اردو زبان کی ابتدا
اسپیشل فیچر
اردو، ترکی زبان کا لفظ ہے اس کے لفظی معنی ’’خیمہ‘‘ یا چھاؤنی (لشکر گاہ) کے ہیں۔ اس لفظ کا استعمال شہنشاہ اکبر کے زمانے کے سکوں پر پایا جاتا ہے۔ اکبر سے پہلے امیر علاؤ الدین جو بنی کی ’’تاریخ جہاں کشا‘‘ اور فضل اللہ کی ’’جامع التواریخ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ چنگیز خاں اور اس کی اولاد کے زمانے میں مغل بادشاہوں اور شہزادوں کے خیموں کو اردو کہا کرتے تھے۔ چنگیز خاں کے فرزند جو جی خاں کے زمانے میں اس کے نائب اور امرا جب کسی مہم پر مستقر سے روانہ ہوتے تھے تو زریں خیموں میں قیام کرتے تھے جس کے باعث ان کی لشکر گاہیں اردوئے مطلآ (Hord Golden)کہلاتی تھیں۔ لفظ اردو کے مابعد معنی ’’دربار‘‘ ہو گئے۔ اس کے بہت عرصہ بعد سترہویں صدی میں درباری زبان بھی اردوئے معلی کہلانے لگی۔ جب مغل بادشاہوں نے فارسی کے مقابلے میں اردو کی سرپرستی کی اور خود بھی اس میں لکھنے پڑھنے لگے تو رفتہ رفتہ اردو زبان کے لئے اس طویل ترکیب زبان اردوئے معلی کے بجائے صرف لفظ ’’اردو‘‘ باقی رہ گیا۔ زبان کے معنوں میں اردو کا استعمال سترہویں صدی میں ہونے لگا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس زبان کا آغاز سترہویں صدی میں ہوا۔ یوں تو اردو کی ابتدا 1193ء میں یعنی اس وقت ہوئی جب مسلمان پونے دو سو برس تک لاہور میں متمکن رہنے کے بعد ترکوں اور افغانوں کی قیادت میں دہلی اور نواح دہلی میں داخل ہوئے۔ ابتدا میں دہلی تہذیبی مرکز ہونے کی بجائے فوجی چھاؤنی کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس لیے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ’’اردو ایک مخلوط زبان ہے ‘‘ کیونکہ مسلمانوں کے داخلۂ ہند کے بعد ہندو مسلم قوموں میں اختلاط شروع ہو ا اس اختلاط کے نتیجہ میں اس زبان کا آغاز ہوا۔ یعنی شعوری طور پر جب دو لسانی گروہ سمجھوتہ کرتے ہیں اور کچھ اپنی زبان کے اور کچھ دوسری زبان کے الفاظ ملا کر کام چلانے لگتے ہیں۔ تو ایک مخلوط زبان کا آغاز ہوتا ہے۔ اردو کو مخلوط زبان کہنا درست نہیں کیونکہ اس زبان کی نشو و نما کا عمل ترکیبی ہے۔ یہ آریائی زبان ہے جس کا تعلق زبانوں کے سب سے اہم اور سب سے بڑے خاندان یعنی ’’ہند، یورپی‘‘ کی شاخ ’’ہند آریائی‘‘ سے ہے۔ ہند آریائی کی سب سے حیرت انگیز اور قابل ذکر خصوصیت اس کا طویل اور مسلسل ارتقا ہے جو 1500 قبل مسیح سے لے کر آج تک چلا آ رہا ہے۔ اردو کے ارتقا کا تعلق جدید ہند آریائی سے ہے۔ ہند آریائی کے تین ادوار ہیں۔ قدیم دور، متوسط دور، جدید دور۔ ہند آریائی کا جدید دور اپ بھرنشوں کا دور ہے۔ اردو وسطی ہندوستان کی زبان شعور سینی اپ بھرنش کی بولیوں میں سے ایک بولی کھڑی بولی کا نشو و نما پایا ہوا روپ ہے لیکن اس پر شورسینی اپ بھرنش سے ماخوذ مغربی ہندی کی دیگر بولیوں ہریانی، برج اور پنجابی کے بھی اثرات مسلم ہیں۔ مسلم حملہ آوروں کے ہندوستان میں داخلے کے وقت شورسینی اپ بھرنش سے ماخوذ مغربی ہندی کی بولیاں کھڑی، ہریانی، برج، بندیلی، قنوجی دو آبہ گنگ و جمن میں رائج تھیں۔ اصل میں مغربی ہندی دو شاخوں میں بٹی ہوئی ہے ایک وہ شاخ جس میں افعال کا خاتمہ علامت ’’اُو‘‘ ‘(o)’پر ہوتا ہے۔ دوسری وہ شاخ جس میں افعال کا خاتمہ علامت ’’ا‘‘ ‘(a)’پر ہوتا ہے۔ اس شاخ میں کھڑی بولی اور ہریانی شامل ہیں۔ کھڑی بولی مغربی روہیل کھنڈ، دوآبہ گنگ و جمن اور مشرقی پنجاب یعنی انبالہ میں بولی جاتی ہے۔ اردو اپنے ڈول اور کینڈے کے اعتبار سے مغربی ہندی کی دوسری بولیوں کی بہ نسبت کھڑی بولی سے زیادہ قریب ہے اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ اردو کا ماخذ کھڑی بولی ہے۔ اردو کی اہمیت کے مد نظر اکثر علما نے اس کے ماخذ اور اس کے آغاز کے بارے میں غور کیا اور الگ الگ نتیجوں پر پہنچے ہیں۔ محمد حسین آزاد اردو کو برج بھاشا سے مشتق بتاتے ہیں۔ مولانا سید سلیمان ندوی کا قیاس ہے کہ اردو کا ہیولا سندھ میں تیار ہوا ہو گا لیکن چونکہ اس زمانے کے تحریری آثار موجود نہیں اس وجہ سے اس رائے کو مستند نہیں مانا جاتا۔ نصیرالدین ہاشمی اردو کی پیدائش مدراس کے سواحل پر بتاتے ہیں جب عرب تاجروں کا اہل ہند سے میل جول شروع ہوا لیکن یہ نظریہ قابل قبول نہیں۔ کیونکہ عربی زبانوں کے دوسرے خاندان سامی سے تعلق رکھتی ہے جب کہ اردو کا تعلق ہند آریائی سے ہے۔ حافظ محمود شیرانی، ڈاکٹر زور، مولوی عبدالحق حکیم، شمس اللہ قادری اور کسی حد تک پروفیسر عبدالقادر سروری اردو کا ماخذ پنجابی کو مانتے ہیں۔ محمود شیرانی نے اپنے خیال کی تائید میں تاریخی و لسانی حقائق پیش کیے ہیں کہ غوریوں کے غزنہ پر قبضہ کرنے کے بعد محمود غزنوی کی اولاد پنجاب میں منتقل ہو گئی جہاں پونے دو سو برس تک پنجاب پر ان کی حکومت رہی۔ جدید ماہرین لسانیات، جن میں ڈاکٹر سنیتی کمار چٹر جی، جولیس بلاک بیمز، ڈاکٹر مسعود حسین خان، ڈاکٹر شوکت سبزواری وغیرہ شامل ہیں اردو کا ماخذ کھڑی بولی بتاتے ہیں۔ زبان اردو کی تاریخ کو مکمل طور پر سمجھنے کے لئے اس کو ادوار میں تقسیم کرنا مناسب ہے یہ ادوار حسب ذیل ہیں۔دور موجدین: (1193ئ۔ 1347ء ) (یعنی کھڑی بولی کا ادب) کھڑی بولی مسلمانوں کی آمد سے پہلے لسانی اعتبار سے پس ماندہ زبان تھی مسلمانوں کی آمد کے بعد ایک مدت تک وہ صرف روزانہ کاروبار اور عام بول چال کی زبان رہی۔دور متقدمین: (1347ئ۔ 1750ء ) دکن کا اردو ادب جن کو ادبی نظم و نثر کے نمونے پیش کرنے میں اولیت حاصل ہے۔دور متاخرین: 1800ئ۔ 1857ء دور جدید: 1857ئ۔ 1935ء دور حاضر: 1935ء اورمابعد کھڑی بولی کا ادب مسلمانوں کی فتح دہلی سے فوراً قبل اور بعد ملتا ہے چنانچہ راسو (رزمیہ نظمیں ) جو مسلمان حملہ آوروں کے خلاف ہندوستانی ویروں وسورماؤں کو جوش دلانے کے لیے لکھی گئی ہیں ان میں بھی کھڑی بولی کا پٹ ملتا ہے۔ تاہم فتح دہلی کے نوے برس بعد امیر خسرو سامنے آتے ہیں۔ جن کو بعض اشخاص نے اردو کا پہلا شاعر کہا ہے۔ مگر یہ بات قطعی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔ امیر خسرو کے ساتھ دوسرے سنت اور صوفی شاعر ایسے ملتے ہیں جو گو اردو کے شاعر نہیں لیکن انہوں نے اپنی زبانوں کے علاوہ کھڑی بولی میں بھی لکھا۔ ان میں نام دیو، گرو نانک، گیانیشور اور کبیر اہم ہیں۔ امیر خسرو اپنی ایک مثنوی کے دیباچے میں بتاتے ہیں کہ انہوں نے اردو میں بھی بہت کچھ کہا ہے اور آج ان کے نام سے کثیر تعداد میں گیت، دوہے ، پہیلیاں وغیرہ مشہور ہیں لیکن یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب خسرو کی تخلیقات ہیں اور ان میں خسرو کی زبان کسی رد و بدل کے بغیر محفوظ رہ گئی ہے۔ بہر حال امیر خسرو سے اردو کی جو چیزیں منسوب کی جاتی ہیں۔ اگر ان کا جائزہ لیا جائے تو ان میں زبان کے تین روپ ملتے ہیں۔ ایک روپ ٹھیٹھ کھڑی بولی، جو اکثر پہیلیوں ،کہہ مکرنیوں اور دوسخنوں میں ملتا ہے دوسرا گیتوں وغیرہ میں جو عام فہم برج بھاشا میں ہیں۔ تیسرا روپ کھڑی اور برج کا آمیزہ۔ گرو نانک اور کبیر داس کے یہاں بھی کھڑی بولی کے ایسے نمونے ملتے ہیں جنہیں اردو کا ابتدائی روپ کہا جا سکتا ہے۔ ان بزرگوں کے علاوہ صوفیا نے بھی اس نوزائیدہ زبان یعنی اردو کو اپنے مذہب کے افہام و تفہیم کا ذریعہ بنایا چنانچہ صوفیا کے فارسی ملفوظات میں اردو جملے بھی بکثرت ملتے ہیں۔ چودہویں صدی تک اردو صرف بول چال کی زبان تھی اس میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا۔ فخرالدین نظامی کی مثنوی ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ اور اشرف کی مثنوی ’’نوسرہار‘‘ اس وقت تک اردو شاعری میں سب سے قدیم ہیں۔ شیخ عین الدین گنج العلم کے رسائل کا شمس اللہ قادری نے ذکر کیا ہے۔ مگر ابھی تک ان کا سراغ نہیں ملا ہے۔ ان کے علاوہ بہاؤ الدین باجن اور علی جیوگام دھنی کی تصانیف سے اردو کے قدیم روپ کا پتہ چلتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اردو میں باقاعدہ تحریر و انشا کا آغاز دکن سے ہوا۔ دکن ہی میں اردو نے چودہویں صدی کے لگ بھگ نظم اور نثر کے لیے ایک معیاری زبان کا درجہ پایا۔ ٭…٭…٭