گندھارا آرٹ
اسپیشل فیچر
گندھارا کے صدر مقام کے بارے میں کئی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ٹیکسلا جو اسلام آباد کے قریب واقع ہے، اسے بھی وادی گندھارا کا صدرمقام قرار دیا جاتا ہے اور پشکلاوتی جو اَب چارسدہ کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور پشاور کے قریب واقع ہے،کو بھی گندھارا کا مرکز قرار دیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وادی پشاور بھی قدیم زمانے میں گندھارا کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور یہ ایک طویل عرصے تک گندھارا کا صدر مقام رہ چکا ہے۔ ’’ہنڈ‘‘ کو بھی گندھارا کے صدر مقام کی حیثیت سے جانا جاتا ہے جہاں سکندرِ اعظم نے دریائے سندھ عبور کیا تھا۔ اسی طرح وادی سوات کو بھی گندھارا کے صدر مقام کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔کیوں کہ سوات میں بدھ مت اور گندھارا تہذیب کے قدیم اثرات کی بہتات ہے۔ سوات میں برآمد ہونے والی گندھارا تہذیب اور گندھارا آرٹ کے بعض نادر نمونوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سوات میں گندھارا تہذیب کوبڑا عروج حاصل تھا اور اس تہذیب کے اثرات یہاں اس قدر زیادہ ملتے ہیں کہ سوات پر گندھارا آرٹ کی ایک بڑی فیکٹری کا گمان گزرتا ہے۔ جہاں بہترین نقش و نگار کی حامل کندہ کاری اور نفیس سنگ تراشی کے نمونے سلطنت گندھارا کے دیگر علاقوں میں بھی سپلائی کئے جاتے تھے۔ سوات میں جہان آباد میں بْدّھا کا قد آور خوب صورت مجسمہ گندھارا آرٹ کا ایک بہترین اور نایاب نمونہ ہے۔وجہ تسمیہ: لفظ گندھارا کے بہت سے معانی نکالے جاتے ہیں۔ تاہم محققین کسی ایک معنی پر متفق نہیں۔ بعض مؤرخین کی تحقیق کے مطابق وسطی ایشیا سے آنے والے قبائل کے ایک سردار کا نام گندھاریہ تھا جس نے اپنے نام سے یہ نو آبادی قائم کی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سردار کی ایک بیٹی کا نام گندھاری تھا، جس کے نام پر اس علاقے کا نام گندھاری رکھ دیا گیا تھا جو بعد میں بگڑ کر گندھارا کہلایا۔ بعض کے خیال میں لفظ گندھارا کے معنی یہاں کی مشہور اون پر پڑ گیا تھا۔ بھیڑوں کی یہ اون بہت نفیس تھی اور اس کی شہرت کا ڈنکا پورے برصغیر میں بجتا تھا۔افغانستان کے مشہور شہر قندھار سے بھی اس کی نسبت بیان کی جاتی ہے۔ ٹیکسلا جب بدھ مت کا مرکز تھا تو اس وقت قندھار سے بہترین سنگ تراش آئے تھے اور انہوں نے ہند، یونانی اور ایرانی فن کی آمیزش سے اپنے ہنر کے اعلیٰ جوہر دکھائے جس کے باعث یہاں کا نام قندہارا اور پھر گندھارا پڑ گیا۔مقصد: اس آرٹ کا مقصد بدھ مت کی اشاعت اور تبلیغ بیان کیا جاتا ہے۔ یہ آرٹ کشان خاندان کے راجہ کنشک کے دورِ حکومت میں انتہائی عروج پر پہنچ گیا تھا۔ کیونکہ اس دور میں مملکت کی مادی خوشحالی اور مذہبی جوش و جذبے نے اس آرٹ کو کمال تک پہنچا دیا تھا۔ بعض مؤرخین کی رائے کے مطابق اس وقت کے ہنر مندوں نے مذہب سے انتہائی عقیدت کی وجہ سے اپنی دلی ترجمانی سنگلاخ چٹانوں کے سینوں پر ثبت کی۔ اس آرٹ میں بت سازی کے لئے ایک خاص قسم کا پتھر استعمال کیا گیا ہے جو وادی سوات اور بونیر کے پہاڑوں میں عام دستیاب ہے۔ یہ پتھر مجسمہ سازی کے لئے بڑا موزوں ہے۔ اسے بڑی آسانی کے ساتھ تراشا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ چونے اور مٹی سے بھی بت سازی کا کام لیا جاتا ہے۔ سوات میں یہ آرٹ پتھر اور لکڑی کے دروازوں لوہے اور پیتل کے اوزاروں پر کندہ کاری، گل کاری اور کپڑوں پر کشیدہ کاری کی صورت میں نظر آتا ہے۔۔۔۔