دور حاضر میں تیزی سے بڑھتی فضائی آلودگی دنیا بھر کی اقوام کیلئے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ ماہرین بیشتر بیماریوں کا ذمہ دار جن میں معمول کی موسمی بیماریوں کے علاوہ پھیپھڑوں اور چھاتی کا کینسر ، نمونیا ، امراض قلب اور فالج سمیت دیگر متعدد بیماریاں شامل ہیں، فضائی آلودگی کو قرار دیتے ہیں۔ اس حقیقت سے اب انکار ممکن نہیں کہ آلودگی کا بڑا سبب فضا میں گرین ہاوس گیسوں کا بے جا اخراج ہے اور ان گیسوں کے اخراج کی سب سے بڑی وجہ فوسل فیول کا اندھا دھند استعمال ہے۔ اگرچہ دنیا بھر میں بڑی تیزی سے ماحول دوست توانائی کے استعمال کی حقیقت کو تسلیم کیا جانے لگا ہے ، تاہم اب بھی دنیا کے تین چوتھائی سے زیادہ ممالک روایتی ایندھن کے استعمال کو چھوڑنے پر تیار نظر نہیں آتے۔ آج ہم دنیا کے جن تین ممالک کا ذکر کرنے جارہے ہیں وہ پانی، ہوا اور سورج کی روشنی سے بجلی بنا کر نہ صرف خود کفیل ہو چکے ہیں بلکہ زائد بجلی فروخت کر کے زرمبادلہ بھی کما رہے ہیں۔ کوڑا کرکٹ سے بجلی پیدا کرنے والا منفرد ملک یونان کے جنوب مشرقی سمندر ایگین میں واقع بیشتر دوسرے جزائر کی طرح ''تیلاس‘‘ کا جزیرہ بھی ان دور افتادہ جزائر میں شامل ہے جن کے زیادہ تر ساحلی علاقے ویران پڑے ہیں۔ شواہد کے مطابق اس جزیرے پر گزشتہ 500سالوں سے آبادی کے آثار ملتے ہیں۔ تیلاس کے اردگرد 200 کے لگ بھگ چھوٹے چھوٹے جزیرے ایسے بھی ہیں جہاں پر آبادی موجود ہے۔ تیلاس تک پہنچنے کا واحد ذریعہ سمندری راستہ ہے۔ اس دور دراز علاقے تک پہنچنے کیلئے یونان سے 15 گھنٹوں کی مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔ اس دوردراز علاقے کو سال کے بیشتر حصے میں متعدد مسائل سے بھی نمٹنا پڑتا ہے جس میں سرفہرست سردیوں میں پانی اور بجلی کی پیداوار میں کمی ہے۔ جس کا حل انہوں نے کوڑا کرکٹ سے بجلی پیدا کر کے نکالا ہے کیونکہ یہاں ہر سال اوسطاً تیس ہزار اور پڑوسی جزیرے رہوڈیس میں 20 لاکھ سیاح متوقع ہوتے ہیں ، جبکہ بجلی سپلائی کا دارومدار جزیرہ تیلاس پر ہی منحصر ہوتا ہے۔ تیلاس جزیرہ پر اس وقت پانچ سو سے چھ سو خاندان بستے ہیں۔تیلاس باقی دنیا کے برعکس اپنا کوڑا کرکٹ زمین میں دفن کرنے کی بجائے اسے ری سائیکل کر رہا ہے اور اس سے بجلی بھی بنا رہا ہے ۔اس کے علاوہ ہوائی چکیوں ( ونڈ ٹربائین ) اور شمسی توانائی کے ذریعے نہ صرف اپنی ضرورت کی بجلی پیدا کررہا ہے بلکہ زائد بجلی کو پڑوسی ملکوں میں فروخت بھی کررہا ہے۔ تیلاس کی بندرگاہ سے اترتے ہی آپ کو باربرداری اور آمدورفت کیلئے بجلی سے چلتی گاڑیاں نظر آتی ہیں جبکہ سڑکوں کنارے نصب رہنمائی کرتے بورڈ شمسی توانائی پر چلتے نظر آتے ہیں۔تیلاس جزیرہ خود انحصاری کی ایک خوبصورت مثال کے طور دنیا بھر میں اپنی شناخت بنا چکا ہے۔ کیونکہ 90 کے عشرے میں اس جزیرے کیلئے اس وقت بڑے مسائل کھڑے ہو گئے تھے جب یہاں وسائل اور ضروریات زندگی کی عدم دستیابی کے باعث یہاں کی کثیر آبادی نے یہاں سے انحلا کرنا شروع کر دیا تھا اور گھٹتے گھٹتے یہاں کی آبادی محض 270 افراد رہ گئی۔یہاں پیدائش کی شرح بھی بہت کم تھی جس کے سبب یہاں کاواحد سکول بھی بند ہونے لگا اور ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ جزیرہ بہت جلد ویران ہو جائے گا۔یہاں کے باسیوں نے رضاکارانہ طور پر اس جزیرے کو تباہی سے بچانے کیلئے خود انحصاری کو تقویت دی اور آج تیلاس میں بجلی سے لے کر ہر اشیا ء ضروریہ تک ان کی رسائی ہے۔ہوا کے ذریعے وسیع پیمانے پر بجلی پیداوار ڈنمارک کے حکام نے تین سال قبل اعلان کیا تھا کہ ڈنمارک خشکی پر ہوا کی ذریعے بجلی پیدا کرنے والا پہلا ملک ہے ۔ اس کے بعد ہم ساحل سمندر پر بھی ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے ابتدائی چند ممالک میں شامل ہیں اور اب ہم سمندر کے اندر اپنا الگ ایک ''توانائی جزیرہ‘‘ قائم کرنے جا رہے ہیں جو ڈنمارک کے مشرق میں بورہولم کے قریب بحیرہ بالٹک میں ہو گا۔ جو نہ صرف ڈنمارک کی بجلی کی ضروریات پوری کرے گا بلکہ وافر بجلی ایکسپورٹ بھی کرے گا۔ اس جزیرے سے جرمنی ، بلجئیم اور ہالینڈ کو بجلی برآمد کرنے کے معاہدے کئے جائیں گے۔ یہ منصوبہ بنیادی طور پر ڈنمارک کے 30لاکھ خاندانوں کو بجلی فراہم کرنے کا ایک منصوبہ ہے جو ایک وسیع و عریض مصنوعی جزیرے پر قائم کیا جا رہا ہے جو ساحل سمندر سے 80 کلومیٹر سمندر کے اندر تعمیر کیا جارہا ہے ۔یہ اپنی نوعیت کا دنیا کا پہلا ''توانائی جزیرہ‘‘ ہے۔ یہ ڈنمارک کی تاریخ کاسب سے بڑا منصوبہ ہے جس پر 34ارب ڈالر تخمینہ متوقع ہے۔ اس جزیرے کا ابتدائی رقبہ ایک لاکھ 20 ہزار مربع میٹر ہو گا جو بتدریج بڑھا کر 4لاکھ 60ہزار مربع میٹر کر دیا جائے گا۔ اس منصوبے کے ذریعے ایک مصنوعی جزیرے پر 200 کے لگ بھگ دیو ہیکل ہوا سے چلنے والے ٹربائن لگائے جائیں گے۔ سمندری لہروں سے بجلی کی پیداوار دنیا بھر کے سائنسدان ایک عرصہ سے اس نظرئیے پر کام کر رہے تھے کہ یہ کرۂ ارض جو 70فیصد پانی پر مشتمل ہے ، جب ہوا ، روشنی ، تیل اور دیگر ذرائع سے بجلی بنائی جا سکتی ہے تو سمندری لہروں اور موجوں سے کیوں نہیں بنائی جا سکتی۔ ویسے تو موجوں اور لہروں سے توانائی پیدا کرنے والا آلہ دوسو سال سے بھی زیادہ پہلے تیار کر لیا گیا تھا لیکن باقاعدہ طور پر اس آلے کی افادیت کو بروئے کار لانے میں پہل یورپ میں یورپی یونین کی مدد سے 2003ء میں سکاٹ لینڈ کے گرد و نواح کے پانیوں سے ہوئی۔ سکاٹ لینڈ کے مغربی ساحل سے بحیرہ اوقیانوس کی لہریں پوری طاقت کے ساتھ ٹکراتی ہیں۔ اس مقام پر '' اکوا میرین پاور اوئسٹر 800‘‘ نامی ایک آلہ دو دو میٹر بلند لہروں کے ساتھ حرکت کرتا نظر آتا ہے۔پانی سے باہر اس آلے کا صرف اوپر کا حصہ نظر آتا ہے۔پانی پیدا کرنے والا اصل نظام سمندر میں پندرہ میٹر کی گہرائی میں ایک پلیٹ فارم کے ساتھ منسلک ہے۔ لہروں اور موجوں کی حرکت کے نتیجے میں پانی بہت زیادہ پریشر کے ساتھ جا کر ان ٹربائنز کو چلاتا ہے جو ساحل پر بنی ایک عمارت میں موجود ہیں۔ یہ ایک چھوٹا سا پاور سٹیشن ہے جس کے ڈھانچے کے اندر ہی لہروں کی طاقت سے بجلی پیدا کرنے کا نظام موجود ہے جس کے ذریعے یہاں پیدا ہونے والی بجلی کو خشکی پر بھیجا جاتا ہے۔