حضرت پیر سید مہر علی شاہ چشتی نظامیؒ
اسپیشل فیچر
حضرت پیر سید مہر علی شاہؒ تاجدار گولڑہ ان نفوس قدسیہ میں منفرد مقام رکھتے ہیں جنہوں نے برصغیر پاک و ہند میں شریعت اسلامیہ کی ترویج و اشاعت اور تصوف وروحانیت کے احیا کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ درسگاہوں اور خانقاہوں میں قال العلامہ الگولڑوی اور قال العارف الگولڑوی کی سند معتبر سمجھی جاتی تھی۔ گولڑا شریف میں کابل سے جنوبی ہند تک بیک وقت پچاس پچاس جلیل القدر علما آپ سے اکتساب فیض کرتے۔ پیر مہر علی شاہؒ قبلہ کی ولادت باسعادت یکم رمضان المبارک ۱۴ اپریل ۱۸۵۹ء کو گولڑہ شریف ضلع راولپنڈی میں ہوئی۔ آپ کے جد امجد بارہویں صدی ہجری میں ساڈھورا نزد انبالہ سے ناسازگاری حالات کے باعث نقل مکانی کر کے گولڑا شریف تشریف لے آئے تھے۔ آپ نے اپنے زمانہ کے مشہور ہندوستانی علما کرام سے رسمی تعلیم حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ کرام میں مولانا احمد علی محدث دہلوی ،مولانا لطیف اللہ علی گڑھی اور مولانا سلطان محمود انگری کے نام نمایاں ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں ہی آپؒ کے علمی خزائن کا ظہور شروع ہو گیا تھا۔ آپؒ کے اس زمانہ میں فتاویٰ اور مناظرے طالب علمی کی یادگار ہیں۔ ۱۸۷۸ء میں تقریباً ۲۰ سال کی عمر میں آپؒ علوم رسمیہ سے فارغ ہو کر واپس گولڑا شریف تشریف لے آئے۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد حسن ابدال کے مشہور بزرگ سید چراغ علی شاہ کی دختر نیک سے آپؒ کی شادی ہو گئی۔ آپؒ نے علوم ظاہریہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد گولڑہ شریف کی پرانی مسجد میں سلسلہ درس وتدریس شروع فرمایا۔ آپؒ کی روحانی بیعت سلسلہ عالیہ قادریہ میں اپنے بزرگ حضرت سید فضل الدین شاہ گیلانی المعروف بڑے پیر صاحب جو کہ آپؒ کے والد کے ماموں بھی تھے، سے تھی۔ جب کہ سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں آپؒ حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی کے دست حق پرست پر بیعت سے مشرف تھے اور دونوں سلاسل سے آپؒ کو خلافت و اجازت کی سعادت نصیب ہوئی۔ ۱۳۰۰ھ میں تحقیق حق ابھی معمور نہ ہواتھا چنانچہ آپ نے علوم رسمیہ کی درس و تدریس کو خیر باد کہہ کر اپنے جد امجد حضرت غوث الاعظمؒ کی سنت مطہرہ کی پیروی کرتے ہوئے جہاںگردی اور صحرا نوردی اختیار فرمائی۔ اسی جہاں گردی کے دوران آپ نے لاہور، ملتان، پاک پتن، مالیر کوٹلہ، مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان، اجمیر شریف اور سب سے آخر میں حسن ابدال کا سفر فرمایا۔ یہ زمانہ کم و بیش سات برس پر محیط ہے حضرت پیر کا رنگ گندمی،پیشانی بلند، اور چمکدار آنکھیں مخمور اور رعب آفریں، ابرو گھنے اور کمان دار،ریش گھنی اور تابہ سینہ،گیسو گھنگریالے اور کانوں تک دراز،سینہ کشادہ تھا، قد میانہ تھا مگر مجلس میں بیٹھے ہوئے بلند و بالا معلوم ہوتے تھے۔ سفید لباس زیب تن فرماتے ہاتھ میں ہمیشہ تسبیح رکھتے تھے۔ اعلیٰ حضرت گولڑوی کو شیخ اکبر ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجود پر بڑا عبور حاصل تھا وہ شیخ کی کتاب فصوص الحکم کا باقاعدہ درس دیا کرتے تھے اس ضمن میں ان کی مہارت کے پیش نظر علامہ اقبالؒ نے بذریعہ خط و کتابت شیخ اکبر کے نظریات سے متعلق آپؒ سے بعض امور دریافت کئے تھے آپؒ کی سوانح اور خدمات کا مطالعہ کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی تخلیق ایک خاص مشن کے لئے ہوئی تھی۔ حق گوئی اور بے باکی آپ کی سرشت میں موجود تھی۔ جب فتنہ قادیانیت نے سر اٹھا یا تو آپ نے پوری قوت کے ساتھ اس کے خلاف علم جہاد بلند کیا۔ حضرت پیر مہر علی شاہؒ پنجابی اور فارسی زبان میں منظوم کلام کے منفرد سخنور تھے آپؒ کا جو کلام نعت مناجات اور تصوف پر مشتمل ہے اپنی ندرت اور سلاست کی وجہ سے غلبہ حال کا مرقع معلوم ہوتا ہے واردات غیبی کی تاثیر سے ایک مرتبہ قافیہ وردیف سے بے نیاز ہو کر بھی آپ نے کلام ارشاد فرمایا آپ کی بعض پنجابی نظمیں مقبول عام کا درجہ حاصل کر چکی ہیں بالخصوص یہ نعت پاک جس کا مطلع ہے ۔اج سک متراں دی ودھیری اےکیوں دلڑی اداس گھنیری اےتعلیم کے ابتدائی زمانے میں پیر صاحبؒ واقعات کا ظہور ہونے لگا جس سے باشندگان گولڑہ آپؒ کے مادر زاد ولی ہونے کی باتیں کرنے لگے اہل جذب و سکر آپ کے قرب میں رہتے گزرگاہوں میں بیٹھ کر دیدار کرتے اور معرفت کی زبان میں ارشادات و کنایات سے باتیں کرتے۔ آپ نے مختلف مزارات پر مراقبے اور چلے بھی کئے سفر حج سے واپسی پر گولڑہ شریف میں پتھر اور گارے سے چند حجرے تعمیر کر کے خانقاہ مہریہ کی بنیاد رکھی اور درختوں کے سائے تلے پتھر کی ایک سل پر نشست گاہ بنائی اور وہیں اہل عرفان کی تربیت و تزکیہ نفس کا کام کیا خانقاہ میں عبادت و ریاضت کی مشقیں ہوتیں اللہ ھو کی ضربیں اور یا حی یا قیوم کے وظیفے ہوتے ہر درویش اپنی استطاعت کے مطابق فیض پاتا اور ذات حق کے جلوئوں میں سر مست ہو کر دوام و بقا کی سرمدی لذتوں سے سرشار ہوتا اس عمل سے دل اجلے ہوتے اور لوگ قلب و نظر کی پاکیزگی حاصل کرتے آپ کی مساعی جمیلہ سے جاہل ،عالم بنے اور عالم واصل باللہ ہوئے۔ گویا آپ نے عرفان الہی کے دریا بہا دئیے اور ایک عالم کو صبغتہ اللہ میں رنگ دیا آپ نے مختلف علمی و فکری موضوعات پر متعد دکتب تحریر فرمائیں جن سے آج تک ایک عالم فیض یاب ہو رہاہے اہم تصنیفات یہ ہیں ۱۔تحقیق الحق فی کلمتہ الحق ۲۔شمس الھدایہ فی اثبات حیات المسیح ۳۔سیف چشتیائی۴۔اعلاء کلمتہ اللہ فی بیان مااہل بہ لغیر اللہ ۵۔الفتوحات الصمدیہ۶۔ تصفیہ مابین سنی و شیعہ۷۔فتاوی ٰ مہریہ ۔یوم سہ شنبہ ۲۹ صفر ۱۳۵۶ہجری ۱۱مئی ۱۹۳۷ء کو اس شہباز اوج روحانیت نے اسم ذات شریف اللہ ایک دفعہ ہی آہستہ مگر ایسی طویل اور عمیق آواز میں زبان شوق سے ادا فرمایا کہ اس کی گونج دماغ سے لے کر قدم مبارک کے ناخنوں تک سارے بدن کے رگ و ریشے میں پھیل گئی یہ کیفیت عالم نمودار کی الوداعی جھلک تھی جس میں سلطان العارفین نے قاصد محبوب حقیقی داعی وصال کا روحی لبیک سے خیر مقدم فرمایا۔ آپؒ کو آپؒ کے آستانہ گولڑہ میں ہمیشہ کے لئے مجو استراحت کر دیا گیا۔ آپؒ کے سالانہ عر س مبارک کی تقریبات ۲۵ صفر سے گولڑاشریف میں جاری ہیں جن میں دنیا بھر سے عقیدت مندان شرکت کرتے ہیں اللہ ان مقدس اولیائے کاملین کے صدقے ہماری نجات فرمائے آمین ٭…٭…٭