بابا شاہ جمال ؒ کا جلال برصغیر میں دینِ اسلام کا علمبردار
اسپیشل فیچر
روز اول سے جب بھی کسی مردِ درویش کے گرد حاجت مندوں کا میلا لگا تو حکمرانوں نے ہمیشہ اِسے اپنی توہین سمجھا ایسا ہی ایک واقعہ مغلیہ دور میں لا ہو ر میں پیش آیا۔شہر لاہور کو یہ خاص اعزاز حاصل رہا ہے کہ ہر دور میں کسی نہ کسی بڑے کامل درویش کا یہاں بسیرا رہا۔ شہر لاہور میں مغل بادشاہ اکبر کی بیٹی اپنے لیے ایک شاندار فلک بوس شاہی محل تیار کرا رہی تھی شاہی محل پر روپیہ پانی کی طرح بہا یا جا رہا تھا۔ اِس محل کے سامنے ہی ایک درویش کامل کا ڈیرا تھا جو روحانیت میں بہت بڑے مقام کے حامل تھے انہوں نے بھی ایک بلند فلک بوس دمدمہ بنوانے کا ارادہ کیا دمدمہ کا مطلب عارضی قلعہ ہے۔ درویش وقت نے یہ دمدمہ ایک اونچے ٹیلے پر بنانے کا ارادہ کیا اور انتظامات شروع کر دئیے جب تما م تیاریاں مکمل کر لی گئیں تو سب سے بڑا مسئلہ یہ سامنے آیا کہ تمام ماہر مزدور اور مستری یعنی معمار سب کے سب شہزادی سلطان بیگم کے شاہی محل کی تعمیر میں مصرو ف تھے۔ جب مزدوروں اور معماروں کو بلایا گیا تو اْنہوں نے بنانے سے صاف انکار کر دیا کہ ہم شہزادی کے محل کی تعمیر میں مصروف ہیں اور جو اُجرت ہمیں شہزادی دیتی ہیں وہ آپ نہیں دے سکیں گے۔ درویش نے دلنواز مسکراہٹ سے کہا آپ اُجرت پر پریشان نہ ہو ں آپ کو جتنی اُجرت وہاں سے ملتی ہے اتنی ہی ہم بھی دیں گے بلکہ ایک پہر کا معاوضہ پورے دن پر دیں گے اور اگر آپ دن میں وہاں مصروف ہیں تو آپ رات کو ہمارے ہاں مزدوری کریں آپ کو منہ مانگی مزدوری دی جائے گی۔ مزدوروں نے درویش کی بات مان لی اب وہ دن کو شاہی محل کی تعمیر کر تے اور رات کو درویش کے دمدمہ کو تیار کر تے۔ اِسی دوران ایک رات چراغوں کا تیل ختم ہو گیا بہت کوشش کے بعد بھی جب تیل نہ ملا تو کامل درویش نے کہا آپ تیل کی جگہ میرے کنویں کا پانی چراغوں میں ڈالیں وہ تیل کا کام دے گا۔ درویش کے حکم کی تعمیل کی گئی اور پھر پانی کے چراغ جلنا شروع ہو گئے۔ آپ کی اس کرامت سے متاثر مزدور اب بلا معا و ضہ کام کرنے کو تیار ہو گئے لیکن درویش نے یہ بات نہ مانی۔ آپ کا یہ معمول تھا، مزدور جیسے ہی اپنا کام ختم کر یں آپ اپنے مصلے کے نیچے سے رقم نکال کر دے دیتے مزدور حیرت میں تھے کہ مصلے کے نیچے کون سا خزانہ ہے جہاں سے انہیں مزدوری دی جاتی ہے ۔آخر دمد مہ کی سات منزلیں تیار ہو گئیں۔ درویش کی عمارت کی شان کے سامنے شا ہی محل بے رونق اور پست نظر آنے لگا تو درباریوں اور مصاحبوں نے شہزادی بیگم کے کان بھرے۔ شہزادی نے درویش کو پیغام بھیجا کے تمہارے دمدمہ کی اونچائی سے ہمارے محل میں بے پردگی ہو تی ہے لہٰذا فوری طور پر اِس عمارت کو گرادو۔ درویش نے شاہی پیغام سنا تو کہا تمہیں اپنے شاہی مقام اور عمارت پر بہت ناز ہے لیکن کیونکہ تم نے پردے کی بات کی ہے جو خدا کے احکام سے متعلق ہے اس لیے ہم اِس پر عمل کر تے ہیں لیکن یاد رکھو عنقریب تمہارا شاہی محل اور گلشن کا نام ونشان نہیں رہے گا اور پھر دمدمہ کی سب سے اوپر والی چھت پر حالت وجد میں دھمال ڈالنی شروع کر دی ۔آپ کے جلال سے 5منزلیں زمین بوس ہو گئیں صرف دو منزلیں رہ گئیں جو آج بھی زائر ین کو توجہ کا مرکز بنتی ہیں۔ وقت نے کروٹ لی بعد میں سکھوں کی حکومت آئی تو شہزادی کا محل اور باغات اُجاڑ دئیے گئے۔ یوں درویش کامل کی پیشن گوئی سچ ثابت ہو ئی شاہی محل اور باغات کا آج نام تک نہیں جبکہ درویش کامل کا دمدمہ آج بھی مرجع خلائق ہے۔اس درویش کامل کا نام حضرت بابا شاہ جمال ؒ تھا جو جلال و جمال کا مرقع تھے۔ آپؒ کا شجرہ نسب حضرت امام حسینؒ سے جا ملتا ہے۔ آپ ؒ کے والد حضرت عبدالواحد کشمیر کے رہنے والے تھے جو کشمیر سے سیالکوٹ آکر آباد ہو ئے قدرت نے عبدالواحد کو دو عظیم بیٹوں سے نوازا جن کے اسمائے گرامی حضرت شاہ جمالؒ اور حضرت شاہ کمال ؒ تھے۔ دنیاوی تعلیم کے بعد حضرت شاہ جمال ؒ نے عظیم بزرگ حضرت پیر ککرا بیگؒ کے ہاتھ پر سہروردی سلسلے میں بعیت کی جن کی زیر نگرانی آپ ؒ نے عبادت ریاضت مجاہدے کئے۔ مرشد کی صحبت نے آپ کو پارس بنا دیا، مسلسل ریاضت اور مجاہدوں کی بدولت جمال میں جلال کا رنگ آگیا تھا۔ مرشد کے حکم پر آپؒ لاہور تشریف لا ئے اور اچھرہ کے قریب ہی آباد ہو گئے۔جس جگہ آپ ؒ کا مزار ہے یہی وہ جگہ تھی جہاں آپؒ تشریف لائے۔ آپؒ کا شمار اُن علمائے حق میں ہو تا ہے جنہوں نے اکبر کے دین الٰہی کی کھل کر مخالفت کی۔ آپؒ صاحب کرامت بزرگ تھے۔ آپ ؒ کی لا زوال شہرت چاروں طرف پھیل چکی تھی آپؒ کا ایک ہندو عقیدت مند اکثر آپ ؒ کے پاس حاضری دیتا جو بے اولا د تھا آپ ؒ نے اُسے دو خربوزے دئیے اور کہا دونوں میاں بیوی کھا لو تمہارے ہاں دو بیٹے پیداہو نگے ایک مسلمان ہو گا دوسرا ہندو ہو گا۔ مردِ درویش کے الفاظ بارگاہِ الٰہی میں قبول ہو ئے ہندو کے ہاں دو بیٹے پیدا ہو ئے ایک پیدائشی مختوں تھا۔ ہندو دونوں بیٹے لے کر آپ ؒ کے بارگاہ میں حاضر ہوا مختوں بیٹا آپؒ نے رکھ لیا، دوسرا ہندو لے گیا۔ مسلمان بچے کا نام شیخ فخر الدین رکھا گیا آپ ؒنے اُسے بیٹا بنا لیا اور دینی تربیت کے بعد شادی بھی کی۔ اِس بیٹے نے بھی آپ ؒ کی خدمت والد کی طرح کی۔ ایک دفعہ شاہ جمالؒ اپنے بیٹے کے گھر گئے اور آواز دی کہ فوراً گھر سے باہر نکل آؤ۔ تابع فرما بیٹے نے فوری تعمیل کی اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ با ہر نکل آیا۔ جس کے بعد مکان زمین بوس ہو گیا۔ شاہ جمال ؒبو لے مجھے کشفی قلبی سے اطلاع ملی کہ تمہارا مکان گرنے والا ہے۔ آپ ؒکے مرید حسن شاہ جو شیخ حسو تیلی کے نام سے جانے جاتے تھے۔غلہ فروشی کا کام کر تے تھے اور ہر گاہک سے کہتے کہ اپنے ہاتھ سے تول لو۔ یوںاُن کا کاروبار بہت پھیلا اور وہ اتنے امیر ہو گئے کہ تو لنے والے باٹ سونے کے بنا لیے۔ مرید مرشد کی خدمت میں سونے کے باٹ لے کر حاضر ہو ئے تو مرشد نے حکم دیاسونے کے باٹ دریا میں ڈال دو۔ مرید نے تعمیل کی۔ اگلے دن لوگوں نے سونے کے باٹ دیکھے تو جان گئے یہ تو حسو تیلی کے ہیں اور وہ لے کر حسو تیلی کے پاس آگئے۔ مرید مرشد کے پاس لے کر پھر آگیا کہ اب کیا حکم ہے تو مرشد بو لے تیرا ایمان داری کا کمال یہ ہے کہ دریا بھی تیرے باٹ واپس کر دیتا ہے۔ روحانیت کا یہ سورج 14ربیع الثانی کو وفات پا گیا۔ آپ ؒکا سالانہ عرس ہر سال بہت شان سے فیروز پور روڈ اچھرہ کے قریب شاہ جمال کا لونی میں آن بان سے منایا جا تا ہے۔٭…٭…٭