اردو زبان و ادب کی تاریخ صدیوں کی گہری ثقافتی وراثت کو سمیٹے ہوئے ہے۔ شاعری، نثر اور داستان گوئی کے میدان میں اُردو نے نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ پوری دنیا میں اپنا لوہا منوایا ہے لیکن جب ہم 21ویں صدی کے ڈیجیٹل دور میں قدم رکھتے ہیں تو ایک اہم سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ ڈیجیٹل انقلاب اردو ادب کیلئے موت کا پیغام ہے یا اسے نئی زندگی بخشنے کا ذریعہ؟ حقیقت یہ ہے کہ ٹیکنالوجی نے نہ صرف اُردو کو نئے مواقع دیے ہیں بلکہ اس کی مقبولیت کو بھی بین الاقوامی سطح تک پہنچایا ہے۔ آئیے، اس موضوع کو گہرائی سے سمجھتے ہیں۔ ڈیجیٹل دور کا چیلنج اور مواقع20ویں صدی کے آخر تک اُردو ادب کی ترسیل زیادہ تر کاغذی کتابوں، رسالوں اور مشاعروں تک محدود تھی لیکن انٹرنیٹ اور سمارٹ فونزنے حالات بدل دیے ہیں۔ ابتدا میں خدشات تھے کہ ڈیجیٹل دور کی نئی نسل کا رجحان انگریزی اور دیگر عالمی زبانوں کی طرف ہوگا لیکن حیرت انگیز طور پر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے اُردو کو نئی زندگی دی ہے۔ آج یوٹیوب، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، ای بْکس اور بلاگز جیسے ذرائع سے اردو ادب کا دائرہ لاکھوں نوجوانوں تک پھیل چکا ہے۔ ای بْکس اور ڈیجیٹل لائبریریاںکتابوں کی کمیابی اور مہنگائی اردو ادب کی ترقی میں رکاوٹ تھی لیکن ڈیجیٹل لائبریریز جیسا کہ ریختہ ڈاٹ کام،اردو گاہ اور پروگریسو رائٹرز نے اس مسئلے کو حل کر دیا ہے۔میر، غالب،اقبالؒ، فیض ،منٹو جیسے چوٹی کے مصنفین کی کتابیں اب مفت یا کم قیمت میں ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہیں۔ مزید یہ کہ کنڈل (Kindle) اور گوگل پلے بُکس جیسے پلیٹ فارمز پر اردو کتابوں کی دستیابی نے نئی نسل کو کلاسیکی ادب سے جوڑا ہے۔ ریختہ ڈاٹ کام پر اردو شاعری کے 50 ہزارسے زائد صفحات دستیاب ہیں جبکہ گوگل بْکس پر جدید افسانہ نگاروں کی تخلیقات بڑی تعداد میں پڑھی جا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا: ادب کو وائرل کرنے کا ذریعہ فیس بک، انسٹاگرام اور ٹویٹر جیسے پلیٹ فارمز پر اردو ادب نے ایک نئی تحریک کو جنم دیا ہے۔ نوجوان شاعر اور ادیب اپنے خیالات کو مختصر ویڈیوز، اقتباسات، اور تصاویر کے ذریعے شیئر کر رہے ہیں۔ شاعری کا چیلنج، دو لائن کی کہانی اور اردو کوئنز جیسے ہیش ٹیگز نے لاکھوں صارفین کو متحرک کیا ہے۔ انسٹاگرام اکاؤنٹ Poetry Urdu کے بیس لاکھ فالوورز ہیں جو روزانہ جدید و کلاسیکی اشعار شیئر کرتے ہیں۔اس طرح ٹک ٹاک پر اردو شاعری کے ویڈیوز کروڑوں ویوز حاصل کر چکے ہیں۔ یوٹیوب: ادب کی آواز کو نیا انداز یوٹیوب پر اردو ادب کی تجدید نے اسے ''سننے‘‘کے روایتی تصور سے نکال کر ''دیکھنے‘‘کا تجربہ بنا دیا ہے۔ مشہور چینلز جیسے اردو ادب، کہانیاں، اور شعر و شاعری پر معروف ادیبوں کے انٹرویوز، کہانیاں پڑھنے کے سیشنز اور شاعری کی تخلیقی پیشکشیں وائرل ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ، ASMR (Autonomous sensory meridian response)یعنی آرام دہ آوازوں کے ذریعے سنائی گئی کہانیوں کے ٹرینڈ نے اردو ادب کو نئی جہت دی ہے۔ یوٹیوب چینل'' کتاب خانہ ‘‘کی ویڈیو ''مرزا غالب کی زندگی‘‘کو پانچ لاکھ سے زائد لوگ دیکھ چکے ہیں۔ پوڈکاسٹس اور آڈیو بُکسمصروفیت کے اس دور میں جہاں لوگوں کے پاس پڑھنے کا وقت کم ہے پوڈکاسٹس اور آڈیو بُکس نے اردو ادب کو سفر، کام یا آرام کے دوران قابلِ رسائی بنا دیا ہے۔ اردو ادب کے موتی،داستان گو، اور کہانیاں ہماری جیسے پوڈکاسٹس لاکھوں سامعین کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔ بلاگز اور ویب سائٹسڈیجیٹل دور نے ہر اس شخص کو موقع دیا ہے جو قلم اٹھانا چاہتا ہے اس کیلئے بے پناہ مواقع ہیں کیونکہ معروف میڈیا اداروں کی ویب سائٹس پر نئے لکھاری اپنے مضامین، افسانے اور تنقیدی تجزیے شائع کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ذاتی بلاگز کے ذریعے لوگ اپنے خیالات کو عالمی سطح پر پھیلا رہے ہیں۔ کیا کچھ رکاوٹیں باقی ہیں؟ اگرچہ ڈیجیٹل دور نے اردو ادب کو فروغ دیا ہے، لیکن کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ معیار کا مسئلہ:آن لائن پلیٹ فارمز پر بہت سا غیر معیاری مواد بھی موجود ہے جو ادب کی تقدیس کو مجروح کرتا ہے۔ ٹیکنالوجی تک رسائی: دیہی اور دوردراز کے علاقوں میں انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل لٹریسی کی کمی اب بھی ایک رکاوٹ ہے۔ انگریزی کا غلبہ: نوجوانوں کا انگریزی مواد کی طرف رجحان اور انگریزی میں نسبتاً زیادہ مواقع اُردو کیلئے مسابقت کی بڑی وجہ ہیں۔ تجاویز اور امکانات٭...تعلیمی اداروں میں ڈیجیٹل ادب کو شامل کیا جائے۔ ٭...سرکاری و نجی سطح پر اردو کیلئے ڈیجیٹل مہم چلائی جائیں۔٭...AIٹولز (جیسے اردو زبان کے NLP) کو فروغ دیا جائے تاکہ ترجمہ اور مواد کی تخلیق آسان ہو۔٭... نوجوان لکھاریوں کو آن لائن ورکشاپس کے ذریعے تربیت دی جائے۔ ڈیجیٹل دور نے اردو ادب کو کبھی نہ ختم ہونے والی توانائی بخشی ہے۔ یہ ہم پر ہے کہ ہم اس موقع کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم معیار، تخلیق اور عوامی رابطے پر توجہ دیں تو اردو ادب نہ صرف زندہ رہے گا بلکہ آنے والی نسلوں تک اس کی روشنی پھیلتی رہے گی۔ الفاظ کی طاقت کو ڈیجیٹل قلم سے لکھیں، ادب کی بقا ہماری اجتماعی کاوشوں میں پنہاں ہے۔