حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃُ اﷲعلیہ

حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃُ اﷲعلیہ

اسپیشل فیچر

تحریر : حاجی محمد حنیف طیب


14 رجب المرجب 537ھ بروز دوشنبہ صبح صادق کے وقت بمقام سنجر علاقہ سیستان میں جلوہ گر ہوئے ،نام نامی اسم گرامی معین الدین حسن القابات عطائے رسول ،غریب نواز ،آفتاب چشتیہ ،سلطان الہند ،نائب رسول اﷲ،وارث انبیاء ۔والد کی طرف سے آپ کا نسب شہید کربلا سیّد نا امام حسین صاور والدہ سے امام الہدیٰ سیّدنا حسن مجتبیٰ صتک پہنچتا ہے ۔سرکار غریب نواز کی والدہ ماجدہ حضورغوث پاک کی چچازاد بہن ہیں ۔اس رشتے سے حضور غوث پاک رحمۃُاﷲعلیہ خواجہ غریب نوازرحمۃُاﷲعلیہ کے ماموں ہوتے ہیں۔سات سال کی عمر شریف تک آپ کی پرورش خراسان میں ہوئی ۔ابتدائی تعلیم کازمانہ والد محترم کے زیر عاطفت گزارا، اس کے بعد سنجر کی مشہور درسگاہ میں داخل ہوئے اور وہیں سے تفسیروحدیث و فقہ کی تعلیم حاصل کی ۔چودہ سال کی عمر شریف میں والد بزرگوار کاسایہ سر سے اُٹھ گیا ۔آپ کے والد ماجدکامزار بغداد مقدس میں ہے ۔کہتے ہیں کہ ایک دن آپ اپنے باغ کو سیراب کررہے تھے کہ اپنے وقت کے مشہور محذوب حضرت ابراہیم قندوزی رحمۃُاﷲعلیہ باغ میں تشریف لائے ۔حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃُاﷲعلیہ نے نہایت عزت واحترام سے انہیں بٹھایااور خوشئہ انگور سے انکی تواضع فرمائی ۔خواجہ کے حسن سلوک سے مجذوب کا دل خوش ہوگیا ۔انہوں نے اپنی تھیلی سے سوکھی ہو ئی روٹی کاایک ٹکڑا نکالااور دانت سے چباکرحضرت خواجہ غریب نواز رحمۃُاﷲعلیہ کو پیش کیا۔اسے کھاتے ہی دل کی حالت بدل گئی ۔سرمستئی عشق کی ایک ہی جنبش میں علائق کی زنجیر ٹوٹ گئی۔اسی عالم میں حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃُاﷲعلیہ نے باغ اور پن چکی فروخت کرکے ساری قیمت فقراء ومساکین پر لٹادی اور حالت بیخودی میں خراسان کیطرف نکل گئے ۔ ۵۴۵سے ۶۲۲ھ تک ۷۷سال کا اکثر حصہ آپ نے سفر میں گزارا ہے ۔اس درمیان میں کہیں ہفتوں کہیں مہینوں اور کہیں سالوں تک قیام بھی ثابت ہے ۔سفر کی پوری تاریخ چونکہ مرتب حالت میں نہیں ہے اس لئے اجمالی طور پر صرف ان مقامات کی فہرست ذیل میں درج کی جاتی ہے ۔جودوران سفر میں سرکار خواجہ کے قدموں کے نیچے سے گزرے ہیں ۔(۱)خراسان (۲) سمرقند (۳)بخارا (۴) عراق (۵)ہراون (۶) بغداد (۷)کرمان (۸)ہمدان (۹) تبریز (۱۰) استرآباد (۱۱)خرقان (۱۲)میمنہ (۱۳) ہرات (۱۴) افغانستان (۱۵) غزنی (۱۶) رے (۱۷) فالوجہ (۱۸) مکہ معظمہ (۱۹)مدینہ طیبہ (۲۰)بدخشاں (۲۱) دمشق (۲۲) جیلان (۲۳) اصفہان (۲۴) چشت (۲۵) ہندوستان ، براہ ، ملتان، لاہور، سمانہ ، دہلی ، اجمیرمقدس۔حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃُاﷲعلیہ نے اپنے پیرومرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃُاﷲعلیہ سے بھی حضرت خواجہ کی کئی بار ملاقات ہوئی۔ ایک ملاقات میں سرکار خواجہ کے متعلق حضور غوث اعظم رحمۃُاﷲعلیہ کی یہ بشارت بھی منقول ہے کہ ’’یہ مرد مقتدائے عالمین میں سے ہوگا اور اس کے ذریعے بے شمار حق کے طالب منزل مقصود کو پہنچیں گے۔انیس الارواح نامی کتاب میں خود حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃُاﷲعلیہ نے اپنے قلم سے اپنے مرشد کی ملاقات اور بیعت کاواقعہ یوں تحریرفرمایاہے ۔مسلمانوں کایہ دعاگومعین الدین حسن سنجری بمقام بغداد شریف حضرت خواجہ جنید کی مسجد میں اپنے مرشد پاک حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃُاﷲعلیہ کی دولت پابوسی سے مشرف ہوا ۔اسوقت روئے زمین کے مشائخ کبار حاضر اقدس تھے ۔جب اس درویش نے سر نیاز زمین پر رکھا ،پیرومرشد نے ارشاد فرمایا’’دورکعت نمازاداکر‘‘میں نے ادا کی پھر فرمایا،قبلہ روبیٹھ ،میں بیٹھ گیا ۔پھر حکم دیا سورہ بقرہ پڑھ ،میں نے پڑھی،فرمان ہوا،اکیس بار دُرود شریف پڑھ ،میںنے پڑھا،پھر آپ کھڑے ہوگئے اور میرا ہاتھ پکڑکر آسمان کیطرف منہ کیا اور فرمایا ۔آ !تاکہ تجھے خدا تک پہنچادوں ‘‘بعدازاں قینچی لے کرسر پر چلائی اور کلاہ چہار ترکی اس درویش کے سر پر رکھی اور گلیم خاص عطافرمائی ۔پھر ارشادفرمایا’’بیٹھ جا ‘‘میں بیٹھ گیا ۔فرمایاہمارے خانوادہ میں ایک شبانہ روز کے مجاہدہ کا معمول ہے ۔آج رات اور دن مشغول رہ۔یہ درویش بموجب فرمان عالی مشغول رہا دوسرے دن بھی جب حاضر خدمت ہوا۔ارشاد فرمایا’’آسمان کی طرف دیکھ ‘‘میں نے دیکھا۔دریافت کیا کہاں تک دیکھتاہے، عر ض کیا۔ عرش اعظم ،پھر فرمایا۔زمین کی طرف دیکھ میں نے دیکھا۔ فرمایا اب کہاں تک دیکھتا ہے عر ض کیا حجاب عظمت تک ۔فرمایاآنکھیں بندکرلے میں نے بند کرلیں،فرمایاکھول ،میں نے کھول دیں پھر مجھے اپنی انگلی دِکھاکر سوال کیا ۔کیا دیکھتا ہے ،میں نے عر ض کیا اٹھا رہ ہزار عالم، بعدازاں سامنے پڑی ہوئی ایک اینٹ اٹھانے کا حکم دیا،میں نے اُٹھایا ۔اس کے نیچے اشر فیوں کا ڈھیر پڑا ہو اتھا ۔فرمایا اسے لیجاکر فقیر وں کو تقسیم کردے ،میں نے حکم کی تعمیل کی ۔واپس لوٹ کرآیا توا رشاد ہوا چند روز ہماری صحبت میں گزار۔اپنی اسی کتاب انیس الارواح شریف میںایک مقام پر حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃُاﷲعلیہ تحریر فرماتے ہیں کہ حرم کعبہ کی پاک سر زمین پر ایک دن پیرومرشد نے میر اہاتھ پکڑا اور مجھے حق تعالیٰ کے سپر د کردیا ۔اس کے بعد میزاب رحمت کے نیچے کھڑے ہو کرمیرے حق میں نہایت درد انگیز مناجات کی پردۂ غیب سے آواز آئی ہم نے معین الدین کو قبول کرلیا ۔فرماتے ہیں کہ حرم مکہ کی معنوی برکتوں اور سر مدی نعمتوں سے جب ہم بہرہ یاب ہوچکے تو پیرو مرشد نے اس شہر محترم کا رُخ کیا جو کائنات گیتی کا مرکز عشق ہے ۔مدینہ طیبہ کی پرُ نور وشاداب آبادی پرجیسے ہی نظر پڑی جذبۂِ شوق کا عالم زیروزبر ہوگیا ۔اس محبوب سر زمین کی خاک کو آنکھوں سے لگایا بوسہ لیا اور روحانی نشاط سے شاد کام ہوئے ۔سلطان کونین کے دربار میں حاضری کا سماں احاطہ تحریر سے باہر ہے، جب مواجہ اقدس میں پہنچے تو پیرومرشد نے فرمایا ۔دوجہاں کے مالک کو انتہائی ادب واحترام کے ساتھ سلام عر ض کیا ۔روضہ پاک سے آواز آئی’’ وعلیکم السلام یا قطب المشائخ بروبحر ‘‘یہ جواب سُن کر پیرومرشد نے سجدہ شکر ادا کیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا اب تو در جہ کمال کو پہنچ گیا ۔دوران ِسفر بیس سال تک اپنے مرشدکی خدمت کرنے کے بعد حضر ت خواجہ باون سال کی عمر میں اپنے پیرو مرشد سے رخصت ہوئے۔ وقت رخصت پیر ومرشد نے آپ کو خرقہ خلافت سے سر فراز فرمایا۔اور تبرکات محمدیﷺ جو حضر ت خواجگان چشت میں بسلسلہ چلے آرہے تھے۔آپ کو عطا فرماکراپنا جانشین وصاحب سجادہ بنایا۔خود حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃُاﷲعلیہ نے ان واقعات کی تفصیل اپنے قلم سے یوں بیان فرمائی ہے ۔’’آقائے نعمت حضرت پیرومرشد نے فرمایا،اے معین الدین ! میں نے یہ سب کام تیری تکمیل کے لیئے کیا ہے ۔تجھ کواس پر عمل کرنا لازم ہے۔ فرزند خلف وہ ہی ہے جواپنے ہوش وگوش میں اپنے پیر کے ارشادات کوجگہ دے ‘‘ اس ارشاد کے بعد عصائے مبارک جو مرشد کے سامنے رکھا تھا ،دعاگوکو عطا فرمایا ،بعد ازاں خرقہ شریف ،نعلین چوبی اور مصلیٰ بھی عنایت فرمایا ،پھر ارشاد فرمایا۔یہ تبر کات ہمارے پیر ان طریقت کی یاد گار ہیں جورسول اﷲﷺسے ہم تک پہنچے ہیں اور ہم نے تمہیں دیے ہیں ۔ان کو اسی طرح اپنے پاس رکھنا جس طرح ہم نے رکھا جس کو مرد پانا اس کو ہماری یہ یاد گار دینا یہ ارشاد فرماکر مجھے اپنی آغوش مبارک میں لے لیا۔سروچشم کو بوسہ دیا اور فرمایا تجھ کو خدا کے سپر د کیا پھر عالم تحیر میں مشغول ہوگئے ،دعا گورخصت ہوا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
نمونیابچوں کو نگلنے والا مرض

نمونیابچوں کو نگلنے والا مرض

12 نومبر کو دنیا بھر میں نمونیا سے آگاہی کا عالمی دن منایا جاتاہے۔ یہ دن منانے کا مقصد اس بیماری سے بچائو اور احتیاطی تدابیر سے متعلق لوگوں میں شعور و آگاہی پیدا کرنا ہے۔نمونیا پھیپھڑوں میں ہونے والے انفیکشن کو کہتے ہیں۔یہ مرض لاحق ہونے کی صورت میں جسم میں آکسیجن کی کمی ہونے لگتی ہے، جس کے نتیجے میں جسمانی اعضا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور بالآخر انسان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں شیر خوار بچوں کی اموات کی بڑی وجہ نمونیا ہے۔ اس کی ابتدائی علامات نزلہ اور زکام ہوتی ہیں تاہم اس کی درست تشخیص کیلئے ایکسرے کیا جانا ضروری ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور بل اینڈ میلنڈا گیٹس فائونڈیشن کے اشتراک سے عالمی ادارہ صحت برائے اطفال کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق افریقی ممالک میں 5 سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ نمونیا ہے۔ ان ممالک میں انگولا، ایتھوپیا، نائجیریا اور تنزانیہ شامل ہیں۔ اسی طرح ایشیا میں بھی یہ شیر خوار بچوں کی ہلاکت کا سبب بننے والی بیماری ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں ہر سال کم و بیش 70 ہزار سے زائد بچے نمونیا کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق 2018ء میں دنیا بھر میں 4 لاکھ37 ہزار بچوں کی موت نمونیا کی وجہ سے ہوئی۔ سب سے زیادہ نمونیا پائے جانے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ رپورٹ میں 2018ء کے اعدادو شمار کے حوالے سے نمونیا سے متاثرہ ممالک کی درجہ بندی بھی کی گئی ہے، جس میں پاکستان کا تیسرا نمبر ہے جبکہ بھارت دوسرے اور نائیجیریا پہلے نمبر پر ہے۔ عالمی ادارہ صحت برائے اطفال کی رپورٹ کے مطابق ہر 39 سیکنڈ میں ایک بچہ نمونیا کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے جبکہ روزانہ کم از کم 2200 بچے نمونیا کے باعث جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق زیادہ تر اموات 2 سال سے کم عمر بچوں میں دیکھنے میں آئیں جبکہ سالانہ ایک لاکھ 53 ہزار بچے زندگی کے پہلے مہینے میں ہی نمونیا کی وجہ سے دم توڑ دیتے ہیں۔ماہرین کے مطابق بچوں کی طرح بزرگ افراد بھی نمونیا کے باعث موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔ ایسے افراد جو پہلے ہی کسی مرض میں مبتلا ہوں جیسے دمہ، ذیابیطس اور امراض قلب،انہیں اگر نمونیا ہوجائے تو یہ ان کیلئے شدید خطرے کی بات ہے۔جن افراد کی قوت مدافعت کمزور ہو وہ بھی نمونیا کے باعث موت کا شکار ہوسکتے ہیں۔علامات : بلغم والی کھانسی ،تیز بخار، سانس لینے میں دشواری ،سینے میں درد ،بہت زیادہ پسینے آنا، معدہ یا پیٹ کا درد ،پھیپھڑوں میں سے چٹخنے کی سی آوازیں آنا ،بھوک ختم ہونا کھانسی یا بلغم کو نگلنے کی وجہ سے قے ہونا ،حد درجہ تھکاوٹ، ذہنی، جسمانی اور جذباتی طور پر پریشانی محسوس ہونا۔علاج: نمونیا میں ماہرین صحت اینٹی بائیوٹکس کا کورس تجویز کرتے ہیں جسے پورا کرنا ازحد ضروری ہے۔ اگر کورس کے دوران مریض کی حالت بہتر ہوجائے تب بھی کورس کو ادھورا نہ چھوڑا جائے۔نمونیا ایک ایسا انفیکشن ہے جو ایک یا دونوں پھیپھڑوں میں ہوا کی نالیوں میں سوجن پیدا کرتا ہے۔ڈاکٹر کیا کر سکتا ہے؟: اگر ڈاکٹر کو نمونیا کا شبہ ہوتو ممکن ہے کہ آپ کے بچے کے سینے کا ایکسرکرے۔ ڈاکٹر آپ کے بچے کے خون کے کچھ ٹیسٹ بھی کروانے کی ہدایت دے سکتا ہے۔ وائرس کے باعث ہونے والے نمونیا کا علاج اینٹی بائیوٹک سے کرنے کی ضرورت نہیں لیکن وائرل اور بیکٹیریل کی الگ الگ وجوہات بتانا مشکل ہو سکتی ہیں۔ اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کرنے سے پہلے آپ کے بچے کا ڈاکٹر بہت سے عوامل کو مدنظر رکھے گا۔ اس مرض سے متاثرہ شدہ پھیپھڑے ایکسرے میں سفید آتے ہیں یہ سفید سایہ پھیپھڑوں کی ہوا کی نالیوں میں مادہ بننے کی وجہ سے نظر آتا ہے۔کھانسی :اس بات کا بھی امکان ہے کہ آپ کے بچے کی کھانسی صحیح ہونے سے پہلے شدید ترین ہو جائے، جیسے ہی نمونیا تحلیل ہوتا ہے آپ کا بچہ بلغم سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے کھانسے گا۔ ممکن ہے کہ اس کی کھانسی کچھ ہفتوں تک جاری رہے۔ احتیاط :اکثر لوگ کھانسی کی عام شکایت دور کرنے کیلئے چند سادہ اور گھریلو نسخوں کا سہارا لیتے ہیں جو کارآمد بھی ثابت ہوتے ہیں، لیکن بعض صورتوں میں یہ نظامِ تنفس میں خرابیوں کا سبب بن سکتے ہے۔ اس کی وجہ سے حلق کی سوزش، سانس کی نالی میں انفیکشن یا پھیپھڑوں کے مسائل جنم لیتے ہیں اور موثر علاج نہ کیا جائے تو یہ مسئلہ خطرناک شکل اختیار کر سکتا ہے۔ماہرینِ صحت کے مطابق شدید کھانسی کی شکایت تین ہفتے سے زائد عرصے تک برقرار رہ سکتی ہے۔ عام طور پر بازار میں دستیاب ادویات کے استعمال سے افاقہ ہو جاتا ہے، لیکن بعض صورتوں میں کھانسی سے نجات حاصل کرنے میں زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔ کھانسی کا تعلق نظام تنفس کی پیچیدگیوں سے ہوتا ہے۔ یہ خشک اور شدید قسم کی ہو یا اس کی وجہ سے حلق کی سوزش کا مسئلہ پیدا ہو گیا ۰ہو۔متاثرہ فرد کو فوراً طبی علاج کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ 

ڈیتھ اسٹار لیزرہتھیار

ڈیتھ اسٹار لیزرہتھیار

لیزر ٹیکنالوجی کے بغیر ہم آج کے جدید طرزِ زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ لیزر وہ روشنی ہے، جو قدرتی طور پر ہماری کائنات میں وجود نہیں رکھتی۔ یکساں رفتار کے ساتھ حرکت کرنے والی اور یوں ایک دوسرے کو اور زیادہ طاقتور بنانے والی اِن لہروں کے بارے میں پیش گوئی تو آئن سٹائن نے بھی کی تھی لیکن ان کی باقاعدہ دریافت 64سال پہلے ہوئی۔پہلی مرتبہ لیزر شعاعوں کو سولہ مئی 1960ء کو امریکی انجینئر تھیوڈور میمن نے دنیا سے متعارف کروایا تھا۔64 سال پہلے جب اِس ٹیکنالوجی کو متعارف کروایا گیا تو بہت سے لوگوں نے اِسے کسی مسئلے کے حل کی بجائے الٹا اِسے ایک مسئلہ قرار دیا تھا۔ لیزر شعاعیں دھات کی موٹی تہوں کو کاٹنے اور کسی خلیے کے اندر تک جھانک کر ساری تفصیلات دکھانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اِنہیں کاروں کے مختلف حصوں کو ویلڈنگ کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ ملانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اور یہ فائبر گلاس کے ذریعے دنیا کے کونے کونے تک ڈیٹا پہنچا سکتی ہیں۔اِن شعاؤں کے بغیر نہ تو موبائل فونز کی بیٹریاں تیار کی جا سکتی ہیں اور نہ ہی دل کے عارضے میں مبتلا مریضوں کیلئے ہارٹ پیس میکر بنایا جا سکتا ہے۔ اور تو اور، لیزر شعاعوں کے بغیر نہ تو سی ڈی کا وجود ہوتا اور نہ ہی ڈی وی ڈی کا۔ اِس قدر کامیابیوں کے باوجود انسان ابھی لیزر کے تمام تر امکانات سے واقف نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ا ِن شعاعوں پر تحقیق کا سلسلہ پوری دْنیا میں جاری ہے۔حال ہی میں چین کے سائنسدانوں نے ایک حقیقی ''ڈیتھ اسٹار‘‘لیزر ہتھیار میں اہم پیش رفت کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ نیا ہائی پاور مائیکروویو ہتھیار کئی چھوٹی برقی مقناطیسی لہروں کو یکجا کر کے ایک بڑا لیزر بیم بناتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے ''اسٹار وارز‘‘کی ڈیتھ اسٹار نے کئی چھوٹی شعاعوں کو یکجا کر کے ایک طاقتور شعاع سے سیاروں کو تباہ کیا تھا۔ ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ پیش رفت ''ultra-high time precision synchronization‘‘ کے عمل میں ہے، جو شعاعوں کو آپس میں جوڑنے اور ایک ہی مقام پر مرکوز کرنے کی اجازت دیتا ہے۔سائنسدانوں کے مطابق، چھوٹی لیزر شعاعوں کے درمیان وقت کی تفریق 170 پیکو سیکنڈز سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے، یعنی سیکنڈ کے کھربوں حصوں کے برابر۔ محققین نے یہ کامیابی آپٹیکل فائبرز کی مدد سے حاصل کی۔ یہ عظیم ٹیکنالوجی کی ترقی جو آپٹیکل فائبرز کے استعمال سے ممکن ہوئی نے ہتھیار کے نظام کو فوجی تجربات میں کامیاب ہونے کی اجازت دی۔چینی حکام کا کہنا ہے کہ یہ ہتھیار امریکی جی پی ایس اور دیگر سیٹلائٹس کے سگنلز کو دبا سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سائنسدانوں کی ٹیم کا دعویٰ ہے کہ شعاعوں کی مشترکہ طاقت انفرادی شعاعوں کی طاقت سے زیادہ ہو سکتی ہے۔یہ ہتھیار خلا میں استعمال کیلئے بنائے گئے ہیں نہ کہ زمینی، بحری یا فضائی افعال کیلئے۔ چین لیزر ہتھیاروں پر طویل عرصے سے کام کر رہا ہے۔ پچھلے سال یہ انکشاف ہوا تھا کہ چینی حکومت ایک ''دماغی خلل ڈالنے والا‘‘ ہتھیار تیار کر رہی ہے۔ یہ پروگرام غیر ملکی ممالک کے فوجی اور حکومتی عہدیداروں کو ہدف بنانے کیلئے بنایا گیا تھا۔ سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کے ایسٹ ایشین انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو نے کہا کہ یہ ہتھیار ممالیہ کے دماغوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور حتیٰ کہ ان پر قابو بھی پا سکتے ہیں۔ چین نے چند سال قبل ایک پروٹو ٹائپ لیزر رائفل بھی تیار کی تھی جو نصف میل کی دوری سے ہدف کو جلا سکتی تھی۔ 

آج کا دن

آج کا دن

مائی لائی قتل عام12 نومبر 1969ء کو امریکہ کے ''پولٹزر ایوارڈ‘‘ یافتہ صحافی سیمر ہیرش نے دنیا کو ویتنام میں ہونے والے ''مائی لائی قتل عام‘‘ سے آگاہ کیا۔ اس قتل عام میں امریکی فوجیوں نے بچوں اور عورتوں سمیت 500 سے زائد شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ ویت نام جنگ کے دوران ریاستہائے متحدہ امریکہ کے فوجیوں نے مائی لائی اور میرا کیہ کے گاؤں میں ویتنامی شہریوں کا یہ قتل عام 6 مارچ 1968ء کو کیا تھا۔جرمنی میں ریفرنڈم12نومبر1933ء کو جرمنی میں لیگ آف نیشنز سے دستبرداری کیلئے ایک ریفرنڈم کروایا گیا۔اس ریفرنڈم کو95.1فیصد لوگوں نے منظور کیا۔ یہ ہٹلر کی قیادت میں ہونے والا پہلا ریفرنڈم تھا۔ بیلٹ پیپر پر یہ سوال تحریر کیا گیا تھا کہ '' کیا آپ جرمن حکومتی پالیسی کو منظور کرتے ہیں اور کیا آپ اپنی رائے اور مرضی کے اظہار کے طور پر اس بات کا اعلان کرنے کیلئے تیار ہیں‘‘؟پیرس نمائش 12 نومبر 1900ء میں بین الاقوامی پیرس نمائش دیکھنے والے زائرین کی تعداد 50 ملین (5کروڑ)کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی۔ اس نمائش میں سلطنت عثمانیہ کے آجروں سمیت 76 ہزار سے زائد آجروں نے شرکت کی۔ نمائش میں سینما ، فلمیں اورچلتی سیڑھیاں زائرین کی توجہ کا مرکز بنیں۔جہازوں کا ہوا میں تصادم12نومبر1996ء کو بھارت کی فضا میں ایک ہولناک حادثہ پیش آیا۔ سعودی عرب کی پرواز 763 اور قازقستان ایئر لائنز کی پرواز 1907دہلی کے مغرب میں 100کلومیٹر دور واقعہ چرخی دادری میں ایک دوسرے سے ہوا میں ٹکرا گئیں۔ اس حادثے میں دونوں طیاروں میں سوار349افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ فضاء میں ہونے والے حادثات میں سب سے مہلک حادثہ سمجھا جاتا ہے۔ تحقیقات میں معلوم ہوا کہ حادثے کی وجہ قازقستان ایئر لائنز کے عملے کا جہاز کی بلندی برقرار نہ رکھنا تھا۔ ایس ٹی ایس ٹو خلائی شٹل''ایس ٹی ایس ٹو‘‘ ناسا کی جانب سے بھیجا جانے والا دوسرا خلائی شٹل مشن تھا۔ جس کا آغاز 12نومبر1981ء کو کیا گیا اور دو دن بعد14نومبر کو یہ اپنے مدار میں داخل ہوا۔ اس شٹل کے ذریعے بہت سے تجربات کئے گئے جن میں شٹل امیجنگ ریڈار کا بھی استعمال کیا گیا۔ اس شٹل کی جانب سے سرانجام دیئے جانے والے اہم کاموں میں ''آربیٹل مینیوورنگ سسٹم‘‘ پر مختلف ٹیسٹ بھی شامل تھے۔ جن میں مدار میں رہتے ہوئے انجن کو شروع کرنا اور اس کے مدار میں مختلف ایڈجسٹمنٹ کرنا سب سے مشکل کام تھا۔ایردوت معاہدہایردوت معاہدہ 12نومبر1995ء کو جمہوریہ کروشیا اور مقامی حکام کے درمیان سرکاری طور پر طے کیا جانے والا ایک معاہدہ تھا۔ مشرقی کروشیا میں جنگ آزادی کے پرامن حل پر مشرقی سلاونیا، بارانجا اور مغربی سیرمیم کے علاقے کے سرب حکام نے مرکزی حکومت کے کنٹرول کا عمل شروع کیا اور اقلیتوں کے حقوق اور پناہ گزینوں کی واپسی پر ضمانتوں کا ایک سیٹ فراہم کیا۔ اس معاہدے کا نام ایردوت Erdut رکھا گیا تھا کیونکہ اس پر دستخط ایردوت گاؤں میں کئے گئے تھے۔

مارٹن کوپر موبائل فون کا بانی

مارٹن کوپر موبائل فون کا بانی

یہ 3 اپریل 1973ء کا ایک دن تھا جب ناسا کے زیر انتظام ''اپولو پروگرام‘‘ کے ایک سابق امریکی انجینئر جوئل اینجل، بیل لیبز نامی کمپنی کی لیبارٹری میں معمول کا کام کر رہے تھے جب ان کے لینڈ لائن فون پر گھنٹی بجی۔انہوں نے فون اٹھایا، ہیلو کیا تو دوسری طرف سے آواز آئی، '' ہیلو جوئل‘‘۔ یہ آواز ''موٹورولا ‘‘ نامی ریڈیو اور الیکٹرانکس کمپنی کے انجینئر مارٹن کوپر کی تھی۔کوپر نے اپنے مخاطب اینجل کو فاتحانہ اور جذباتی انداز میں مخاطب کر کے کہا ،'' مسٹر اینجل ! کیا تم سوچ سکتے ہو کہ اس وقت میں تم سے ایک موبائل فون کے ذریعے بات کر رہا ہوں۔ایک حقیقی موبائل فون،ایک ایسا فون جسے ہاتھ میں تھامے کہیں بھی لے جایا جا سکتا ہے‘‘۔یہ آج سے لگ بھگ 51 سال پہلے دنیا کے سب سے پہلے موبائل فون کی وہ گفتگو تھی جو دو سائنسدانوں کے درمیان ہوئی تھی ، صرف یہی نہیں بلکہ فون پر بجنے والی یہ گھنٹی بھی کسی موبائل فون کے ذریعے پہلی گھنٹی تھی۔ موبائل فون کی ایجاد کا آئیڈیا دراصل دو کمپنیوں یعنی '' موٹورولا‘‘ اور '' بیل لیبز‘‘ کے ذہنوں میں ایک عرصہ سے چل رہا تھا اور دونوں کمپنیوں کے انجینئر ز سر توڑ کوششو ں میں مصروف تھے کہ انہیں ایک ایسے فون کی ایجاد تک رسائی میں کامیابی ہو جائے جو تاروں کے جھنجھٹ سے آزاد ہو تاکہ اسے کہیں بھی باآسانی لے جایا جا سکے۔ چنانچہ اس مسابقتی جنگ میں 1973ء میں موٹورولا کمپنی کے انجینئر مارٹن کوپر پہل کرکے تاریخ کے پہلے '' موبائل فون موجد‘‘ کی حیثیت سے تاریخ میں اپنا نام رقم کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ کوپر کو '' موبائل فون کا باپ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔2010ء میں مارٹن کوپر نے برطانوی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتا یا، میرے ذہن میں اکثر یہ خیال آتا تھا کہ چونکہ ہم سو سال سے زیادہ عرصہ سے ایک تار کے ذریعے گھر یا دفتر کے فون سے بندھے ہوئے ہیں جبکہ ہماری سوچ یہ تھی کہ انسان بنیادی طور پر ایک متحرک مخلوق ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ وہ جہاں بھی ہوں ایک دوسرے سے جڑے رہیں۔ ہمیں ایک ایسے آلے کی خواہش تھی جو ہماری ان خواہشات پر پورا اترتا ہو۔ ہم اپنی اس خواہش کے ہدف تک پہنچنے کی کوشش میں دن رات جتے رہتے تھے۔ہم نے سب سے پہلے جو آلہ ایجاد کیا، وہ ایک چھوٹی سی ہینڈ ہیلڈ ڈیوائس تھی،جسے ''کمیونیکیٹر‘‘کا نام دیا گیا۔یہ ڈیوائس تقریباً 4 انچ لمبی اور اس کا وزن آدھ کلوگرام تھا۔ اس کے ذریعے شروع میں صرف بیس منٹ تک بات ہو سکتی تھی کیونکہ اس کی بیٹری کا دورانیہ ہی اتنا ہوتا تھا۔یہ پہلا فون اینٹ کی شکل کا ہوتا تھا جس میں ایک بڑا انٹینا لگا ہوتا تھا مگر اس میں کوئی سکرین نہیں تھی۔اگرچہ یہ دیکھنے میں کوئی خوبصورت اور پرکشش نہیں تھا، تاہم یہ ایک تاریخ رقم کرنے میں ضرور کامیاب ہو گیا تھا۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ 1973ء میں دنیا کے پہلے موبائل فون کی پہلی کال کی ایجاد اس قدر مقبول ہو جائے گی کہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس موبائل فون کی صنعتوں کا جال بچھ جائے گا۔ شروع شروع میں یہ ایک انتہائی مہنگا پراجیکٹ تھا۔اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1983ء تک ایک موبائل فون کی قیمت 4 ہزار ڈالر تھی جو آج کل قدر کے حساب سے 10 ہزار ڈالر بنتے ہیں ( یعنی پاکستانی 27 لاکھ 92ہزار روپے تقریباً )۔ شروع شروع میں ان کی ٹیم کو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ ہزار کے لگ بھگ پرزوں پر مشتمل فون کے حجم کو کیسے کم کیا جائے کیونکہ اس نئے فون کا ایک بڑا حصہ بھاری بھر کم بیٹری پر مشتمل تھا۔ اس بیٹری کا دورانیہ صرف 20 منٹ پر مشتمل تھا۔اسی ا نٹر ویو میں مارٹن نے بتایا کہ پہلا موبائل فون بنانے پر موٹورولا کمپنی کا تقریباً دس لاکھ ڈالر خرچہ آیا تھا۔ اس وقت تک انہیں قطعاً یہ اندازہ نہیں تھا کہ صرف 35سال میں دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی کے پاس اپنا موبائل فون ہو گا اور یہ کہ ٹوئٹر اور فیس بک نامی سہولتیں بھی معرض وجود میں آئیں گی۔ ایک سوال کے جواب میں مارٹن نے کہا موبائل فون بنانے کا ابتدائی مقصد تو ڈاکٹرز اور ہسپتال کے عملے کے درمیان موثر رابطوں کو بہتر کرنا تھا لیکن ایسا ہمارے گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن سگریٹ کی ڈبیہ جتنا یہ آلہ ہر عام و خاص کی جیب میں ہو گا۔ ٹیکنالوجی کی اس دوڑ میں کمپیوٹر چپس اور ٹرانزسٹر چھوٹے سے چھوٹے اور تیز سے تیز ہوتے چلے گئے جن سے ان آلات کی فعالیت اور استعمال کو وسعت ملتی چلی گئی۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ تکنیکی صلاحیتیں دن بدن بہتر سے بہتر ہوتی جا رہی ہیں۔یہاں تک کہ آج کے سمارٹ فونز میں بنکنگ سے لے کر ہر شعبہ زندگی کی سہولت موجود ہے۔گویا آپ کا پرسنل اسسٹنٹ آپ کی جیب میں ہے اور تو اور آپ کا کیمرہ ، آپ کی سینما سکرین، آپ کا میوزک سسٹم آپ کا بیرو میٹر، تھرما میٹر ، میگنیومیٹر ، انفراریڈ سینسرز ، فنگر پرنٹ سینسرز ، سکینر سمیت اور بہت کچھ صرف آپ کے ایک '' ٹچ‘‘ کے تابع ہیں۔ موبائل فونز کے انٹر نیٹ کی رفتار میں بہتری کے بعد اب ان کی کمپیوٹیشنل صلاحیتوں میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔مثال کے طور پر اگر میڈیسن کے شعبے کی بات کریں تو دماغ کی سرجری میں آئی فون نے پہلے ہی ان مہنگے آلات کی جگہ لینی شروع کردی ہے جو انڈوسکوپ کے ذریعے لی گئی ویڈیو ز دکھاتے ہیں۔ یہی حال ویڈیو کالنگ کا ہے جو دور دراز علاقوں میں مریضوں کے ساتھ بات چیت اور ان کی تشخیص کو ممکن بناتی ہے غرضیکہ موبائل فون کے استعمال اور سہولیات کا دائرہ کار اس قدر وسیع ہے کہ بادی النظر میں عقل اسے تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔ سمارٹ فون نعمت تو ہے لیکن موبائل فون جس تیزی سے ہماری ذاتی اورمعاشرتی زندگیوں کا جزولاینفک بن کر سامنے آیا ہے۔ اس کا اندازہ خود اس کے خالق، مارٹن کوپر کو بھی نہ تھا ، تبھی تو اس نے ایک موقع پر کہا تھا ''لوگ ایک جنون کی طرح اس کو استعمال کرنے لگ گئے ہیں۔ جب میں کسی کو سڑک پار کرتے وقت موبائل فون استعمال کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ ایسے لوگوں کا دماغ خراب ہے، اگر ایسے میں ان پر کوئی گاڑی چڑھ دوڑے تو پھر افسوس کرنے کا کیا فائدہ۔ آگے چل کر اسی انٹرویو میں مارٹن کوپر کہتے ہیں ، میں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہ تھا کہ موبائل فون ایسے استعمال ہو گا جیسے میرے پوتے اور نواسے کرتے ہیں‘‘۔  

موبائل فون زحمت بھی ہے

موبائل فون زحمت بھی ہے

جیسے کہا جاتا ہے کہ زندگی میں ہر چیز کی زیادتی باعث نقصان ہو سکتی ہے ۔ یہی حال موبائل فون کے بے جا استعمال کے نقصانات کا ہے ، جس کا زیادہ استعمال بچوں ، بوڑھوں بلکہ سبھی کی صحت کو درپیش ہے۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں موبائل فون کے بڑھتے استعمال کی وجہ سے آنکھوں میں تابکاری اثرات کی وجہ سے ''مائیوپیا‘‘ اور دیگر مسائل جنم لے رہے ہیں۔آگے چل کر اسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تابکاری کے یہ اثرات دماغ اور جلد پر بھی براہ راست اثر انداز ہو رہے ہیں ، یہی نہیں بلکہ دماغ میں ٹیومر جیسی بیماریوں کے خطرات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے کچھ سال پہلے موبائل فون استعمال کرنے والوں کو متنبہ کیا گیا تھا کہ موبائل ریڈی ایشن ، درد شقیقہ اور پٹھوں کے مستقل درد کا باعث بن سکتا ہے۔ماہرین ایک دن میں دو گھنٹے سے زیادہ موبائل فون کے استعمال سے منع کرتے ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ آنکھوں اور موبائل فون کے درمیان کم از کم 18 انچ فاصلے کی تلقین کرتے ہیں کیونکہ مسلسل سکرین پر نظر جمانے سے آنکھوں میں تنائو کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کب بنی،کیسے ختم ہوئی،چند حیران کن حقائق

ایسٹ انڈیا کمپنی کب بنی،کیسے ختم ہوئی،چند حیران کن حقائق

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی ایک نجی کارپوریشن تھی جسے دسمبر 1600ء میں تشکیل دیا گیا تاکہ مصالحہ جات کی منافع بخش تجارت میں برطانوی موجودگی یقینی بنائی جا سکے۔ اس وقت تک اس تجارت پر ہسپانویوں اور پرتگالیوں کی اجارہ داری تھی۔ وقت کے ساتھ یہ کمپنی جنوبی ایشیا میں برطانوی سامراج کے انتہائی طاقت ور کارندے کی حیثیت کر گئی اور ہندوستان کے بڑے علاقے کی حقیقی حکمران بن گئی تھی۔ وسیع بدعنوانی اور دیگر وجوہ کی بنا پر تجارت پر کمپنی کی اجارہ داری اور سیاسی کنٹرول کو ختم کر دیا گیا، اور 1858ء میں ہندوستان میں اس کی جائیدادوں کو تاج برطانیہ نے قومیا لیا۔ 1874ء میں ایک ایکٹ کے تحت رسمی طور پر اسے تحلیل کر دیا گیا۔ ۱۔ غلاموں کی تجارت سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے غلاموں کی تجارت پر انحصار کیا۔ حجم میں یہ بحراوقیانوس کے آر پار غلاموں کی تجارت کرنے والی رائل افریقن کمپنی جیسی انٹرپرائزز کی نسبت چھوٹی تھی، تاہم ایسٹ انڈیا کمپنی کو غلاموں کو دور دراز علاقوں تک پہنچانے میں مہارت حاصل تھی۔ ۲۔ اپنی فوج کمپنی کی اپنی فوج تھی۔ 1800ء میں اس کے پاس دو لاکھ سپاہ تھی۔ اس وقت کی برطانوی فوج کے مقابلے میں یہ تعداد دگنی تھی۔ ان ہندوستانی ریاستوں کو زیرنگیں کرنے کے لیے کمپنی نے اپنی فوج استعمال کی جن کے ساتھ پہلے اس نے تجارتی معاہدے کر رکھے تھے۔ اس کا مقصد من مرضی کے ظالمانہ ٹیکس اور پابندیاں لاگو کرنا اور معاشی فائدے کے لیے مقامی ہنر مند اور غیر ہنرمند محنت کشوں کا استحصال کرنا تھا۔ 1857-58ء کی ناکام جنگ آزادی میں کمپنی کی فوج نے گھناؤنا کردار ادا کیا۔ اس جنگ کے خاتمے پر کمپنی کا بھی خاتمہ کر دیا گیا۔ ۳۔ افیون کی فروختانیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان سے چائے اور دیگر سامان خریدنے کیلئے مالی وسائل پیدا کرنے کی خاطر کمپنی نے چین میں غیرقانونی طور پر افیون فروخت کرنا شروع کی۔ چین میں اس تجارت کی مزاحمت نے پہلی اور دوسری جنگ افیون (1839-42، 1856-60ء) کو جنم دیا۔ دونوں جنگوں میں برطانویوں کو کامیابی حاصل ہوئی۔ ۴۔ کم خرچکمپنی کا انتظام و انصرام انتہائی مؤثر اور کم خرچ تھا۔ شروعاتی 20 برسوں میں یہ اپنے گورنر سر تھامس سمیتھ کے گھر سے چلائی جاتی رہی جس میں کام کرنے والا عملہ صرف چھ افراد پر مشتمل تھا۔ 1700ء میں اسے لندن کے ایک چھوٹے سے دفتر سے چلایا جاتا تھا جس میں 35 مستقل ملازمین کام کرتے تھے۔ 1785ء میں، جب یہ لاکھوں کی آبادی کے علاقوں کو کنٹرول کرتی تھی، لندن میں اس کا مستقل عملہ 159 افراد پر مشتمل تھا۔ ۵۔ اختیارات کا غلط استعمالاختیارات کے غلط استعمال اور 1770ء میں بنگال میں آنے والے بڑے قحط کے بعد کمپنی کے مالیہ اراضی میں بہت کمی آئی۔ اس کمی کے بعد اس نے دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے 1772ء میں10 لاکھ پاؤنڈ کے فوری قرضے کی درخواست دی۔ اگرچہ برطانوی حکومت نے کمپنی کی مدد کی لیکن اس پر سخت تنقید ہوئی اور پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات کے بعد حکومت نے اس کے انتظام و انصرام کی نگرانی شروع کر دی۔ بعد ازاں انڈین ایکٹ 1784ء کے ذریعے ہندوستان میں اس کی سیاسی پالیسی کو بھی حکومتی کنٹرول میں لایا گیا۔