آلودگی کی چار اقسام
اسپیشل فیچر
آلودگی پاکستان سمیت ساری دنیا کا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے عالمی حدت میں اضافہ ہو رہا ہے اور دنیا کے موسم بدل رہے ہیں۔ سیلاب اور طوفان شدید سے شدید تر ہوتے جارہے ہیں۔ زراعت بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور اس شعبے سے وابستہ آبادی کے لیے گزر بسر مشکل ہو رہی ہے۔ پاکستان کو شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثرہوسکتے ہیں۔ عالمی حدت بڑھنے سے قطبین پر برف پگھل رہی ہے اور سطح سمندر بلند ہورہی ہے۔سمندر کی سطح بلند ہونے سے مالدیپ جیسے ممالک کے ڈوبنے اور کئی دیگر کے مسلسل سمندری طوفانوں کی زد میں آنے کا امکان بڑھتا جارہا ہے۔اس عمل سے میٹھے پانی کے ذخائر میں کمی آرہی ہے۔ انسانیت کو چار طرح کی آلودگی سے زیادہ خطرہ ہے۔ فضائی: فضائی آلودگی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب فضا میں نقصان دہ مواد کے ذرات بڑھ جائیں۔یہ آلودگی ہر طرح کی حیاتیات کو متاثر کرتی ہے کیونکہ پانی کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں۔ جنگلات کو لگنے والی آگ اور کوئلے کی صنعت اس آلودگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔نیزبڑے شہروں میں گاڑیوں اورفیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں اسے بڑھا رہاہے۔ متعدد بڑے شہروں میں اس کی وجہ سے بعض اوقات لوگوں کا سانس لینا تک دشوار ہو جاتا ہے۔ بھارت اور چین کے دارالحکومت دلی اور بیجنگ اس حوالے سے بہت بدنام ہے۔ گزشتہ موسم سرما میں پنجاب اور سندھ میں سموگ کی وجہ فضائی آلودگی تھی۔ کراچی، لاہور، فیصل آباداور دیگر بڑے شہروں میں مضردھواں کئی طرح کی بیماریاں پھیلا رہا ہے جن میں سانس کی بیماریاں اور الرجی سرِفہرست ہیں۔ اس سے نپٹنے کا مؤثر بندوبست نہیں کیا جارہا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ماحول دوست پبلک ٹرانسپورٹ کو ترویج دی جائے اور فیکٹریوں سے نکلنے والے خطرناک دھوئیں کو روکا جائے۔ زمینی: بہت سے مضر کیمیکل غیر محسوس انداز میںہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں جیسے پلاسٹک اور کیڑے مار زہر۔ یہ زمین کو آلودہ کرتے ہیں۔ صنعتوں کا فضلہ بھی زمینی آلودگی کا بڑا سبب ہے۔ پاکستان میں کیڑے مار زہروں کا فصلوں پر بے دریغ استعمال ہو رہا ہے جس سے زمین کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی بھی متاثر ہو رہی ہے۔آبی:صاف پانی بہت بڑی نعمت ہے لیکن یہ اک خواب بنتا جا رہا ہے۔ ہمارے دریا، جھیلیں اور سمندر آلودہ ہو رہے ہیں۔ آلودگی زیر زمین پانی تک بھی پہنچ چکی ہے۔ اس کی وجہ خطرناک کیمیائی عناصر کی پانی میں ملاوٹ ہے۔ اس کے اسباب میں فیکٹریوں کے فضلے اورنکاسی کے گندے پانی کی ملاوٹ شامل ہے۔ خطرناک کیمیکل اور پیٹرولیم مصنوعات سے لدے بحری جہازوں کے حادثات سمندری آلودگی میں اضافے کا باعث ہیں۔زندگی کا تصور پانی کے بغیر محال ہے لہٰذا اسے آلودگی سے بچانا انتہائی ضروری ہے۔ آبی آلودگی زراعت کے ساتھ ساتھ انسانوں کو براہِ راست متاثر کرتی ہے۔ بین الاقوامی ادارے یونیسف کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستانی ہسپتالوں میں 40 فیصد مریض آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شکار ہیں۔ شور: ہمارے ہاں شور کو بری چیز سمجھنا تو درکنار لوگ اس سے لطف اندوز ہونے کی شے سمجھا جاتا ہے مثلاً موسیقی کو اونچی آواز میں سننااور شادی بیاہ کے موقع پر زور دار پٹاخے ثقافت کا حصہ بن گئے ہیں۔شور سے قوت سماعت میں کمی واقع ہو جاتی ہے، خصوصاً عمر کے بڑھنے کے ساتھ یہ مسئلہ سنگیں نوعیت اختیار کر لیتا ہے۔ شور سے ایک اور انتہائی مضر بیماری ہائی بلڈ پریشر پیدا ہوتی ہے۔ آٹھ گھنٹے تک مسلسل اونچے درجے کا شور سننے سے بلڈ پریشر میں پانچ سے دس پوائنٹس کا اضافہ ہوتا ہے۔مشینی آلات اور ٹریفک میں ہوش ربا اضافہ شور کو بڑھا رہا ہے جس نے سکون غارت کر دیا۔ تما م طرح کی آلودگی پر قابو پانے کے لیے پاکستان کے شہریوں اور حکومت کو مل کرقدم بڑھانا ہوگا۔ اس حوالے سے ترقی یافتہ مغربی ممالک پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جس کی دو بنیادی وجوہ ہیں۔ اول، ابتدائی طور پر دنیا میں انہی مغربی ممالک نے سب سے زیادہ آلودگی پھیلائی۔ دوم، ان کے پاس ماحول دوست ٹیکنالوجی موجود ہے جسے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کومنتقل کر کے آلودگی کے مسئلے پر بہت حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔