حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃُ اﷲعلیہ

حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃُ اﷲعلیہ

اسپیشل فیچر

تحریر : حاجی محمد حنیف طیب


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

14 رجب المرجب 537ھ بروز دوشنبہ صبح صادق کے وقت بمقام سنجر علاقہ سیستان میں جلوہ گر ہوئے ،نام نامی اسم گرامی معین الدین حسن القابات عطائے رسول ،غریب نواز ،آفتاب چشتیہ ،سلطان الہند ،نائب رسول اﷲ،وارث انبیاء ۔والد کی طرف سے آپ کا نسب شہید کربلا سیّد نا امام حسین صاور والدہ سے امام الہدیٰ سیّدنا حسن مجتبیٰ صتک پہنچتا ہے ۔سرکار غریب نواز کی والدہ ماجدہ حضورغوث پاک کی چچازاد بہن ہیں ۔اس رشتے سے حضور غوث پاک رحمۃُاﷲعلیہ خواجہ غریب نوازرحمۃُاﷲعلیہ کے ماموں ہوتے ہیں۔سات سال کی عمر شریف تک آپ کی پرورش خراسان میں ہوئی ۔ابتدائی تعلیم کازمانہ والد محترم کے زیر عاطفت گزارا، اس کے بعد سنجر کی مشہور درسگاہ میں داخل ہوئے اور وہیں سے تفسیروحدیث و فقہ کی تعلیم حاصل کی ۔چودہ سال کی عمر شریف میں والد بزرگوار کاسایہ سر سے اُٹھ گیا ۔آپ کے والد ماجدکامزار بغداد مقدس میں ہے ۔کہتے ہیں کہ ایک دن آپ اپنے باغ کو سیراب کررہے تھے کہ اپنے وقت کے مشہور محذوب حضرت ابراہیم قندوزی رحمۃُاﷲعلیہ باغ میں تشریف لائے ۔حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃُاﷲعلیہ نے نہایت عزت واحترام سے انہیں بٹھایااور خوشئہ انگور سے انکی تواضع فرمائی ۔خواجہ کے حسن سلوک سے مجذوب کا دل خوش ہوگیا ۔انہوں نے اپنی تھیلی سے سوکھی ہو ئی روٹی کاایک ٹکڑا نکالااور دانت سے چباکرحضرت خواجہ غریب نواز رحمۃُاﷲعلیہ کو پیش کیا۔اسے کھاتے ہی دل کی حالت بدل گئی ۔سرمستئی عشق کی ایک ہی جنبش میں علائق کی زنجیر ٹوٹ گئی۔اسی عالم میں حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃُاﷲعلیہ نے باغ اور پن چکی فروخت کرکے ساری قیمت فقراء ومساکین پر لٹادی اور حالت بیخودی میں خراسان کیطرف نکل گئے ۔ ۵۴۵سے ۶۲۲ھ تک ۷۷سال کا اکثر حصہ آپ نے سفر میں گزارا ہے ۔اس درمیان میں کہیں ہفتوں کہیں مہینوں اور کہیں سالوں تک قیام بھی ثابت ہے ۔سفر کی پوری تاریخ چونکہ مرتب حالت میں نہیں ہے اس لئے اجمالی طور پر صرف ان مقامات کی فہرست ذیل میں درج کی جاتی ہے ۔جودوران سفر میں سرکار خواجہ کے قدموں کے نیچے سے گزرے ہیں ۔(۱)خراسان (۲) سمرقند (۳)بخارا (۴) عراق (۵)ہراون (۶) بغداد (۷)کرمان (۸)ہمدان (۹) تبریز (۱۰) استرآباد (۱۱)خرقان (۱۲)میمنہ (۱۳) ہرات (۱۴) افغانستان (۱۵) غزنی (۱۶) رے (۱۷) فالوجہ (۱۸) مکہ معظمہ (۱۹)مدینہ طیبہ (۲۰)بدخشاں (۲۱) دمشق (۲۲) جیلان (۲۳) اصفہان (۲۴) چشت (۲۵) ہندوستان ، براہ ، ملتان، لاہور، سمانہ ، دہلی ، اجمیرمقدس۔حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃُاﷲعلیہ نے اپنے پیرومرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃُاﷲعلیہ سے بھی حضرت خواجہ کی کئی بار ملاقات ہوئی۔ ایک ملاقات میں سرکار خواجہ کے متعلق حضور غوث اعظم رحمۃُاﷲعلیہ کی یہ بشارت بھی منقول ہے کہ ’’یہ مرد مقتدائے عالمین میں سے ہوگا اور اس کے ذریعے بے شمار حق کے طالب منزل مقصود کو پہنچیں گے۔انیس الارواح نامی کتاب میں خود حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃُاﷲعلیہ نے اپنے قلم سے اپنے مرشد کی ملاقات اور بیعت کاواقعہ یوں تحریرفرمایاہے ۔مسلمانوں کایہ دعاگومعین الدین حسن سنجری بمقام بغداد شریف حضرت خواجہ جنید کی مسجد میں اپنے مرشد پاک حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃُاﷲعلیہ کی دولت پابوسی سے مشرف ہوا ۔اسوقت روئے زمین کے مشائخ کبار حاضر اقدس تھے ۔جب اس درویش نے سر نیاز زمین پر رکھا ،پیرومرشد نے ارشاد فرمایا’’دورکعت نمازاداکر‘‘میں نے ادا کی پھر فرمایا،قبلہ روبیٹھ ،میں بیٹھ گیا ۔پھر حکم دیا سورہ بقرہ پڑھ ،میں نے پڑھی،فرمان ہوا،اکیس بار دُرود شریف پڑھ ،میںنے پڑھا،پھر آپ کھڑے ہوگئے اور میرا ہاتھ پکڑکر آسمان کیطرف منہ کیا اور فرمایا ۔آ !تاکہ تجھے خدا تک پہنچادوں ‘‘بعدازاں قینچی لے کرسر پر چلائی اور کلاہ چہار ترکی اس درویش کے سر پر رکھی اور گلیم خاص عطافرمائی ۔پھر ارشادفرمایا’’بیٹھ جا ‘‘میں بیٹھ گیا ۔فرمایاہمارے خانوادہ میں ایک شبانہ روز کے مجاہدہ کا معمول ہے ۔آج رات اور دن مشغول رہ۔یہ درویش بموجب فرمان عالی مشغول رہا دوسرے دن بھی جب حاضر خدمت ہوا۔ارشاد فرمایا’’آسمان کی طرف دیکھ ‘‘میں نے دیکھا۔دریافت کیا کہاں تک دیکھتاہے، عر ض کیا۔ عرش اعظم ،پھر فرمایا۔زمین کی طرف دیکھ میں نے دیکھا۔ فرمایا اب کہاں تک دیکھتا ہے عر ض کیا حجاب عظمت تک ۔فرمایاآنکھیں بندکرلے میں نے بند کرلیں،فرمایاکھول ،میں نے کھول دیں پھر مجھے اپنی انگلی دِکھاکر سوال کیا ۔کیا دیکھتا ہے ،میں نے عر ض کیا اٹھا رہ ہزار عالم، بعدازاں سامنے پڑی ہوئی ایک اینٹ اٹھانے کا حکم دیا،میں نے اُٹھایا ۔اس کے نیچے اشر فیوں کا ڈھیر پڑا ہو اتھا ۔فرمایا اسے لیجاکر فقیر وں کو تقسیم کردے ،میں نے حکم کی تعمیل کی ۔واپس لوٹ کرآیا توا رشاد ہوا چند روز ہماری صحبت میں گزار۔اپنی اسی کتاب انیس الارواح شریف میںایک مقام پر حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃُاﷲعلیہ تحریر فرماتے ہیں کہ حرم کعبہ کی پاک سر زمین پر ایک دن پیرومرشد نے میر اہاتھ پکڑا اور مجھے حق تعالیٰ کے سپر د کردیا ۔اس کے بعد میزاب رحمت کے نیچے کھڑے ہو کرمیرے حق میں نہایت درد انگیز مناجات کی پردۂ غیب سے آواز آئی ہم نے معین الدین کو قبول کرلیا ۔فرماتے ہیں کہ حرم مکہ کی معنوی برکتوں اور سر مدی نعمتوں سے جب ہم بہرہ یاب ہوچکے تو پیرو مرشد نے اس شہر محترم کا رُخ کیا جو کائنات گیتی کا مرکز عشق ہے ۔مدینہ طیبہ کی پرُ نور وشاداب آبادی پرجیسے ہی نظر پڑی جذبۂِ شوق کا عالم زیروزبر ہوگیا ۔اس محبوب سر زمین کی خاک کو آنکھوں سے لگایا بوسہ لیا اور روحانی نشاط سے شاد کام ہوئے ۔سلطان کونین کے دربار میں حاضری کا سماں احاطہ تحریر سے باہر ہے، جب مواجہ اقدس میں پہنچے تو پیرومرشد نے فرمایا ۔دوجہاں کے مالک کو انتہائی ادب واحترام کے ساتھ سلام عر ض کیا ۔روضہ پاک سے آواز آئی’’ وعلیکم السلام یا قطب المشائخ بروبحر ‘‘یہ جواب سُن کر پیرومرشد نے سجدہ شکر ادا کیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا اب تو در جہ کمال کو پہنچ گیا ۔دوران ِسفر بیس سال تک اپنے مرشدکی خدمت کرنے کے بعد حضر ت خواجہ باون سال کی عمر میں اپنے پیرو مرشد سے رخصت ہوئے۔ وقت رخصت پیر ومرشد نے آپ کو خرقہ خلافت سے سر فراز فرمایا۔اور تبرکات محمدیﷺ جو حضر ت خواجگان چشت میں بسلسلہ چلے آرہے تھے۔آپ کو عطا فرماکراپنا جانشین وصاحب سجادہ بنایا۔خود حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃُاﷲعلیہ نے ان واقعات کی تفصیل اپنے قلم سے یوں بیان فرمائی ہے ۔’’آقائے نعمت حضرت پیرومرشد نے فرمایا،اے معین الدین ! میں نے یہ سب کام تیری تکمیل کے لیئے کیا ہے ۔تجھ کواس پر عمل کرنا لازم ہے۔ فرزند خلف وہ ہی ہے جواپنے ہوش وگوش میں اپنے پیر کے ارشادات کوجگہ دے ‘‘ اس ارشاد کے بعد عصائے مبارک جو مرشد کے سامنے رکھا تھا ،دعاگوکو عطا فرمایا ،بعد ازاں خرقہ شریف ،نعلین چوبی اور مصلیٰ بھی عنایت فرمایا ،پھر ارشاد فرمایا۔یہ تبر کات ہمارے پیر ان طریقت کی یاد گار ہیں جورسول اﷲﷺسے ہم تک پہنچے ہیں اور ہم نے تمہیں دیے ہیں ۔ان کو اسی طرح اپنے پاس رکھنا جس طرح ہم نے رکھا جس کو مرد پانا اس کو ہماری یہ یاد گار دینا یہ ارشاد فرماکر مجھے اپنی آغوش مبارک میں لے لیا۔سروچشم کو بوسہ دیا اور فرمایا تجھ کو خدا کے سپر د کیا پھر عالم تحیر میں مشغول ہوگئے ،دعا گورخصت ہوا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
خلائی سیاحت سائنسی تحقیق کی راہ میں  ایک بری رکاوٹ ہے

خلائی سیاحت سائنسی تحقیق کی راہ میں ایک بری رکاوٹ ہے

''خلائی سیاحت‘‘ (Space Tourism) ایک نئی اور تیزی سے ترقی کرتی ہوئی صنعت ہے، جس میں ارب پتی افراد اور تجارتی کمپنیاں خلا میں سفر کرنے کے مواقع تلاش کر رہی ہیں۔ تاہم ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ یہ سرگرمیاں سائنسی تحقیق کیلئے چیلنجز پیدا کر سکتی ہیں، خاص طور پر چاند اور دیگر خلائی اجسام پر ہونے والے تجربات کیلئے۔ماہرین فلکیات کے مطابق چاند اور دیگر خلائی اجسام پر سائنسی تحقیق کیلئے مخصوص مقامات پر بے قابو انسانی سرگرمیاں مستقبل میں فلکیاتی دریافتوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ارب پتی خلائی سیاحوں اور لالچی نجی کمپنیوں کی سرگرمیاں کائنات کی تاریخ دریافت کرنے کی امیدوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔سائنسی تحقیق کو لاحق خطراتچاند کا دور دراز حصہ نظام شمسی میں سب سے زیادہ خاموش مقام سمجھا جاتا ہے۔ یہاں ایک ریڈیو ٹیلی سکوپ کی تنصیب سے ہم کائناتی تاریک دور (Cosmic Dark Ages)کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ تاہم، خلائی سیاحوں اور تجارتی کمپنیوں کی بے ترتیب سرگرمیاں ان تجربات میں خلل کا سبب بن سکتی ہیں۔ابدی تاریکی کے گڑھوں کی تباہیچاند کے وہ علاقے جو ہمیشہ سائے میں رہتے ہیں، دور انفرا ریڈ فلکیات (Far Infrared Astronomy) کیلئے انتہائی قیمتی ہیں۔ یہ مشاہدات کائنات کے پوشیدہ رازوں کو آشکار کر سکتے ہیں، مگر خلائی سیاحت اور معدنی وسائل کے حصول کیلئے ہونے والی کھدائی ان مقامات کی سائنسی اہمیت کو ختم کر سکتی ہے۔غیر منظم خلائی دوڑاس وقت کوئی بین الاقوامی قانون موجود نہیں جو چاند کے سائنسی مقامات کے تحفظ کو یقینی بنا سکے۔ یہ ایک ''پہلے آئیے، پہلے پائیے‘‘ والی صورتحال بن چکی ہے، جس کے باعث ممالک اور کمپنیاں بغیر کسی ضابطے کے اپنے مفادات کے تحت چاند پر سرگرمیاں شروع کر رہی ہیں۔ماہرین کی تشویش اور ممکنہ حلڈاکٹر مارٹن ایلوس، جو بین الاقوامی فلکیاتی تنظیم کے رکن ہیں کا کہنا ہے کہ خلائی سیاحت اور تجارتی سرگرمیوں کے سبب سائنسی مواقع ضائع ہو سکتے ہیں۔ وہ ایک بین الاقوامی معاہدے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں جو تحقیقی مقامات کے تحفظ کو یقینی بنائے اور چاند کو ایک سائنسی تجربہ گاہ کے طور پر برقرار رکھے۔اگر اگلی دہائی میں کوئی مناسب حکمت عملی نہ اپنائی گئی تو کائنات کی تاریخ جاننے کے سنہری مواقع ہمیشہ کیلئے ضائع ہو سکتے ہیں۔ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر فلکیات ڈاکٹر مارٹن ایلوس کا کہنا ہے کہ چاند کے دور دراز حصے میں کچھ مخصوص مقامات فلکیاتی تحقیق کیلئے بے مثال مواقع فراہم کرتے ہیں۔یہ سائنسی مطالعے ہمارے نظامِ شمسی، زمین سے باہر زندگی کے امکانات اور کائنات کی ارتقائی تاریخ کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔تاہم، ان خصوصی مقامات کے تحفظ کیلئے کوئی بین الاقوامی قوانین موجود نہیں ہیں اور موجودہ ''آزادانہ رسائی‘‘ کا رجحان مستقبل کی تحقیقی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔بوسٹن میں ''امریکی ایسوسی ایشن برائے سائنسی ترقی‘‘ (AAAS) کی کانفرنس سے قبل صحافیوں سے گفتگو میں ڈاکٹر ایلوس نے کہا: چاند پر انسانوں کی موجودگی ہمیں حیرت انگیز نئی چیزیں کرنے کے قابل بنائے گی، جو آج کی جدید دوربینوں کو کھلونوں کی طرح بنا دے گی، لیکن انسانی سرگرمیاں اس ماحول کو متاثر کر سکتی ہیں جس کے مطالعے کیلئے ہم وہاں جا رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ چاند کی سطح کا رقبہ تو وسیع ہے، لیکن وہ مخصوص علاقے جہاں انسان جانا چاہتے ہیں، زیادہ بڑے نہیں ہیں۔چاند پر ایک ریڈیو ٹیلی سکوپ کی تنصیب کائناتی ''تاریک دور‘‘کا مطالعہ ممکن بنا سکتی ہے۔یہ وہ دور تھا جب کائنات کے ابتدائی مراحل میں روشنی کے ذرائع ایک گھنے کہر میں لپٹے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ، یہ تحقیق زمین جیسے دیگر سیاروں کی رہائش کے امکانات کو بھی واضح کر سکتی ہے۔اسی طرح، چاند پر موجود ''ابدی تاریکی کے گڑھے‘‘(Pits of Eternal Darkness)ایسے علاقے جو مسلسل سائے میں رہتے ہیں،دور انفرا ریڈ فلکیات کیلئے بے حد فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ تحقیق ہمیں کائنات کے وہ راز دکھا سکتی ہے جو عام طور پر پوشیدہ رہتے ہیں۔ڈاکٹر مارٹن ایلوس نے خبردار کیا ہے کہ آنے والے سائنسی اور غیر سائنسی مشنز ان اہم مقامات کو نشانہ بنا رہے ہیں، جس کے باعث ان کی سائنسی قدر کم ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کون سی تجارتی سرگرمیاں سائنسی تحقیق کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں تو انہوں نے کہا''میرا اندازہ ہمیشہ خلائی سیاحت پر ہوگا۔ ارب پتی طبقے کی یہ خواہش ہے کہ میں چاند پر ایک ہفتہ گزارنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کچھ تجارتی کمپنیاں چاند پر پانی کی کان کنی (Water Mining)میں دلچسپی رکھتی ہیں، جبکہ بعض کمپنیاں ہیلیم3 (Helium-3) نکالنے کیلئے بھی منصوبے بنا رہی ہیں، جو کوانٹم کمپیوٹنگ کی کچھ شکلوں میں استعمال ہوتا ہے۔ڈاکٹر ایلوس نے ایک بنیادی سوال اٹھایا ہے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کوئی مخصوص مقام فلکیاتی تحقیق کیلئے مختص ہوگا یا پانی کی کان کنی کیلئے؟۔ انہوں نے خبردار کیا کہکسی ملک یا کمپنی کو اس سے کیا روک سکتا ہے کہ وہ آ کر کہے مجھے پرواہ نہیں، یہ میرا پسندیدہ مقام ہے، اور میں یہاں کھدائی اور پانی کی کان کنی کروں گا‘‘۔فی الحال، اس سوال کا کوئی واضح اور حتمی جواب موجود نہیں ہے۔ڈاکٹر مارٹن ایلوس بین الاقوامی فلکیاتی تنظیم کے ایک ورکنگ گروپ کے شریک سربراہ ہیں، جو ان مسائل کی تحقیق اور انہیں عالمی سطح پر ممالک کی توجہ میں لانے کیلئے کام کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد یہ ہے کہ ہم حکومتوں کو اس بات پر قائل کر سکیں کہ انہیں سائنسی تحقیق کا اسی قدر خیال رکھنا چاہیے جتنا کہ وہ تجارتی مفادات یا انسانی دریافتوں کا رکھتے ہیں۔  

  دنیا کی 25 سو سے زائد  مادری زبانیں معدومی کے خطرے سے دوچار

دنیا کی 25 سو سے زائد مادری زبانیں معدومی کے خطرے سے دوچار

مادری زبانوں کا عالمی دن21 فروری کودنیا بھر میں منایا جاتا ہےاقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم کی جنرل کانفرنس کے موقع پریونیسکو نے 17 نومبر 1999ء میں مادری زبانوں کا عالمی دن21 فروری کومنانے کا اعلان کیااور اِسی ادارے کے زیر اہتمام سال2000ء سے اِس روز دنیا بھر میں تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ تاہم اسے 2002ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے باضابطہ طور پر تسلیم کیا۔اس دن کو منانے کا مقصد دنیا کے لوگوں کے ذریعہ استعمال کی جانے والی تمام زبانوں کے تحفظ کو یقینی بنانا اور ان کو فروغ دینا ہے۔گلوبلائزیشن اور ڈیجیٹلائزیشن کے دور میں کئی مقامی زبانیں معدومیت کے دہانے پر ہیں۔ اقوام متحدہ نے اس مسئلے کو تسلیم کیا اور اس دن کا آغاز کیا تاکہ لوگوں کو اپنی مادری زبان کا احترام اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے ترغیب دی جا سکے۔ بنگلہ دیش پہلا ملک تھا جس نے عالمی یوم مادری زبان منانے کے خیال کو نہ صرف پیش کیا،بلکہ اس نے اس دن کو پورے جوش و خروش سے منایا بھی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریبا ً7000 زبانیں بولی جاتی ہیں اور اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے مطابق 1950سے لے کر اب تک 230 مادری زبانیں ناپید ہو چکی ہیں۔برٹش کونسل کی جانب جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 350 ملین افراد کی مادری زبان انگریزی ہے۔ جب کہ باقی لوگ ثانوی زبان کی حیثیت سے انگریزی بولتے ہیں۔ زبانوں پر تحقیق کرنے والے امریکی ادارے کے مطابق ملکوں کے حوا لے سے انگریزی سب سے زیادہ یعنی 112 ممالک میں بولی جاتی ہے۔اس کے بعد 60 ممالک میں فرنچ، 57 میں عربی، 44 میں ہسپانوی اور جرمن بھی 44 ممالک میں بولی جاتی ہے۔ اردو 23، ہندی 20 ممالک میں بولی جاتی ہے۔ پاکستانی ماہرین لسانیات کے مطابق ملک میں مختلف لہجوں کے فرق سے 74 زبانیں بولی جاتی ہیں۔مادری زبانوں کو لاحق خطرات کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 28 ویں نمبر پر ہے جب کہ سب سے زیادہ 196 زبانوں کو بھارت میں خطرات لاحق ہیں۔ امریکا کی 191،برازیل کی 190، انڈونیشیا کی 147اور چین کی 144 زبانوں کی بقاء کو خطرہ ہے۔ہر زبان ایک میراث ہے۔ جسے ثقافتی تنوع اور بین الثقافتی مکالمے کو یقینی بنانے کے لیے محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔بلا شبہ انسان کی مختلف شناختیں ہوتی ہیں۔ اس کا نام، اس کا خاندانی نام، اس کا قبیلہ، اس کا علاقہ، اس کی قومیت، اس کا مذہب۔ یہ سب شناختیں ہیں اور ہر شناخت اسے عزیر ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک بہت طاقتور شناخت وہ زبان ہے جو وہ بولتا ہے۔ کیونکہ دیگر انسانوں سے رابطہ وہ زبان کے ذریعے رکھتا ہے۔ خصوصاً وہ زبان جو اس کا خاندان بولتا ہے اور اس نے پیدائش کے بعد سب سے پہلے وہی زبان سیکھی ہے، اس کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس زبان کو اس کی مادری زبان کہتے ہیں۔ صرف اسی زبان میں وہ اپنے خیالات کے اظہار پر مکمل طور پر قادر ہوتا ہے۔ وہ کسی دوسری زبان میں اگر بولتا یا لکھتا بھی ہے، تو خیالات کو سوچتا اپنی مادری زبان میں ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین انسان کی ابتدائی تعلیم اس کی مادری زبان میں دینے کی سفارش کرتے ہیں۔ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ ان کے بولنے والے خود ہیں ۔جو بتدریج ان زبانوں کے استعمال کو کم کرتے جا رہے ہیں اور پھر یوں یہ زبانیں اپنا اصل اسلوب ختم کرتے ہوئے کسی دوسری زبان میں ضم ہوجاتی ہیں۔زبان سیکھنے کا عمل ایک طویل مرحلے کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔کوئی زبان ،اس کے قوائد و ضوابط،لغت ودیگر اسرار و رموزایک تھکا دینے والا کام ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ بچہ ماں کی گود میں زبان کے ان سب امور پر یوں دسترس حاصل کر لیتا ہے کہ ساری عمر کیلئے وہ اس زبان کا ماہر بن جاتا ہے ۔یہ زبان کسی بھی شخص کی وہ زبان ہوتی ہے جو اسے ورثے میں ملتی ہے۔ دراصل ماں کی گود بچے کا پہلا مکتب ہوتی ہے اور بچہ اس مکتب کے ذریعہ وہی کچھ سیکھتا ہے جو ایک ماں اپنے بچہ کو سکھاتی ہے۔ ماں کی گود اور روٹیاں پکانے والے چولھے کے گرد بچوں کے جمگٹھے میں زبان اپنا ارتقائی سفر بڑی عمدگی سے طے کر رہی ہوتی ہے ۔ مادری زبان سے انسان کی فطرت کھلتی اور نکھرتی ہے۔ اسی زبان کے ایشو پر ہمارے ملک کا ایک حصہ الگ ہوگیا لیکن پھر بھی کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اب بھی ایک زبان کے علاوہ باقی زبانوں کو قومی زبان تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ستم طریفی یہ ہے کہ واحد قومی زبان بھی عدم توجہ کے سبب زبوں حالی کا شکار ہے اور اسے صحیح معنوں میں قومی زبان کا درجہ حاصل نہ ہو سکا۔زبان کا تحفظ ہی درحقیقت تہذیب، ثقافت اورکلچر کا تحفظ کہلاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب والدین اپنے بچوں کو مادری زبان نہیں سکھاتے تو زبانوں کے متروک ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔حکومتِ وقت مادری و علاقائی اور قومی زبانوں کے ادباء و شعراء اور محققین کی سرپرستی کرے۔ان کی تخلیقات کو سرکاری سطح پر شائع کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر عالمی زبانوں کی کتب کو قومی و علاقائی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے ۔ حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ ابتدائی کلاسز میں مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے۔ دنیا کے کئی ممالک نے مادری زبانوں کی ضرورت و اہمیت کو مانتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ ہر بچے کو اپنی مادری زبان میں تعلیم کا حق حاصل ہے اور تمام زبانوں کی بلا امتیاز ترویج و ترقی شہریوں کے بنیادی حقوق اور ریاستی فرائض کا حصہ ہے۔لیکن پاکستان میں آج بھی علاقائی زبانوں کی اہمیت اور مقام و مرتبے پر بحث جاری ہے۔ اگرچہ سندھ میں سندھی، خیبر پختونخوا میں پشتو اور بلوچستان میں بلوچی ابتدائی تعلیمی درجات میں پڑھائی جاتی ہے لیکن پنجاب میں علاقائی زبانوںکی ترویج و اشاعت کی سرکاری سطح پر کبھی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔مادری زبان میں تعلیم سے بچے بہت جلد نئی باتوں کو سمجھ جاتے ہیں اور اس سے بچوں کی تعلیمی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جس سے زبان کی آبیاری ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پرائمری سے تمام صوبوں میں مقامی زبانوں کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے۔   

آج کا دن

آج کا دن

سلطان محمد فاتح تخت نشین ہوئے 1451ء میں آج کے روز سلطان محمد فاتح دوسری بار تخت نشین ہوئے۔ 1444ء میں مراد دوئم کی جگہ سلطان محمد خان نے تخت سنبھالا جس کی مخالفت میں چاندارلی خلیل پاشا اور دیگر اہم درباری شخصیات پیش پیش تھے۔ جس کے بعد مراد دوئم دوبارہ تخت نشین ہو گئے جن کے انتقال کے7 سال بعد سلطان محمد خان فاتح دوسری بار دوبارہ تخت نشین ہوئے۔ڈائیگو میٹرو سب وے آتشزدگی18 فروری 2003 کو، ایک آتش زدگی نے ڈائیگو میٹرو سب وے ٹرین کو آگ لگا دی جب وہ جنوبی کوریا کے وسطی ڈیگو میں جنگنگنو اسٹیشن پر پہنچی۔ اس کے نتیجے میں آگ، جو اسی اسٹیشن پر دوسری ٹرین کے رکنے پر پھیلی، اس میں 192 افراد ہلاک اور دیگر 151 زخمی ہوئے۔ یہ جنوبی کوریا کی امن کے وقت کی تاریخ میں جان بوجھ کر پیش آنے والے کسی ایک واقعے میں جان کا سب سے مہلک نقصان ہے، جو 1982 میں وو کی جانب سے کیے گئے شوٹنگ کے ہنگامے کو پیچھے چھوڑتا ہے۔ایران فضائی حادثہایران اسمان ایئر لائنز کی پرواز 3704 تہران کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے جنوب مغربی ایران میں یاسوج کیلئے طے شدہ ایرانی مسافر بردار پرواز تھی۔ 18 فروری 2018ء کو یہ پرواز یاسوج تک پہنچنے سے قبل ہی صوبہ اصفہان کے سیمیروم کاؤنٹی کے نوقول گاؤں کے قریب پہاڑ سے ٹکرا کر زمین بوس ہو گیا۔ جہاز میں سوار تمام 66 افراد بشمول 60 مسافر اور عملے کے 6 افراد ہلاک ہو گئے۔قبلائی خان کا انتقال18 فروری 1294ء منگول حکمران قبلائی خان کا انتقال ہوا۔ 1271ء میں چینی یوآن خاندان قائم کرتے ہوئے 23 سال تک حکمرانی کے دوران قبلائی خان نے سانگ خاندان کا صفایا کرتے ہوئے پورے چین کو متحد کیا۔ چین میں پہلے کاغذی نوٹ کا اجرا بھی اسی دور میں ہوا۔ قبلائی خان کے دور میں متعدد یورپی شخصیات بھی چین آئی تھیں جن میں مارکو پولو قابل ذکر رہے۔ 

ٹیکنالوجی اور نوجوان نسل: فوائد اور چیلنجز

ٹیکنالوجی اور نوجوان نسل: فوائد اور چیلنجز

آج کے دور میں ٹیکنالوجی انسانی زندگی کا اٹوٹ حصہ بن چکی ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل کیلئے جو ڈیجیٹل دور میں پیدا ہوئی ہے، سمارٹ فونز، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ روزمرہ کی عادات کا حصہ ہیں۔ لیکن یہ سوال اہم ہے کہ کیا ٹیکنالوجی نوجوانوں کیلئے ترقی کے نئے دروازے کھول رہی ہے یا پھر یہ ان کے ذہنی، سماجی اور اخلاقی وجود کیلئے خطرہ بنتی جا رہی ہے؟ اس مضمون میں ہم ٹیکنالوجی کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ نوجوان نسل کو اس دو دھاری تلوار سے کیسے نمٹنا چاہیے۔ تعلیمی انقلاب ٹیکنالوجی نے تعلیم کے دائرے کو وسیع کر دیا ہے۔ آن لائن لرننگ پلیٹ فارمز جیسا کہ ''Khan academy Coursera ‘‘اور YouTube کے ذریعے نوجوان دنیا بھر کے اساتذہ سے سیکھ سکتے ہیں۔ یہ وسائل خصوصاً ان علاقوں کے طلبہ کیلئے مفید ہیں جہاں معیاری تعلیمی اداروں تک رسائی محدود ہے۔ مزید برآں ورچوئل کلاس رومز اور ایڈاپٹیو لرننگ سافٹ ویئر طلبہ کی انفرادی ضروریات کو پورا کرتے ہیں جس سے تعلیم زیادہ مؤثر ہو گئی ہے۔ ڈیجیٹل دور نے فری لانسنگ، گرافک ڈیزائننگ، کوڈنگ اور ڈیٹا انیلسس جیسے شعبوں میں روزگار کے مواقع پیدا کیے ہیں۔نوجوان آن لائن کورسز کے ذریعے نئی مہارتیں سیکھ کر گلوبل مارکیٹ میں کام کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں بہت سے نوجوان Up workاور Fiverr جیسے پلیٹ فارمز پر کام کر کے خاطر خواہ آمدن حاصل کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے نوجوانوں کو دنیا بھر کے لوگوں سے جڑنے کا موقع دیا ہے۔ یہ پلیٹ فارمز ثقافتی تبادلے، آگاہی پھیلانے اور سماجی تحریکوں (جیسے ماحولیاتی تحفظ) کو تقویت دینے کا ذریعہ بنے ہیں۔ نوجوان اپنے خیالات کو آزادانہ طور پر بیان کر کے معاشرتی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔تخلیقی صلاحیتوں کی ترقی ٹیکنالوجی نے آرٹ، میوزک، رائٹنگ اور ویڈیو ایڈیٹنگ جیسے شعبوں میں تخلیقی اظہار کو آسان بنا دیا ہے۔ نوجوان TikTok، Instagram یا YouTube جیسے پلیٹ فارمز پر اپنی صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں جو کہ روایتی میڈیا میں ممکن نہیں تھا۔ ٹیکنالوجی کے خطرات ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کو بہت آسان بنا دیا ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ سنگین خطرات بھی جڑے ہوئے ہیں۔ یہاں چند اہم ٹیکنالوجی کے خطرات کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ ذہنی صحت پر اثرات: مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال نوجوانوں میں تنہائی، اضطراب اور ڈپریشن کا سبب بن رہا ہے۔ ''سماجی موازنہ کا نظریہ‘‘ (Social Comparison Theory) بتاتا ہے کہ لوگ اپنی زندگی کا دوسروں کی ہائی لائٹڈ تصویروں سے موازنہ کر کے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سمارٹ فونز کی لت نے نیند کے مسائل اور توجہ کی کمی جیسے مسائل کو بھی جنم دیا ہے۔انٹرنیٹ پر جعلی خبریں، سازشی تھیوریاں اور پروپیگنڈا تیزی سے پھیلتا ہے۔ نوجوان جن میں تنقیدی سوچ کی کمی ہوتی ہے اکثر ان معلومات کو سچ سمجھ لیتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف ان کی ذہنی تشکیل کو متاثر کرتی ہے بلکہ معاشرے میں انتشار کا بھی باعث بنتی ہے۔پرائیویسی اور ڈیٹا کا تحفظ:آج کل ہر شخص کی معلومات آن لائن موجود ہیں اور ہیکرز یا کمپنیوں کے ذریعے ان کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا، ایپس اور ویب سائٹس اکثر صارفین کا ڈیٹا اکٹھا کرتی ہیں، جو پرائیویسی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ سائبر بلینگ، ہیکنگ اور آن لائن ہراسانی جیسے واقعات نوجوانوں کے اعتماد کو مجروح کرتے ہیں۔ سوشل اسکلز میں کمی:ٹیکنالوجی نے لوگوں کو ورچوئل طور پر جوڑ دیا ہے لیکن حقیقی زندگی میں تعلقات کمزور ہو رہے ہیں۔ نوجوان اکثر دوستوں اور خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کے بجائے سکرین میں گم رہتے ہیں۔ اس سے تنہائی، تعلقات میں کمزوری اور جذباتی ہم آہنگی میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ توازن کیسے ممکن ہے؟ ٹیکنالوجی کو مواقع یا خطرات میں تبدیل کرنے کا انحصار اس کے استعمال پر ہے۔ چند تجاویز درج ذیل ہیں۔ ڈیجیٹل تعلیم: نوجوانوں کو انٹرنیٹ پر محفوظ رہنے، معلومات کی تصدیق کرنے اور وقت کے انتظام کی تربیت دی جانی چاہیے۔ والدین اور اساتذہ کا کردار: بچوں کے آن لائن فعالیت پر نظر رکھنا اور انہیں متوازن عادات اپنانے میں مدد دینا ضروری ہے۔ پالیسی سازی: حکومتوں کو سائبر جرائم کے خلاف سخت قوانین بنانے چاہئیں اور پرائیویسی کو یقینی بنانا چاہیے۔ ذمہ دارانہ استعمال: ٹیکنالوجی خود کوئی مسئلہ نہیں، اس کا استعمال ہی اسے مفید یا مضر بناتا ہے۔ نوجوان نسل اگر ڈیجیٹل ذمہ داری، تعلیم اور اخلاقی اقدار کو اپنائے تو ٹیکنالوجی ترقی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس کے روشن پہلوؤں سے فائدہ اٹھائیں، لیکن اس کے تاریک اثرات سے بچنے کیلئے ہوشیار رہیں۔

مزاح پارے:پڑیئے گر بیمار!

مزاح پارے:پڑیئے گر بیمار!

پچھلے جاڑوں کا ذکر ہے۔ میں گرم پانی کی بوتل سے سینک رہا تھا کہ ایک بزرگ جو80 کے پیٹے میں ہیں خیر و عافیت پوچھنے آئے اور دیر تک قبر و عاقبت کی باتیں کرتے رہے جو میرے تیمار داروں کو ذرا قبل از وقت معلوم ہوئیں۔ آتے ہی بہت سی دعائیں دیں، جن کا خلاصہ یہ تھا کہ خدا مجھے ہزاری عمر دے تاکہ اپنے اور ان کے فرضی دشمنوں کی چھاتی پر روایتی مونگ دلنے کیلئے زندہ رہوں۔ اس کے بعد جانکنی اورفشارگورکااس قدر مفصل حال بیان کیا کہ مجھے غریب خانے پر گور غریباں کا گمان ہونے لگا۔ عیادت میں عبادت کا ثواب لوٹ چکے تو میری جلتی ہوئی پیشانی پر اپنا ہاتھ رکھاجس میں شفقت کم اور رعشہ زیادہ تھا اور اپنے بڑے بھائی کو(جن کا انتقال تین ماہ قبل اسی مرض میں ہوا تھاجس میں، میں مبتلا تھا) یاد کر کے کچھ اس طرح آب دیدہ ہوئے کہ میری بھی ہچکی بندھ گئی۔ میرے لئے جو تین عددسیب لائے تھے وہ کھا چکنے کے بعد جب انھیں کچھ قرار آیا تو وہ مشہور تعزیتی شعرپڑھاجس میں ان غنچوں پرحسرت کا اظہار کیا گیا ہے جوبن کھلے مرجھا گئے۔میں فطرتاً رقیق القلب واقع ہوا ہوں اور طبیعت میں ایسی باتوں کی سہاربالکل نہیں ہے۔ ان کے جانے کے بعد ''جب لاد چلے بنجارا‘‘ والا موڈ طاری ہو جاتا ہے اور حالت یہ ہوتی ہے کہ ہر پرچھائیں بھوت اور ہر سفید چیز فرشتہ دکھائی دیتی ہے۔ ذرا آنکھ لگتی ہے تو بے ربط خواب دیکھنے لگتا ہوں۔ گویا کوئی ''کالک‘‘ یا باتصویرنفسیاتی افسانہ سامنے کھلا ہوا ہے۔کیا دیکھتا ہوں کہ ڈاکٹر میری لاش پر انجکشن کی پچکاریوں سے لڑ رہے ہیں اور لہولہان ہو رہے ہیں۔ ادھر کچھ مریض اپنی اپنی نرس کو کلوروفارم سنگھارہے ہیں۔ ذرا دور ایک لا علاج مریض اپنے ڈاکٹر کویاسین حفظ کرا رہا ہے۔ ہر طرف ساگودانے اور مونگ کی دال کی کھچڑی کے ڈھیر لگے ہیں۔ آسمان بنفشی ہو رہا ہے اور عناب کے درختوں کی چھاؤں میں، سناکی جھاڑیوں کی اوٹ لے کر بہت سے غلمان ایک مولوی کو غذا بالجبر کے طور پر معجونیں کھلا رہے ہیں۔ تا حد نظر کافور میں بسے ہوئے کفن ہوا میں لہرا رہے ہیں۔ جا بجا لوبان سلگ رہا ہے اورمیراسرسنگ مرمر کی لوح مزار کے نیچے دبا ہوا ہے اوراس کی ٹھنڈک نس نس میں گھسی جا رہی ہے۔ میرے منہ میں سگرٹ اور ڈاکٹر کے منہ میں تھرمامیٹر ہے۔ آنکھ کھلتی ہے تو کیا دیکھتا ہوں کہ سرپربرف کی تھیلی رکھی ہے۔ میرے منہ میں تھرما میٹر ٹھنسا ہواہے اور ڈاکٹر کے ہونٹوں میں سگریٹ دبا ہے۔لگے ہاتھوں، عیادت کرنے والوں کی ایک اورقسم کا تعارف کرا دوں۔ یہ حضرات جدید طریق کار برتتے اورنفسیات کا ہر اصول داؤں پر لگا دیتے ہیں۔ ہر پانچ منٹ بعد پوچھتے ہیں کہ افاقہ ہوا یا نہیں ؟ گویا مریض سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ عالم نزع میں بھی ان کی معلومات عامہ میں اضافہ کرنے کی غرض سے RUNNING COMMENTARY کرتا رہے گا۔ ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کس طرح مریض پر ثابت کر دیں کہ محض انتقاماً بیمار ہے یا وہم میں مبتلا ہے اورکسی سنگین غلط فہمی کی بناپراسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔ ان کی مثال اس روزہ خور کی سی ہے جو انتہائی نیک نیتی سے کسی روزہ دار کا روزہ لطیفوں سے بہلانا چاہتاہو۔ مکالمہ نمونہ ملاحظہ ہو:ملاقاتی:ماشاء اللہ ! آج منہ پر بڑی رونق ہے۔مریض: جی ہاں ! آج شیو نہیں کیا ہے۔ملاقاتی:آواز میں بھی کرارا پن ہے۔مریض کی بیوی:ڈاکٹر نے صبح سے ساگودانہ بھی بند کر دیا ہے۔ملاقاتی : (اپنی بیوی سے مخاطب ہو کر) بیگما!یہ صحت یاب ہو جائیں تو ذرا انھیں میری پتھری دکھانا جو تم نے چارسال سے اسپرٹ کی بوتل میں رکھ چھوڑی ہے (مریض سے مخاطب ہو کر) صاحب! یوں تو ہر مریض کو اپنی آنکھ کا تنکا بھی شہتیر معلوم ہوتا ہے۔ مگر یقین جانیے، آپ کا شگاف توبس دو تین انگل لمباہو گا، میرا تو پورا ایک بالشت ہے۔ بالکل کھنکھجورا معلوم ہوتا ہے۔مریض: (کراہتے ہوئے )مگر میں ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہوں۔ملاقاتی: (ایکا ایکی پنترا بدل کر)یہ سب آپ کا وہم ہے۔ آپ کو صرف ملیریا ہے۔مریض: یہ پاس والی چارپائی، جواب خالی پڑی ہے، اس کا مریض بھی اسی وہم میں مبتلا تھا۔ملاقاتی: ارے صاحب!مانئے تو! آپ بالکل ٹھیک ہیں۔ اٹھ کر منہ ہاتھ دھوئیےمریض کی بیوی: (روہانسی ہو کر) دو دفعہ دھو چکے ہیں۔ صورت ہی ایسی ہے۔اس وقت ایک دیرینہ کرم فرما یاد آ رہے ہیں، جن کا طرز عیادت ہی اور ہے۔ ایساحلیہ بنا کر آتے ہیں کہ خود ان کی عیادت فرض ہو جاتی ہے۔ ''مزاج شریف!‘‘ کو وہ رسمی فقرہ نہیں، بلکہ سالانہ امتحان کاسوال سمجھتے ہیں اورسچ مچ اپنے مزاج کی جملہ تفصیلات بتانا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک دن منہ کا مزہ بدلنے کی خاطر میں نے ''مزاج شریف!‘‘کے بجائے ''سب خیریت ہے ؟‘‘ سے پرسش احوال کی۔ پلٹ بولے ''اس جہان شریت میں خیریت کہاں ؟‘‘اس مابعد الطبیعاتی تمہید کے بعد کراچی کے موسم کی خرابی کا ذکر آنکھوں میں آنسوبھرکرایسے اندازسے کیا گویا ان پرسراسرذاتی ظلم ہو رہا ہے، اوراس کی تمام تر ذمہ داری میونسپل کارپوریشن پر عائد ہوتی ہے۔ 

اچھی نیند کیلئے درست تکیے کی اہمیت

اچھی نیند کیلئے درست تکیے کی اہمیت

نیند انسانی صحت اور روزمرہ زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ نیند کے دوران جسم اور دماغ کو سکون ملتا ہے، جس سے اگلے دن کیلئے توانائی بحال ہوتی ہے۔ اچھی نیند کا انحصار صرف وقت پر نہیں بلکہ اس کے معیار پر بھی ہے۔ زیادہ تر لوگ نیند کیلئے گدے پر توجہ دیتے ہیں اور اسے ایک اہم سرمایہ کاری سمجھتے ہیں، لیکن تکیہ جو نیند کے معیار میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے، اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ ایک مناسب تکیہ نہ صرف جسم کو آرام فراہم کرتا ہے بلکہ نیند کے دوران جسمانی توازن کو بھی برقرار رکھتا ہے۔ آئیے، ہم تکیے کی اہمیت، درست انتخاب اور اس کی دیکھ بھال کا جائزہ لیتے ہیں۔ تکیے کا کردار اور اس کی اہمیتتکیہ نیند کے دوران جسم کوسہارا فراہم کرتا ہے، خاص طور پر گردن، کندھوں اور ریڑھ کی ہڈی کو۔ نیند کے دوران جسم کاسیدھا رہنا ضروری ہے، کیونکہ اگر گردن یا ریڑھ کی ہڈی غیر متوازن ہو جائے تو اس کے نتیجے میں گردن، کندھے یا کمر میں درد ہو سکتا ہے۔ ایک غیر آرام دہ تکیہ نیند کو متاثر کر سکتا ہے، جس سے تھکن، چڑچڑاپن اور دیگر مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔تکیہ نیند کے انداز کے مطابق جسم کو سہارا دیتا ہے۔ کمر کے بل سونے والے افراد کیلئے ایک پتلا تکیہ بہتر ہوتا ہے، کیونکہ یہ گردن کو مناسب زاویے پر رکھتا ہے۔ پہلو کے بل سونے والوں کیلئے ایک موٹا اور مضبوط تکیہ ضروری ہے، جو کندھے اور گردن کے درمیان خلا کو پر کرے۔ پیٹ کے بل سونے والوں کو ایک نرم اور پتلا تکیہ استعمال کرنا چاہیے تاکہ گردن پر دباؤ کم ہو اور ریڑھ کی ہڈی غیر متوازن نہ ہو۔تکیے کی عمر اور تبدیلی کی ضرورتزیادہ تر لوگ اپنے تکیے کی عمر کے بارے میں نہیں سوچتے اور اسے سالوں تک استعمال کرتے رہتے ہیں، حالانکہ یہ ان کی صحت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ عام طور پر تکیے کی عمر 18 ماہ سے 3 سال تک ہوتی ہے، لیکن یہ مواد اور معیار پر منحصر ہے۔ فوم اور قدرتی مواد کے تکیے زیادہ دیرپا ہوتے ہیں۔پرانے تکیے جلد کے مردہ خلیات، دھول، پھپھوندی اور دیگر جراثیم جمع کر لیتے ہیں، جو صحت کیلئے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ یہ الرجی، سانس کی بیماریوں اور جلد کے مسائل کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس لیے تکیے کو وقتاً فوقتاً تبدیل کرنا ضروری ہے۔ تکیے کی حالت جانچنے کیلئے ''فولڈ ٹیسٹ‘‘کریں۔ تکیے کو آدھا فولڈ کریں، اگر یہ اپنی اصلی حالت میں واپس نہیں آتا تو یہ اشارہ ہے کہ تکیہ تبدیل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔تکیہ منتخب کرتے وقت اہم عواملتکیہ خریدتے وقت چند اہم عوامل کو مدنظر رکھنا ضروری ہے، تاکہ آپ کیلئے ایک ایسا تکیہ منتخب ہو جو نہ صرف آرام دہ ہو بلکہ آپ کی نیند کی ضروریات کو بھی پورا کرے۔مواد کا انتخاب:تکیے مختلف مواد سے بنے ہوتے ہیں، جیسے پرندوں کے پر، مصنوعی فائبر، اون، کپاس، لیٹیکس اور فوم۔ ہر مواد کے اپنے فوائد اور نقصانات ہیں۔ پرندوں کے پروں والے تکیے نرم اور ہلکے ہوتے ہیں لیکن الرجی پیدا کر سکتے ہیں۔ فائبر کے تکیے کم الرجی پیدا کرتے ہیں لیکن یہ دیرپا نہیں ہوتے۔ فوم کے تکیے گردن اور سر کو بہترین سپورٹ فراہم کرتے ہیں لیکن یہ بھاری ہو سکتے ہیں۔وزن:تکیے کا وزن بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ہلکے تکیے آسانی سے شکل بدل لیتے ہیں جبکہ بھاری تکیے مضبوط ہوتے ہیں اور اپنی جگہ پر برقرار رہتے ہیں۔سائز:تکیے کا سائز بھی نیند کے آرام پر اثر انداز ہوتا ہے۔ معیاری سائز کے تکیے زیادہ تر افراد استعمال کرتے ہیں، لیکن اگر آپ بڑے گدے پر سوتے ہیں تو بڑے سائز کا تکیہ منتخب کریں۔معیار:اعلیٰ معیار کے تکیے زیادہ دیرپا اور آرام دہ ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ مہنگے ہو سکتے ہیں، لیکن یہ صحت اور نیند کے معیار کیلئے ایک بہترین سرمایہ کاری ہیں۔ نیند کی عادات:آپ کی نیند کے انداز کے مطابق تکیے کا انتخاب بہت اہم ہے۔ اگر آپ کمر کے بل سوتے ہیں تو پتلا تکیہ مناسب ہوگا۔ پہلو کے بل سونے والوں کو ایک موٹا اور مضبوط تکیہ استعمال کرنا چاہیے، جبکہ پیٹ کے بل سونے والوں کے لیے نرم اور پتلا تکیہ بہتر ہے۔تکیے کی دیکھ بھال تکیے کی عمر بڑھانے اور اسے صاف رکھنے کیلئے مناسب دیکھ بھال ضروری ہے۔ تکیے کو باقاعدگی سے دھونا یا دھوپ میں رکھنا، اس میں موجود دھول اور جراثیم کو کم کرتا ہے۔ تکیے کے کور کا استعمال بھی ضروری ہے کیونکہ یہ تکیے کو صاف اور محفوظ رکھتا ہے۔ اپنی نیند کی ضروریات کے مطابق تکیہ منتخب کریں، اس کی حالت باقاعدگی سے جانچیں اور وقت پر تبدیل کریں۔ پرسکون نیند آپ کی زندگی کے معیار کو بہتر بناتی ہے اور اس میں تکیے کا کردار نظرانداز نہیں کیا جا سکتا لہٰذا اپنی نیند کو بہتر بنانے کیلئے آج ہی اپنے تکیے پر توجہ دیں۔