چاندی کی طرح چمکنے والا دریائے سوات
اسپیشل فیچر
وادیٔ سوات کی تمام تر خوب صورتی، رعنائی اور شادابی کا انحصار دریائے سوات پر ہے۔دریائے سوات ہی کی بدولت سوات کی تمام وادیاں قدرتی حسن و جمال کا مظہر دکھائی دیتی ہیں اور اس کا ہر گوشہ سرسبز و شاداب نظر آتا ہے۔ سوات کی تقریباً تمام قابل دید وادیاں ، دریائے سوات ہی کے کنارے آباد ہیں۔ ان میں اتروڑ،گبرال، اوشو،مٹلتان، گلیشیئر، کالام، بحرین، مدین، باغ ڈھیری، خوازہ خیلہ، شین، چارباغ اور منگورہ شامل ہیں۔دریائے سوات، وادیٔ کالام سے لے کر ملاکنڈ کے بجلی گھر تک سو میل کا فاصلہ طے کرتا ہے۔ اس دوران یہ وسیع و عریض علاقے کو سیراب کر کے اس کی شادابی اور رعنائی کا باعث بنتا ہے۔دریائے سوات اتنا ہی قدیم ہے جتنی قدامت سوات کی خوب صورت سرزمین کو حاصل ہے۔ ہزاروں سال قبل تو سوات اور بھی حسین اور دل کش تھا۔اس وقت سوات جدید دور کی مشینی آلائشوں کی دست برد سے قطعی محفوظ تھا اور نہ صرف اس کی فضائیں پرکشش اور خوش رنگ پھولوں اور گھنے جنگلات کی وجہ سے معنبر تھیں بلکہ پوری وادیٔ سوات میں جو ندیاں ، نالے، آبشار اور دریا تھے وہ ہر قسم کی آلودگی سے پاک تھے۔ دریائے سوات کے غیر معمولی طور پر پاک و شفاف سپید پانی کی وجہ سے سکندرِ اعظم کے ساتھ آئے ہوئے مؤرخین نے اس علاقے کا ذکر اس کے دریا کی نسبت سے کیا تھا۔ موجودہ دریائے سوات اس قدیم عہد میں ’’سواستو‘‘ کہلاتا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ لفظ سویتا سے مشتق ہے جس کے معنی ’’سپید‘‘ کے ہیں۔مشہور چینی سیاح ہیون سانگ نے بھی یہاں کے سپید پانی کا خصوصی ذکر کیا ہے اور گیارھویں صدی عیسوی میں البیرونی بھی سوات کے شفاف پانی کا ذکر کرتا ہے اور موجودہ وقت میں بھی سوات کے صاف و شفاف، چاندی کی طرح چمکتے ہوئے پانی کو دیکھا جائے تو عجیب سی مسرت محسوس ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ دریائے سوات کے قریب ’’سپینے اوبہ‘‘ (سپید پانی) کے نام سے ایک بستی بھی موجود ہے۔اس لئے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس علاقے کے صاف و شفاف سپید پانی کے ندی نالوں اور دریا کی وجہ سے اسے ’’سواستو‘‘ یا ’’سویتا‘‘ پکارا گیا ہو گا۔ جو بعد میں چل کر ’’سواد‘‘ اور پھر ’’سوات‘‘ بن گیا۔مشہور چینی سیاح سنگ یون 502ء میں کافرستان (چترال) سے ہوتا ہوا سوات آیا تھا۔ اس نے اپنے سفر نامے میں دریائے سوات کا ذکر ’’دریائے سوٹو‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ بعض تاریخی کتب میں اس کے نام ’’دریائے سوتی‘‘ یا سواستو اور ’’سولتاس‘‘ بھی ملتے ہیں جو چار ہزار سال قدیم زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس دریا کے نام کی مناسبت سے اس علاقے کا نام بھی ’’سوتی‘‘یا’’سواستی‘‘ مشہور تھا جو بعد میں ’’سواد‘‘ یا ’’سوات‘‘ میں تبدیل ہو گیا۔ دریائے سوات کو سنسکرت میں ’’گوری‘‘ کا نام بھی دیا گیا اور قدیم مصنّفین کے ’’سوساتوس دریا‘‘(دریائے سوات) کا ذکر مقدس رگ وید میں بھی موجود ہے اور مہا بھارت میں بھی اسے یاد کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں یونانی سیاح ایرین نے بھی اپنی تحریروں میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔بہرحال مختلف ادوار میں دریائے سوات کو مختلف توصیفی ناموں سے نوازا گیا ہے اور ہر قوم اور حملہ آور نے اس کا نام اپنے مزاج اور روایات کے مطابق رکھا۔ موجودہ دور میں اس کا معروف نام ’’دریائے سوات‘‘ ہے اور جب یہ دریا وادیٔ سوات کی حدود سے باہر نکل جاتا ہے تو دریائے پنج کوڑہ (دیر) کا معاون ہونے کی وجہ سے اسے ’’دریائے پنج کوڑہ‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ جب کہ وادیٔ پشاور اور چارسدہ میں یہ دریا ’’جیندی‘‘ اور’’خیالی‘‘ کے ناموں سے مشہور ہے۔ دریائے سوات کی مجموعی لمبائی ’’کالام‘‘ سے ضلع چارسدہ میں ’’نِستہ‘‘ تک قریباً 210 کلومیٹر بنتی ہے۔ یہ حسین دریا اپنا سفر طے کرتے ہوئے کہیں تو محجوب ہو کر سکڑ جاتا ہے اور کہیں فخر سے سینہ پھُلا کربہنے لگتا ہے، چناں چہ وادیٔ بحرین اور کالام کے درمیان اس کی چوڑائی پچاس فٹ رہ جاتی ہے جب کہ سوات کی ایک خوب صورت وادی ننگولئی میں اور منگورہ میں فضا گٹ پارک کے قریب اس دریا کا پاٹ دو کلومیٹر تک چوڑا ہو جاتا ہے۔دریائے سوات کو عبور کرنے کے لئے جگہ جگہ چھوٹے بڑے پل بنائے گئے ہیں۔ دریا پر بنائے گئے رسیوں اور لکڑی کے پل بے شمار ہیں۔ تیز بہاؤ والے علاقوں میں دریا کے اوپر مضبوط رسی تان کر باندھ دی جاتی ہے اور دوسری طرف اسی کے ذریعے اس کے ساتھ ڈھول نما کھٹولا باندھا جاتا ہے جس کے ساتھ مخالف اور موافق دونوں سمتوں سے رسی منسلک ہوتی ہے۔ ایک کنارے سے دوسرے کنارے کی طرف جاتے ہوئے ایک جانب کی رسی کوئی دوسرا شخص کھینچ لیتا ہے اور کھٹولا اسی سمت چلنے لگتا ہے۔دریائے سوات کا منبع ایک نہیں بلکہ کئی ہیں۔ یہ دریا کوہ ہندوکش کی اوٹ میں واقع ’’سوات کوہستان‘‘ کے علاقوں سے نکلتا ہے اور مختلف مقامات پر اس کے ساتھ ندی نالے شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دریائے سوات کالام سے وادیٔ مدین تک تنگ گھاٹیوں اور بڑی بڑی چٹانوں کو پھلانگتا ،کہیں گن گناتا اور کہیں دھاڑتا ہوا 40 کلومیٹرکا راستہ طے کرتا ہے۔ وادیٔ مدین میں اس کا پاٹ یک دم چوڑا ہو جاتا ہے اور یہاں اس کے ساتھ مشرق کی طرف سے آتا ہوا دریائے بشی گرام بھی شامل ہو جاتا ہے۔ دریائے سوات کا معاون دریائے بشی گرام، بشی گرام جھیل سے نکلا ہوا ہے۔ جس کے ساتھ راستے بھر میں برف پوش چوٹیوں اور مختلف چشموں سے نکلے ہوئے پاک و شفاف ندی نالے شامل ہوتے چلے گئے ہیں جو دریائے سوات کی مزید وسعت اور تندی و تیزی کا باعث بنتے ہیں۔باغ ڈھیری اور شین کے مقام پر دریائے سوات کے کنارے پُر لطف اور محفوظ کیمپنگ ایک خاص شہرت رکھتی ہے۔ یہاں اکثر و بیشتر دریا کے کنارے مخصوص مقامات پر سیاحوں کی ٹولیاں کیمپنگ سے محظوظ ہوتی نظر آتی ہیں۔ منگورہ تک پہنچتے ہوئے دریائے سوات کے ساتھ متعدد جگہوں پر مزید ندی نالے شامل ہوتے چلے جاتے ہیں اور بالآخر یہ دریا ضلع چارسدہ میں ’’نِستہ‘‘ کے مقام پر دریائے کابل میں ضم ہو جاتا ہے۔دریائے سوات اپنی قدامت کے باعث بھی تاریخ کے اوراق میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے کنارے دنیا کی کئی مشہور تہذیبیں پھلی پھولیں اور عروج کی منزلیں طے کر کے زوال پذیر ہوئیں۔ اس کی اسی اہمیت کے باعث اس دریا کا ذکر ہندوؤں کی مشہور مذہبی کتاب رگ وید میں بھی آیا ہے۔سوات میں بدھ مت کے دورِ عروج میں اس کے کنارے سینکڑوں خانقاہیں اور بدھ مت کے علمی مراکز قائم تھے جن میں بدھ مت کے ہزاروں طالب علموں کو علم کے زیور سے آراستہ کیا جاتا تھا۔دریائے سوات انسانوں کے لئے طرح طرح کی نعمتیں لے کر آتا ہے۔ اس کے پانی سے متعدد فصلیں سیراب ہوتی ہیں جن میں مکئی، دھان اور گندم شامل ہیں۔ کئی طرح کی سبزیاں مثلاً آلو، مٹر، شلجم، گوبھی، ٹماٹر اور سرسوں اس دریا کی بدولت انسان کو نصیب ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد خوش ذائقہ پھل مثلاً خوبانی، آلوچہ، اسٹرابری، لوکاٹ، سیب، ناشپاتی، مالٹا، انگور، اخروٹ، شفتالو(آڑو) اور چائنا املوک کے درختوں کے لئے حیات بخش پانی، دریائے سوات ہی لے کر آتا ہے، یہی نہیں بلکہ دریائے سوات کے کنارے گلاب، گلِ نرگس، غانٹول، بنفشہ، پھلواری، ریحان اور دیگر طرح طرح کے خوشبودار اور دھنک رنگ پھول بھی کھلتے ہیں جو حسین سرزمینِ سوات کے حسن کو مزید زیبائی عطا کرتے ہیں۔ قدرت نے دریائے سوات میں جو مچھلیاں پیدا کی ہیں ان میں ٹراؤٹ مچھلی سب سے زیادہ مشہور ہے۔ اس کے علاوہ مہاشیر مچھلی اور سواتی مچھلی بھی پائی جاتی ہے۔۔۔