دریائے چناب کنارے آباد تاریخی شہر چنیوٹ
اسپیشل فیچر
چنیوٹ پنجاب کا مشہور شہر ہے جس کی تاریخ قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے ۔اس کا نام چنیوٹ کیوں پڑ ا ؟ اس بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں کہا جاتا ہے کہ ہزاروں برس قبل ایک ہندو رانی دریائے چناب کے کنارے آکر شکار کھیلا کرتی تھی جس کا نام دیوی چندن وتی تھا ۔چندن وتی کو یہ جگہ بہت پسند تھی اس نے یہاں اپنے قیام کے لئے آباد کاری کروائی جو کہ بعد میں شہر کی صورت آباد ہو گیا اور رانی کے نام پر چند نیوٹ کہا جانے لگا ۔جو کہ زمانے کے بدلاؤ کے ساتھ چنی وٹ اور پھر چنیوٹ ہو گیا ۔لیکن مستند تاریخ نے چنیوٹ کا باقاعدہ تذکرہ موریہ اور چندرگپت خاندان کے عہد سے کیا ہے ۔632 ء میں ٹھٹھہ کے برہمن راجہ چچ نے یہ علاقہ فتح کر لیا ۔اس کا جانشین بدھ مت کا پیروکار تھا راجہ داہر اسی کا بیٹا تھا جوکہ دیبل کا حکمران تھا جسے محمد بن قاسم نے شکست دے کر اس کی حکومت کو ختم کر دیا اور اس کے پانچ صوبوں میں اپنی گورنری قائم کی ۔ ان پانچ صوبوں میں یہ چنیوٹ بھی شامل تھا ۔ ایک روایت کے مطابق سکندر اعظم یونانی بھی اس شہر سے گزرا اور قلعہ ریختی موجود تھا ۔ جس کا غیر مسلم مؤرخین نے قلعہ چین آؤٹ کے نام سے تذکرہ کیا ہے ۔سید ماجد نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ پانچ سال قبل چنیوٹ میں ایک قلعہ نما سرائے کی دریافت سے شہر کا تاریخی منظر نامہ یکسر تبدیل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ نئے دریافت شدہ اس سرائے کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ 326 قبل مسیح چندر گپت موریا کی رانی نے ہندو شاہی دور میں تعمیر کروائی تھی۔کتاب ’’چنیوٹ کی تاریخ‘‘میں لکشمی نارائن لکھتے ہیں کہ رانی چندن شکار کی غرض سے مردوں کے بھیس میں چنیوٹ آیا کرتی تھی اور شکار کے لئے پہاڑوں اور دریا چناب کا سنگم اس کی پسندیدہ جگہیں تھیں مگر یہاں رہائش کے لئے کوئی مقام نہ ہونے کے باعث اسے مشکلات درپیش آتی تھیں۔اس نے چنیوٹ میں دریائے چناب کے بائیں کنارے پر پہاڑوں کے دامن میں ایک سرائے تعمیر کروائی جس کا نام چندن یوٹ رکھا گیا جس کا مطلب ’چندن کی جائے پناہ‘ ہے۔اس سرائے کی دیواروں، جن کی چوڑائی تین فٹ تھی کی تعمیر میں مقامی پہاڑوں کا پتھر استعمال کیا گیا تھا اور یہ شاید چنیوٹ کی زمین پر رکھی جانے والی پہلی بنیاد تھی۔بعدازاں اس سرائے کے گرد شہر آباد ہوتا گیا جسے چند یوٹ کہا جانے لگا جو آج کل چنیوٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔تاریخ کی کتابوں سے یہ بھی ملتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس سرائے کو یونیورسٹی کی شکل دے دی گئی تھی جہاں بدھ مت مذہب کے اعلیٰ علوم سکھائے جاتے تھے اور اس یونیورسٹی کا ذکر کئی پرانی مذہبی کتابوں میں بھی موجود ہے۔سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ پاکستان نے 5 سال قبل اس سرائے کی دریافت کے دوران پہاڑوں کے دامن میں مٹی کے بڑے بڑے ٹیلوں کی تین مختلف مقامات سے کھدائی کرتے ہوئے اس کا 10 فیصد سے زائد حصہ دریافت بھی کر لیا تھا مگر باقی کا تمام حصہ تا حال مٹی کے ٹیلوں تلے دبا ہوا ہے اور محکمہ کی طرف سے کام روک دیا گیا ہے۔سرگودھا میں تعینات محکمہ آثار قدیمہ کے اعلیٰ عہدیدار محمد ایوب نے بتایا کہ اس ٹیلے کی کھدائی کے دوران برآمد ہونے والی عمارت کی ساخت اور تعمیر کے انداز کے تمام اشارے ہندو شاہی دور کی بدھ مت یونیورسٹی کی جانب ہی جاتے ہیں جس کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بات میں اب شاید کوئی شک نہیں رہا کہ پہاڑ کے ان ٹیلوں میں چنیوٹ کی تاریخ دبی ہوئی ہے۔تعلیم الاسلام گورنمنٹ کالج چنیوٹ میں تاریخ کے پروفیسر علی عمران شاہ سمجھتے ہیں کہ اگر حکومتِ وقت ضلع چنیوٹ پر توجہ دیتے ہوئے بدھ مت یونیورسٹی سمیت دیگر تاریخی جگہوں کی باقاعدہ دریافت کا کام شروع کروائے تو یہ ضلع موہنجو داڑو کی طرح اہم ترین تاریخی مقام بن سکتا ہے۔چنیوٹ تاریخی قلعہ شہر کے وسط میں عمر حیات محل کے بالمقابل واقع تھا ۔جو کہ اب تنگ و تاریک گلیوں محلوں میں گھر چکا ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد آبادی کے بے پناہ پھیلاؤ کے باعث بغیر پلاننگ کے یہاں اس تاریخی آثار کو تباہ کر کے لوگوں نے اپنے گھر بنا رکھے ہیں ۔چنیوٹ کی قدیم تاریخی کتابوں میں درج ہے کہ یہ قلعہ سب سے پہلے 1326ء میں سلطان محمد تغلق نے تعمیر کروایا تھا ۔اس کے بعد جب بھیرہ کا حاکم ماچھی خان قتل ہوا تو اس کا انتقام لینے کے لئے ان کی بہن چنی نے 1391ء میں حملہ کیا اور اس حملے کے نتیجے میں قلعہ اور شہر برباد ہو گیا ۔اس وقت شہر دریا کے اس پار تھا اور قلعہ اس پار۔ پھر اس نے نیا شہر اس قلعہ کے پاس آباد کیا اور قلعہ کی تعمیر نو کروائی ۔ پھر مغل حکومت میں شہنشاہ اکبر نے اس قلعے پر خاص توجہ نہ دی لیکن مرمت کروا دی ۔دوبارہ اس قلعے کی تجدید اور تعمیر نو مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے عہد حکومت میں قاضی خاندان کے جد امجد نواب وزیر خان گورنر لاہور نے کروائی ۔مختلف حکمرانوں کے ادوار میں اس قلعے نے شدید چوٹیں کھائیںجس کی وجہ سے یہ خستہ حال ہو گیا۔ برطانوی حکومت کے دوران اس قلعے کا استعمال ختم ہو گیا ۔ جگہ جگہ سے ان کی عمارات گرنے لگیں جن کو لوگوں نے گرا کر ہموار کر کے اپنے مکانات تعمیر کر لئے ۔اب چنیوٹ کے اس قدیم قلعے کے آثار چند ٹوٹی ہوئیںدیواریں اور چند ایک پرانے مکانات کی صورت میں باقی ہیں۔چینوٹ شہر سے نامی گرامی لوگوں نے جنم لیا ۔شاہ جہاں کے زمانے میں لاہور کی گورنری پر فائز رہنے والے نواب وزیر خان کا تعلق بھی چنیوٹ سے تھا ۔نواب وزیرخان حکمت کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد لاہور روانہ ہوئے ۔اندرون دہلی دروازہ ان کی تاریخی مسجد وزیر خان اب بھی شان و شوکت کے ساتھ واقع ہے ۔نواب وزیر خان چنیوٹ میں پید ہوئے ۔ان کے والد کا گھر شہر کے قدیم قلعہ ریختی کے قریب واقع تھا ۔جہاں بعد ازاں نواب وزیرخان نے شاہ جہاں کی گورنری کے دوران اپنے آبائی شہر میں اپنی حویلی تعمیر کروائی تھی ۔ اور اس قدیم قلعہ ریختی کے قریب نواب وزیرخان نے شہر کی فصیل تعمیر کروائی تھی جس کے آثار کہیں کہیں کھدائی کے دوران بر آمد ہوتے رہے ہیں قلعہ ریختی کے موجودہ آثار نواب وزیر خان کی تعمیر کردہ فصیل شہر سے الگ ہیں جوکہ اب وقت کے ساتھ معدوم ہو چکے ہیں ۔٭…٭…٭