شکیل نے لازوال نغمات تخلیقات کیے‘ ان جیسا فنکار کبھی کبھی پیدا ہوتاہے
اسپیشل فیچر
ویسے تو بھارت میں ایک سے بڑھ کر ایک فلمی گیت نگار پیدا ہوا لیکن کچھ گیت نگار ایسے ہیں جن کے لکھے ہوئے نغمات امر ہو گئے اور آج بھی ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان نغمہ نگاروں میں ساحر لدھیانوی‘ مجروح سلطانپوری‘ راجندر کرشن‘ قمر جلالوی‘ حسرت جے پوری‘ شلیذر راجہ مہدی‘ علی خاں‘ اسد بھوپالی‘ آنند بخشی اور اندیور شامل ہیں۔ ان سب نغمہ نگاروں نے اپنی ایک الگ شناخت بنائی اور اپنے فن کا لوہا منوایا۔ ایسے ہی ایک گیت نگار شکیل بدایونی بھی تھے۔ جن کا ایک عرصے تک طوطی بولتا رہا۔ شکیل کے لکھے ہوئے نغمات نے جتنی مقبولیت حاصل کی اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ انہوںنے 50 اور 60 کی دہائی میں ایسے شاندار نغمات لکھے جنہیں سن کر آج بھی دل جھوم اٹھتا ہے۔ نغمہ نگاری کے علاوہ انہوں نے غزل کے میدان میں بھی اپنے آپ کو منوایا۔ لیکن اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ ان کی مقبولیت کی اصل وجہ ان کی نغمہ نگاری تھی۔3 اگست 1916کو بدایوں (اتر پردیش بھارت) میں پیدا ہونے والے شکیل بدایونی کے والد محمد جمال احمد قادری کی دلی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا اچھی تعلیم حاصل کرے۔ اس لئے انہوں نے اپنے بیٹے کو عربی‘ فارسی‘ اور ہندی پڑھانے کیلئے گھر میں ٹیوشن کا انتظام کیا۔ دوسرے شعراء کی طرح ان کو شعری ذوق ورثے میں نہیں ملا تھا۔ البتہ ان کے ایک دور کے رشتے دار ضیاء القادری بدایونی مذہبی شاعری کرتے تھے۔ شکیل بدایونی ان سے متاثر تھے۔ اس کے علاوہ بدایوں کا ماحول ہی کچھ ایسا تھا کہ وہ شاعری کی طرف راغب ہو گئے۔ 1936ء میں جب انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو انہوں نے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ جلد ہی انہوں نے شہرت حاصل کر لی۔ 1940ء میں انہوں نے اپنی ایک دور کی رشتے دار سلمیٰ سے شادی کر لی۔ بی اے کرنے کے بعد وہ دہلی چلے گئے جہاں انہیں ایک اچھی نوکری مل گئی۔ نوکری کے ساتھ ساتھ وہ مشاعروں میں حصہ لیتے رہے اور ان کی شہرت میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھاجب شعرا معاشرے کے کچلے ہوئے طبقوںکے بارے میں لکھتے تھے۔ لیکن شکیل کا شعری مزاج کچھ اور ہی تھا۔ وہ رومانوی شاعری کرتے تھے اور ایسی شاعری جو دل کے بہت قریب ہوتی تھی۔ وہ کہتے تھے۔میں شکیل دل کا ہوں ترجماناور محبتوں کا ہوں رازدانمجھے فخر ہے میری شاعریمیری زندگی سے جدا نہیںعلی گڑھ یونیورسٹی میں دوران تعلیم شکیل بدایونی نے حکیم عبدالوحید اشک بجنوری سے باقاعدہ اردو شاعری سیکھنا شروع کردی۔1944ء میں شکیل بدایونی فلمی گیت لکھنے کیلئے ممبئی چلے گئے جہاں ان کی ملاقات اے آر کاردار اور موسیقار نوشاد علی سے ہوئی۔ نوشاد نے ان سے کہا کہ وہ اپنی شعری مہارت کا مظاہرہ ایک لائن میں کر کے دکھائیں۔شکیل نے لکھا ’’ہم درد کا افسانہ دنیا کو سنا دیں گے‘ ہر دل میں محبت کی ایک آگ لگا دیں گے‘‘۔ نوشاد نے انہیں فوری طور پر کاردار کی فلم ’’درد‘‘ کے نغمات کیلئے منتخب کر لیا۔ ’’درد‘‘ 1947ء میں ریلیز ہوئی اور اس کے سارے گیت ہٹ ہو گئے۔ خاص طور پر اومادیوی کا گایا ہوا یہ گیت ’’افسانہ لکھ رہی ہوں دل بے قرار کا‘‘ بہت مقبول ہوا۔ بہت کم ایسے نغمہ نگارہوتے ہیں جنہیں پہلی فلم سے ہی زبردست کامیابی ملتی ہے لیکن شکیل اس کامیابی کے مستحق تھے اور پھر ’’درد‘‘ سے جو سفر شروع ہوا تھا وہ کئی سالوں تک جاری رہا۔ فلمی صنعت میں شکیل بدایونی اور نوشاد کی جوڑی نے بڑے شاندار نغمات تخلیق کیے۔انہوں نے ’’دیدار‘ بیجو باورا‘ مدر انڈیا‘ آن‘ اڑن کھٹولہ‘ دیدار اور مغل اعظم‘‘ کیلئے بے مثال گیت تخلیق کیے۔ اس کے علاوہ ان دونوں نے ’’دلاری‘ شباب‘ گنگا جمنا اور میرے محبوب‘‘ کیلئے بھی جو گیت تخلیق کئے وہ شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں۔فلم ’’گھرانہ‘‘ کیلئے انہوں نے وہ گیت لکھا جس پر انہیں فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ اس گیت کے بول تھے ’’حسن والے تیرا جواب نہیں‘‘ اس گیت کے موسیقار روی کو بھی فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ روی کے ساتھ ان کی دوسری قابل ذکر فلم ’’چودھویں کا چاند‘‘ تھی۔ اس فلم میں بھی اس گیت پر انہیں فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا ’’چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو‘‘ روی کے ساتھ انہوں نے ’’گھونگھٹ‘ گرہستی‘ پھول اور پتھر اور دو بدن‘‘ میں بھی کام کیا۔شکیل بدایونی نے ہیمنت کمار کے ساتھ بھی تین فلموں میں کام کیا جن میں ’’بیس سال بعد‘ صاحب بی بی اور غلام اور بن بادل برسات‘‘ شامل ہیں۔ ان فلموں کے گیت بھی بہت پسند کیے گئے۔ ایس ڈی برمن کے ساتھ انہوں نے فلم ’’کیسے کہوں‘‘ اور ’’بے نظیر‘‘ کیلئے کام کیا۔ اس کے علاوہ سی رام چندر کے ساتھ انہوں نے ’’زندگی اور موت اور وہاں کے لوگ‘‘ کیلئے کام کیا۔ پھر روشن کے ساتھ بھی انہوں نے باکمال گیت تخلیق کیے۔ ان دونوں کی فلموں میں ’’بے داغ اور نورجہاں‘‘ شامل ہیں۔ شکیل بدایونی کو ’’گیت کاراعظم‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ انہیں مجموعی طور پر تین بار فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ 3مئی 2013ء کو بھارتی حکومت نے ان کی خدمات کے اعزاز میں ڈاک کا ٹکٹ جاری کیا۔ ذیل میں شکیل بدایونی کے لکھے ہوئے کچھ شاندار گیتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔1-اے دنیا کے رکھوالے (بیجو باورا)، 2-موہے بھول گئے سانوریا (بیجو باورا)، 3- مان میرا احسان (آن)، 4- میری کہانی بھولنے والے (دیدار)، 5- او دور کے مسافر (اڑن کھٹولہ)، 6- بھنورا بڑا نادان (صاحب بی بی اور غلام)، 7- دنیا میں ہم آئے ہیں تو (مدر انڈیا)، 8- پیار کیا تو ڈرنا کیا (مغل اعظم)، 9-آج پرانی راہوں سے (آدمی)، 10- کہیں دیپ جلے کہیں دل (بیس سال بعد)۔اب ہم شکیل بدایونی کی غزلوں کے کچھ اشعار کا ذیل میں ذکر کر رہے ہیں۔1-آج پھر گردش تقدیر پہ رونا آیا، دل کی بگڑی ہوئی تصویر پہ رونا آیا،2-وائے حیرت کہ بھری محفل میںمجھ کو تنہا نظر آتا ہے کوئی3- اب تک شکایتیں ہیں دل بدنصیب سے اک دن کسی کو دیکھ لیا تھا قریب سے4- ابھی جذبہ شوق کامل نہیں ہوا کہ بیگانہ آرزو دل نہیں ہوا5- ہم سفر چھوڑ گئے مجھ کو تو کیاساتھ میرے مری تقدیر تو ہے6- دنیا کی روایات سے بیگانہ نہیں ہوںچھیڑو نہ مجھے میں کوئی دیوانہ نہیں ہوں7-کافی ہے میرے دل کی تسلی کو یہی باتآپ آ نہ سکے آپ کا پیغام تو آیا8- تھا جن پہ گمان تیرے ستم کاکچھ ایسے کرم بھی سہہ گیا ہوں20اپریل 1970ء کو شکیل بدایونی ذیابیطس کے مرض کی وجہ سے ممبئی میں انتقال کر گئے۔ انہوںنے 53 برس کی عمر پائی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا نام بھی بڑا تھا اور کام بھی۔٭…٭…٭