیلے رنگ کی یہ چھوٹی سی آٹوگراف البم پسند آئی۔ جس میں مختلف رنگوں کے صفحات لگے ہوئے تھے اور جلد پر البم کا لفظ سنہرا چھپا ہوا تھا۔ اس کی قیمت صرف چھ آنے تھی۔ اس وقت بھی وہ البم مجھے قیمتی لگی اور میں آج بھی اسے بیش قیمت سمجھتا ہوں، البتہ ان دنوں وجہ کچھ اور تھی اور ان دنوں کچھ اور۔ سہ پہر جب میں نے ناما نوس خال و خط کے مہمان کے سامنے اسے پیش کیا تو بڑی مانوس مسکراہٹ اور شفقت سے انہوں نے میری طرف دیکھا، کچھ باتیں ابا جان سے کیں اور قلم ہاتھ میں لے کر چینی زبان میں تین سطریں لکھیں پھر ان کا لفظی ترجمہ انگریزی میں کر دیا اور دستخط کر کے البم مجھے واپس کر دی۔ میں بہت خوش ہوا حالانکہ نہ چینی سمجھ میں آئی نہ انگریزی۔ ہر اچھے آدمی کے گرد ایک ہالہ ہوتا ہے، اس کے نزدیک جائیں تو دل خودبخود منور ہو جاتا ہے۔ آج میں روشنی کے اس حلقے میں پہلی بار داخل ہوا، اپنے اندھیرے چھٹتے ہوئے محسوس ہوئے۔ یہ خوشی کے ساتھ تعجب کی بات بھی تھی۔ اس چینی پروفیسر نے چینی زبان میں لکھنا شروع کیا تو مجھے حیرت ہوئی کہ سطریں اوپر سے نیچے کی طرف آتی ہیں۔ حیرت اُس وقت دور ہوئی جب یہ سمجھ آیا کہ ہر اچھی بات الہامی ہوتی ہے اور الہام نازل ہوا کرتا ہے۔ معزز مہمان نے چینی زبان میں میری البم میں جو کچھ لکھا تھا اس کی قدرو قیمت مجھے بہت دنوں کے بعد معلوم ہوئی اور یہ بہت سے دن میں نے ایک تلاش میں صرف کئے ہیں۔(مختار مسعود کی’’ آواز دوست‘‘ سے انتخاب)٭…٭…٭