خدیجہ مستور: باکمال کہانی کار
اسپیشل فیچر
خدیجہ مستور دسمبر 1927ء میں گائوں بلسہ (بریلی) میں پیدا ہوئیں۔ آپ کا تعلق بریلی کے یوسف زئی خاندان سے تھا۔ خدیجہ مستور کی پیدائش بلسہ میں ہوئی لیکن انہوں نے پرورش لکھنؤ میں پائی۔ آپ کے والد کا نام تہور احمد خان تھا۔ خدیجہ مستور کے والد سرکاری ملازم اور ادبی ذوق رکھنے والی شخصیت تھے۔ ان کے گھر پر ادبی کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ موجود تھا۔ خدیجہ مستور نے اس ادبی ماحول میں پرورش پائی۔ ان کی چھوٹی بہن ہاجرہ مسرور نے بھی بطور ادیب خوب شہرت حاصل کی۔خدیجہ مستور نے گھر سے قرآنی تعلیم حاصل کی اور قصبے کے کانونٹ سکول سے نصابی تعلیم کا آغاز کیا۔ گھر کے ادبی ماحول کی بدولت خدیجہ مستور بچپن ہی میں ادب کی طرف راغب ہو گئیں۔ ان کی والدہ انور جہاں بھی اچھی مضمون نگار اور شاعرہ تھیں۔ ان کے مضامین اس وقت کے رسائل ’’عصمت‘‘ اور ’’سبیل‘‘ میں شائع ہوتے تھے۔ خدیجہ مستور کی عمر جب نو برس ہوئی تو ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ رشتے داروں کی بے رخی اور زمانے کی صعوبتوں کے باعث یہ خوشحال گھرانہ اچانک عسرت و تنگدستی کا شکار ہو گیا۔ ان حالات نے خدیجہ جیسی شوخ‘ شریر اور نڈر بچی کو بڑی زود حس‘ حساس طبع اور سنجیدہ بنا دیا۔ ان حالات کے سبب ان کی تعلیم بھی افلاس کی چیرہ دستیوں کی نذر ہو گئی۔ اگرچہ وہ ہونہار طالبہ تھیں مگر کسی ڈگری کے حصول کے مواقع انہیں نصیب نہ ہو سکے۔ یہ خدیجہ مستور کی جرأت اور ہمت تھی کہ باقاعدہ تعلیمی کمی کے باوجود انہوں نے اپنی کوشش سے مطالعے کو وسعت دی۔ انہوں نے گھر پر مطالعہ جاری رکھا اور اردو کے علاوہ انگریزی‘ فارسی اور روسی ادب کا مطالعہ کیا۔ روسی ادیبوں میں انہیں ’’چیخوف‘‘ خاص طور پر پسند تھے‘ جنہیں اپنی تصنیف (And Quiet Flows the Don) ’’ڈان بہتا رہا‘‘ پر نوبیل انعام بھی ملا۔ اردو میں خدیجہ مستور نے سب ادیبوں اور شاعروں کا مطالعہ کیا لیکن زیادہ شوق سے نثر نگاروں میں پریم چند‘ احمد ندیم قاسمی اور شاعروں میں غالب‘ حافظ‘ سعدی شیرازی اور خیام کو پڑھا۔خدیجہ مستور نے 18 برس کی عمر میں باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔ شروع میں افسانہ نویسی کی طرف بڑی رغبت تھی۔ ان کا پہلا افسانہ ’’ضیائ‘‘ تھا۔ ان کے مختلف افسانے اس دور کے مشہور رسائل ’’خیال‘‘ ’’عالمگیر‘‘ اور ’’ساقی‘‘ میں شائع ہوتے تھے۔ مختلف رسائل میں چھپنے والے ان افسانوں اور کہانیوں کو 1944ء میں کتابی شکل میں ’’کھیل‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا۔ اس کے بعد ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ 1946ء میں ’’بوچھاڑ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ ستمبر 1947ء میں لکھنؤ سے پاکستان آ گئیں اور ان کا شمار اردو کے ایسے افسانہ نگاروں میں ہونے لگا جنہوں نے اردو افسانے کو زبان و بیان اور موضوع کے لحاظ سے نئے امکانات اور وسعتوں سے متعارف کروایا۔ 1950ء میں ان کی شادی صحافی ظہیر بابر سے ہوئی۔ 1951ء میں ان کے افسانوں کا تیسرا مجموعہ ’’چند روز اور‘‘ شائع ہوا۔ مئی 1962ء ان کے لئے بطور ادیب یادگار سال تھا۔ اس سال ان کا شاہکار ناول ’’آنگن‘‘ منظر عام پر آیا۔ اس کے بعد ان کا ناول ’’زمین‘‘ چھپا۔ یہ ان کی آخری تصنیف تھی۔ ان کے مختلف افسانوں کو جمع کر کے ان کا مجموعہ ’’ٹھنڈا میٹھا پانی‘‘ ان کی موت کے بعد شائع ہوا۔ادبی حلقوں میں ان کے ناول ’’آنگن‘‘ نے تہلکہ مچا دیا اور اسے آدم جی ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا اور آج تک خدیجہ مستور کی شناخت اسی ناول سے ہے۔ افسانے اور ناول لکھنے کے علاوہ ریڈیو کیلئے دو ڈرامے لکھے۔ بچوں کیلئے بھی چند کہانیاں لکھیں جن میں سے دو کہانیاں کتاب ’’جیتی جاگتی کہانیاں‘‘ میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی بہت سی کہانیوں کا دوسری زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا۔ 1964ء میں رائٹرز گلڈ ملتان شاخ کی اردو محفل میں ان کے پڑھے جانے والے افسانے ’’رشتے‘‘ کو سال رواں کا بہترین افسانہ قرار دیا گیا۔ کچھ عرصہ ’’روزنامہ امروز‘‘ کیلئے کالم بھی لکھتی رہیں۔ انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور شاخ کی سیکرٹری بھی رہیں۔خدیجہ مستور کا فن ان کی شخصیت اور ماحول کا حسین امتزاج ہے۔ ان کے نسوانی کردار ان کی شخصیت کا پر تو نظر آتے ہیں۔ خدیجہ مستور چار فٹ گیارہ انچ کی مختصر سی خاتون تھیں لیکن اپنی تخلیقی قوت‘ خوش مزاجی‘ زندہ دلی اور باغ و بہار طبیعت کی بدولت بڑی قدآور شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں۔ خدیجہ مستور کی ادبی زندگی کا شاہکار ان کا ناول ’’آنگن‘‘ ہے۔ اس ناول کا ہندی‘ بنگالی‘ گجراتی اور روسی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔بعض تعلیمی اداروں کے نصاب میں اسے شامل بھی کیا گیا ہے۔ خدیجہ مستور کا یہ ناول موضوع کے لحاظ سے دو سطحیں رکھتا ہے۔ ایک جاگیردارانہ نظام کے حوالے سے گھریلو زندگی ہے اور دوسرا اس کا موضوع تحریک آزادی ہے۔ خدیجہ مستور نے اس ناول میں ایک جاگیردار گھرانے کی روایت اور ذہنیت کی کہانی بیان کی ہے۔ یہ ناول اپنے عہد کی مخصوص تہذیب‘ رسم و رواج اور سیاسی اثرات کا ترجمان ہے۔خدیجہ مستور نے اپنے فن کے ذریعے اردو ادب کے لئے جو خدمت سرانجام دی ہے اسے تاریخ ادب اردو میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔خدیجہ مستور کا انتقال 26 جولائی 1982ء کو عارضہ قلب کے سبب لندن میں ہوا اور ان کا جسد خاکی لاہور لا کر قبرستان گورومانگٹ (کبوتر پورہ) میں سپرد خاک کیا گیا۔ آپ کی قبر پر خوبصورت چھت تعمیر کی گئی ۔ ان کی قبر ان کے ناول ’’آنگن‘‘ کی طرح قبرستان میں آنے والے ہر فرد کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور خدیجہ مستور کی روح کو ایصال ثواب کیلئے دعا پڑھنے کی دعوت دیتی ہے۔ مٹی کے پردوں میں مستور، خدیجہ کو ادب سے پیار کرنے والے لوگ ہمیشہ یاد رکھیں گے۔