شفیق الرحمان کا افسانہ اور مزاح

شفیق الرحمان کا افسانہ اور مزاح

اسپیشل فیچر

تحریر : صائمہ کاظمی


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

شفیق الرحمان اردو ادب کے ان مزاح نگاروں میں شامل ہیں جنہوں نے آزادی سے قبل لکھنا شروع کیا اور آزادی سے قبل ہی ادبی شہرت سے ہم کنار ہو گئے۔ شفیق الرحمان کے درج ذیل افسانوی مجموعے 1947ء تک شائع ہو چکے تھے:کرنیں، شگوفے، لہریں، پرواز، مدوجزر، حماقتیں۔1947ء کے بعد ایک افسانوی مجموعہ ’’مزید حماقتیں‘‘ (1954ء) منظر عام پر آیا۔ شفیق الرحمان نے افسانہ لکھنے کی ابتدا نیم رومانی انداز میں کی تھی۔ ابتدائی دور کے عشقیہ افسانوں سے اندازہ ہی نہیں ہوتا ہے کہ وہ مزاح نگاری میں اپنا نام پیدا کر سکتے تھے۔ ان کے پہلا افسانوی مجموعہ’’کرنیں‘‘ نیم رومانوی، عشقیہ اور نیم مزاحیہ افسانوں پر مشتمل تھا۔ شگوفے میں مزاح کا تناسب نسبتاً زیادہ ہے جب کہ ’’لہریں‘‘ اور ’’پرواز‘‘ کے بیشتر افسانے خالص مزاح کے زمرے میں آتے ہیں۔ ڈاکٹر فردوس انور قاضی کی رائے میں:’’شفیق الرحمان کے افسانے مزاحیہ رجحانات کے بجائے رومانی رجحان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس رومانیت میں وہ مایوسی، انتشار، ہجر اور تنہائی کی بجائے شگفتگی، قہقہے، خوشیاں اور رفاقت کا احساس پیدا رکرتے ہیں۔‘‘ڈاکٹر فردوس انور قاضی کی یہ رائے شفیق الرحمان کے ابتدائی دور کی تحریروں پر تو صادق آتی ہے لیکن مجموعی حیثیت سے شفیق الرحمان کے افسانوں میں مزاح کے رجحانات واضح طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ شفیق الرحمان کے افسانوں میں طنز کی بجائے ظرافت کے عناصر غالب ہیں وہ اپنی تحریروں میں مسکراہٹ ہی کے نہیں قہقہوں کے قائل نظر آتے ہیں۔ حجاب امتیاز علی رقم طراز ہیں:’’وہ (شفیق الرحمان) اپنی روانی میں بلاتکلف ننھی ننھی پُھل جھڑیاں چھوڑے چلے جاتے ہیں وہ ان کم یاب لوگوں میں سے ہیں جن کی خوشی طبعی اپنے اوپر بلاتکلف ہنس سکتی ہے۔‘‘

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
مرزا اسد اللہ غالب

مرزا اسد اللہ غالب

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھےکہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور''ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے...‘‘مرزا اسد اللہ غالب، اُردو شاعری کا اہم ترین نام، اتنا بڑا شاعر شاید ہی اب پیدا ہو، ہر خاص و عام میں مقبول اردو کے اس عظیم شاعر کی آج برسی ہے۔ وہ جہانِ سخن میں غالب کے تخلص سے مشہور ہوئے۔ وہ 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے 15 فروری 1869ء کو دہلی میں وفات پائی۔ اس فلسفی شاعر کو دنیا سے رخصت ہوئے 156 سال ہو گئے ہیں لیکن جو شہرت اس فلسفی شاعر کو حاصل ہوئی وہ کسی دوسرے شاعر کو نصیب نہ ہوسکی۔ اردو اور فارسی زبان کے اس شاعر نے نثر میں بھی اپنا کمال دکھایا اور ان کے دوستوں اور شاگردوں کے نام خطوط اور مراسلت بہت مشہور ہے۔ اسی طرح غالب کی بذلہ سنجی اور ان کی ظرافت سے متعلق کئی قصّے اور لطائف بھی ہمیں پڑھنے کو ملتے ہیں۔غالب کے آبا ؤ اجداد کا پیشہ سپہ گری تھا۔ وہ 13 برس کے تھے جب دہلی کے ایک خاندان میں شادی کے بعد اسی شہر کے ہو رہے۔ غالب نے زندگی میں بہت تنگ دستی دیکھی۔ اولاد سے محروم رہے۔ 1855ء میں استاد ذوق دنیا سے گئے تو مرزا غالب بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دربار میں استاد مقرر ہوئے۔ دربار سے نجم الدولہ، دبیرُ الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے۔نقادوں کے مطابق غالب پہلے شاعر تھے جنھوں نے اردو شاعری کو ذہن عطا کیا، غالب سے پہلے کی اردو شاعری دل و نگاہ کے معاملات تک محدود تھی، غالب نے اس میں فکر اور سوالات کی آمیزش کرکے اسے دوآتشہ کردیا۔ان کی شاعری میں انسان اور کائنات کے مسائل کے ساتھ محبت اور زندگی سے وابستگی بھی بڑی شدت نظر آتی ہے، جس نے اردو شاعری کو بڑی وسعت دی ہے۔غالب کی شاعری، رومانیت، واقعیت، رندی، تصوف، شوخی و انکساری جیسی متضاد کیفیتوں کا حسین امتزاج ہے۔غالب نے سہل ممتنع اور سادہ و رواں بحروں میں مضامین کو اس خوبی اور عمدگی سے باندھا کہ آج بھی ہر خاص و عام میں مقبول ہیں۔ غالب نے شاعری کے ساتھ نثر نگاری میں نئے ڈھب اور اسلوب کو متعارف کروایا۔ ان کے خطوط ان کی نثر نگاری کا عمدہ نمونہ اور مثال ہیں۔آخری عمر میں غالب شدید بیمار رہنے لگے اور بالآخر پندرہ فروری 1869ء کو خالق حقیقی سے جاملے۔اردو شاعری کو نئے رجحانات سے روشناس کرانے والے یہ شاعر اردو ادب میں ہمیشہ غالب رہیں گے۔مرزا غالب پر ہندوستان اور پاکستان میں کئی فلمیں بھی بنائی گئیں اور ٹی وی ڈرامے بھی۔ کمال کی بات یہ ہے کہ یہ فلمیں اور ڈرامے عوام میں بے حد مقبول ہوئے اور جن فنکاروں نے مرزا غالب کا کردار کیا ان کی اداکاری کو بھی بہت سراہا گیا۔ پاکستان میں مرزا غالب پر جو فلم بنائی گئی اس میں لالہ سدھیر نے غالب کا کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ فلم میں نورجہاں بھی تھیں۔ جہاں تک سدھیر کی اداکاری کا تعلق ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اوسط درجے کی تھی۔غالبؔ پر دو ٹیلی ڈرامے بنائے گئے ایک میں غالب ؔ بنے تھے قوی خان اور دوسرے میں مرزا نوشہ کا کردار نبھایا تھا سبحانی بایونس نے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ ان دونوں فنکاروں نے بہت اعلیٰ درجے کی اداکاری کی جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ دونوں ٹیلی ڈراموں کے سکرپٹ پر بھی بڑی محنت کی گئی تھی۔ اب ذرا بھارت کی طرف چلتے ہیں۔ غالب کے نام پر بنائی گئی بلیک اینڈ وائٹ فلم میں بھارت بھوشن نے مرکزی کردار ادا کیا اور ان کی اداکاری کو پسند کیا گیا۔ اب ذرا گلزار صاحب کی بات ہو جائے جنہوں نے غالباً 80ء کی دہائی میں غالب پر ایک ٹیلی فلم بنائی جسے بے حد شہرت حاصل ہوئی۔ گلزارؔ ویسے بھی غالب کے بہت بڑے مداح ہیں اور انہوں نے بڑی عرق ریزی سے اس ٹیلی فلم کا سکرپٹ لکھا۔ یہ ٹیلی فلم دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ گلزار نے اس پر کتنی محنت کی ہے۔ گلزار کی خوش قسمتی یہ ہے کہ انہیں نصیر الدین شاہ جیسا بے بدل اداکار مل گیا۔ نصیر الدین شاہ کی فقید المثال اداکاری نے اس ٹیلی فلم کو چار چاند لگا دیئے۔ اس ٹیلی فلم کے باقی اداکاروں نے بھی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس فلم میں نصیر الدین شاہ کا گیٹ اپ بھی انتہائی منفرد تھا۔ ویسے تو محمد قوی خان اور سبحانی بایونس کا گیٹ اپ بھی قابل تحسین تھا اور اس پر بھی بہت محنت کی گئی تھی۔مرزا غالبؔ پر بننے والی فلمیں اور ٹی وی ڈرامے لوگوں کو ہمیشہ یاد رہیں گے اور جن فنکاروں نے غالبؔ کا کردار ادا کرنے کیلئے اپنے آپ کو وقف کر دیا، ان کا نام بھی زندہ رہے گا۔ راقم کو کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ غالبؔ کا کردار ادا کرنے والے فنکار اگر اپنے اپنے گیٹ اپ میں ایک ساتھ کھڑے ہو جائیں اور لوگ ان سے پوچھیں کہ آپ میں سے غالب کون ہے تو یہ فنکار یقیناً یہی کہیں گے کہ غالب تو ایک ہی تھا ہم نے البتہ اس عظیم شاعر کا کردار ادا کرنے کی سعی کی ہے۔منتخب اشعاربے خودی بے سبب نہیں غالبکچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے٭٭٭عشق نے غالب نکما کر دیاورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے٭٭٭اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدالڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں٭٭٭عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبکہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے٭٭٭ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانےشاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے٭٭٭ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونقوہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے٭٭٭یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتااگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا٭٭٭ ہم کو ان سے وفا کی ہے امیدجو نہیں جانتے وفا کیا ہے٭٭٭وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہےکبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں٭٭٭ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکندل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے 

جنگ عظیم اول سیمبر کی لڑائی

جنگ عظیم اول سیمبر کی لڑائی

جنگ عظیم اوّل 1914ء سے 1918ء تک جاری رہی، اس دوران جنگ میں شریک ممالک کیلئے ہر لمحہ حالت جنگ کا لمحہ تھاتاہم مختلف محاذوں پر مختلف لڑائیاں ہوتی رہیں۔ جن میں سے کچھ کی شہرت اور اہمیت اپنی مثال آپ ہے۔ ان ہی لڑائیوں میں سے ایک سیمبر کے محاذ پر لڑی گئی۔ جنرل جوفر کے 15اگست کے احکام کی تعمیل میں فرانس کی پانچویں آرمی دریائے میوز اور سیمبر کے درمیان 20اگست کو گشت کر رہی تھی۔ جنرل چارلس کو اپنے اصل مشن کو سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی۔ اسے ہدایت دی گئی تھی کہ اسے جرمن افواج کی پیش قدمی کے مطابق جواباً شمال میں سیمبر اور مشرق میں میوزک کی طرف جرمنی کی بڑھنے والی افواج پر حملہ کرنا ہے۔ لیکن 21اگست کی دوپہر تک جنرل چارلس جرمن افواج کی پوزیشن اور جگہ کا تعین کرنے میں ناکام رہا اور کوئی حرکت نہ کر سکا۔ اس نے جوفر سے احکامات طلب کئے تو اس نے جواب دیا کہ حملہ کرنے کے مناسب موقع کا تعین کرنے کی ذمہ داری جنرل چارلس کی ہے۔جنرل کارل وان بولو کی قیادت میں جرمنی کی دوسری آرمی اپنی پیش قدمی کے دوران میوز اور سیمبرکے درمیانی زاویے کی طرف بڑھ رہی تھی جہاں جنرل چارلس کی قیادت میں فرانس کی پانچویں آرمی مورچہ بند تھی۔ اسی دن دوپہر کو جنرل کارل وان بولو کی قیادت میں دوسری آرمی دریائے سیمبر تک پہنچ گئی جہاں پانچویں آرمی کے فرانسیسی دستوں سے مقابلہ شروع ہوا۔رات بھر خونریز لڑائی جاری رہی۔ آخر جرمن افواج دریائے سیمبر کے جنوب میں اپنے پائوں جمانے میں کامیاب ہو گئے۔ اب انہیں جنرل ہارون میکس وان ہوسین کی قیادت میں آنے والی تیسری آرمی کا انتظار تھا۔ دوسری طرف فرانس کی پانچویں آرمی کے افسران نے اگلے روز جرمن افواج پر جوابی حملہ کرنے کی تجویز دی جسے جنرل چارلس نے بغیر کوئی تبصرہ کئے سنا۔23اگست کو فرانس کی پانچویں آرمی کے حملوں کو جرمنی کی دوسری آرمی نے بڑی کامیابی سے پسپا کردیا اور اس دوران کافی جانی و مالی نقصان بھی پہنچایا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے جنرل کارل وان بولو نے محسوس کیا کہ وہ اکیلے دشمن کی افواج کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسے جنرل ہوسین کی تیسری آرمی کی کمک کی ضرورت نہیں تو اس نے شام ہونے تک فرانس کی افواج پر شدید حملے کر کے انہیں جنوب کی طرف کئی کلو میٹر تک پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔جنرل چارلس نے پلٹ کر جرمن دوسری آرمی پرشمال کی جانب سے حملہ کرنے کیلئے میوز کے پلوں کی حفاظت پر مامور پہلے کور کو شمال کی طرف بڑھنے کا حکم دیا۔ اور ان کی جگہ محفوظ فوج کو پلوں کی حفاظت کی ذمہ داری سونپ دی۔ جیسے ہی پہلے کور نے جرمن افواج پر حملے کا موقع پایا، اسی وقت کمانڈر جنرل لوئس فرینچٹ ڈی ایسپیرے کو اطلاع ملی کہ جرمن تیسری آرمی دریائے میوز پر موجود محفوظ دستوں کو پسپا کرکے جنوب کی طرف فرانس کی پانچویں آرمی کے عقب میں پہنچنے والی ہے۔ تو جنرل فرینچٹ نے بغیر احکامات کا انتظار کئے اپنے دستوں کو تیزی سے واپسی کا حکم دیا اور بروقت دریائے میوز پر پہنچ کر جرمن تیسری آرمی کے ہر اوّل دستے کو پیچھے دھکیل کر حالات کو وقتی طور پر بگڑنے سے بچا لیا۔اسی روز بیلجیئم کی فوج نے تیمور سے شہر چھوڑ کر فرانس کی پانچویں آرمی کے عقب میں پناہ لی۔ اسی دوران جنرل چارلس نے اپنی آرمی کی مخدوش صورتحال کے پیش نظر دست برداری کیلئے جنرل جوفر کو استدعا کی جس نے فوراً ہی منظوری دے دی۔ دوسری طرف جرمنی کی تیسری فوج نے جنوب کی جانب سے میوز اور سیمبر کے درمیانی زاویے میں متوقع فرانس کی پانچویں آرمی پر حملے کیلئے پیش قدمی کی تو انہیں وہاں فرانس کی فوج نہ ملی۔اس لڑائی کو بعض اوقات چارلیروئی کی لڑائی یا تیمور کی لڑائی بھی کہتے ہیں۔ اس جنگ میں جرمن افواج کو دیگر جنگوں کی طرح فتح حاصل ہوئی۔ تاہم فرانس کی پانچویں آرمی کوبھاری جانی و مالی نقصانات اٹھانا پڑے۔جرمنی کی فتح کے باوجود متوقع نتائج حاصل نہ ہونے کی وجہ منصوبے کی ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ جس کے مطابق جرمنی کی پہلی آرمی کو دوسری آرمی کے ماتحت رکھا گیا تھا۔ جنرل بولو پروشیاء کے ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور اسی لئے اس کو جرمن اعلیٰ حکام کی پشت پناہی حاصل تھی۔جنرل پولو پورے محاذ جنگ پر نظر رکھنے کے بجائے صرف اپنی آرمی کی کامیابی کیلئے پہلی اور تیسری آرمی کو طلب کرتا رہا۔ حالانکہ تیسری آرمی اس کے ماتحت نہ تھی۔ پھر بھی اس کے اثر رسوخ کے باعث پہلی اور تیسری آرمی اپنے محاذوں سے ہٹ کر دوسری آرمی کے طلب کرنے پر اس کی حفاظت کرنے پر مامور ہو جاتی تھیں۔ اور اس وجہ سے جرمن افواج کو فرانس کی پانچویں آرمی کی شکست کے باوجود بھی خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔  

آج کا دن

آج کا دن

سوویت افواج کا افغانستان سے انخلاء1989ء میں 15فروری کو سوویت یونین نے 9 سالہ قبضہ ختم کرتے ہوئے افغانستان سے افواج کے مکمل انخلاء کا باضابطہ اعلان کیا۔ اس جنگ میں سپر پاور کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران 15 ہزار سوویت فوجی اور 10 لاکھ افغان شہری ہلاک ہو ئے۔ اس پوری جنگ میں امریکہ، برطانیہ اور پاکستان نے مجاہدین کی مدد کی۔ اسی افغانستان میں امریکہ کو بھی انہی حالات کا سامنا ہوا جن سے سوویت یونین کو دوچار ہونا پڑا تھا۔سقراط کو سزائے موت15 فروری 399ء میں اخلاقی اقدار اور مہذب فلسفے کے بانی سقراط کو یونانی دیوتائوں کی مخالفت کرنے پر سزائے موت دی گئی۔ سقراط جنہیں جدید فلسفے کا بانی بھی کہا جاتا ہے کی موت کے بعد ان کے اقوال کو زندہ رکھنے کیلئے بہت سے تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا، جنہوں نے سقراط کے نظریات و افکار کو دنیا بھر میں پھیلانے کیلئے اہم کردار ادا کیا۔عراق جنگ کے خلاف احتجاج15 فروری 2003ء کو دنیا بھر میں احتجاج کیلئے مختص کیاگیا، جس میں 600 سے زیادہ شہروں میں لوگوں نے عراق جنگ کی مخالفت کا اظہار کیا۔ یہ احتجاج ان سیاسی واقعات کے سلسلے کا حصہ تھا جو 2002 ء میں شروع ہوئے تھے اور حملے، جنگ اور قبضے کے بعد جاری رہے۔ اس احتجاج کو محققین نے ''انسانی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاجی واقعہ‘‘ قرار دیا۔بی بی سی نیوز کے مطابق، 15 اور 16 فروری کے اختتام تک 60 ممالک میں مظاہروں میں تقریباً10 ملین افراد نے حصہ لیا۔یورپ میں بھی بہت بڑا احتجاج کیا گیا۔ روم میں تقریباً10لاکھ لوگوں نے احتجاج میں شرکت کی۔ 2004 ء کے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں یہ احتجاج تاریخ کی سب سے بڑی جنگ مخالف ریلی کے طور پر درج ہے۔سنگاپور کا یوم دفاعسنگاپور ہر سال 15فروری کو یوم دفاع مناتا ہے۔ یہ دن وہاں بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے اور ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ سنگا پور جنوب مشرقی ایشیا کا ملک ہے۔ اس کا رقبہ 683 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی تقریباً 57 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ ملیشیا کے جنوب میں واقع سنگاپور میں تین قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں، جن میں چینی، مالے اور تامل شامل ہیں۔ ان کے علاوہ سنگاپور کی 36فیصد آبادی تارکین وطن پر مشتمل ہے۔ سنگاپور ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور اس کی معیشت کا زیادہ انحصار سیاحت پر ہے۔ دنیا بھر سے لوگ ہر سال سنگاپور کا رخ کرتے ہیں۔ 

ادب زندہ رہے گا! ڈیجیٹل دور میں اُردو کی مقبولیت

ادب زندہ رہے گا! ڈیجیٹل دور میں اُردو کی مقبولیت

اردو زبان و ادب کی تاریخ صدیوں کی گہری ثقافتی وراثت کو سمیٹے ہوئے ہے۔ شاعری، نثر اور داستان گوئی کے میدان میں اُردو نے نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ پوری دنیا میں اپنا لوہا منوایا ہے لیکن جب ہم 21ویں صدی کے ڈیجیٹل دور میں قدم رکھتے ہیں تو ایک اہم سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ ڈیجیٹل انقلاب اردو ادب کیلئے موت کا پیغام ہے یا اسے نئی زندگی بخشنے کا ذریعہ؟ حقیقت یہ ہے کہ ٹیکنالوجی نے نہ صرف اُردو کو نئے مواقع دیے ہیں بلکہ اس کی مقبولیت کو بھی بین الاقوامی سطح تک پہنچایا ہے۔ آئیے، اس موضوع کو گہرائی سے سمجھتے ہیں۔ ڈیجیٹل دور کا چیلنج اور مواقع20ویں صدی کے آخر تک اُردو ادب کی ترسیل زیادہ تر کاغذی کتابوں، رسالوں اور مشاعروں تک محدود تھی لیکن انٹرنیٹ اور سمارٹ فونزنے حالات بدل دیے ہیں۔ ابتدا میں خدشات تھے کہ ڈیجیٹل دور کی نئی نسل کا رجحان انگریزی اور دیگر عالمی زبانوں کی طرف ہوگا لیکن حیرت انگیز طور پر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے اُردو کو نئی زندگی دی ہے۔ آج یوٹیوب، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، ای بْکس اور بلاگز جیسے ذرائع سے اردو ادب کا دائرہ لاکھوں نوجوانوں تک پھیل چکا ہے۔ ای بْکس اور ڈیجیٹل لائبریریاںکتابوں کی کمیابی اور مہنگائی اردو ادب کی ترقی میں رکاوٹ تھی لیکن ڈیجیٹل لائبریریز جیسا کہ ریختہ ڈاٹ کام،اردو گاہ اور پروگریسو رائٹرز نے اس مسئلے کو حل کر دیا ہے۔میر، غالب،اقبالؒ، فیض ،منٹو جیسے چوٹی کے مصنفین کی کتابیں اب مفت یا کم قیمت میں ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہیں۔ مزید یہ کہ کنڈل (Kindle) اور گوگل پلے بُکس جیسے پلیٹ فارمز پر اردو کتابوں کی دستیابی نے نئی نسل کو کلاسیکی ادب سے جوڑا ہے۔ ریختہ ڈاٹ کام پر اردو شاعری کے 50 ہزارسے زائد صفحات دستیاب ہیں جبکہ گوگل بْکس پر جدید افسانہ نگاروں کی تخلیقات بڑی تعداد میں پڑھی جا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا: ادب کو وائرل کرنے کا ذریعہ فیس بک، انسٹاگرام اور ٹویٹر جیسے پلیٹ فارمز پر اردو ادب نے ایک نئی تحریک کو جنم دیا ہے۔ نوجوان شاعر اور ادیب اپنے خیالات کو مختصر ویڈیوز، اقتباسات، اور تصاویر کے ذریعے شیئر کر رہے ہیں۔ شاعری کا چیلنج، دو لائن کی کہانی اور اردو کوئنز جیسے ہیش ٹیگز نے لاکھوں صارفین کو متحرک کیا ہے۔ انسٹاگرام اکاؤنٹ Poetry Urdu کے بیس لاکھ فالوورز ہیں جو روزانہ جدید و کلاسیکی اشعار شیئر کرتے ہیں۔اس طرح ٹک ٹاک پر اردو شاعری کے ویڈیوز کروڑوں ویوز حاصل کر چکے ہیں۔ یوٹیوب: ادب کی آواز کو نیا انداز یوٹیوب پر اردو ادب کی تجدید نے اسے ''سننے‘‘کے روایتی تصور سے نکال کر ''دیکھنے‘‘کا تجربہ بنا دیا ہے۔ مشہور چینلز جیسے اردو ادب، کہانیاں، اور شعر و شاعری پر معروف ادیبوں کے انٹرویوز، کہانیاں پڑھنے کے سیشنز اور شاعری کی تخلیقی پیشکشیں وائرل ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ، ASMR (Autonomous sensory meridian response)یعنی آرام دہ آوازوں کے ذریعے سنائی گئی کہانیوں کے ٹرینڈ نے اردو ادب کو نئی جہت دی ہے۔ یوٹیوب چینل'' کتاب خانہ ‘‘کی ویڈیو ''مرزا غالب کی زندگی‘‘کو پانچ لاکھ سے زائد لوگ دیکھ چکے ہیں۔ پوڈکاسٹس اور آڈیو بُکسمصروفیت کے اس دور میں جہاں لوگوں کے پاس پڑھنے کا وقت کم ہے پوڈکاسٹس اور آڈیو بُکس نے اردو ادب کو سفر، کام یا آرام کے دوران قابلِ رسائی بنا دیا ہے۔ اردو ادب کے موتی،داستان گو، اور کہانیاں ہماری جیسے پوڈکاسٹس لاکھوں سامعین کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔ بلاگز اور ویب سائٹسڈیجیٹل دور نے ہر اس شخص کو موقع دیا ہے جو قلم اٹھانا چاہتا ہے اس کیلئے بے پناہ مواقع ہیں کیونکہ معروف میڈیا اداروں کی ویب سائٹس پر نئے لکھاری اپنے مضامین، افسانے اور تنقیدی تجزیے شائع کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ذاتی بلاگز کے ذریعے لوگ اپنے خیالات کو عالمی سطح پر پھیلا رہے ہیں۔ کیا کچھ رکاوٹیں باقی ہیں؟ اگرچہ ڈیجیٹل دور نے اردو ادب کو فروغ دیا ہے، لیکن کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ معیار کا مسئلہ:آن لائن پلیٹ فارمز پر بہت سا غیر معیاری مواد بھی موجود ہے جو ادب کی تقدیس کو مجروح کرتا ہے۔ ٹیکنالوجی تک رسائی: دیہی اور دوردراز کے علاقوں میں انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل لٹریسی کی کمی اب بھی ایک رکاوٹ ہے۔ انگریزی کا غلبہ: نوجوانوں کا انگریزی مواد کی طرف رجحان اور انگریزی میں نسبتاً زیادہ مواقع اُردو کیلئے مسابقت کی بڑی وجہ ہیں۔ تجاویز اور امکانات٭...تعلیمی اداروں میں ڈیجیٹل ادب کو شامل کیا جائے۔ ٭...سرکاری و نجی سطح پر اردو کیلئے ڈیجیٹل مہم چلائی جائیں۔٭...AIٹولز (جیسے اردو زبان کے NLP) کو فروغ دیا جائے تاکہ ترجمہ اور مواد کی تخلیق آسان ہو۔٭... نوجوان لکھاریوں کو آن لائن ورکشاپس کے ذریعے تربیت دی جائے۔ ڈیجیٹل دور نے اردو ادب کو کبھی نہ ختم ہونے والی توانائی بخشی ہے۔ یہ ہم پر ہے کہ ہم اس موقع کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم معیار، تخلیق اور عوامی رابطے پر توجہ دیں تو اردو ادب نہ صرف زندہ رہے گا بلکہ آنے والی نسلوں تک اس کی روشنی پھیلتی رہے گی۔ الفاظ کی طاقت کو ڈیجیٹل قلم سے لکھیں، ادب کی بقا ہماری اجتماعی کاوشوں میں پنہاں ہے۔  

مائیکروپلاسٹک سمندری حیات کیلئے خطرناک

مائیکروپلاسٹک سمندری حیات کیلئے خطرناک

حالیہ سائنسی تحقیق کے مطابق99فیصد سمندری خوراک کے نمونوں میں مائیکرو پلاسٹک کے ذرات پائے گئے ہیں، جو انسانی صحت اور سمندری حیات کیلئے ایک تشویشناک خطرہ ہے۔ماہرین کے مطابق مچھلی، جھینگے، کیکڑے اور دیگر سمندری جاندار مائیکرو پلاسٹک کے ذرات کو خوراک کے طور پر نگل رہے ہیں، جو بعد میں انسانی غذا کا حصہ بن رہے ہیں۔ یہ ذرات صنعتی آلودگی، پلاسٹک کے فضلے اور سمندری پانی میں پلاسٹک کی موجودگی کے باعث سمندری خوراک میں شامل ہو رہے ہیں۔تحقیقی ٹیم کے سربراہ نے کہا کہ ''یہ دریافت نہ صرف سمندری ماحولیاتی نظام بلکہ انسانی صحت کیلئے بھی ایک سنگین وارننگ ہے۔ مائیکرو پلاسٹک کے زہریلے اثرات ہارمونی نظام، معدے کی صحت اور ممکنہ طور پر کینسر کے خطرات سے منسلک کیے جا رہے ہیں۔ماہرین نے حکومتوں اور ماحولیاتی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پلاسٹک آلودگی کو روکنے کیلئے فوری اقدامات کریں اور پلاسٹک کے استعمال کو کم کرنے کیلئے سخت پالیسیوں پر عمل درآمد کریں۔امریکی سائنسدانوں کی ٹیم نے تجزیہ کیے گئے 182 سمندری خوراک کے نمونوں میں سے 180 میں مائیکرو پلاسٹک دریافت ہوئے، جن میں گلابی جھینگے، چنک سالمن اور لنگکوڈ بھی شامل ہیں۔امریکہ کے اوریگن میں موجود محققین نے انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے ذرات کیلئے کل 182 مختلف سمندری خوراک کی اقسام کے نمونے جمع کیے، جن میں کپڑے دھونے سے نکلنے والے مائیکرو فائبرز، ذاتی نگہداشت کی مصنوعات سے نکلنے والے مائیکرو پلاسٹک کے موتی، اور ٹائروں کی خرابی کی وجہ سے پیدا ہونے والا ٹائر ویئر شامل ہیں۔جہاز سے حاصل شدہ اور ریٹیل سے خریدی گئی سمندری خوراک کے 180 نمونوں میں انسانی ساختہ ذرات کی کچھ مقدار موجود تھی، جن میں گلابی جھینگے، سیاہ چٹانی مچھلی، لنگکوڈ، پیسیفک ہرنگ، لمپرے اور چنک سالمن شامل ہیں۔ چنک سالمن میں ذرات کی سب سے کم مقدار پائی گئی، جبکہ گلابی جھینگے میں سب سے زیادہ تھی۔ صرف دو نمونے ایک جہاز سے حاصل شدہ پیسیفک ہرنگ اور ایک جہاز سے حاصل شدہ لنگکوڈمیں انسانی ساختہ ذرات کا کوئی سراغ نہیں ملا۔تحقیق کی سربراہ ایلیس گرینک، جو پورٹ لینڈ اسٹیٹ یونیورسٹی میں ماحولیاتی سائنس اور انتظام کی پروفیسر ہیں، نے کہا: ''ہم نے پایا کہ ہمارے نمونہ کیے گئے چھوٹے جاندار زیادہ انسانی ساختہ، غیر غذائی ذرات کو نگل رہے ہیں‘‘۔مائیکرو پلاسٹک: ایک بڑھتا ہوا خطرہمائیکرو پلاسٹک سے مراد پلاسٹک کے وہ چھوٹے ذرات ہیں جو 5 ملی میٹر سے کم قطر رکھتے ہیں اور جسامت میں تل کے دانے کے برابر ہوتے ہیں اور یہ بڑے پلاسٹک کے ٹوٹنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ذرات بوتل بند پینے کے پانی، انسانی خون اور اعضاء، ممالیہ جانوروں کے فضلے اور یہاں تک کہ ہماری سانس لینے والی ہوا میں بھی پائے گئے ہیں۔ اگرچہ ان کے طویل مدتی اثرات ابھی مکمل طور پر واضح نہیں ہیں، لیکن تحقیق سے پتا چلا ہے کہ مائیکرو پلاسٹک کا استعمال صحت کے مختلف مسائل، جیسے اینڈوکرائن (ہارمونی) نظام کی خرابی اور ممکنہ طور پر کینسر کا سبب بن سکتا ہے۔پلاسٹک آلودگی کے جنگلی حیات پر اثرات خاص طور پر تشویش ناک ہیں۔ سمندری جانور جیسے سمندری کچھوے، ڈالفن اور سمندری پرندے اکثر پلاسٹک کے ذرات کو خوراک سمجھ کر نگل لیتے ہیں۔ 2019ء میں ایک بچہ کچھوا مردہ پایا گیا، جس کے معدے میں 104 پلاسٹک کے ٹکڑے موجود تھے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، دنیا کے سمندروں میں پہلے ہی 51 کھرب سے زیادہ مائیکرو پلاسٹک کے ذرات موجود ہیں اور اگر پلاسٹک آلودگی کو کم کرنے کیلئے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو 2050ء تک 99فیصد سمندری حیات مائیکرو پلاسٹک کے استعمال کا شکار ہو سکتی ہے۔اورگن اسٹیٹ یونیورسٹی کے کالج آف ایگریکلچرل سائنسز میں ماحولیاتی زہریلے مادوں کی ماہر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر سوسین برانڈر نے ان نتائج کو انتہائی تشویش ناک قرار دیا اور کہا کہ اس کے اثرات نہ صرف سمندری انواع بلکہ دیگر جانداروں اور ممکنہ طور پر انسانوں پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔گرینک کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے نتائج لوگوں کو سمندری خوراک کھانے سے روکنے کے بجائے ''موثر حل‘‘ تلاش کرنے کی تحقیق کو فروغ دینے کا باعث بننے چاہئیں، تاکہ مائیکرو پلاسٹکس کی سمندری ماحولیاتی نظام میں شمولیت کو کم کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم ایسے مصنوعات کا استعمال اور تلفی کر رہے ہیں جو مائیکرو پلاسٹکس خارج کرتی ہیں، تو یہ ذرات بالآخر ماحول میں شامل ہو جاتے ہیں اور ان چیزوں میں جذب ہو جاتے ہیں جو ہم کھاتے ہیں۔ جو کچھ ہم ماحول میں چھوڑتے ہیں، وہ آخر کار ہماری پلیٹوں میں واپس آ جاتا ہے۔گرینک نے مزید کہا، ہم جانداروں پر انسانی ساختہ ذرات کے اثرات کو سمجھنے کیلئے تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن اب ہم تجرباتی تحقیق کی طرف بڑھ رہے ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ مائیکرو پلاسٹکس کو سمندری ماحولیاتی نظام میں داخل ہونے سے روکنے کے مؤثر حل کون سے ہیں۔ 

آج کا دن

آج کا دن

ملکہ برطانیہ کو سزائے موت 1954ء میں آج کے روز ملکہ برطانیہ لیڈی جین گرے کو سزائے موت دی گئی۔لیڈی جین گرے صرف 9 دن یعنی 10 تا 19 جولائی انگلینڈ کی ملکہ کے عہدے پر فائز رہیں۔ غداری کے الزام میں انہیں سزائے موت سنائی گئی ۔ انہیں 17برس کی عمر میں ٹاور آف لندن پر سر قلم کر کے سزائے موت دی گئی۔ بعد از مرگ انہیں نہ صرف ایک سیاسی شکار کے طور پر جانا گیا بلکہ ایک شہید کا رتبہ بھی دیا گیا۔چلی کی اسپین سے آزادی12فروری1818ء کوچلی نے سپین سے آزادی حاصل کی۔یہ جنوبی امریکہ اور Andes پہاڑوں کے درمیان ایک تنگ ساحلی پٹی والا ملک ہے۔ چلی کی آزادی کا اعلان ایک دستاویز کے ذریعے کیا گیا۔ اس کا مسودہ جنوری میں تیار کیا گیا اور 12 فروری 1818ء کو تالکا میں سپرین ڈائریکٹر برناردواوہیگنس نے اس کی منظوری دی۔ آزادی کی تقریب 12 فروری 1818ء کو چاکابوکو کی جنگ کی پہلی برسی کے موقع پرمنائی گئی۔مانچو خاندان کی حکمرانی کا خاتمہ 12 فروری 1912ء کے دن چینی شہنشاہ پوئی کو تخت سے اترنا پڑا جس کے نتیجے میں 2 ہزار سالہ چینی سلطنت اور 267 سالہ مانچو خاندان کی حکمرانی ختم ہوئی۔ پوئی 3 سال کی عمر میں تخت نشین ہوئے تھے۔ پوئی کی زندگی میں بیشمار نشیب و فراز آئے۔ سابق شہنشاہ نے بیجنگ کے ایک باغ میں بطور ملازم بھی کام کیا۔ پوئی کی زندگی پر فلم ''دی لاسٹ ایمپرر‘‘ بنی، جسے1988ء میں نو آسکر ایوارڈز بھی ملے۔ صدریوگوسلاویہ کیخلاف 66 مقدمات12 فروری 2002ء میںیوگو سلاویہ کے سابق صدر سلوبدان میلو سیویچ کے خلاف اقوام متحدہ کی جنگی جرائم کی عدالت میں مقدمہ شروع کیا گیا ۔جنگ بوسنیا کے دوران قتل عام اور انسانی جرائم کی پاداش میں میلو سیویچ پر 66 مقدمات دائر ہوئے تھے، مقدمات کی سماعت کے دوران ہی انہیں موت نے آگھیرا۔آسٹریا میں خانہ جنگی12فروری کا دن آسٹریا کی تاریخ میں دو حوالوں سے اہمیت رکھتا ہے۔ 1933ء میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔ چانسلر نے پارلیمان کو برطرف کیا جس کے نتیجہ میں اٹلی کے فاشسٹوں کی حامی حکومت بنی۔ اس وقت دو بڑی سیاسی جماعتیں کام کر رہی تھیں اور دونوں کی اپنی نیم فوجی ملیشیائیں تھیں جن میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔1938ء میں آج کے روز ہٹلر کے حکم پر جرمن فوج آسٹریا میں داخل ہوئی۔