مرزا غالب ، اصلا ح اور اولاد
اسپیشل فیچر
1217ھ میں جب کہ شیخ ابراہیم ذوق کا انتقال ہو گیا، بادشاہ کے اشعار کی اصلاح بھی مرزا غالب سے متعلق ہو گئی تھی۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ مرزا اس کام کو بادلِ ناخواستہ سرانجام دیتے تھے۔ ناظرحسین مرزا مرحوم کہتے تھے کہ ایک روز میں اور مرزا صاحب دیوان عام میں بیٹھے تھے کہ قاصد آیا اور کہا کہ حضور نے غزلیں مانگی ہیں۔ مرزا نے کہا، ذرا ٹھہر جاؤ اور اپنے آدمی سے کہا کہ پالکی میں کچھ کاغذات رومال میں بندھے ہوئے رکھے ہیں، وہ لے آؤ۔ وہ فوراً لے آیا۔ مرزا نے جو اس کو کھولا تو اس میں آٹھ نو پرچے جن پر ایک ایک دو دو مصرعے لکھے ہوئے تھے، نکالے اور اسی وقت قلم دوات منگوا کر ان مصرعوں پر غزلیں لکھنی شروع کیں اور وہیں بیٹھے بیٹھے آٹھ یا نو غزلیں تمام و کمال لکھ کر قاصد کے حوالے کیں۔ ناظر مرحوم کہتے تھے کہ ان تمام غزلوں کے لکھنے میں ان کو اس سے زیادہ دیر نہیں لگی کہ ایک مشاق استاد چند غزلیں صرف کہیں کہیں اصلاح دے کر درست کر دے۔ جب قاصد غزلیں لے کر چلا گیا تو مجھ سے کہا کہ حضور کی روز روز کی فرمائشوں سے آج مدت بعد سبکدوشی ہوئی ہے۔ اگرچہ مرزا صاحب جو کچھ اپنی طرز خاص میں لکھتے تھے، نظم ہو یا نثر، اس کو بڑی کاوش اور جانکاہی سے سرانجام کر تے تھے، چنانچہ خود انہوں نے جابجا اس کی تصریح کی ہے۔ مگر جب کبھی اپنی خاص روش پر چلنے کی ضرورت نہ ہوتی تھی اس وقت ان کو فکر پر زیادہ زور ڈالنا نہیں پڑتا تھا۔ 1871ء میں جب کہ نواب ضیاالدین احمد خان مرحوم کلکتے گئے ہوئے تھے، مولوی محمد عالم مرحوم نے جو کلکتے کے ایک دیرینہ سال فاضل تھے۔ نواب صاحب سے بیان کیا کہ جس زمانے میں مرزا صاحب یہاں آئے ہوئے تھے، ایک مجلس میں جہاں مرزا بھی موجود تھے اور میں بھی حاضر تھا، شعرا کا ذکر ہو رہا تھا، اثنائے گفتگو میں ایک صاحب نے فیضی کی بہت تعریف کی۔ مرزا نے کہا: ’’فیضی کو لوگ جیسا سمجھتے ہیں ویسا نہیں ہے۔‘‘ اس پر بات بڑھی۔ اس شخص نے کہا کہ جب فیضی پہلی بار اکبر کے روبرو گیا تھا، اس نے ڈھائی سو شعر کا قصیدہ اسی وقت ارتجالاً کہہ کر پڑھا تھا، مرزا بولے: ’’اب بھی اللہ کے بندے ایسے موجود ہیں کہ دو چار سو نہیں تو دو چار شعر تو ہر موقع پر بدایتاً کہہ سکتے ہیں۔؟‘‘ مخاطب نے جیب میں سے ایک چکنی ڈلی نکال کر ہتھیلی پر رکھی اور مرزا سے درخواست کی کہ اس ڈلی پر کچھ ارشاد ہو۔ مرزا نے گیارہ شعر کا قطعہ اسی وقت موزوں کر کے پڑھ دیا، جو ان کے دیوانِ ریختہ میں موجود ہے اور جس کا پہلا شعر یہ ہے:ہے جو صاحب کے کف دست میں پہ یہ چکنی ڈلی زیب دیتا ہے اسے جس قدر اچھا کہیےمرزا کے اولاد کچھ نہ تھی۔ ابتدا میں سات بچے پے در پے ہوئے مگر کوئی زندہ نہ رہا۔ اس لیے ایک مدت سے وہ اور ان کی بی بی تنہا زندگی بسر کرتے رہے۔ مگر غدر سے چند سال پہلے جب کہ ان کی بی بی کے بھانجے زین العابدین خان عارف کا انتقال ہو گیا اور ان کے دونوں بچے باقر علی خان اور دوسرے حسین علی خان صغیر سن رہ گئے تو مرزا اور ان کی بی بی نے چھوٹے لڑکے حسین علی خان کو جو اس وقت بہت کم عمر تھا، اپنی نگرانی میں لے لیا۔ مرزا حسین علی خان کو حقیقی اولاد سے بھی کچھ بڑھ کر عزیز رکھتے تھے اور کبھی آنکھ سے اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے اور حد سے زیادہ ناز برداری کرتے تھے۔ جب زین العابدین کی والدہ کا انتقال ہو گیا تو حسین علی کے بڑے بھائی باقر علی خان کو بھی مرزا نے اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ یہ دونوں خوش فکر، اہل، نیک اور نہایت شریف مزاج تھے۔ مگر افسوس کہ مرزا کی وفات کے بعد دونوں تھوڑے تھوڑے فاصلے سے جوان عمر میں فوت ہوگئے۔ ٭…٭…٭