شفیق الرحمان کا افسانہ اور مزاح

شفیق الرحمان کا افسانہ اور مزاح

اسپیشل فیچر

تحریر : صائمہ کاظمی


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

شفیق الرحمان اردو ادب کے ان مزاح نگاروں میں شامل ہیں جنہوں نے آزادی سے قبل لکھنا شروع کیا اور آزادی سے قبل ہی ادبی شہرت سے ہم کنار ہو گئے۔ شفیق الرحمان کے درج ذیل افسانوی مجموعے 1947ء تک شائع ہو چکے تھے:کرنیں، شگوفے، لہریں، پرواز، مدوجزر، حماقتیں۔1947ء کے بعد ایک افسانوی مجموعہ ’’مزید حماقتیں‘‘ (1954ء) منظر عام پر آیا۔ شفیق الرحمان نے افسانہ لکھنے کی ابتدا نیم رومانی انداز میں کی تھی۔ ابتدائی دور کے عشقیہ افسانوں سے اندازہ ہی نہیں ہوتا ہے کہ وہ مزاح نگاری میں اپنا نام پیدا کر سکتے تھے۔ ان کے پہلا افسانوی مجموعہ’’کرنیں‘‘ نیم رومانوی، عشقیہ اور نیم مزاحیہ افسانوں پر مشتمل تھا۔ شگوفے میں مزاح کا تناسب نسبتاً زیادہ ہے جب کہ ’’لہریں‘‘ اور ’’پرواز‘‘ کے بیشتر افسانے خالص مزاح کے زمرے میں آتے ہیں۔ ڈاکٹر فردوس انور قاضی کی رائے میں:’’شفیق الرحمان کے افسانے مزاحیہ رجحانات کے بجائے رومانی رجحان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس رومانیت میں وہ مایوسی، انتشار، ہجر اور تنہائی کی بجائے شگفتگی، قہقہے، خوشیاں اور رفاقت کا احساس پیدا رکرتے ہیں۔‘‘ڈاکٹر فردوس انور قاضی کی یہ رائے شفیق الرحمان کے ابتدائی دور کی تحریروں پر تو صادق آتی ہے لیکن مجموعی حیثیت سے شفیق الرحمان کے افسانوں میں مزاح کے رجحانات واضح طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ شفیق الرحمان کے افسانوں میں طنز کی بجائے ظرافت کے عناصر غالب ہیں وہ اپنی تحریروں میں مسکراہٹ ہی کے نہیں قہقہوں کے قائل نظر آتے ہیں۔ حجاب امتیاز علی رقم طراز ہیں:’’وہ (شفیق الرحمان) اپنی روانی میں بلاتکلف ننھی ننھی پُھل جھڑیاں چھوڑے چلے جاتے ہیں وہ ان کم یاب لوگوں میں سے ہیں جن کی خوشی طبعی اپنے اوپر بلاتکلف ہنس سکتی ہے۔‘‘

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
ادب زندہ رہے گا! ڈیجیٹل دور میں اُردو کی مقبولیت

ادب زندہ رہے گا! ڈیجیٹل دور میں اُردو کی مقبولیت

اردو زبان و ادب کی تاریخ صدیوں کی گہری ثقافتی وراثت کو سمیٹے ہوئے ہے۔ شاعری، نثر اور داستان گوئی کے میدان میں اُردو نے نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ پوری دنیا میں اپنا لوہا منوایا ہے لیکن جب ہم 21ویں صدی کے ڈیجیٹل دور میں قدم رکھتے ہیں تو ایک اہم سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ ڈیجیٹل انقلاب اردو ادب کیلئے موت کا پیغام ہے یا اسے نئی زندگی بخشنے کا ذریعہ؟ حقیقت یہ ہے کہ ٹیکنالوجی نے نہ صرف اُردو کو نئے مواقع دیے ہیں بلکہ اس کی مقبولیت کو بھی بین الاقوامی سطح تک پہنچایا ہے۔ آئیے، اس موضوع کو گہرائی سے سمجھتے ہیں۔ ڈیجیٹل دور کا چیلنج اور مواقع20ویں صدی کے آخر تک اُردو ادب کی ترسیل زیادہ تر کاغذی کتابوں، رسالوں اور مشاعروں تک محدود تھی لیکن انٹرنیٹ اور سمارٹ فونزنے حالات بدل دیے ہیں۔ ابتدا میں خدشات تھے کہ ڈیجیٹل دور کی نئی نسل کا رجحان انگریزی اور دیگر عالمی زبانوں کی طرف ہوگا لیکن حیرت انگیز طور پر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے اُردو کو نئی زندگی دی ہے۔ آج یوٹیوب، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، ای بْکس اور بلاگز جیسے ذرائع سے اردو ادب کا دائرہ لاکھوں نوجوانوں تک پھیل چکا ہے۔ ای بْکس اور ڈیجیٹل لائبریریاںکتابوں کی کمیابی اور مہنگائی اردو ادب کی ترقی میں رکاوٹ تھی لیکن ڈیجیٹل لائبریریز جیسا کہ ریختہ ڈاٹ کام،اردو گاہ اور پروگریسو رائٹرز نے اس مسئلے کو حل کر دیا ہے۔میر، غالب،اقبالؒ، فیض ،منٹو جیسے چوٹی کے مصنفین کی کتابیں اب مفت یا کم قیمت میں ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہیں۔ مزید یہ کہ کنڈل (Kindle) اور گوگل پلے بُکس جیسے پلیٹ فارمز پر اردو کتابوں کی دستیابی نے نئی نسل کو کلاسیکی ادب سے جوڑا ہے۔ ریختہ ڈاٹ کام پر اردو شاعری کے 50 ہزارسے زائد صفحات دستیاب ہیں جبکہ گوگل بْکس پر جدید افسانہ نگاروں کی تخلیقات بڑی تعداد میں پڑھی جا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا: ادب کو وائرل کرنے کا ذریعہ فیس بک، انسٹاگرام اور ٹویٹر جیسے پلیٹ فارمز پر اردو ادب نے ایک نئی تحریک کو جنم دیا ہے۔ نوجوان شاعر اور ادیب اپنے خیالات کو مختصر ویڈیوز، اقتباسات، اور تصاویر کے ذریعے شیئر کر رہے ہیں۔ شاعری کا چیلنج، دو لائن کی کہانی اور اردو کوئنز جیسے ہیش ٹیگز نے لاکھوں صارفین کو متحرک کیا ہے۔ انسٹاگرام اکاؤنٹ Poetry Urdu کے بیس لاکھ فالوورز ہیں جو روزانہ جدید و کلاسیکی اشعار شیئر کرتے ہیں۔اس طرح ٹک ٹاک پر اردو شاعری کے ویڈیوز کروڑوں ویوز حاصل کر چکے ہیں۔ یوٹیوب: ادب کی آواز کو نیا انداز یوٹیوب پر اردو ادب کی تجدید نے اسے ''سننے‘‘کے روایتی تصور سے نکال کر ''دیکھنے‘‘کا تجربہ بنا دیا ہے۔ مشہور چینلز جیسے اردو ادب، کہانیاں، اور شعر و شاعری پر معروف ادیبوں کے انٹرویوز، کہانیاں پڑھنے کے سیشنز اور شاعری کی تخلیقی پیشکشیں وائرل ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ، ASMR (Autonomous sensory meridian response)یعنی آرام دہ آوازوں کے ذریعے سنائی گئی کہانیوں کے ٹرینڈ نے اردو ادب کو نئی جہت دی ہے۔ یوٹیوب چینل'' کتاب خانہ ‘‘کی ویڈیو ''مرزا غالب کی زندگی‘‘کو پانچ لاکھ سے زائد لوگ دیکھ چکے ہیں۔ پوڈکاسٹس اور آڈیو بُکسمصروفیت کے اس دور میں جہاں لوگوں کے پاس پڑھنے کا وقت کم ہے پوڈکاسٹس اور آڈیو بُکس نے اردو ادب کو سفر، کام یا آرام کے دوران قابلِ رسائی بنا دیا ہے۔ اردو ادب کے موتی،داستان گو، اور کہانیاں ہماری جیسے پوڈکاسٹس لاکھوں سامعین کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔ بلاگز اور ویب سائٹسڈیجیٹل دور نے ہر اس شخص کو موقع دیا ہے جو قلم اٹھانا چاہتا ہے اس کیلئے بے پناہ مواقع ہیں کیونکہ معروف میڈیا اداروں کی ویب سائٹس پر نئے لکھاری اپنے مضامین، افسانے اور تنقیدی تجزیے شائع کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ذاتی بلاگز کے ذریعے لوگ اپنے خیالات کو عالمی سطح پر پھیلا رہے ہیں۔ کیا کچھ رکاوٹیں باقی ہیں؟ اگرچہ ڈیجیٹل دور نے اردو ادب کو فروغ دیا ہے، لیکن کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ معیار کا مسئلہ:آن لائن پلیٹ فارمز پر بہت سا غیر معیاری مواد بھی موجود ہے جو ادب کی تقدیس کو مجروح کرتا ہے۔ ٹیکنالوجی تک رسائی: دیہی اور دوردراز کے علاقوں میں انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل لٹریسی کی کمی اب بھی ایک رکاوٹ ہے۔ انگریزی کا غلبہ: نوجوانوں کا انگریزی مواد کی طرف رجحان اور انگریزی میں نسبتاً زیادہ مواقع اُردو کیلئے مسابقت کی بڑی وجہ ہیں۔ تجاویز اور امکانات٭...تعلیمی اداروں میں ڈیجیٹل ادب کو شامل کیا جائے۔ ٭...سرکاری و نجی سطح پر اردو کیلئے ڈیجیٹل مہم چلائی جائیں۔٭...AIٹولز (جیسے اردو زبان کے NLP) کو فروغ دیا جائے تاکہ ترجمہ اور مواد کی تخلیق آسان ہو۔٭... نوجوان لکھاریوں کو آن لائن ورکشاپس کے ذریعے تربیت دی جائے۔ ڈیجیٹل دور نے اردو ادب کو کبھی نہ ختم ہونے والی توانائی بخشی ہے۔ یہ ہم پر ہے کہ ہم اس موقع کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم معیار، تخلیق اور عوامی رابطے پر توجہ دیں تو اردو ادب نہ صرف زندہ رہے گا بلکہ آنے والی نسلوں تک اس کی روشنی پھیلتی رہے گی۔ الفاظ کی طاقت کو ڈیجیٹل قلم سے لکھیں، ادب کی بقا ہماری اجتماعی کاوشوں میں پنہاں ہے۔  

مائیکروپلاسٹک سمندری حیات کیلئے خطرناک

مائیکروپلاسٹک سمندری حیات کیلئے خطرناک

حالیہ سائنسی تحقیق کے مطابق99فیصد سمندری خوراک کے نمونوں میں مائیکرو پلاسٹک کے ذرات پائے گئے ہیں، جو انسانی صحت اور سمندری حیات کیلئے ایک تشویشناک خطرہ ہے۔ماہرین کے مطابق مچھلی، جھینگے، کیکڑے اور دیگر سمندری جاندار مائیکرو پلاسٹک کے ذرات کو خوراک کے طور پر نگل رہے ہیں، جو بعد میں انسانی غذا کا حصہ بن رہے ہیں۔ یہ ذرات صنعتی آلودگی، پلاسٹک کے فضلے اور سمندری پانی میں پلاسٹک کی موجودگی کے باعث سمندری خوراک میں شامل ہو رہے ہیں۔تحقیقی ٹیم کے سربراہ نے کہا کہ ''یہ دریافت نہ صرف سمندری ماحولیاتی نظام بلکہ انسانی صحت کیلئے بھی ایک سنگین وارننگ ہے۔ مائیکرو پلاسٹک کے زہریلے اثرات ہارمونی نظام، معدے کی صحت اور ممکنہ طور پر کینسر کے خطرات سے منسلک کیے جا رہے ہیں۔ماہرین نے حکومتوں اور ماحولیاتی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پلاسٹک آلودگی کو روکنے کیلئے فوری اقدامات کریں اور پلاسٹک کے استعمال کو کم کرنے کیلئے سخت پالیسیوں پر عمل درآمد کریں۔امریکی سائنسدانوں کی ٹیم نے تجزیہ کیے گئے 182 سمندری خوراک کے نمونوں میں سے 180 میں مائیکرو پلاسٹک دریافت ہوئے، جن میں گلابی جھینگے، چنک سالمن اور لنگکوڈ بھی شامل ہیں۔امریکہ کے اوریگن میں موجود محققین نے انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے ذرات کیلئے کل 182 مختلف سمندری خوراک کی اقسام کے نمونے جمع کیے، جن میں کپڑے دھونے سے نکلنے والے مائیکرو فائبرز، ذاتی نگہداشت کی مصنوعات سے نکلنے والے مائیکرو پلاسٹک کے موتی، اور ٹائروں کی خرابی کی وجہ سے پیدا ہونے والا ٹائر ویئر شامل ہیں۔جہاز سے حاصل شدہ اور ریٹیل سے خریدی گئی سمندری خوراک کے 180 نمونوں میں انسانی ساختہ ذرات کی کچھ مقدار موجود تھی، جن میں گلابی جھینگے، سیاہ چٹانی مچھلی، لنگکوڈ، پیسیفک ہرنگ، لمپرے اور چنک سالمن شامل ہیں۔ چنک سالمن میں ذرات کی سب سے کم مقدار پائی گئی، جبکہ گلابی جھینگے میں سب سے زیادہ تھی۔ صرف دو نمونے ایک جہاز سے حاصل شدہ پیسیفک ہرنگ اور ایک جہاز سے حاصل شدہ لنگکوڈمیں انسانی ساختہ ذرات کا کوئی سراغ نہیں ملا۔تحقیق کی سربراہ ایلیس گرینک، جو پورٹ لینڈ اسٹیٹ یونیورسٹی میں ماحولیاتی سائنس اور انتظام کی پروفیسر ہیں، نے کہا: ''ہم نے پایا کہ ہمارے نمونہ کیے گئے چھوٹے جاندار زیادہ انسانی ساختہ، غیر غذائی ذرات کو نگل رہے ہیں‘‘۔مائیکرو پلاسٹک: ایک بڑھتا ہوا خطرہمائیکرو پلاسٹک سے مراد پلاسٹک کے وہ چھوٹے ذرات ہیں جو 5 ملی میٹر سے کم قطر رکھتے ہیں اور جسامت میں تل کے دانے کے برابر ہوتے ہیں اور یہ بڑے پلاسٹک کے ٹوٹنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ذرات بوتل بند پینے کے پانی، انسانی خون اور اعضاء، ممالیہ جانوروں کے فضلے اور یہاں تک کہ ہماری سانس لینے والی ہوا میں بھی پائے گئے ہیں۔ اگرچہ ان کے طویل مدتی اثرات ابھی مکمل طور پر واضح نہیں ہیں، لیکن تحقیق سے پتا چلا ہے کہ مائیکرو پلاسٹک کا استعمال صحت کے مختلف مسائل، جیسے اینڈوکرائن (ہارمونی) نظام کی خرابی اور ممکنہ طور پر کینسر کا سبب بن سکتا ہے۔پلاسٹک آلودگی کے جنگلی حیات پر اثرات خاص طور پر تشویش ناک ہیں۔ سمندری جانور جیسے سمندری کچھوے، ڈالفن اور سمندری پرندے اکثر پلاسٹک کے ذرات کو خوراک سمجھ کر نگل لیتے ہیں۔ 2019ء میں ایک بچہ کچھوا مردہ پایا گیا، جس کے معدے میں 104 پلاسٹک کے ٹکڑے موجود تھے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، دنیا کے سمندروں میں پہلے ہی 51 کھرب سے زیادہ مائیکرو پلاسٹک کے ذرات موجود ہیں اور اگر پلاسٹک آلودگی کو کم کرنے کیلئے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو 2050ء تک 99فیصد سمندری حیات مائیکرو پلاسٹک کے استعمال کا شکار ہو سکتی ہے۔اورگن اسٹیٹ یونیورسٹی کے کالج آف ایگریکلچرل سائنسز میں ماحولیاتی زہریلے مادوں کی ماہر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر سوسین برانڈر نے ان نتائج کو انتہائی تشویش ناک قرار دیا اور کہا کہ اس کے اثرات نہ صرف سمندری انواع بلکہ دیگر جانداروں اور ممکنہ طور پر انسانوں پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔گرینک کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے نتائج لوگوں کو سمندری خوراک کھانے سے روکنے کے بجائے ''موثر حل‘‘ تلاش کرنے کی تحقیق کو فروغ دینے کا باعث بننے چاہئیں، تاکہ مائیکرو پلاسٹکس کی سمندری ماحولیاتی نظام میں شمولیت کو کم کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم ایسے مصنوعات کا استعمال اور تلفی کر رہے ہیں جو مائیکرو پلاسٹکس خارج کرتی ہیں، تو یہ ذرات بالآخر ماحول میں شامل ہو جاتے ہیں اور ان چیزوں میں جذب ہو جاتے ہیں جو ہم کھاتے ہیں۔ جو کچھ ہم ماحول میں چھوڑتے ہیں، وہ آخر کار ہماری پلیٹوں میں واپس آ جاتا ہے۔گرینک نے مزید کہا، ہم جانداروں پر انسانی ساختہ ذرات کے اثرات کو سمجھنے کیلئے تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن اب ہم تجرباتی تحقیق کی طرف بڑھ رہے ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ مائیکرو پلاسٹکس کو سمندری ماحولیاتی نظام میں داخل ہونے سے روکنے کے مؤثر حل کون سے ہیں۔ 

آج کا دن

آج کا دن

ملکہ برطانیہ کو سزائے موت 1954ء میں آج کے روز ملکہ برطانیہ لیڈی جین گرے کو سزائے موت دی گئی۔لیڈی جین گرے صرف 9 دن یعنی 10 تا 19 جولائی انگلینڈ کی ملکہ کے عہدے پر فائز رہیں۔ غداری کے الزام میں انہیں سزائے موت سنائی گئی ۔ انہیں 17برس کی عمر میں ٹاور آف لندن پر سر قلم کر کے سزائے موت دی گئی۔ بعد از مرگ انہیں نہ صرف ایک سیاسی شکار کے طور پر جانا گیا بلکہ ایک شہید کا رتبہ بھی دیا گیا۔چلی کی اسپین سے آزادی12فروری1818ء کوچلی نے سپین سے آزادی حاصل کی۔یہ جنوبی امریکہ اور Andes پہاڑوں کے درمیان ایک تنگ ساحلی پٹی والا ملک ہے۔ چلی کی آزادی کا اعلان ایک دستاویز کے ذریعے کیا گیا۔ اس کا مسودہ جنوری میں تیار کیا گیا اور 12 فروری 1818ء کو تالکا میں سپرین ڈائریکٹر برناردواوہیگنس نے اس کی منظوری دی۔ آزادی کی تقریب 12 فروری 1818ء کو چاکابوکو کی جنگ کی پہلی برسی کے موقع پرمنائی گئی۔مانچو خاندان کی حکمرانی کا خاتمہ 12 فروری 1912ء کے دن چینی شہنشاہ پوئی کو تخت سے اترنا پڑا جس کے نتیجے میں 2 ہزار سالہ چینی سلطنت اور 267 سالہ مانچو خاندان کی حکمرانی ختم ہوئی۔ پوئی 3 سال کی عمر میں تخت نشین ہوئے تھے۔ پوئی کی زندگی میں بیشمار نشیب و فراز آئے۔ سابق شہنشاہ نے بیجنگ کے ایک باغ میں بطور ملازم بھی کام کیا۔ پوئی کی زندگی پر فلم ''دی لاسٹ ایمپرر‘‘ بنی، جسے1988ء میں نو آسکر ایوارڈز بھی ملے۔ صدریوگوسلاویہ کیخلاف 66 مقدمات12 فروری 2002ء میںیوگو سلاویہ کے سابق صدر سلوبدان میلو سیویچ کے خلاف اقوام متحدہ کی جنگی جرائم کی عدالت میں مقدمہ شروع کیا گیا ۔جنگ بوسنیا کے دوران قتل عام اور انسانی جرائم کی پاداش میں میلو سیویچ پر 66 مقدمات دائر ہوئے تھے، مقدمات کی سماعت کے دوران ہی انہیں موت نے آگھیرا۔آسٹریا میں خانہ جنگی12فروری کا دن آسٹریا کی تاریخ میں دو حوالوں سے اہمیت رکھتا ہے۔ 1933ء میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ چانسلر نے پارلیمان کو برطرف کیا جس کے نتیجہ میں اٹلی کے فاشسٹوں کی حامی حکومت بنی۔ اس وقت دو بڑی سیاسی جماعتیں کام کر رہی تھیں اور دونوں کی اپنی نیم فوجی ملیشیائیں تھیں جن میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔1938ء میں آج کے روز ہٹلر کے حکم پر جرمن فوج آسٹریا میں داخل ہوئی۔   

یادرفتگاں: قاضی واجد چھوٹی سکرین کا بڑا اداکار

یادرفتگاں: قاضی واجد چھوٹی سکرین کا بڑا اداکار

انہوں نے خود کو مثبت اور سنجیدہ کرداروں تک محدود نہیں کیا، منفی اور مزاحیہ کردار بھی عمدگی سے نبھائے شائد ہی کوئی ہو گاجو اداکار قاضی واجد کے چہرے سے شناسانہ ہو۔ نو عمر،جوان اور بزرگ تمام عمروں کے افراد ان سے کم یا زیادہ واقف ضرور ہیں۔ وہ اس پرانی نسل کی حسین یادوں کا حصہ ہیں جس نے پاکستانی ڈرامے کی شہرت کا عروج دیکھا۔ وہ وقت جب ایک چینل اور محلے کے چند گھروں میں بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن ہوا کرتا تھا اور ڈرامے کی شروعات کے ساتھ گھروں کے اندر اور باہر سناٹا چھا جایا کرتا تھا۔ قاضی واجد ایک شاندار فنکار ہی نہیں تھے بلکہ تہذیب، شائستگی، احترام، عاجزی اور نرم دلی بھی ان کے تشخص کی پہچان تھی۔ وہ ہر کسی سے ایسے ملتے جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، قلم اور تھیڑ سے ان کا یارانہ بہت پرانا تھا۔قاضی واجد 1930ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔قاضی واجد کا اصل نام قاضی عبدالواجد انصاری تھا،ابتدائی تعلیم لاہور سے ہی مکمل کی۔ بعدازاں کراچی منتقل ہو گئے۔ انہوں نے 10 برس کی عمر میں اپنے فنی کریئر کا آغاز کیا اور پہلی مرتبہ بچوں کے پروگرام ''نونہال‘‘ میں صدانگاری کے جوہر دکھائے۔ دوسرا پروگرام ''قاضی جی کا قاعدہ‘‘ کیا۔ جب انہوں نے رتن کمار کی بچوں کی فلم ''بیداری‘‘ کی تو ٹائٹل کیلئے ان کے طویل نام کو مختصر کیا گیا اور اس طرح وہ قاضی واجد کے نام سے پہچانے جانے لگے۔قاضی واجد کو 1967ء میں ٹی وی سے وابستہ ہوئے اور اس کے بعد سکرین سے ان کا رشتہ تاحیات قائم رہا۔ یہیں سے ان کے کریئر کو صحیح معنوں میں عروج ملا۔ ان کا ٹی وی کیلئے پہلا ڈرامہ پروڈیوسر عشرت انصاری کا'' ایک ہی راستہ ‘‘تھا، جس میں انہوں نے منفی کردار نبھایا۔ 1969ء میں نشر ہونے والے ڈرامہ سیریل ''خدا کی بستی‘‘ نے قاضی واجد کو کامیابی اور شہرت کی نئی بلندیوں تک پہنچایا اور ''راجا‘‘ کے کردار نے انہیں ایک نئی پہچان دی۔ ٹیلی ویژن پر قاضی واجد کے نبھائے گئے کرداروں میں بہت تنوع تھا اور ان کا شمار کرنا خاصا مشکل ہے۔ بعض ڈراموں میں ان کے کرداروں نے بے مثال شہرت پائی اور انہیں آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ان ڈراموں میں ''دھوپ کنارے، تنہائیاں، حوا کی بیٹی، خدا کی بستی، کرن کہانی، آنگن ٹیڑھا، تعلیم بالغاں، پل دو پل اور انار کلی‘‘ قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے خود کو مثبت اور سنجیدہ کرداروں تک محدود نہیں کیا، بلکہ منفی کردار بھی ادا کئے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ قاضی واجد نے اپنے پورے فنی کرریئر میں کبھی ہیرو کا کردار ادا نہیں کیا، وہ ہمیشہ اپنے لیے معاون کردار کو ترجیح دیتے تھے اور انہی کرداروں کو اپنی جاندار اداکاری کے ذریعے امر کردیتے تھے۔ نجی ٹی وی چینلز کی آمد کے بعد ان کا شمار ان فنکاروں میں ہوتا تھا جنہوں نے نئے ماحول کے ساتھ مطابقت پیدا کی اور ساتھ ہی فن کے معیار پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے کریئر میں جو بھی کام کیا اس سے انصاف کرتے دکھائی دیے۔ وہ مثبت کرداروں میں بھی اسی طرح ڈوب کر اداکاری کرتے جس طرح منفی میں۔ ان کے منفی کرداروں میں حقیقت کا گمان ہوتا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے 1988ء میں قاضی واجد کو ''صدارتی تمغہ برائے حسن‘‘ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ ان کی صاحبزادی فضیلہ قیصر بھی اداکاری کے شعبے سے وابستہ ہوئیں۔ قاضی واجد ادبی محفلوں میں بھی شرکت کیا کرتے تھے کیونکہ انہیں اُردو ادب سے خاصا لگائو تھا۔ وہ الفاظ اور جملوں کو بہت خوبی سے ادا کرتے تھے۔ قاضی واجد ذیابیطس اور بلڈپریشر کے مرض میں مبتلا تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے خود کو چاک و چوبند رکھا ہوا تھا اور ہشاش بشاش دکھائی دیتے تھے۔قاضی واجد کے ساتھی اداکاروں کا کہنا ہے کہ وہ عکس بندی کے دوران ہمیشہ نرمی سے پیش آتے اور ہر کردار کو تیزی سے سمجھ لیا کرتے تھے۔ قاضی واجد اپنے کام سمیت دوستوں اور احباب کے ساتھ بڑے مخلص تھے اور کہتے تھے کہ میرے کامیاب ڈراموں کی بنیاد 'میں‘ پر نہیں بلکہ 'ہم‘ پر ہے۔ایک مرتبہ ان سے ایک ساتھی نے پوچھا کہ آپ تو ٹیلی ویژن کے خوش شکل آدمی ہیں تو پھر خواتین آپ کی طرف متوجہ کیوں نہیں ہوتیں جس پر انہوں نے بے باکی سے جواب دیا کہ اس میں ایک تو خواتین کا قصور ہے اور دوسرا میں نے کبھی ایسا کوئی کردار نہیں کیا، جس سے وہ متوجہ ہوجائیں۔ اگر ان کی محنت کا احاطہ کیا جائے تو یہ آدھی صدی سے زیادہ کی ریاضت بنتی ہے۔فروری 2018ء کی 11 تاریخ کو قاضی واجد ہم سے بچھڑ گئے، ان کی وفات سے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کا ایک عہد اختتام پذیر ہوگیا لیکن ان کی بے مثال شخصیت، جاندار اداکاری اور خدادادصلاحیتیں کبھی فراموش نہیں کی جاسکتیں۔ وہ ایک شاندار انسان اور ایک بے مثال فنکار تھے، ایسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں، جن کا خلاء کبھی پر نہیں ہوسکتا۔ مقبول ڈرامے''دھوپ کنارے‘‘، '' تنہائیاں‘‘، '' حوا کی بیٹی‘‘'' خدا کی بستی‘‘، '' کرن کہانی‘‘، ''آنگن ٹیڑھا‘‘ ''تعلیم بالغاں‘‘، ''پل دو پل‘‘ ، 'انار کلی‘‘   

چکنائی جسم کیلئے مفید یا نقصان دہ!

چکنائی جسم کیلئے مفید یا نقصان دہ!

ہم اکثر یہ سنتے ہیں کہ کھانے میں چکنائی کا استعمال کم کر دو، چکنائی کھانا چھوڑ دو، کولیسٹرول بڑھ گیا ہے، موٹاپا آ گیا ہے، خون میں چربی بڑھ گئی ہے۔ کبھی کبھی تو یہ چربی دماغ پر بھی چڑھ جاتی ہے۔ یہ غذا میں شامل چکنائی یا چربی آخر ہوتی کیا ہے؟ کتنی اقسام کی ہوتی ہے اور کیا اتنی ہی بری ہوتی ہے جتنا کہ سمجھی جاتی ہے؟چکنائی یا چربی جسے انگریزی میں فیٹ اور سائنسی اصطلاح میں لیپیڈ یا فیٹی ایسڈز کہا جاتا ہے، یہ ہماری روزمرہ کی غذا کا ایک اہم حصہ ہے اور ہمیں اس کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ ہمارے جسم کیلئے فیول یا توانائی فراہم کرتی ہے، جسمانی خلیات کی تعمیر کرتی ہے اور ہماری جلد کو صحت مند رکھنے کیلئے بھی ضروری ہے۔ یہ خون کے پٹھوں کی تحریک اور سوزش کیلئے بھی فائدہ مند ہے۔ انسانی جسم کو صحت مند اور دماغ اور عضلات کے افعال کو درست رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ وٹامنز اور مختلف نمکیات کو جذب کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ہمارے جسم کی حرارت کو قابو کرنے اور اسے گرم رکھنے میں بھی مدد دیتی ہے۔ چکنائی ہمیں حیواناتی اور نباتاتی دونوں ذرائع سے حاصل ہوتی ہے۔ حیواناتی ذرائع میں گوشت کی چربی، مکھن، دیسی گھی، بالائی پنیر، انڈے کی زردی اور مچھلی کے جگر کا تیل وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ نباتاتی ذرائع میں اناجوں، سبزیوں اور بیجوں سے حاصل ہونے والے تمام قسم کے تیل مثلاً مکئی، سرسوں، ناریل، سویا بین، سورج مکھی کے بیج، بنولے، مونگ پھلی اورتلوں کے تیل کے علاوہ بادام روغن اور روغن زیتون وغیرہ شامل ہیں۔ ہمارے جسم میں روغنیات کے مندرجہ ذیل افعال ہیں۔قوت اور حرارت کی فراہمیروغنیات کا سب سے پہلا اوراہم کام جسم کو خوراک کے عام سے ذرائع سے قوت اور حرارت کی کثیر مقدار فراہم کرنا ہے، تاکہ اس میں تمام ارادی اور غیرارادی افعال کی انجام دہی کی صلاحیت پیدا ہو سکے۔ خوراک کے تمام اجزاء میں سے چکنائی ہی ایک ایسا جزو ہے، جس کی تھوڑی سی مقدار بھی نہایت فراوانی سے قوت اور حرارت عطا کرتی ہے۔ مثلاً روغن کا ایک گرام جسم کو توانائی کے نو حرارے فراہم کرتا ہے، جو کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین کے ایک گرام کے مقابلے میں دگنا سے بھی زیادہ ہے۔ چوٹوں سے تحفظ چکنائی ہمارے جسم میں دو کام کرتی ہے۔ ایک تو یہ جسم کو قوت اور حرارت کا ذخیرہ فراہم کرتی ہے۔ جس سے خوراک میں کمی کی صورت میں بھی جسمانی افعال میں قوت اور حرارت کی ترسیل بحال رہتی ہے اور دوسرے اندرونی اعضا کے گرد چربی کی تہہ جسم کو متعدد قسم کے صدمات اور چوٹوں سے محفوظ رکھنے کا کام بھی کرتی ہے۔ چہرے کو خوبصورت و دلکش بنائےچکنائی چربی کی تہہ کی صورت میں ہڈیوں اور گوشت کو غلاف مہیا کرتی ہے۔ اس طرح چہرے اور جسم کو گداز ، سڈول اور خوبصورت و دلکش بنانے کے ساتھ وزن بڑھانے کا کام بھی کرتی ہے۔ شکم سیریجلدی ہضم نہ ہونے کی وجہ سے خوراک کو دیر تک معدے میں رکھتی ہے اور شکم سیری کرتی ہے، جس سے معدے کو تسکین ملتی ہے اور بھوک جلدی نہیں لگتی۔ مثلاً سوکھی روٹی کی بجائے پراٹھا کھانے سے دیر سے بھوک لگتی ہے۔ اس لیے کھیلنے کودنے اور سکول یا کالج جانے والوں کو ناشتے میں پراٹھا کھانا چاہیے۔ وٹامنز کا خزانہچکنائیوں میں چونکہ حیاتین ''الف‘‘ (وٹامن اے)، حیاتین ''د‘‘ (وٹامن ڈی)، حیاتین ''ی‘‘ (وٹامن ای) اور حیاتین ''ک‘‘ (وٹامن K ) موجود ہوتے ہیں، جو ناخن، جلد، دانتوں اور ہڈیوں کیلئے لازمی ہیں۔ اس لیے یہ نہ صرف ذائقے بلکہ غذائیت کے اعتبار سے بھی نہایت اہم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ان میں ہی کولیسٹرول نامی مادہ پایا جاتا ہے جو ہمارے جسم کے ہر خلیے، حتیٰ کہ دماغی خلیات کیلئے بھی لازمی ہوتا ہے۔لبریکیشن کا کام یہ ہمارے ناخنوں، بالوں، جلد اور دانتوں میں چمک پیدا کرنے کے لیے لازمی ہے۔ اس کے علاوہ اندرونی اعضا اور بیرونی جلد پر ایک باریک سی جھلی نما تہہ پیدا کر کے اندرونی اعضا کو رگڑ سے محفوظ رکھنے (لبریکیشن) کا کام کرتی ہے۔ انہیں مرطوب رکھتی ہے اور چہرے اور بدن کو سردی میں خشک ہوکر پھٹنے سے بھی بچاتی ہے۔ خوراک کو خوش ذائقہ بنائےچکنائی ہمارے روزمرہ کے کھانوں کو خوش ذائقہ بنانے کے ساتھ ساتھ اس میں خوشبو بھی پیدا کرتی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کونسی چربی یا چکنائی اچھی ہے اور کونسی بری؟میڈیکل سائنس نے چکنائی کو چار اقسام میں تقسیم کیا ہے۔سچورییٹد فیٹس: مرغی، انڈے، مکھن، گھی، چیز، دودھ، کریم، گوشت اور گری دار میوے۔ یہ زیادہ مقدار میں اچھے نہیں ہوتے۔ مونو ان سیچورییٹد فیٹس: یہ وہ چکنائیاں ہیں جو کولیسٹرول میں براہ راست اضافہ نہیں کرتیں مثلاً زیتون کا تیل ، کینولا، مونگ پھلی ، تل کا تیل، گری دار میوہ، پی نٹ بٹر ، خشک میوہ جات اور بیج۔ یہ مناسب مقدار میں لیں تو صحت کیلئے محفوظ ہیں۔پولی ان سیچو رییٹد فیٹس: یہ سب سے زیادہ فائدہ مند فیٹس ہوتے ہیں اور اگر مناسب مقدار میں لئے جائیں تو برے کولیسٹرول میں براہ راست اضافہ نہیں کرتے بلکہ اچھے کولیسٹرول کو بڑھاتے ہیں اور اومیگا فیٹی ایسڈز بھی ان ہی میں شامل ہیں جیسے اخروٹ، سورج مکھی کے بیج۔ مچھلی، مکئی کا تیل۔ زیتون کا تیل اور سویا بین وغیرہ۔ٹرانس فیٹس: یہ دو طرح کی ہوتی ہے۔ قدرتی ٹرانس فیٹ جو دودھ، پنیر اور گوشت میں ہوتی ہے برے کولیسٹرول میں اضافہ نہیں کرتی ہے۔ تاہم مصنوعی ٹرانس فیٹ انسانی صحت کیلئے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

نیلسن منڈیلا کی 27سال بعد رہائینیلسن روہیلا منڈیلا18جولائی 1918ء کو جنوبی افریقہ میں پیداہوئے۔ وہ جنوبی افریقہ کے پہلے جمہوری صدر بھی تھے۔ نیلسن منڈیلا1994ء سے1999تک برسر اقتدار رہے۔جنوبی افریقہ میں سیاہ فام لوگوں سے برتے جانے والے نسلی امتیار اور نامناسب سلوک کے خلاف انہوں نے تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ تحریک میں حصہ لینے کی وجہ سے جنوبی افریقہ کی عدالتوں میں نیلسن منڈیلا کے خلاف متعدد مقدمات دائر کردئیے گئے جس کے بعد انہیں قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔نیلسن منڈیلا 11فروری 1990ء کو 27سال قید کاٹنے کے بعد رہا ہوئے۔رہائی کے بعد انہوں نے تحریک کو خیرباد کہتے ہوئے مذاکرات کا راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔سزائے موت کی معطلی11فروری2014ء کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کی ریاست واشنگٹن میں سزائے موت کے اطلاق کو معطل کر دیا گیا۔یہ فیصلہ ریاست واشنگٹن کے ڈیموکریٹک گورنر جے انسلی کی جانب سے کیا گیا۔انسلی نے سزائے موت معطل کرنے کے فیصلے کی وجہ یہ بتائی کہ میرے مطابق سزائے موت کا استعمال غیر منصفانہ اور متضاد طریقے سے کیا جاتا ہے اور وہ ہر اس کیس میں مہلت اور رعایت دیں گے جس میں سزائے موت کا مطالبہ کیا جائے گا۔کمپیوٹر وائرساینا کورنیکووا جسےVBS Kalamarکے نام سے بھی جاناجا تا ہے ایک کمپیوٹر وائرس تھا۔جسے11فروری2001ء میں انٹرنیٹ کے ذریعے پوری دنیا میں پھیلا دیا گیا۔وائرس پروگرام ایک ای میل میں موجود ہوتا تھا جس میں ٹینس کھلاڑی ایناکورنیکووا کی تصویر بھی لگائی جاتی تھی۔یہ وائر س 20سالہ ڈچ طالب علم جان ڈی وٹ نے بنایا تھا۔11فروری2001ء کو اسےOn The Flyکا نام دیا گیا۔اس پروگرام کا ای میل استعمال کرنے والے صارفین کو دھوکہ دینے کیلئے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ ای میل استعمال کرنے والا شخص جیسے ہی اٹیچمنٹ پر کلک کرتا تھا تو وائرس اس کے کمپیوٹر یا ای میل میں موجود ڈیٹا بک میں منتقل ہو جاتا تھا۔ جاپان خلائی طاقت بنا11فروری1970ء میں جاپان نے اپنا پہلا سیٹلائٹ اورشومی لانچ کیا جسے دنیا بھر انقلابی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔اس کامیاب تجربے کے بعد جاپان دنیا کی چوتھی خلائی طاقت بن کر ابھرا۔ اس سے قبل سوویت یونین1957ء میں ، ریاستہائے متحدہ امریکہ1958ء میں اور فرانس1965ء میں خلاء تک رسائی کے کامیاب تجربات کر کے خلائی تحقیق کی دنیا میں اپنا مقام بنا چکے تھے۔