نوجوانوں کا مستقبل برباد کرنے والی تین پتی گیم
اسپیشل فیچر
اینڈرائیڈ موبائل فون کی آمد کے بعد بیشترالیکٹرانکس اشیا کے انفرادی استعمال سے ہماری جان چھوٹ چکی ہے اور ہم ایک ہی پیکج میں بہت سی سہولیات حاصل کرکے پھولے نہیں سماتے۔موبائل فون،کمپیوٹر، ٹی وی، گیمز کلب،سب کچھ ہمیں ایک ہی اینڈرائیڈ موبائل میں میسر ہوجاتا ہے۔بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی اس ٹیکنالوجی نے کافی راغب کیا ہے اوراب ہمیں بڑے افراد مقابلے میں نوجوانوں اور نوعمر بچوں کے ہاتھوں میں موبائل فون زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ماں باپ اس بات سے بے پرواہ ،اپنے بچوں کو موبائل فون پر مشغول دیکھ کرتسلی کرلیتے ہیں کہ ان کے بچے شاید کسی سود مند مشغلے میں مصروف ہیں اور ان موبائل گیمز کے باعث ان کی گلی محلوں کے آوارہ ماحول سے جان چھوٹی ہوئی ہے۔لیکن آن لائن فیچرزرکھنے والے یہ موبائل فون آہستہ آہستہ ہمارے بچوں کا مستقبل تباہ کررہے ہیں۔ان ڈورگیم ٹیکنالوجی نے پہلے تو ہمارے بچوں سے جسمانی کھیلوں کو چھینا،جس کے باعث ہماری پچھلی دو نسلیں چھوٹی چھوٹی عمروں میں ہی خطرناک بیماریوں کاشکاراور کاہل بن چکی ہیں۔ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بچوں کا گھر کے باہر کے ماحول سے اثر انداز ہوکر بے راہ روی کاراستہ اختیار کرلینادرحقیقت ان کے ماں باپ کی لاپرواہی کا نتیجہ ہوتا ہے اور آج کے ماں باپ نے اس کاحل ان کی بہتر کونسلنگ اور تربیت کی بجائے ایک موبائل فون میں ڈھونڈ لیاہے جسے ہاتھ میں پکڑے بچے گھنٹوں گھر کے کونے میں بیٹھے رہتے ہیں۔ پتا لگتا ہے کہ تین پتی نامی گیم اس وقت بہت کھیلی جا رہی ہے۔ ایسے بچے جن کی عمر سکول جانے کی ہے، وہ بھی اس اینڈرائیڈایپ کے ذریعے تاش کے پتوں کی اس جوا گیم کے فوبیا کاشکار ہیں۔اس گیم میں حصہ لینے والا فرد فیس بک پر اپنا اکائونٹ بناتا ہے اور پھر اس کی شناخت کے ذریعے اس گیم کے ممبران کے ساتھ آن لائن تاش کی گیم کھیلتا ہے۔ یہ موبائل گیم اب صرف ایک کھیل تک محدود نہیں رہی ،بلکہ اس کے باعث بہت سے لوگ حقیقی زندگی میں دونمبر طریقے سے پیسہ کمانا شروع ہوگئے ہیں، جبکہ کئی افراد فیس بک پر لڑکیوں کے جعلی اکائونٹ بناکرگیم کے پوائنٹس بھی لڑکوں سے بٹورتے ہیں۔اس گیم کوکھیلنے کے لیے گیم اکائونٹ میں فرضی پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے اور جب بھی کسی ممبر کے اکائونٹ میں رقم جوئے میں ہارنے کے باعث ختم ہوجاتی ہے تو اسے دوسرے کسی جاننے والے فرد(فیس بک اکائونٹ ہولڈر) کے اکائونٹ سے رقم شیئر کرنا پڑتی ہے۔تین پتی کھیلنے والے افراد نے فیس بک پر اپنے درجنوں اکائونٹ بنائے ہوتے ہیں، جس کے باعث اب فیس بک بھی ایک جعلی سوشل میڈیاسائٹ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔لڑکیوں کے فیس بک آئی ڈی بناکر تین پتی گیم کھیلنے والے ایک شخص سے جب اس جوا گیم سے پیسے کمانے کا طریقہ پوچھا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ ہم کچھ لوگوں نے مل کر لڑکیوں کے نام سے فیس بک آئی ڈی بنارکھے ہیںاور ہم نے ایسے افراد کواپنے ساتھ فیس بک اکائونٹس میں شامل کرلیتے ہیں جو تین پتی گیم کھیلنے کاشوق رکھتے ہوں۔اس نے بتایا کہ ہم ان افراد کو دوطریقوں سے استعمال کرتے ہیں جن میں سے ایک گروپ وہ ہے ۔ جن سے ہم لڑکیاں بن کر فرضی رقم یعنی گیم پوائنٹس آن لائن ٹرانسفر کروالیتے ہیں، جبکہ دوسرے وہ چھوٹی عمر کے بچے اور لاعلم نوجوان ہوتے ہیں کہ جنہیں ہم گیم کھیلنے کے لیے موبائل فون ایزی لوڈ کی رقم کے بدلے پوائنٹس بیچتے ہیں۔اس کاکہنا تھا کہ تاش کے پتوں کا جوا لوگوں میں پہلے سے ہی مقبول تھا اور آہستہ آہستہ پولیس کی کارروائیوں کے باعث یہ جوئے کے اڈے بند ہوتے گئے، لیکن اب آن لائن جوا گیم نے اس کی کمی پوری کردی ہے۔اس کاکہنا تھاکہ جو لوگ یہ گیم کھیلنے کاشوق رکھتے ہیں وہ ہم سے پوائنٹس خریدتے ہیں اورہم 200روپے کے بدلے20,000جعلی روپے یاگیم پوائنٹس ان کے اکائونٹ میں شیئر کردیتے ہیں۔مذکورہ شخص نے یہ بھی انکشاف کیا کہ بعض افراد جو اس گیم میں پیسے جیتتے ہیں وہ ہمیں لڑکی سمجھ کراپنے کروڑوں پوائنٹس فیس بک آئی ڈی میں شیئر کرنے کی آفر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلے ہم ان سے فون پر بات کرکے یہ ثابت کریں کہ یہ اکائونٹ حقیقی لڑکی کا ہی ہے۔ اس نے بتایا کہ اس مقصد کے لیے ہم نے لڑکیوں کو بھی اس گیم کا حصہ بنا رکھا ہے،جو کچھ دیر کے لیے ان افراد سے فون پر بات کرکے یہ یقین دلاتی ہیں کہ ہاں یہ اکائونٹ ہولڈر ایک لڑکی ہی ہے۔مذکورہ صورتحال تشویشناک ہے ۔ ماں باپ کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں پر خصوصی نظر رکھیں۔پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو اس بارے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ،تاکہ فیس بک کے ذریعے جعلی اکائونٹ چلانے والے افراد کو فوری قابو کیا جاسکے۔۔۔