’’مغل اعظم‘‘ کی شان۔ کے آصف ان جیسا ہدایت کار کوئی دوسرا نہیں
اسپیشل فیچر
’’ مغل اعظم‘‘ کو ہندوستان کی مشہور ترین فلم کہا جاتا ہے اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔ یہ فلم جس طرح تکمیل کے مراحل طے کرتی رہی وہ اپنی جگہ حیران کن ہے۔ کوئی شخص یہ یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتا کہ ’’مغل اعظم‘‘ کی تکمیل نو برس میں ہوئی اوراس میں اس زمانے میں کثیر سرمایہ لگایا گیا۔ جب بھی ’’مغل اعظم‘‘ کا نام آتا ہے تو ذہن میں مدھو بالا، دلیپ کمار، پرتھوی راج کا نام آتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس فلم کے ہدایت کار کے آصف کے نام کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔14 جون 1922ء کو اتاوہ (اترپردیش) بھارت میں پیدا ہونے والے کے آصف کا اصل نام آصف کریم تھا۔ وہ فلمساز، ہدایتکار اور سکرین رائٹر بھی تھے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ کے۔ آصف اپنا مقدرآزمانے ممبئی چلے گئے۔ ہدایت کار کی حیثیت سے ان کی سب سے پہلی فلم ’’پھول‘‘ تھی جو 1945ء میںریلیز ہوئی جو باکس آفس پر بہت کامیاب رہی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس فلم میں اپنے وقت کے مشہور ترین اداکار پرتھوی راج کپور، درگاہ کھوٹے اور ثریا نے اپنے فن کے جوہر دکھائے تھے۔ دراصل ’’مغل اعظم‘‘ اردوزبان کے ناول ’’انارکلی‘‘ سے ماخوذ تھی۔ اس ناول کو سید امتیاز علی تاج نے لکھا تھا اور مرکزی کرداروں میں چندرموہن اورنرگس کو مرکزی کرداروں کیلئے کاسٹ کیا گیا تھا، تاہم قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ فلم کے آغاز سے پہلے ہی 1946ء میں فلم کا مرکزی کردارادا کرنے والے اداکار چندر موہن چل بسے۔ اس موقع پر کے۔ آصف نے اس فلم کو عارضی طور پر بند کردیا اور ایک نئی فلم ’’ہلچل‘‘ پر کام شروع کر دیا جسے 1951ء میں ریلیز کیا گیا۔ پھر’’مغل اعظم‘‘ پر کے۔ آصف نے دوبارہ کام شروع کیا۔ اس بار فلم میں دلیپ کمار اور مدھو بالا کو کاسٹ کیا گیا۔ مغل اعظم کو 1960ء میں ریلیز کیا گیا اور یہ فلم زبردست کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ صرف اس فلم پر ایک مکمل کتاب لکھی جاسکتی ہے اور کچھ کتابیں لکھی بھی گئی ہیں۔ اس فلم نے کے۔ آصف کو عالمگیر شہرت عطاکی۔ کے ۔ آصف نے اس فلم کے ایک گانے’’پیار کیا تو ڈرنا کیا‘‘ کی پکچرائزیشن کیلئے اس زمانے میں 15 لاکھ کا شیشہ بلجیم سے منگوایا تھا۔ یہاں کے۔ آصف کے پروڈیوسر شاہ پورجی کو بھی داد دینا پڑتی ہے جنہوں نے آخر تک ہمت نہ ہاری اور کے۔ آصف کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس فلم کے مکالمے پانچ مکالمہ نگاروں نے زور قلم کا نتیجہ تھے۔ جن میں کمال امروہی، راجندر سنگھ بیدی، امان اللہ اور وجاہت مرزا شامل تھے۔ اتنے شاندار مکالمہ نگاروں کے ہوتے ہوئے اعلیٰ درجے کا کام ہی ہوسکتا تھا اور وہی ہوا مغل اعظم کے مکالمے آج بھی زبان زد عام ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ ایک مکالمہ نگار امان اللہ بھارت کی معروف اداکارہ زینت امان کے والد تھے۔ بہرحال ’’مغل اعظم‘‘ کو اب بھی ہندوستان کی شاندار ترین فلم کہا جاتا ہے۔ 1984ء میں اسے رنگین کر دیا گیا اور پھر سے ریلیز کر دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار ’’مغل اعظم‘‘ سلور جوبلی کرنے میں کامیاب رہی۔اس موقع پر کے۔ آصف نے ایک اور فلم ’’لو اینڈ گاڈ‘‘ بنانے کا ارادہ کیا۔ اور یہ فلم لیلیٰ مجنوں کی رومانوی داستان پر مبنی تھی۔ اس فلم میں گورودت اور نمی کو مرکزی کرداروں میں کاسٹ کیا گیا تھا لیکن 1964ء میں گورودت اس جہاں سے رخصت ہوگئے۔ اب ان کی جگہ سنجیوکمار کو کاسٹ کرلیا گیا۔ لیکن فلم کی تکمیل کے دوران کے۔ آصف بھی اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کی ناگہانی وفات کے بعد اس فلم کو کے۔ آصف کی بیوہ نے 1986ء میں ریلیز کیا اس وقت یہ فلم نامکمل تھی۔کے۔ آصف کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ جنونی آدمی تھے۔ ’’مغل اعظم‘‘ ان کا جنون تھا۔ بھارت کے مشہور شاعر جاوید اخترنے ایک دفعہ بھارتی ٹی وی کے ایک چینل پر یہ بتایا تھا کہ اس فلم میں شہنشاہ اکبر اور شہزاد ہ سلیم کی فوجوں کے درمیان جو لڑائی کے مناظر دکھائے گئے ان میں اصلی بھارتی فوج کو نقلی لڑائی کرنا سکھایا گیا۔ انہوں نے صرف چار فلمیں بنائیں اور اس میں سب سے زیادہ شہرت ’’مغل اعظم‘‘ کو ملی۔ انہوں نے تین شادیاں کیں۔ ان میں اداکارہ نگار سلطانہ ، دلیپ کمار کی ہمشیرہ اختر آصف اور ستارہ دیوی شامل ہیں۔ 9 مارچ1971ء کو کے۔ آصف بھی چل بسے۔ اس وقت ان کی عمر 48 برس تھی۔ ان کا کام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔٭…٭…٭