ذیابیطس کا علاج
اسپیشل فیچر
ذیابیطس کی ہلاکتو ں سے سب واقف ہیں۔ اس جان لیوا بیماری کا کوئی علاج نہیں۔ لاکھوں بلکہ کروڑوںلوگ اس کا شکار ہیں۔ اسے صرف مینج کیا جاسکتا ہے۔ ختم نہیں کیا جاسکتا۔ انسانی جسم کو شوگر یعنی گلو کوز کی ضرورت ہے۔ اور لوگ اسی گلو کوز کو مختلف غذائی اجزاء سے حاصل کرتے ہیں۔ ذیابیطس میں انسولین کی مقدار متاثر ہوتی ہے۔ دراصل پینکریاز انسولین پیدا کرنے کے ذمہ دار ہیں جو شوگر کو پراسیس کرتی ہے ۔ ٹائپ ون ٹائپ کے مریض سرے سے انسولین پیدا ہی نہیں کرتے۔ ٹائپ ٹو کے مریض انسولیس کی مقدارکو اپنے جسم میں پیداکرنے کی کوشش تو کرتے ہیں اس طرح وہ پیدا تو کرتے ہیں لیکن جسم میں انسولین پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ۔ ذیابیطس کے مریض میں انسولین کو مناسب مقدار میں استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ اس طرح چینی خلیوں میں توانائی کی صورت میں شامل ہونے کی بجائے خون میں اپنی اصل شکل میں گردش کرتی رہتی ہے۔ جس سے شوگر لیول بڑھ جاتا ہے۔ یہ جان لیوا بیماری ہے۔اس سے بچنے کے کئی طریقے ہیں۔ذیابیطس کا پورا نام ذیابیطس میلی ٹیس ہے۔یہ یونانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے اخراج ہونا ۔ لاطینی زبان میں مالیٹس کو شہد یا مٹھاس کہتے ہیں۔اسے پہلی مرتبہ ڈھائی سو سال قبل قبل مسیح نے اپولیس ایمنسیس نے استعمال کیا۔ تاہم طب کی دنیا میں اس کا استعمال پہلی مرتبہ 1425ء میں ہوا 1675ء میں تھامس ویلیم نے ذیابیطس کے میلی ٹیس کا لفظ لگا دیا کیونکہ ان کے یورینم میں انسولین کی مقدار زیاہ پائی گئی۔ 1770ء میں میتھو ڈالسن نے شوگر کے مریضوں کے یورین میں شوگر لیول بڑھنے کو جان لیوا مرض قرار دیا۔ انہوں نے اس کی دو اقسام بتائیں ۔ ایک ون ٹائپ اور دوسرا ٹو ٹائپ۔زمانہ قدیم میں شوگر کے مریض کے علاج کے لیے ان کو گھوڑے کی پشت پر بٹھا کر ورزش کروایا کرتے تھے۔ اس سے ایک تو یورین کی مقدار کم ہو جاتی تھی اور دوسرا ورزش کرنے سے جسم میں زیادہ چینی استعمال ہو جاتی تھی۔ یونانی معاشرے میں شراب کو بھی شوگر کا ایک علاج سمجھا جاتا تھا۔ تاکہ جو ضائع ہوئی ہے اسے توانائی سے پورا کیا جاسکے۔ بدقسمتی سے ان میں سے کوئی بھی طریقہ علاج درست نہ تھا 1889ء میں جوزڑ وارن نیوی اور آسکرو نیکروسنسی نے ذیابیطس میںپینکریاز کے کردار کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کتوں کے جسم میں سے پینکریاز نکال لیے تو پتہ چلا کہ انہیں شوگر ہو گئی۔ اس سے انہیں پینکریاز اور شوگر کے تعلق کو سمجھنے میں مدد ملی۔ 1910ء میں سر البرٹ شارپے شرٹ نے بھی ایک کارنامہ سرانجام دیا۔ انہوں نے کہا کہ شوگر کا بنیادی سبب اس کیمیکل کی کمی ہے جو پینکریاز نامی پیدا کرتا ہے جسے انسولین کا نام دیا۔ 1900سے 1915ء تک ذیابیطس کے کئی اور علاج دریافت کیے گئے اور8انس ہوٹ میل اس کا ایک علاج قرار دیا گیا۔ ہر دو گھنٹے بعد 8اونس اوٹ میل ایک علاج تھا۔ اس کے بعد دودھ ، چاول، آلو تھیراپی اور افیون تھیراپی بھی وجود میں آئی۔ زمانہ قدیم میں افیون کو بھی شوگر کا ایک علاج تصور کیا گیا۔ زائد خوراک اسی لیے کھلائی جانے لگی کہ وہ جسم میں برداشت زیادہ پیدا کر سکیں1921ء میں فیڈرک گرانٹ اور چالس ہربٹ نے ذیابیطس اور انسولین کے باہمی تعلق کو دریافت کرتے ہوئے اسے ایک سائنسی طریقہ علاج دریافت کیا اور جنوری 1922ء میں انسولین کی تیاری شروع ہو گئی۔ پہلی انسولین لیوناڈ تھامسن کو 14سال کی عمر میں لگائی گئی جو مزید 13سال زندہ رہا۔ نمونیا سے اس کی موت واقع ہوئی۔ 1922ء میں اس کی پہلی مرتبہ فیکٹری میں تیاری شروع ہوئی۔ جو اب تک جاری ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر 9واں امریکی شہری ذیابیطس کا مریض ہے یعنی امریکہ میں اس کے مریضوں کی تعداد3کروڑ ہے پاکستان میں بھی ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد کروڑوں میں ہوگی۔٭…٭…٭