حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃُ اﷲعلیہ
14 رجب المرجب 537ھ بروز دوشنبہ صبح صادق کے وقت بمقام سنجر علاقہ سیستان میں جلوہ گر ہوئے ،نام نامی اسم گرامی معین الدین حسن القابات عطائے رسول ،غریب نواز ،آفتاب چشتیہ ،سلطان الہند ،نائب رسول اﷲ،وارث انبیاء ۔والد کی طرف سے آپ کا نسب شہید کربلا سیّد نا امام حسین صاور والدہ سے امام الہدیٰ سیّدنا حسن مجتبیٰ صتک پہنچتا ہے ۔سرکار غریب نواز کی والدہ ماجدہ حضورغوث پاک کی چچازاد بہن ہیں ۔اس رشتے سے حضور غوث پاک رحمۃُاﷲعلیہ خواجہ غریب نوازرحمۃُاﷲعلیہ کے ماموں ہوتے ہیں۔سات سال کی عمر شریف تک آپ کی پرورش خراسان میں ہوئی ۔ابتدائی تعلیم کازمانہ والد محترم کے زیر عاطفت گزارا، اس کے بعد سنجر کی مشہور درسگاہ میں داخل ہوئے اور وہیں سے تفسیروحدیث و فقہ کی تعلیم حاصل کی ۔چودہ سال کی عمر شریف میں والد بزرگوار کاسایہ سر سے اُٹھ گیا ۔آپ کے والد ماجدکامزار بغداد مقدس میں ہے ۔کہتے ہیں کہ ایک دن آپ اپنے باغ کو سیراب کررہے تھے کہ اپنے وقت کے مشہور محذوب حضرت ابراہیم قندوزی رحمۃُاﷲعلیہ باغ میں تشریف لائے ۔حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃُاﷲعلیہ نے نہایت عزت واحترام سے انہیں بٹھایااور خوشئہ انگور سے انکی تواضع فرمائی ۔خواجہ کے حسن سلوک سے مجذوب کا دل خوش ہوگیا ۔انہوں نے اپنی تھیلی سے سوکھی ہو ئی روٹی کاایک ٹکڑا نکالااور دانت سے چباکرحضرت خواجہ غریب نواز رحمۃُاﷲعلیہ کو پیش کیا۔اسے کھاتے ہی دل کی حالت بدل گئی ۔سرمستئی عشق کی ایک ہی جنبش میں علائق کی زنجیر ٹوٹ گئی۔اسی عالم میں حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃُاﷲعلیہ نے باغ اور پن چکی فروخت کرکے ساری قیمت فقراء ومساکین پر لٹادی اور حالت بیخودی میں خراسان کیطرف نکل گئے ۔ ۵۴۵سے ۶۲۲ھ تک ۷۷سال کا اکثر حصہ آپ نے سفر میں گزارا ہے ۔اس درمیان میں کہیں ہفتوں کہیں مہینوں اور کہیں سالوں تک قیام بھی ثابت ہے ۔سفر کی پوری تاریخ چونکہ مرتب حالت میں نہیں ہے اس لئے اجمالی طور پر صرف ان مقامات کی فہرست ذیل میں درج کی جاتی ہے ۔جودوران سفر میں سرکار خواجہ کے قدموں کے نیچے سے گزرے ہیں ۔(۱)خراسان (۲) سمرقند (۳)بخارا (۴) عراق (۵)ہراون (۶) بغداد (۷)کرمان (۸)ہمدان (۹) تبریز (۱۰) استرآباد (۱۱)خرقان (۱۲)میمنہ (۱۳) ہرات (۱۴) افغانستان (۱۵) غزنی (۱۶) رے (۱۷) فالوجہ (۱۸) مکہ معظمہ (۱۹)مدینہ طیبہ (۲۰)بدخشاں (۲۱) دمشق (۲۲) جیلان (۲۳) اصفہان (۲۴) چشت (۲۵) ہندوستان ، براہ ، ملتان، لاہور، سمانہ ، دہلی ، اجمیرمقدس۔حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃُاﷲعلیہ نے اپنے پیرومرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃُاﷲعلیہ سے بھی حضرت خواجہ کی کئی بار ملاقات ہوئی۔ ایک ملاقات میں سرکار خواجہ کے متعلق حضور غوث اعظم رحمۃُاﷲعلیہ کی یہ بشارت بھی منقول ہے کہ ’’یہ مرد مقتدائے عالمین میں سے ہوگا اور اس کے ذریعے بے شمار حق کے طالب منزل مقصود کو پہنچیں گے۔انیس الارواح نامی کتاب میں خود حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃُاﷲعلیہ نے اپنے قلم سے اپنے مرشد کی ملاقات اور بیعت کاواقعہ یوں تحریرفرمایاہے ۔مسلمانوں کایہ دعاگومعین الدین حسن سنجری بمقام بغداد شریف حضرت خواجہ جنید کی مسجد میں اپنے مرشد پاک حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃُاﷲعلیہ کی دولت پابوسی سے مشرف ہوا ۔اسوقت روئے زمین کے مشائخ کبار حاضر اقدس تھے ۔جب اس درویش نے سر نیاز زمین پر رکھا ،پیرومرشد نے ارشاد فرمایا’’دورکعت نمازاداکر‘‘میں نے ادا کی پھر فرمایا،قبلہ روبیٹھ ،میں بیٹھ گیا ۔پھر حکم دیا سورہ بقرہ پڑھ ،میں نے پڑھی،فرمان ہوا،اکیس بار دُرود شریف پڑھ ،میںنے پڑھا،پھر آپ کھڑے ہوگئے اور میرا ہاتھ پکڑکر آسمان کیطرف منہ کیا اور فرمایا ۔آ !تاکہ تجھے خدا تک پہنچادوں ‘‘بعدازاں قینچی لے کرسر پر چلائی اور کلاہ چہار ترکی اس درویش کے سر پر رکھی اور گلیم خاص عطافرمائی ۔پھر ارشادفرمایا’’بیٹھ جا ‘‘میں بیٹھ گیا ۔فرمایاہمارے خانوادہ میں ایک شبانہ روز کے مجاہدہ کا معمول ہے ۔آج رات اور دن مشغول رہ۔یہ درویش بموجب فرمان عالی مشغول رہا دوسرے دن بھی جب حاضر خدمت ہوا۔ارشاد فرمایا’’آسمان کی طرف دیکھ ‘‘میں نے دیکھا۔دریافت کیا کہاں تک دیکھتاہے، عر ض کیا۔ عرش اعظم ،پھر فرمایا۔زمین کی طرف دیکھ میں نے دیکھا۔ فرمایا اب کہاں تک دیکھتا ہے عر ض کیا حجاب عظمت تک ۔فرمایاآنکھیں بندکرلے میں نے بند کرلیں،فرمایاکھول ،میں نے کھول دیں پھر مجھے اپنی انگلی دِکھاکر سوال کیا ۔کیا دیکھتا ہے ،میں نے عر ض کیا اٹھا رہ ہزار عالم، بعدازاں سامنے پڑی ہوئی ایک اینٹ اٹھانے کا حکم دیا،میں نے اُٹھایا ۔اس کے نیچے اشر فیوں کا ڈھیر پڑا ہو اتھا ۔فرمایا اسے لیجاکر فقیر وں کو تقسیم کردے ،میں نے حکم کی تعمیل کی ۔واپس لوٹ کرآیا توا رشاد ہوا چند روز ہماری صحبت میں گزار۔اپنی اسی کتاب انیس الارواح شریف میںایک مقام پر حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃُاﷲعلیہ تحریر فرماتے ہیں کہ حرم کعبہ کی پاک سر زمین پر ایک دن پیرومرشد نے میر اہاتھ پکڑا اور مجھے حق تعالیٰ کے سپر د کردیا ۔اس کے بعد میزاب رحمت کے نیچے کھڑے ہو کرمیرے حق میں نہایت درد انگیز مناجات کی پردۂ غیب سے آواز آئی ہم نے معین الدین کو قبول کرلیا ۔فرماتے ہیں کہ حرم مکہ کی معنوی برکتوں اور سر مدی نعمتوں سے جب ہم بہرہ یاب ہوچکے تو پیرو مرشد نے اس شہر محترم کا رُخ کیا جو کائنات گیتی کا مرکز عشق ہے ۔مدینہ طیبہ کی پرُ نور وشاداب آبادی پرجیسے ہی نظر پڑی جذبۂِ شوق کا عالم زیروزبر ہوگیا ۔اس محبوب سر زمین کی خاک کو آنکھوں سے لگایا بوسہ لیا اور روحانی نشاط سے شاد کام ہوئے ۔سلطان کونین کے دربار میں حاضری کا سماں احاطہ تحریر سے باہر ہے، جب مواجہ اقدس میں پہنچے تو پیرومرشد نے فرمایا ۔دوجہاں کے مالک کو انتہائی ادب واحترام کے ساتھ سلام عر ض کیا ۔روضہ پاک سے آواز آئی’’ وعلیکم السلام یا قطب المشائخ بروبحر ‘‘یہ جواب سُن کر پیرومرشد نے سجدہ شکر ادا کیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا اب تو در جہ کمال کو پہنچ گیا ۔دوران ِسفر بیس سال تک اپنے مرشدکی خدمت کرنے کے بعد حضر ت خواجہ باون سال کی عمر میں اپنے پیرو مرشد سے رخصت ہوئے۔ وقت رخصت پیر ومرشد نے آپ کو خرقہ خلافت سے سر فراز فرمایا۔اور تبرکات محمدیﷺ جو حضر ت خواجگان چشت میں بسلسلہ چلے آرہے تھے۔آپ کو عطا فرماکراپنا جانشین وصاحب سجادہ بنایا۔خود حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃُاﷲعلیہ نے ان واقعات کی تفصیل اپنے قلم سے یوں بیان فرمائی ہے ۔’’آقائے نعمت حضرت پیرومرشد نے فرمایا،اے معین الدین ! میں نے یہ سب کام تیری تکمیل کے لیئے کیا ہے ۔تجھ کواس پر عمل کرنا لازم ہے۔ فرزند خلف وہ ہی ہے جواپنے ہوش وگوش میں اپنے پیر کے ارشادات کوجگہ دے ‘‘ اس ارشاد کے بعد عصائے مبارک جو مرشد کے سامنے رکھا تھا ،دعاگوکو عطا فرمایا ،بعد ازاں خرقہ شریف ،نعلین چوبی اور مصلیٰ بھی عنایت فرمایا ،پھر ارشاد فرمایا۔یہ تبر کات ہمارے پیر ان طریقت کی یاد گار ہیں جورسول اﷲﷺسے ہم تک پہنچے ہیں اور ہم نے تمہیں دیے ہیں ۔ان کو اسی طرح اپنے پاس رکھنا جس طرح ہم نے رکھا جس کو مرد پانا اس کو ہماری یہ یاد گار دینا یہ ارشاد فرماکر مجھے اپنی آغوش مبارک میں لے لیا۔سروچشم کو بوسہ دیا اور فرمایا تجھ کو خدا کے سپر د کیا پھر عالم تحیر میں مشغول ہوگئے ،دعا گورخصت ہوا۔