بچوں کوبوتل میں دودھ کیسے دیا جائے؟
اسپیشل فیچر
پیدائش کے بعد بچے کو صرف ماں کا دودھ دینا چاہیے۔ ڈاکٹرز کے مطابق چار ماہ تک بچے کو ماں کے دودھ کے علاوہ کھانے کی کسی دوسری چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ عرصہ چھ ماہ تک ہوتا ہے۔ چار سے چھ ماہ تک بچے کو ہلکی پھلکی غذا دینا چاہیے۔ البتہ ہو سکتا ہے کسی وجہ سے ماں اپنے بچے کو دودھ پلانے کے قابل نہ ہو یا اس کا انتقال ہو جائے توایسی صور ت حال میں بوتل یا فیڈر سے دودھ دیا جاتا ہے۔ لیکن بہت سے والدین اس کام کے بہتر انداز سے آگاہ نہیں۔ بچوں کو بوتل میں دودھ کم وقفوں کے ساتھ بار بار نہیں دینا چاہیے۔ کوشش کرنی چاہیے کہ بچہ ایک بار پیٹ بھر کر پی لے۔ دودھ پینے کا دورانیہ دس سے پندرہ منٹ تک ہونا چاہیے۔ اگر بچہ زیادہ وقت صرف کر رہا ہے تو سمجھ لیجیے کہ اسے مطلوبہ مقدار میں بوتل کے نپل سے دودھ نہیں آرہا۔ اس کی عمومی وجہ نپل کے سوراخ کا تنگ ہونا ہوتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی چھوٹی سی شے نپل میں پھنس گئی ہو۔ بعض اوقات دودھ بچے کے منہ سے باہر نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ خطرناک ہے۔ اگر بوتل کے نپل سے زیادہ مقدار میں دودھ آ رہا ہے تو وہ سانس کی نالی میں بھی جا سکتا ہے۔ نپل کے سوراخ کوبچے کی عمر کے لحاظ سے ہونا چاہیے یعنی اگر بچہ تھوڑا بڑا ہے تو اس میں سے دودھ بھی زیادہ آنا چاہیے۔ بوتل کے نپل عمر کے حساب سے بھی بنائے جاتے ہیں۔ یہ عام طور پر تین درجوں میں ہوتے ہیں، ایک سے تین ماہ، تین سے چھ ماہ اور چھ ماہ سے زیادہ عمر کے لیے ۔ بچے کو بوتل کا دودھ دینے سے قبل یہ ضرور دیکھ لیں کہ اس کا نپل کس عمر کے بچے کے لیے ہے۔ بوتل اور نپل کو ہر بار صاف کرنا چاہیے۔ بہتر یہی ہے کہ جوں ہی بچہ بوتل سے دودھ پی لے اسے دھو کر ابال لیں۔ اگر بچا ہوا دودھ زیادہ دیر تک فیڈز میں رہے گا تو خراب ہو جائے گا اور اسے صاف کرنا مشکل ہوگا۔ بوتل کو دھوتے ہوئے نپل کو علیحدہ ضرور کریں ورنہ اسے پوری طرح دھونا مشکل ہوگا۔ ابالنے سے قبل برش کے ساتھ اچھی طرح دھونا ضروری ہے۔ محض ابالنا کافی نہیں ہوتا۔ بوتلیں اور نپل کچھ ماہ کے بعد عموماًخراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر ان کا رنگ بدل جائے یا وہ خستہ نظر آئیں تو انہیں تبدیل کر لینا چاہیے۔ اگر بوتل لیک ہو یا کہیں سے ٹوٹی ہو تو اسے ہرگز استعمال نہ کریں۔ایک غلطی عام کی جاتی ہے۔ بچہ جب بوتل پیتے سو جاتا ہے تو بوتل اس کے منہ میں رہنے دی جاتی ہے ۔ اسے فوراً نکال لینا چاہیے۔ دودھ سانس کی نالی میں جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر بچے کے دانت نکل آئے ہوں تو وہ دودھ کی منہ میں موجودگی سے آہستہ آہستہ خراب ہونے لگتے ہیں۔ اس سے بچے چوسنے کی عادت ہو جاتی ہے وہ اسے منہ میں لے کر سونے کا عادی ہو سکتا ہے۔ اس عادت کی وجہ سے بچے خالی ہونے پر بھی بوتل چوستے رہتے ہیں جس سے ان کے پیٹ میں ہوا چلی جاتی ہے جو بعد میں تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ جب بچہ ہلکی پھلکی غذا کھانے لگے تو بہت زیادہ دودھ پلانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بچے کو چھ ماہ بعد بیرونی اور نسبتاً ٹھوس غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اگر بچے کا پیٹ دودھ ہی سے بھرا رہے گا تو وہ یہ غذا کم کھائے گا۔ اس سے اس کی غذائی ضروریات پوری نہیں ہوں گی۔ ڈاکٹر کے خیال میں ایک سال کے بعد یا جب بچہ چلنا شروع کردے اسے رات میں سونے کے دوران دودھ نہیں دینا چاہیے۔ عمر کے اس حصے میں رات کے وقت دودھ نہ پینے سے بچے کی صحت متاثر نہیں ہوتی۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ بچہ بار بار دودھ مانگنے کے لیے نہیں اٹھتا اور اسے سوتے ہوئے زیادہ پیشاب بھی نہیں آتا۔ بچوں کے رات کے وقت جاگ جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے۔ اگر بچہ بلا تعطل سوئے گا تو دن کے وقت خوب چاک و چوبند ہوگا۔ جب بچہ چلنا شروع کردے تو اسے آدھا کلو سے تین پاؤ تک دودھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اسے دوسری نرم یا قدرے ٹھوس غذائیں دینی چاہئیں۔ کچھ والدین سمجھتے ہیں کہ اس عمر میں بچے کو زیادہ سے زیادہ دودھ پلانا چاہیے۔ یہ غلط ہے۔ مطلوبہ مقدار سے زیادہ دودھ پلانے سے دوسری غذائیں اچھی طرح ہضم نہیں ہو پاتیں۔ اس سے خون کی کمی بھی ہوسکتی ہے جبکہ بچہ صحت مندنظر آتا ہے۔ بعض بچے جب چلنے لگتے ہیں تو وہ بوتل کو ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں اور بار بار تھوڑا تھوڑا دودھ پیتے ہیں۔ یہ عادت نقصان دہ ہے۔ اس سے دانتوں کے ساتھ ساتھ پیٹ بھی خراب ہو سکتا ہے۔ اس عمر میں بچے کو پورے اہتمام کے ساتھ ایک بار پیٹ بھر کر دودھ پلائیں اور اس کے بعد چاہیں تو بوتل چھپا دیں۔ چند گھنٹوں بعد یہ عمل دہرائیں۔ یاد رکھیں چلنے والے بچوں کے لیے دودھ مکمل غذا نہیں۔ انہیں دیگر غذاؤں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ۔۔