بھوپال میں علامہ اقبالؒ کا پہلا قیام
اسپیشل فیچر
1934ء میں حکیم نابینا کے علاج سے اقبالؒ کی عام صحت تو بحال ہو گئی لیکن گلے کی تکلیف میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اسی عرصہ میں ڈاکٹر عباس علی خاں لمعہ اور کئی احباب نے انہیںمشورہ دیا کہ وہ بھوپال جا کر بجلی کا علاج کرائیں۔ بجلی کا علاج اس وقت جدید ترین اور کامیاب ترین علاج سمجھا جاتا تھا۔ اوربھوپال کے حمیدیہ اسپتال میں اس کی قیمتی مشینیںلگ چکی تھیں۔ ماہر ڈاکٹر موجود تھے جن میں ڈاکٹر عبدالباسط ریڈیالوجسٹ کانام نامی بطور خاص قابل ذکر ہے جنہیں علامہ کے خصوصی معالج کا شرف حاصل ہوا۔نومبر 1934ء میں نواب صاحب کی خواہش کے احترام میں جب راس مسعود(آپ سرسید کے پوتے تھے اور علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے) بھوپال آ گئے اور انہوںنے علی گڑھ کے ناتے نواب صاحب کے ایک شریک کار کی حیثیت سے وزارت تعلیم و صحت و امور عامہ کا قلمدان سنبھالا تو بھوپال کی علمی‘ ادبی اور تعلیمی سرگرمیوںمیں جان پڑ گئی۔ عباس علی خاں لمعہ اقبالؒ کے عقیدت مندوں اورنیاز مندوں میں سے تھے۔ اقبال نامہ میں کئی خط ڈاکٹر لمعہ کے نام شامل ہیں ۔ اس کا نام پہلے پرنس آف ویلز ہسپتال تھا جسے بعد میں تبدیل کر کے حمیدیہ ہسپتال رکھا گیا۔ وسط شہر میں یہ وسیع و عریض ہسپتال قائم تھا جہاں جدید ترین ڈاکٹری علاج کی سہولتیں بھوپال کے عوام کو حاصل تھیں۔ ریاست بھوپال کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ یہاں انگریزی اور دیسی علاج مفت ہوتا تھا۔ خود شہر بھوپال میں حمیدیہ اسپتال کے علاوہ پانچ دوسرے انگریزی شفاخانے، تین یونانی شفاخانے اور ایک خواتین کا اسپتال قائم تھے۔یہ ان کا آخری اور زریں دور تھا۔ حیدر آباد کی طویل ترین ملازمت کے بعد علی گڑھ کی وائس چانسلری کے زمانے میں انہوںنے جس خلوص، لگن، دیانت اور محنت سے اپنے آب و جد کی اس امانت کے لیے کام کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اسی دور میں انہوںنے مادر علمی کو نہ صرف اعلیٰ مرتبہ پر فائز کیا بلکہ ان کی بنیادوں کو بھی مالی اورفنی لحاظ سے مستحکم کر دیا۔ شبانہ روز جدوجہد کے نتیجہ میں ان کی صحت کا متاثر ہونا یقینی تھا۔ اس عالم میں بھی انہوںنے حوصلہ نہیںہارا لیکن جب سازشیوں نے ان کے تاریخ ساز اور عہد آفریں کارناموں کو نظر انداز کر کے انہیں دل برداشتہ کر دیا تو ہو مستعفی ہو گئے۔ چنانچہ نواب صاحب بھوپال نے جوعرصہ دراز سے انہیں ریاست میں اعلیٰ عہدہ کی پیش کش کا منصوبہ رکھتے تھے، ان کے مستعفی ہوتے ہی انہیں بھوپال آنے کی دعوت دی اکتوبر 1934ء میں وہ بھوپال گئے اورنواب صاحب سے تبادلہ خیالات کے بعد ریاست کی خدمت پر تیار ہو گئے۔اقبالؒ اور راس مسعود کے تعلقات کی ابتدا 1929ء میں ریاست حیدر آباد میں ہوئی تھی۔ جب راس مسعود ناظم تعلیما ت تھے اور اقبالؒ توسیعی لیکچرکے سلسلے میں وہاں دوسری بار گئے۔ یہ روابط رفتہ رفتہ دوستی میں محبت سے تبدیل ہو گئے۔ پھر 1933ء میں اقبالؒ راس مسعود اور علامہ سید سلیمان ندوی کے ساتھ افغانستان کے سفر پر گئے جہاں یہ رشتے اور مستحکم ہو گئے۔نومبر1934ء میں بھوپال آنے کے بعد راس مسعود کو اقبالؒ کی علالت کا علم ہو چکا تھا۔ دیگر نیاز مندوں کی طرح انہیں بھی اقبالؒ کی علالت سے مسلسل پریشانی تھی۔ حمیدیہ اسپتال کے ماہر ڈاکٹروں سے مشورے کے بعد انہوںنے اقبالؒ سے بھوپال آنے اور علاج کرانے پر اصرار کیا۔ نواب صاحب بھوپال بھی اقبالؒ کی علالت سے فکر مند تھے۔ او ران کی خواہش تھی کہ اقبالؒ بھوپال آ کر اپنا علاج کرا لیں۔ راس مسعود اور اقبال کے درمیان نومبر اور دسمبر 1934ء کے دوران مسلسل خط و کتابت ہوتی رہی۔ بالآخر اقبال نے بھوپا ل جانے کا قصد کر لیا۔ لیکن کوشش کے باوجود31 جنوری1935ء سے پہلے بھوپال نہ پہنچ سکے۔ اگرچہ اس سے قبل بھوپال جانے کے بارے میں وہ سید نذیر نیازی کو مسلسل لکھتے رہے تھے جس کا تاریخ وار تذکرہ ہمیں مکتوبات اقبال میں ملتا ہے جو اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ نواب صاحب کی خواہش اور راس مسعود کے اصرار کے نتیجے میں انہوںنے بھوپال جا کر قیام کرنے اور علاج کرانے کا قصد کر لیا تھا۔پروگرام کے مطابق اقبال 29جنوری 1935ء کو لاہور سے روانہ ہوئے۔ 30 جنوری کو صبح دہلی پہنچے۔ قیام زیادہ تر افغان کونسل خانے میں سردار صلاح الدین سلجوقی کے ساتھ رہا جو آپ کے دیرینہ عقیدت مندوں میں سے تھے۔ شام کو آپ ڈاکٹر انصاری کی خواہش پر جامع مسجد تشریف لے گئے اور خالدہ ادیبہ خانم کے ایک خطبے کی صدارت فرمائی اور رات کی گاڑی سے روانہ ہو کر 31 جنوری 1935 ء کو بھوپال پہنچے۔۔۔