دوسری عالمی جنگ میں فرانس کی شکست
مشرق میں ہٹلر کی برق رفتار جنگ جب پولینڈ کو مٹا رہی تھی، مغربی حلیف فرانس نے جرمن عساکر کی توجہ ہٹانے کے لیے کوئی حرکت نہ کی۔ تاہم ستمبر 1939ء کے اوائل میں فرانسیسی فوجوں نے بڑی احتیاط سے جرمن علاقے کے اندر چند میل پیش قدمی کی لیکن جب بڑی جرمن فوجیں مغرب کی طرف منتقل ہوئیں تو فرانسیسی فوج تیزی سے پیچھے ہٹ گئیں۔1914ء میں (جنگ عظیم اول کے وقت) فرانسیسی حب وطن کے زبردست جذبے کے ساتھ شریک جنگ ہوئے تھے۔ 1939ء میں انہیں جنگ کی دعوت ملی تو اس طرح ہتھیار اٹھائے گویا سوئے سوئے اٹھ کر چلنا شروع کر دیا۔ساتھ ہی وہ اس زعم باطل میں مبتلا تھے کہ طاقت ور فرانسیسی فوج کے مقابلے میں ہٹلر کے لیے کامیابی کا کیا موقع ہے! فرانس کی دو کروڑ آبادی میں آٹھ لاکھ جنگجو موجود ہیں۔ پچپن لاکھ کو جنگی تربیت دے کر ریزرو میں رکھ لیا گیا ہے۔ یہ یورپ کی نہایت طاقتور جنگی مشین ہے۔ ہر شخص ان حقائق سے آگاہ تھا۔ فرانسیسی فوج کا سربراہ یقین دلا چکا تھا کہ اس کی فوجیں جرمنوں کا قیمہ کر کے رکھ دیں گی۔فرانس کی عسکری نفسیات خالص دفاعی تھی اور دفاع کے لیے ایک مسلسل اور دائمی مستحکم دیوار بنالی گئی تھی، یعنی ’’خط ماجینو‘‘ (Maginot Line)، جو یورپ میں اول درجے کی مستقل سرحد تھی اور یہاں دنیا کا سب زیادہ مستحکم دفاعی نظام قائم کیا گیا تھا۔ اسے فولاد اور کنکریٹ سے بنایا گیا تھا۔ اس کے لیے نقشے بہت پہلے بنا لیے گئے تھے مگر تعمیر 1929ء میں شروع ہوئی۔ اس وقت آندرے ماجینو وزیر جنگ تھا۔ جرمنی کی مداخلت روکنے کے لیے یہ ایسا دفاعی نظام تھا جو اٹلی، سوئٹزر لینڈ، جرمنی اور لکسمبرگ کی سرحدوں تک پھیلا ہوا تھا۔ یہ دفاعی چوکیوں کا ایک وسیع سلسلہ تھا، جس میں فرانس کے دو بڑے نئے قلعے بھی شامل کر دیے گئے تھے ایک ہیکن برگ دوسرا ہوش والڈ۔ اس طرح ان کی مدد سے بظاہر لورین کے صنعتی خطے اور خام لوہے کی پیداوار کے مرکز کو محفوظ کر لیا گیا تھا۔’’خط ماجینو‘‘ پر (اس دور میں) نصف ارب ڈالر خرچ ہوئے اور آگے چل کر تین لاکھ فوج اس کے ساتھ ساتھ جا بیٹھی۔ یہ ایک عجیب و غریب تعمیر تھی۔ زمین دوز پناہ گاہوں کا ایک وسیع سلسلہ تھا، جو مختلف سطحوں پر قائم تھا۔ اس میں افسروں اور فوجیوں کے لیے قیام گاہیں، گولہ بارود کے ذخیرے، رسد کی عام چیزیں، پانی کے ٹینک، باورچی خانے، بیرکیں، بجلی کے مراکز، تار، ٹیلی فون، چھوٹی چھوٹی سڑکیں، ہسپتال اور آرام کے کمرے موجود تھے۔ اوپر سے پھٹنے والے گولوں یا بموں سے یہ سب چیزیں بالکل محفوظ تھیں۔ زمین کے اوپر جنگلے بنادیے گئے تھے۔ لیکن ’’خط ماجینو‘‘ میں کمزوری کا ایک پہلو تھا۔ جن لوگوں نے اس کے نقشے تیار کیے تھے، وہ اسے جزوی حفاظت کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے مگر فرانسیسی عوام نے اسے کامل حفاظت کا ذریعہ مان لیا تھا۔ میوز کے پاس ایک علاقہ زمانہ سابق سے جرمن حملے کا عام راستہ سمجھا جاتا تھا۔ یہ علاقہ بالکل کھلا تھا اور وہاں حفاظت کا کوئی خاص سامان نہ تھا۔ یہ سب کچھ حد درجہ کوتاہ نظرانہ دفاعی سوجھ بوجھ کا ثبوت تھا۔ تیز رفتار جرمن اپنے جنگی فولادی سازوسامان کے ساتھ ’’ناقابل تسخیر‘‘ خط ماجینو کے اطراف سے گزر سکتے تھے۔ہٹلر نے خط ماجینو کے جواب میں وسیع پیمانے پر ایک خط دفاع بنایا، جس کا نام خط سیگ فریڈ رکھا۔ یہ استحکامات کا ایک سہ گونہ خط تھا، جو سوئٹزر لینڈ سے لکسمبرگ تک جاتا تھا اور اس کا کلیدی مقام لسٹن کا نو تعمیر شدہ قلعہ تھا، جو فرانسیسیوں کے مُل ہاؤس کے مقابل واقع تھا۔فلانڈرس کی خوفناک جنگ ختم ہوئی تو جرمن فوجیں جنوبی جانب مڑ کر فرانس کے خلاف معرکہ آرائی کے لیے آزاد ہو گئیں۔ فرانس کے ارباب بست و کشاد کو علم تھا کہ جرمنوں کی برق رفتار جنگ روکنے کے لیے زبردست تدبیریں اختیار کرنی پڑیں گی۔18 مئی 1940ء کو فرانس کے وزیراعظم پال ریناڈ نے وزارت میں ردوبدل کیا اور وزارت دفاع خود سنبھال لی۔ تین جون کو پیرس پر پہلا ہوائی حملہ ہوا۔ دو روز بعد ہٹلر نے ایک دو ڈویژن الگ کر دیے جنہوں نے چار مقامات سے نہایت خوفناک حملہ کیا۔جرمن طیارے فضا پر چھائے ہوئے تھے اور ان کا مقابلہ کرنے والے بہت کم تھے۔ انہوں نے فرانسیسی فوجوں پر ہلاکت برسائی۔ جرمن ٹینک سو سو بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑی تعداد میں ملک کے اندر آ گھسے۔ فرانسیسی فوج بکھر گئی اور جو چیز سامنے آئی تباہ کر دی گئی۔ چھ جون کو بتایا گیا کہ دشمن نے دو ہزار ٹینکوں کے ساتھ حملہ کیا۔بہت جلد ’’یورپ کی بہترین فوج‘‘ کا نظم و ضبط ٹوٹ گیا۔ جرمن ٹینکوں نے پہلے دفاعی مورچے درہم برہم کر ڈالے۔ فرانسیسی فوج شکست کھاتی گئی۔جرمن پیش قدمی کی رفتار نے کسی جوابی حملے کے لیے کوئی گنجائش نہ چھوڑی۔ وہ انتہا کی تیزی سے آگے بڑھے۔ فرانسیسی فوج یکایک پیچھے کی طرف بھاگی اور جرمنوں کی ضربوں سے لڑکھڑاتی ہوئی جنوب کی طرف چلی گئی۔ پورا فرانس ہراس، خوف، ہسٹیریا اور ابتری کا شکار ہو گیا۔سڑکوں پر افراتفری پھیل گئی تھی۔ پانی کی طرح آگے بڑھنے والے جرمنوں کا مقصد یہ تھا کہ پسپا ہوتی ہوئی فوج کا نظم درہم برہم کر ڈالیں اور اس کے لیے کسی جنگی کارروائی کی گنجائش نہ چھوڑیں۔ انہوں نے دانستہ آبادی کو جگہ جگہ سے اٹھا کر پناہ گزیں بنا دیا۔ لاکھوں باشندے بے چارگی کی حالت میں بچاؤ کے لیے پیرس سے نکل پڑے۔ ہٹلر کے نوجوانوں کے لیے یہ ہنگامہ آرائی کا دن تھا۔ جرمن پائلٹ تیز رفتار طیارے لے کر نکلے اور درختوں کی بلندی تک نیچے اتر آئے۔ وہ پناہ کے متلاشیوں پر بم پھینکتے، گولیاں برساتے، موٹریں، گاڑیاں، چھکڑے، بائیسکل سب پر تباہی آتی۔ انسان اور جانور بھی آگ اور شعلوں کی نذر ہوتے۔ پیرس کے جنوب میں سڑکوں کے کناروں پر ہزاروں لاشیں نہایت خوفناک حالت میں بچھی ہوئی تھیں۔گیارہ جون 1940ء کو فرانسیسی فوجیں دریا سے گزر کر پیچھے ہٹ رہی تھیں۔ حکومت اس نتیجے پر پہنچی کہ پیرس کا دفاع خودکشی کے مترادف ہوگا۔ خوف پیدا ہوا کہ اگر شہر میں مقابلہ کیا گیا تو اس کا حشر بھی وہی ہوگا جو وارسا اور ایمسٹرڈیم کا ہوا لہٰذا وہ پیرس چھوڑ کر دوسرے شہر چلی گئی۔دس جون کو فرانسیسیوں تک یہ خبر پہنچی کہ مسولینی نے ان کی پشت میں خنجر گھونپ دیا۔ جرمن فوجیں پیرس سے پینتیس میل دور رہ گئی تھیں، جب چار لاکھ اطالویوں نے رویرا میں سے فرانس پر ہلہ بول دیا۔ نازیوں کی پے در پے فتوحات نے مسولینی کو جنگجوئی کی طرف زیادہ مائل کر دیا۔ وہ جرمن فوجوں کی فتوحات پر بڑا خوش تھا لیکن ساتھ ہی اسے یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ مبادا اٹلی ’’عظمت و وقار‘‘ کی اس دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائے۔ اس لیے اس نے حملہ کر دیا اور یوں فرانس بالآخر فسطائی جرمنی کے ہاتھ آتا گیا۔ ٭…٭…٭