گھروں میں کام کرنے والے ملازم
اسپیشل فیچر
گھروں میں آج کل کام کاج کے لیے ملازم رکھنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ عموماً عورتیں ہوتی ہیں جنہیں ’’ماسیاں‘‘ بھی کہا جاتا ہے، جو گھر کی صفائی ستھرائی، کپڑوں اور برتنوں کی دھلائی اور دیگر کاموں کے لیے رکھی جاتی ہیں۔ بعض گھروں میں ماسیوں کے علاوہ چھوٹی عمر کے لڑکے یا لڑکی کو بھی رکھ لیا جاتا ہے، جو دن رات وہیں رہتے ہیں اور تقریباً چوبیس گھنٹے ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔جن گھروں میں میاں بیوی دونوں ملازمت کرتے ہیں، وہاں تو ملازمہ یا ماسی کی ضرورت بہر حال پڑتی ہے، کیونکہ خاتون خانہ کے ملازمت پر جانے کے باعث گھر کے کام کرنے کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں ماسی رکھنا ان کی مجبوری ہے۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن وہ خواتین جو ملازمت نہیں کرتیں اور گھر میں ہی رہتی ہیں، وہ بھی ماسی رکھنا ضروری سمجھتی ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ حضرت انسان کی آقا اور حاکم اعلیٰ بننے کی خواہش آج بھی موجود ہے۔ شاید غلاموں اور کنیزوں کی جگہ ماسی، ملازمہ، آیا، خانساماں، چوکیدار اور کام کرنے والے بچوں نے لے لی ہے۔ فرق یہ آیا کہ اب گھریلو ملازمہ یا ماسی رکھنا صرف شان کا اظہار ہی نہیں رہا، بلکہ معاشرتی اور معاشی ڈھانچے میں آنے والی تبدیلیوں کی بنا پر متوسط طبقے کے لیے بھی یہ ضرورت، بلکہ مجبوری بن چکا ہے۔ جب میاں بیوی دونوں ملازمت پر ہوں تو گھر کو سنوارنے اور گرہستی چلانے کے لیے محنت کش ہاتھوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ماسی کے علاوہ خانساماں، آیا، ڈرائیور اور چوکیدار وغیرہ زیادہ دولت مند گھروں میں نظر آتے ہیں۔ ایسے گھروں میں عموماً تین سے پانچ ملازم موجود ہوتے ہیں، جن میں سے دو تین کل وقتی ہوتے ہیں۔ بہرحال ملازم کتنے بھی ہوں، ان کو صاحب خانہ اپنی ضرورت اور مجبوری کے لحاظ سے رکھتے ہیں۔ملازم اور مالک کے مابین روابط اور رویے بڑی حد تک اس بات پر منحصر ہوتے ہیں کہ ملازم کو کس کام کے لیے رکھا گیا ہے۔ بعض مالک ایک ملازم سے چار ملازموں کا کام لیتے ہیں مگر تنخواہ ایک ہی کام کی دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں وہی ملازم اپنے فرائض انجام دیتا ہے، جو بہت مجبور ہو۔ ملازم اور مالک کے مابین رویوں میں تبدیلی بھی دیکھی جاتی ہے۔ بعض ملازمین بہت ضرورت مند ہوتے ہیں اور مالکان کا ہر طرح کا رویہ برداشت کرنا ان کی مجبوری بن جاتا ہے۔ دوسری جانب بعض ملازمین مالکان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، نظریہ ضرورت کہیں کہیں حاکم کو محکوم بھی بنا دیتا ہے۔خواتین اپنی سہولت اور آرام کے لیے ماسی رکھتی ہیں۔ خواتین کو چاہیے کہ ماسی پر کام کا زیادہ بار نہ ڈالیں۔ ملازمت پیشہ خواتین انہی کاموں کے لیے ماسی رکھیں، جن کی اشد ضرورت ہو، چھٹی کے دن وہ اچھے خاصے گھریلو کام نمٹا سکتی ہیں، جب کہ گھریلو خواتین ماسی رکھنے کے بجائے خود گھر کے کام کریں۔ یہ ان کی صحت کے لیے زیادہ مناسب ہے۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ آپ کی ماسی آپ سے زیادہ توانا ہے۔جو خواتین گھر کے کام کاج خود کرتی ہیں، وہ صحت مند، چاق و چوبند اور خوش رہتی ہیں، کیونکہ مصروفیت کی وجہ سے وہ بہت ساری فضولیات سے بچی رہتی ہیں جن میں اضمحلال و افسردگی (ڈپریشن)، فضول گوئی، غیبت، بدگمانی، مالکہ کے مشغلوں کی ٹوہ میں رہنا، حسد اور وقت ضائع کرنے جیسی بری عادتیں شامل ہیں۔جب ماسی گھر کے کاموں میں مصروف ہوتی ہے تو خاتون خانہ کے پاس کافی وقت ہوتا ہے اور وہ اس وقت کو ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر یا موبائل فون پر لمبی گفتگو کر کے گزارتی ہیں۔ ماسی رکھنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ لیکن صرف دکھاوے کے لیے یا اپنی شان ظاہر کرنے یا کام سے بچنے کے لیے اسے رکھنا بہرحال اچھی بات نہیں۔آپ ماسی ضرور رکھیں، البتہ اسے رکھنے کے بعد اس بات کا خیال بھی رکھیں کہ وہ آپ کی مدد گار ہے اور اگر وہ معاشی مجبوری کے تحت گھروں میں کام کرتی ہے تو اس کی ضرورتوں کا خیال کرتے ہوئے اس کی اخلاقی اور مالی امداد بھی کریں۔ اس کے ساتھ اپنا رویہ نرم اور ہمدردانہ رکھیں، تاکہ ماسی کو تحفظ کا احساس ہو اور وہ دل لگا کر کام کرے۔عموماً ماسیوں کے ساتھ ان کے بچے بھی آتے ہیں، جو اپنی ماؤں کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ ذرا غور کریں، یہ چھوٹے چھوٹے بچے، جن کی عمر پڑھنے، کھیلنے اور کھانے پینے کی ہے، وہ اپنا بچپن گھروں کے کاموں میں گزار دیتے ہیں۔ ہو سکے تو ان معصوموں کو کام سے آزاد کر کے انہیں پڑھنے لکھنے کی طرف راغب کریں، انہیں کھیلنے کے لیے کھلونے دیں اور کھانے پینے کی چیزیں دیں تو یہ بچے یقینا خوش ہوں گے۔ماسی رکھنا آپ کی مجبوری ہے یا نہیں؟ ضرورت اس امر کی ہے اس کے ساتھ آپ کا رویہ اچھا ہونا چاہیے، اسے آپ سے کوئی شکایت نہ ہو۔ خدا بھی یہ بات پسند نہیں کرتا کہ ملازم مالک سے ناخوش رہے۔ ماسی کو کم تر نہ سمجھیں، وہ بھی انسان ہے اور آپ کی ضرورت ہے۔ ماسیوں کو بھی چاہیے وہ ذمے داری اور دیانت داری سے کام کریں اور ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے مالکہ ناخوش ہو۔٭…٭…٭