دوسری عالمی جنگ میں فرانس کی شکست

دوسری عالمی جنگ میں فرانس کی شکست

اسپیشل فیچر

تحریر : لوئس ایس سنائیڈر


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

مشرق میں ہٹلر کی برق رفتار جنگ جب پولینڈ کو مٹا رہی تھی، مغربی حلیف فرانس نے جرمن عساکر کی توجہ ہٹانے کے لیے کوئی حرکت نہ کی۔ تاہم ستمبر 1939ء کے اوائل میں فرانسیسی فوجوں نے بڑی احتیاط سے جرمن علاقے کے اندر چند میل پیش قدمی کی لیکن جب بڑی جرمن فوجیں مغرب کی طرف منتقل ہوئیں تو فرانسیسی فوج تیزی سے پیچھے ہٹ گئیں۔1914ء میں (جنگ عظیم اول کے وقت) فرانسیسی حب وطن کے زبردست جذبے کے ساتھ شریک جنگ ہوئے تھے۔ 1939ء میں انہیں جنگ کی دعوت ملی تو اس طرح ہتھیار اٹھائے گویا سوئے سوئے اٹھ کر چلنا شروع کر دیا۔ساتھ ہی وہ اس زعم باطل میں مبتلا تھے کہ طاقت ور فرانسیسی فوج کے مقابلے میں ہٹلر کے لیے کامیابی کا کیا موقع ہے! فرانس کی دو کروڑ آبادی میں آٹھ لاکھ جنگجو موجود ہیں۔ پچپن لاکھ کو جنگی تربیت دے کر ریزرو میں رکھ لیا گیا ہے۔ یہ یورپ کی نہایت طاقتور جنگی مشین ہے۔ ہر شخص ان حقائق سے آگاہ تھا۔ فرانسیسی فوج کا سربراہ یقین دلا چکا تھا کہ اس کی فوجیں جرمنوں کا قیمہ کر کے رکھ دیں گی۔فرانس کی عسکری نفسیات خالص دفاعی تھی اور دفاع کے لیے ایک مسلسل اور دائمی مستحکم دیوار بنالی گئی تھی، یعنی ’’خط ماجینو‘‘ (Maginot Line)، جو یورپ میں اول درجے کی مستقل سرحد تھی اور یہاں دنیا کا سب زیادہ مستحکم دفاعی نظام قائم کیا گیا تھا۔ اسے فولاد اور کنکریٹ سے بنایا گیا تھا۔ اس کے لیے نقشے بہت پہلے بنا لیے گئے تھے مگر تعمیر 1929ء میں شروع ہوئی۔ اس وقت آندرے ماجینو وزیر جنگ تھا۔ جرمنی کی مداخلت روکنے کے لیے یہ ایسا دفاعی نظام تھا جو اٹلی، سوئٹزر لینڈ، جرمنی اور لکسمبرگ کی سرحدوں تک پھیلا ہوا تھا۔ یہ دفاعی چوکیوں کا ایک وسیع سلسلہ تھا، جس میں فرانس کے دو بڑے نئے قلعے بھی شامل کر دیے گئے تھے ایک ہیکن برگ دوسرا ہوش والڈ۔ اس طرح ان کی مدد سے بظاہر لورین کے صنعتی خطے اور خام لوہے کی پیداوار کے مرکز کو محفوظ کر لیا گیا تھا۔’’خط ماجینو‘‘ پر (اس دور میں) نصف ارب ڈالر خرچ ہوئے اور آگے چل کر تین لاکھ فوج اس کے ساتھ ساتھ جا بیٹھی۔ یہ ایک عجیب و غریب تعمیر تھی۔ زمین دوز پناہ گاہوں کا ایک وسیع سلسلہ تھا، جو مختلف سطحوں پر قائم تھا۔ اس میں افسروں اور فوجیوں کے لیے قیام گاہیں، گولہ بارود کے ذخیرے، رسد کی عام چیزیں، پانی کے ٹینک، باورچی خانے، بیرکیں، بجلی کے مراکز، تار، ٹیلی فون، چھوٹی چھوٹی سڑکیں، ہسپتال اور آرام کے کمرے موجود تھے۔ اوپر سے پھٹنے والے گولوں یا بموں سے یہ سب چیزیں بالکل محفوظ تھیں۔ زمین کے اوپر جنگلے بنادیے گئے تھے۔ لیکن ’’خط ماجینو‘‘ میں کمزوری کا ایک پہلو تھا۔ جن لوگوں نے اس کے نقشے تیار کیے تھے، وہ اسے جزوی حفاظت کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے مگر فرانسیسی عوام نے اسے کامل حفاظت کا ذریعہ مان لیا تھا۔ میوز کے پاس ایک علاقہ زمانہ سابق سے جرمن حملے کا عام راستہ سمجھا جاتا تھا۔ یہ علاقہ بالکل کھلا تھا اور وہاں حفاظت کا کوئی خاص سامان نہ تھا۔ یہ سب کچھ حد درجہ کوتاہ نظرانہ دفاعی سوجھ بوجھ کا ثبوت تھا۔ تیز رفتار جرمن اپنے جنگی فولادی سازوسامان کے ساتھ ’’ناقابل تسخیر‘‘ خط ماجینو کے اطراف سے گزر سکتے تھے۔ہٹلر نے خط ماجینو کے جواب میں وسیع پیمانے پر ایک خط دفاع بنایا، جس کا نام خط سیگ فریڈ رکھا۔ یہ استحکامات کا ایک سہ گونہ خط تھا، جو سوئٹزر لینڈ سے لکسمبرگ تک جاتا تھا اور اس کا کلیدی مقام لسٹن کا نو تعمیر شدہ قلعہ تھا، جو فرانسیسیوں کے مُل ہاؤس کے مقابل واقع تھا۔فلانڈرس کی خوفناک جنگ ختم ہوئی تو جرمن فوجیں جنوبی جانب مڑ کر فرانس کے خلاف معرکہ آرائی کے لیے آزاد ہو گئیں۔ فرانس کے ارباب بست و کشاد کو علم تھا کہ جرمنوں کی برق رفتار جنگ روکنے کے لیے زبردست تدبیریں اختیار کرنی پڑیں گی۔18 مئی 1940ء کو فرانس کے وزیراعظم پال ریناڈ نے وزارت میں ردوبدل کیا اور وزارت دفاع خود سنبھال لی۔ تین جون کو پیرس پر پہلا ہوائی حملہ ہوا۔ دو روز بعد ہٹلر نے ایک دو ڈویژن الگ کر دیے جنہوں نے چار مقامات سے نہایت خوفناک حملہ کیا۔جرمن طیارے فضا پر چھائے ہوئے تھے اور ان کا مقابلہ کرنے والے بہت کم تھے۔ انہوں نے فرانسیسی فوجوں پر ہلاکت برسائی۔ جرمن ٹینک سو سو بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑی تعداد میں ملک کے اندر آ گھسے۔ فرانسیسی فوج بکھر گئی اور جو چیز سامنے آئی تباہ کر دی گئی۔ چھ جون کو بتایا گیا کہ دشمن نے دو ہزار ٹینکوں کے ساتھ حملہ کیا۔بہت جلد ’’یورپ کی بہترین فوج‘‘ کا نظم و ضبط ٹوٹ گیا۔ جرمن ٹینکوں نے پہلے دفاعی مورچے درہم برہم کر ڈالے۔ فرانسیسی فوج شکست کھاتی گئی۔جرمن پیش قدمی کی رفتار نے کسی جوابی حملے کے لیے کوئی گنجائش نہ چھوڑی۔ وہ انتہا کی تیزی سے آگے بڑھے۔ فرانسیسی فوج یکایک پیچھے کی طرف بھاگی اور جرمنوں کی ضربوں سے لڑکھڑاتی ہوئی جنوب کی طرف چلی گئی۔ پورا فرانس ہراس، خوف، ہسٹیریا اور ابتری کا شکار ہو گیا۔سڑکوں پر افراتفری پھیل گئی تھی۔ پانی کی طرح آگے بڑھنے والے جرمنوں کا مقصد یہ تھا کہ پسپا ہوتی ہوئی فوج کا نظم درہم برہم کر ڈالیں اور اس کے لیے کسی جنگی کارروائی کی گنجائش نہ چھوڑیں۔ انہوں نے دانستہ آبادی کو جگہ جگہ سے اٹھا کر پناہ گزیں بنا دیا۔ لاکھوں باشندے بے چارگی کی حالت میں بچاؤ کے لیے پیرس سے نکل پڑے۔ ہٹلر کے نوجوانوں کے لیے یہ ہنگامہ آرائی کا دن تھا۔ جرمن پائلٹ تیز رفتار طیارے لے کر نکلے اور درختوں کی بلندی تک نیچے اتر آئے۔ وہ پناہ کے متلاشیوں پر بم پھینکتے، گولیاں برساتے، موٹریں، گاڑیاں، چھکڑے، بائیسکل سب پر تباہی آتی۔ انسان اور جانور بھی آگ اور شعلوں کی نذر ہوتے۔ پیرس کے جنوب میں سڑکوں کے کناروں پر ہزاروں لاشیں نہایت خوفناک حالت میں بچھی ہوئی تھیں۔گیارہ جون 1940ء کو فرانسیسی فوجیں دریا سے گزر کر پیچھے ہٹ رہی تھیں۔ حکومت اس نتیجے پر پہنچی کہ پیرس کا دفاع خودکشی کے مترادف ہوگا۔ خوف پیدا ہوا کہ اگر شہر میں مقابلہ کیا گیا تو اس کا حشر بھی وہی ہوگا جو وارسا اور ایمسٹرڈیم کا ہوا لہٰذا وہ پیرس چھوڑ کر دوسرے شہر چلی گئی۔دس جون کو فرانسیسیوں تک یہ خبر پہنچی کہ مسولینی نے ان کی پشت میں خنجر گھونپ دیا۔ جرمن فوجیں پیرس سے پینتیس میل دور رہ گئی تھیں، جب چار لاکھ اطالویوں نے رویرا میں سے فرانس پر ہلہ بول دیا۔ نازیوں کی پے در پے فتوحات نے مسولینی کو جنگجوئی کی طرف زیادہ مائل کر دیا۔ وہ جرمن فوجوں کی فتوحات پر بڑا خوش تھا لیکن ساتھ ہی اسے یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ مبادا اٹلی ’’عظمت و وقار‘‘ کی اس دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائے۔ اس لیے اس نے حملہ کر دیا اور یوں فرانس بالآخر فسطائی جرمنی کے ہاتھ آتا گیا۔ ٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
حکومتوں سے لے کر افراد تک سونے میں سرمایہ کاری  کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟

حکومتوں سے لے کر افراد تک سونے میں سرمایہ کاری کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟

پچھلے چند ماہ سے سونے کی قیمتیں ہر روز نئی بلندیوں کو چھُو رہی ہیں۔ زرگر حیران اور خریدار پریشان،جبکہ معیشت دان اس فکر میںہیں کہ آخر یہ چمکتی دھات کیوں ہاتھوں سے پھسلتی جا رہی ہے۔ہم پاکستان کی بات کرتے ہیں کہ یہاں گزشتہ ایک سال کے دوران سونے کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ 2024ء کے آغاز میں 24 قیراط سونے کی قیمت تقریباً 220,000 روپے فی تولہ تھی جو سال کے اختتام پر بڑھ کر 272,600 روپے فی تولہ تک پہنچ گئی۔ یہ اضافہ 52,600 روپے فی تولہ کے برابر ہے جو تقریباً 23.9 فیصد بنتا ہے۔ سونے کی قیمت میں اتار چڑھاؤ بھی دیکھنے میں آیا۔ 2024ء میں سونے کی کم ترین قیمت 210,800 روپے فی تولہ ریکارڈ کی گئی جبکہ اکتوبر میں یہ قیمت بلند ترین سطح 287,900 روپے فی تولہ تک پہنچ گئی۔ 2024 ء میں بین الاقوامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں 552 ڈالر فی اونس کا اضافہ ہوا، جو سال کے اختتام پر 2614 ڈالر فی اونس پر بند ہوئی۔ یہ اضافہ 26.7 فیصد کے برابر ہے۔ 2025ء میں بھی پاکستان میں سونے کی قیمتوں میں نمایاں اضافے کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ یکم جنوری کو 24 قیراط سونے کی قیمت تقریباً 273,600 روپے فی تولہ تھی جو 19 مارچ تک 319,000 روپے فی تولہ تک پہنچ گئی ۔ یہ اضافہ 45400 روپے فی تولہ کے برابر ہے جو تقریباً 16.6 فیصد بنتا ہے۔اس دوران سونے کی قیمت میں کئی اتار چڑھاؤ بھی دیکھنے میں آئے۔ مثلاً 5 فروری کو سونے کی قیمت میں ایک دن میں 5300 روپے کا اضافہ ہوا، جس سے قیمت 299,600 روپے فی تولہ تک پہنچ گئی۔ اسی طرح 19 فروری کو سونے کی قیمت 308,000 روپے فی تولہ تک پہنچ گئی ۔رواں سال عالمی سطح پر بھی سونے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جو پاکستانی مارکیٹ پر اثر انداز ہوا۔ 19 مارچ کو بین الاقوامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت 3038 ڈالر فی اونس تک پہنچ گئی ۔سونے کی قیمتوں میں اس اضافے کی وجوہات میں عالمی اقتصادی غیر یقینی صورتحال، امریکی تجارتی پالیسیوں میں تبدیلی اور چین کی جانب سے سونے کی خریداری میں اضافہ شامل ہیں جنہوں نے سونے کو ایک محفوظ سرمایہ کاری کے طور پر مزید پرکشش بنا دیا ہے۔ پاکستان میں سونے کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجوہات میں عالمی سطح پر سونے کی قیمتوں میں اضافہ، افراط زر، کرنسی کی قدر میں کمی اور معاشی غیر یقینی صورتحال شامل ہیں۔ یہ عوامل سونے کو ایک محفوظ سرمایہ کاری کے طور پر مزید پرکشش بناتے ہیں۔سونے کی مہنگائی کی وجہ سے پاکستان میں عام شہری کے لیے تو اب سونے کے زیورات خریدنا خواب بنتا جا رہا ہے۔ مگر یہ صرف ہمارے ملک کا معاملہ نہیں دنیا بھر میں سونے کی قدر بڑھ رہی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں اپنے سونے کے ذخائر میں تیزی سے اضافہ کر رہی ہیں۔تو سوال یہ ہے کہ سونے کی قیمت کیسے طے ہوتی ہے؟ دنیا کے ممالک اس کے ذخائر میں اضافہ کیوں کر رہے ہیں اور اس کا ہمیں کیا فائدہ یا نقصان ہو سکتا ہے؟ سونے کی قیمت کیسے طے ہوتی ہے؟سونے کی قیمت کوئی حکومت یا ادارہ طے نہیں کرتا بلکہ یہ بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں میں طلب و رسد، معاشی حالات اور عالمی سیاسی تناؤ جیسے عوامل کی بنیاد پر روزانہ کی بنیاد پر طے ہوتی ہے۔لندن بلین مارکیٹ ایسوسی ایشن (LBMA) دنیا کی سب سے بڑی گولڈ مارکیٹ ہے، جو روزانہ دو مرتبہ سونے کی قیمت فکس کرتی ہے۔ اس قیمت کو دنیا بھر میں سونے کی قیمت کا معیار مانا جاتا ہے۔عالمی سطح پر اگر معاشی بے یقینی ہو، کرنسی کی قدر گر رہی ہو، یا سود کی شرحیں کم ہوں تو لوگ سونا خریدنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی دنیا میں بحران آتا ہے سونے کی قیمت اوپر چلی جاتی ہے کیونکہ لوگ اسے محفوظ سرمایہ کاری مانتے ہیں۔کیا صرف لوگ ہی سونا خرید رہے ہیں؟نہیں! اس دوڑ میں صرف عام لوگ ہی شامل نہیں بلکہ بڑے بڑے ممالک اور ان کے مرکزی بینک بھی شامل ہیں۔ خاص طور پر چین، روس، بھارت، ترکی اور قازقستان جیسے ممالک نے گزشتہ برسوں میں اپنے سونے کے ذخائر میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔یہ ممالک سونا کیوں جمع کر رہے ہیں؟ اس کے پیچھے کئی حکمتیں ہیں مثال کے طور پر:ڈالر سے آزادی کی راہ: امریکی ڈالر کو عالمی معیشت میں اجارہ داری حاصل ہے مگر اب بہت سے ممالک اس غلبے سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سونا ایک ایسا اثاثہ ہے جو کسی ایک ملک کے کنٹرول میں نہیں۔ جب ممالک ڈالر کے بجائے سونا رکھتے ہیں تو وہ اپنی معیشت کو امریکی اثر سے آزاد کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔روس اور چین اس دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔ روس نے مغربی پابندیوں کے خوف سے سونے پر انحصار بڑھایا، جبکہ چین اپنی کرنسی (یوان) کو مستقبل میں عالمی سطح پر قابلِ اعتبار بنانے کے لیے سونے کے ذخائر کو تقویت دے رہا ہے۔بحرانوں کا ساتھی : وباؤں، جنگوں یا معاشی بحران میں سونا ہمیشہ کام آتا ہے۔ جب کرنسی کی قدر گرنے لگے، بینکوں پر اعتماد کم ہو یا افراطِ زر بڑھ جائے تو سونا ایک محفوظ پناہ گاہ بن جاتا ہے۔ترکی اور بھارت جیسے ممالک نے بھی سونے کو اسی نظریے سے جمع کیا ہے کہ کل کا کچھ پتا نہیں، مگر سونا ساتھ دے گا۔پاکستان کہاں کھڑا ہے؟پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں سونا زیادہ تر زیورات اور سرمایہ کاری کیلئے خریدا جاتا ہے۔ یہاں مرکزی بینک کے سونے کے ذخائر بہت محدود ہیں اور ہم سونا درآمد کرتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ جب سونا مہنگا ہوتا ہے تو ہمارے لیے مہنگائی بھی بڑھتی ہے۔ سونے کی بڑھتی قیمت عام شہری کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔ شادی بیاہ کے لیے زیورات خریدنا مشکل ہو گیا ہے اور سونے میں سرمایہ کاری اب صرف امیر طبقے تک محدود ہو گئی ہے۔کیا سونا صرف زیور ہے؟نہیں‘ سونا آج کے دور میں صرف زیورات یا سرمایہ کاری کا ذریعہ نہیں بلکہ عالمی سیاست اور معیشت میں ایک بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ کسی ملک کے مالی استحکام کا پیمانہ بنتا جا رہا ہے۔ جس ملک کے پاس جتنا سونا اتنی ہی اس کی معاشی خودمختاری۔آنے والا وقت کیسا ہو گا؟سونے کی قیمت میں اضافے کا یہ سلسلہ وقتی نہیں لگتا۔ جب تک دنیا غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے سونا مہنگا ہوتا رہے گا۔ ممالک اس کے ذخائر بڑھاتے رہیں گے اور ممکن ہے کچھ ممالک اپنی کرنسی کو دوبارہ سونے سے منسلک کرنے کی بھی کوشش کریں۔پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ ہمیں سونے کو صرف زیور کی حد تک دیکھنے کے بجائے اسے قومی خزانے کا حصہ سمجھنا چاہیے۔چمک صرف ظاہری نہیںسونے کی چمک صرف اس کی خوبصورتی میں نہیںبلکہ اس کی معیشت پر گہری چھاپ میں بھی ہے۔ آج دنیا سونے کی طرف دوڑ رہی ہے، کچھ تحفظ کے لیے، کچھ آزادی کے لیے اور کچھ حکمت عملی کے تحت۔ سونا ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اصل طاقت ہمیشہ خاموش، مگر پائیدار ہوتی ہے۔

اکاشی کیکیو برج:دنیا کا طویل ترین پل

اکاشی کیکیو برج:دنیا کا طویل ترین پل

جاپان میں اکاشی کیکیو برج اس وقت دنیا کا طویل ترین سسپنشن پل ہے جو کوبے شہر کو ''اواجی شیما‘‘ جزیرے سے ملاتا ہے۔ 1998ء میں جاپانی انجینئروں نے یہ پل تعمیر کرکے برج انجینئرنگ میں ایک نئی تاریخ رقم کی۔ اس پل کی تعمیر مکمل ہونے سے قبل سب سے طویل سپنشن برج کا اعزاز ڈنمارک کے گریٹ بیلٹ ایسٹ برج کو حاصل تھا جس سے یہ پل366میٹر لمبا ہے، جبکہ دنیا کے دوسرے طویل ترین پل ہمبر برج (انگلینڈ) سے اس کی لمبائی580میٹر زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ پل امریکہ کے گولڈن گیٹ برج سے بھی 710 میٹر زیادہ ہے۔ اس پل کی لمبائی 3991 میٹرز ہے۔اکاشی کیکیو پل صرف طویل ہی نہیں بلکہ سب سے اونچا پل بھی ہے۔ اس کی دو ٹاوروں کی اونچائی928فٹ ہے۔ ان کی اونچائی، ایفل ٹاور کے برابر ہے۔ اکاشی اسٹریٹ جاپان میں ایک مصروف بندرگاہ ہے چنانچہ جاپانی انجینئروں کیلئے ضروری تھا کہ وہ اس پل کو اس طرح ڈیزائن کریں جس سے یہاں جہازوں کی آمدورفت متاثر نہ ہو۔ انہیں موسم کی شدت کا بھی احساس تھا۔ یاد رہے کہ جاپان کا موسم زمین پر سخت ترین موسموں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں کی آبی گزر گاہ پر نہایت تیز ہوائیں چلتی ہیں۔ یہاں سالانہ 57انچ بارش پڑتی ہے۔تقریباً ہر سال یہاں سمندری اور زمینی طوفان اور زلزلے آتے رہتے ہیں۔جاپانی انجینئروں نے اس پل کو ایک خاص تکنیک کے ذریعے مضبوط بنایا جسے '' ٹرس‘‘ کہتے ہیں۔ اس تکنیک کے مطابق پل میں مختلف آہنی تکونوں کا ایک نیٹ ورک بنایا گیا ہے جس سے اگرچہ پل کی لچک کم ہونے سے یہ ٹھوس اور سخت ہو جاتا ہے لیکن تکونوں کے اس نیٹ ورک سے ہوا آر پار گزر سکتی ہے۔ اس سے ہوا کے دبائو کا بخوبی مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماہرین نے ہر ٹاور میں 20 ٹیونڈ ماس ڈیمپرز لگائے ہیں جو ہوا کو جذب کرکے اس کی شدت کو کم کر دیتے ہیں۔ یہ TMDمخالف سمت میں جھولنے لگتے ہیں۔ اس ڈیزائن کی وجہ سے یہ پل180میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہوائوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔اس پل کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ بڑے سے بڑے زلزلے کو برداشت کر سکتا ہے۔ پل سے 150کلو میٹر دور اگر ریکٹر سکیل پر 8.5درجے کا زلزلہ آ جائے تو اسے بھی یہ پل برداشت کر سکتا ہے۔ پل کی اس صلاحیت کا مظاہرہ 17 جنوری 1995ء کو اس وقت ہوا جب اس علاقے میں ایک شدید ترین زلزلہ آیا تھا۔ اس وقت یہ پل ابھی زیر تعمیر تھا۔ اس زلزلے سے پل کے کچھ حصے متاثر ہوئے تاہم اس کا بنیادی ڈھانچہ اینکر، ستون اور ٹاور وغیرہ بالکل محفوظ رہے۔اس زلزلے کے باعث پل کی تعمیر ایک ماہ کیلئے روک دی گئی۔ اس ایک مہینے کے نقصان کو اگلے تین سالوں میں زیادہ محنت کرکے پورا کر لیا گیا اور اس طرح پروگرام کے مطابق پل کا افتتاح کردیا گیا۔ زلزلے سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ اس کی لمبائی میں تقریباً تین فٹ کا اضافہ ہو گیا۔ پل کی تعمیر دس سال تک جاری رہی۔ تعمیر کے دوران اگرچہ ایک دو حادثات پیش آئے جن میں چھ افراد زخمی ہوئے لیکن سیفٹی کے اعلیٰ معیار کے باعث کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔5اپریل1998ء کو جاپان کے ولی عہد اور شہزادی سیاکو نے سرکاری طور پر ایک تقریب میں اس پل کا افتتاح کیا اور اس موقع پر 15000مہمانوں نے اس پل کے اوپر چل کر اس پر سفر کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اس پل کے بارے میں چند دلچسپ حقائق بھی ہیں مثلاً اس میں 3لاکھ کلومیٹر لمبی کیبل استعمال کی گئی ہے جسے اس دنیا کے گرد سات دفعہ لپیٹا جا سکتا ہے۔اس پل کے ڈیزائن میں اس کی لمبائی 12825 فٹ رکھی گئی تھی لیکن 17جنوری 1995ء کو آنے والے زلزلے کے باعث اس کی لمبائی میں تین فٹ کا اضافہ ہو گیا۔ اپریل 2006ء میں اس طویل ترین سسپنشن برج کو دنیا کے سات نئے عجائبات میں شامل کیا گیا۔عالمی ریکارڈزاس پل کے تین عالمی ریکارڈ ہیں۔ یعنی سب سے لمبا پل، سب سے اونچا پل اور سب سے مہنگا پل۔ اس کی تعمیر پر 4.3بلین ڈالر کی لاگت آئی جو اب تک دنیا میں کسی بھی پل کی سب سے بڑی لاگت ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

اپالو10کی لانچنگ16 اپریل 1972ء کو امریکی خلائی مشن ''اپالو10‘‘ اپنے مشن پر روانہ ہوا۔ یہ چاند پر اترنے والا پانچواں مشن تھا۔ ''اپالو‘‘ ناسا کا ایک خلائی پروگرام تھا جس میں متعدد خلائی جہاز چاند پر بھیجے گئے۔ اس مشن کا مقصد چاند کی سطح پر لمبے عرصے کیلئے قیام کرنا،سائنسی معلومات اکٹھی کرنا،لونر کا استعمال کرنا اور تصاویر لینا شامل تھا۔اپالو کے ذریعے ماہرین نے چاند پر ایک ایسی جگہ کوتلاش کیاجس کے متعلق کہا گیا کہ یہاں آتش فشاں پھٹا ہے ،لیکن تحقیق کے بعد یہ بات ثابت نہیں ہو سکی۔لبنان پراسرائیلی حملہ1996ء میں آج کے روز اسرائیل نے ہیلی کاپٹروں سے لبنان پر میزائل فائر کئے، جس کے نتیجے میں متعدد لبنانی شہری جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ اسرائیلی اپاچی ہیلی کاپٹر نے اسرائیل کی حدود سے 8کلومیٹر دور اس وقت ایک ایمبولینس پر میزائل داغا جب وہ اقوام متحدہ کی ایک چوکی سے گزر رہی تھی۔ اس گاڑی میں 13 افراد سوار تھے۔ یہ حملہ اسرائیل کی طرف سے ''آپریشن گریپس آف ریتھ‘‘ کے نفاذ کے اعلان کے فوراً بعد کیا گیا ۔باگا کا قتل عامباگا کا قتل عام 16 اپریل 2013ء کو بورنو ریاست کے گاؤں باگا، نائیجیریا سے شروع ہوا۔ اس قتل عام میں 200 سے زیادہ شہری ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ کروڑوں مالیت کی املاک نذر آتش کر دی گئیں۔ تقریباً2ہزار سے زائد گھر اور کاروباری مراکز تباہ کر دیئے گئے۔ مہاجرین، شہری حکام، اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے نائیجیریا کی فوج پر قتل عام کا الزام لگایا۔ فوجی حکام نے باغی گروپ بوکو حرام کو اس کا مورد الزام ٹھہرایا۔ نائیجیریا میں ہونے والی اس خانہ جنگی میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے۔ایکواڈور میں زلزلہ2016ء میں آج کے دن ایکواڈور میں شدید زلزلہ آیا۔ اس زلزلے کی شدت 7.8 ریکارڈ کی گئی، یہ ایکواڈور میں آنے والے بدترین زلزلوں میں سے ایک تھا۔جن علاقوں میں زلزلے کا مرکز تھا وہاں ہلاکتوں کی تعداد 75فیصد سے زیادہ تھی۔مانتا کا مرکزی تجارتی شاپنگ ڈسٹرکٹ'' تارکی‘‘ سمیت متعدد عمارتیں گر تباہ ہو گئیں۔

امجد بوبی:پر اثر دھنوں کے بے تاج بادشاہ

امجد بوبی:پر اثر دھنوں کے بے تاج بادشاہ

امجد بوبی کا شمار پاکستان فلم انڈسٹری کے ان موسیقاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے دنیائے موسیقی میں نئے رجحانات کو متعارف کروایا۔ 1942ء میں امرتسر میں پیدا ہونے والے امجد بوبی 15اپریل 2005ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے، آج ان کی 20ویں برسی ہے۔امجد بوبی کا تعلق ایک موسیقار گھرانے سے تھا جوموسیقی کے حوالے سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتا تھا۔وہ رشیدعطرے جیسے عظیم موسیقار کے بھانجے تھے۔ موسیقار وجاہت عطرے ان کے ماموں زاد بھائی جبکہ موسیقار صفدرحسین، موسیقار ذوالفقارعلی اور گلوکار منیر حسین ان کے قریبی عزیز تھے۔ ان کے والد غلام حسین خان بھی ایک کلاسیکل گائیک تھے۔ یوں موسیقی سے لگائو انہیں وراثت میں ملا تھااور یہی لگائو انہیں فلم انڈسٹری میں کھینچ لایا۔ انھوں نے موسیقی کی تربیت اپنے والد سے حاصل کی تھی۔ ایک طویل عرصہ تک رشیدعطرے ، اے حمید اور ناشاد کی معاونت کی لیکن خو دکو ایک بڑا موسیقار منوانے کیلئے خاصی جدوجہد کرنا پڑی۔امجد بوبی کی بطور موسیقار پہلی فلم ''اک نگینہ‘‘ تھی جو 1969ء میں سینما گھروں کی زینت بنی۔ اس فلم میں شامل احمدرشدی کے گائے ہوئے دو گیت ''مل گئی، مل گئی ہم کو پیار کی یہ منزل‘‘ اور ''دل نہیں تو کوئی شیشہ، کوئی پتھر ہی ملے‘‘ بہت مقبول ہوئے۔ اس کے علاوہ گلوکارہ آئرن پروین کا گایا ہوا گیت ''ساری سکھیوں کے بلم گورے، میرا بلم کالا‘‘ بھی ایک خوبصورت گیت تھا۔ اسی سال ان کی فلم ''میری بھابھی‘‘ کے گیت بھی بہت پسند کئے گئے، خاص طور پر مسعودرانا کا تھیم سانگ ''نہ کوئی پٹوار نہ مانجی اور کوئی نہ ناو‘‘۔ انہیں بریک تھرو کیلئے دس سال تک انتظار کرنا پڑا۔ 1979ء میں فلم ''نقش قدم‘‘ ریلیز ہوئی تو اس میں شامل گلوکار اے نیئر کا گایا ہوا گیت ''کرتا رہوں گا یاد تجھے میں، یونہی صبح و شام، مٹ نہ سکے گا میرے دل سے بینا تیرا نام‘‘ ان کا پہلا سپرہٹ گیت تھا۔ امجد بوبی کو 80ء کی دھائی میں بڑا عروج ملا۔ اس دور کے وہ اردو فلموں کے مصروف ترین موسیقار تھے۔ 1984ء میں فلم ''بوبی‘‘ کیلئے بنایا ہوا ان کا گیت ''اک بار ملو ہم سے تو سو بار ملیں گے‘‘ بہت مقبول ہوا۔ یہ گیت غلام عباس کے علاوہ اداکارہ سلمیٰ آغا کی آواز میں بھی ریکارڈ کیا گیا تھا۔فلم مشکل (1995ء) میں مہناز اور تسکین جاوید کا الگ الگ گایا ہوا گیت ''دل ہوگیا ہے تیرا دیوانہ ، اب کوئی جچتا نہیں‘‘ایک سپرہٹ گیت تھا۔ فلم ''چیف صاحب‘‘ (1996ء) میں سجادعلی کا گیت ''بس بھئی بس زیادہ بات نہیں چیف صاحب‘‘ایک سٹریٹ سانگ تھا۔ اس فلم میں امجد بوبی نے گلوکار وارث بیگ سے نو گیت گوائے تھے۔ہدایتکار سید نور کی سپر ہٹ فلم ''گھونگھٹ‘‘ (1997ء) میں ارشد محمود کیلئے انھوں نے یہ سپرہٹ دھن بنائی تھی ''دیکھا جو چہرہ تیرا ، موسم بھی پیارا لگا‘‘ فلم سنگم (1998ء) میں سائرہ نسیم اور وارث بیگ سے الگ الگ گوائے گئے گیت ''آ پیار دل میں جگا‘‘بھی سدا بہارتھے۔ ان کے علاوہ انھوں نے بہت سے بھارتی گلوکاروں سے بھی گیت گوائے تھے۔ امجد بوبی کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 20برس بیت گئے ہیں مگر وہ اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں اپنی دھنوں کی بدولت آج بھی زندہ ہیں۔

محلات فیروز شاہی

محلات فیروز شاہی

فیروز شاہ تغلق سلطنت دہلی کے تغلق خاندان کے تیسرے حکمران تھے جنہوں نے 1351ء سے 1388ء تک حکومت کی۔فیروز شاہ نے اپنے عہد میں ایک نیا شہر فیروزآباد کے نام سے آباد کیا جس کیلئے اٹھارہ گائوں مثلاً اندر پٹ، سرائے شیخ ملک بار، سرائے شیخ ابوبکر طوسی، کاربن، کیشواڑہ، اندولی، سرائے بلکہ رضیہ، مہرولہ اور سلطان پور وغیرہ کی زمینیں حاصل کی گئیں۔ یہ شہر پانچ کوس تک پھیلا ہوا تھا۔ اس میں امرا نے بھی اپنے اپنے محل بنوائے، عام لوگوں نے بھی پختہ مکانات تعمیر کرائے، مسجدیں بکثرت بنوائی گئیں، ہر مسجد میں دس دس ہزار نمازی جمع ہو سکتے تھے۔ دہلی اور فیروز آباد کے درمیان پانچ کوس کا فاصلہ تھا لیکن آے جانے کیلئے سواریاں ہر وقت موجود رہتی تھیں، جن کا کرایہ بہت کم تھا، مثلاً گھوڑے کا کرایہ بارہ جیتل اور ڈولہ کا نیم تنکہ تھا۔اس شہر میں فیروز شاہ نے بہت سے محل بنوائے۔ ان میں سے محل صحن گلبن، محل چھجہ چوبیںاور محل بار نمایاں ہیں۔ یہ محل درباروں کے انعقاد کے کام کیلئے تھے، زنانہ محل نہ تھے۔ فیروز شاہ کے مختلف کوشکوں کا جو جا بجا ذکر آتا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے کوشک فیروز آباد کو شک نردی، کوشک مہندواری، کوشک شہر حصار اور کوشک شکار نئے شہر میں بنوائے۔ ان کے علاوہ انہوں نے فتح آباد جونپور اور سالورہ میں بھی کوشکوں کی تعمیر کرائی۔ تعمیرات کا جتنا ذوق انہیں تھا، اس سے پہلے کے سلاطین کو نہ رہا۔ اسی لئے اس نے امیر عمارت کا ایک عہدہ مقرر کر رکھا تھا، جس کو امتیازی حیثیت دینے کیلئے چوب زر عطا کیا تھا۔ اسی طرح سنگ تراشوں، چوب تراشوں، بنکروں، آرہ کشوں، چونہ پزوں اور معماروں کے علیحدہ علیحدہ شعبے مقرر تھے۔اوپر جتنے محلات کا ذکر کیا ہے وہ یا تو ختم ہو چکے ہیں یا کھنڈرات کے ڈھیر ہیں، اس لئے ان کے اندرونی حصوں کی تفصیل بیان کرنا سعی لاحاصل ہے، پھر بھی یہ اندازہ ہوا ہوگا کہ یہ محل کسی اونچے مقام یا دریا کے کنارے بنائے جاتے تاکہ یہ بہت ہی ہوادار ہوں اور ان کا حسن بڑھانے کی خاطر، ان کا عکس دن کی روشنی میں اور رات کو چاندنی میں دریا کے بہتے ہوئے پانی میں پڑتا رہے۔ محل کے اندر چمن اور باغ کے علاوہ مطبخ، شراب خانہ، شمع خانہ، سگ خانہ، آب دارخانہ فراش خانہ، جام دار خانہ، پوشاک خانہ، غسل خانہ، خواب گاہ اور زنان خانہ وغیرہ ہوتے۔ ان میں بعض چیزوں کی تفصیل آگے آئے گی، عام طور سے محل کو آراستہ پیراستہ کرکے بہشت کا نمونہ بنا دیا جاتا، دیواروں پر مخمل اور ریشمی کپڑے کے پردے ہوتے،جن میں جواہرات ٹکے رہتے، اندر نقرئی اور طلائی پچی کاری سے زینت و آرائش کی جاتی اور وہاں اسلحہ، زریں ہتھیار، قندیل، شمع دان، قالین، آفتابے، قلم دان، بساط اور کتابوں کی الماریاں ہوتیں، قندیلیں رات کو روشن ہوتیں تو تمام ایوان روشن ہو جاتا محل کی زینت و آرائش کا ذکر جا بجا آئے گا۔محل میں گھڑیال ضرور ہوتا، جس سے لوگوں کو ٹھیک وقت معلوم ہوتا رہتا، رات کے وقت محل کے ارد گرد سخت پہرہ ہوتا، پہلی گھڑی کے بعد کسی کو محل کے احاطہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ تھی، جب تک سلطان کی اجازت نہ ہوتی، ایک خاص عہدہ دار رات کے سانحے قلم بند کرتا رہتا جو وہ صبح کو سلطان کی خدمت میں پیش کرتا۔وقار حرمحرم کی بیگمات کیلئے محل کے علاحدہ علاحدہ سکونتی حصے ہوتے اور ان کی خدمت کیلئے کثیر تعداد میں کنیزیں اور خواجہ سرا ہر وقت حاضر رہتے۔ ان کے رہنے کی جگہ سے الگ تھلگ ہوتی اور صرف وہی رشتہ دار مرد محل کے اندر آ جا سکتے تھے جن کو سلطان کی طرف سے اجازت ملتی تھی۔اسلامی پردہ تو یہ تھا کہ عورتیں چہرہ اور ہاتھ کھول کر جلباب یا برقعہ کے ساتھ باہر نکل سکتی تھیں لیکن شاہی عزت و وقار اسی میں سمجھا جاتا کہ بیگمات پر خاص خاص رشتہ داروں کے علاوہ کسی اور مرد کی نظر نہ پڑے۔ ان ہی کی تقلید میں عام عورتیں بھی گھر کی چار دیواری میں رہنے لگیں۔شوکت کا مظاہرہبیگمات کی تہذیبی شان و شوکت کا اظہار محل کے اندر تقریبات کے موقع پر ہوا کرتا تھا۔ وہ صحنوں میں بڑے بڑے سائبان اور خیمے کھڑے کراتی تھیں، اس کے نیچے طرح طرح کے عمدہ فرش بچھواتیں، جن پر دیبامنڈھا ہوتا اور جواہرات بھی ٹنکے رہتے۔ ابن بطوطہ کا بیان ہے کہ محمد تغلق کی تاج پوشی کے موقع پر محل کے اندر جو جشن منایا گیا تو اس کی ماں مخدومہ جہاں ایک سونے کے تخت پر بیٹھی ہوئی تھی اور محل اور امراء کی بیگمات زرق برق پوشاک میں ملبوس اور زیورات سے لدی ہوتی تھیں۔ اس موقع پر اتنی چمک دمک تھی کہ اس کی چکا چوند سے مخدومہ جہاں کی بینائی جاتی رہی اور ہر طرح کے علاج کے باوجود کوئی فائدہ نہ ہوا۔تقریبات کے موقع پر بیگمات جو مراسم ادا کرتی تھیں، اس کا ذکر تقریبات میں آئے گا۔نذرانےمحل کے اندر جو عورت بیگمات سے ملنے کو جاتی تو اس کے ساتھ مختلف قسم کی نوازشیں کی جاتیں، مثلاً ابن بطوطہ کی بیوی محمد تغلق کی ماں سے ملنے کو گئی تو اس کو ایک ہزار روپے سونے کے جڑائو کڑے اور ہار، زردوزی کتان کے کرتے، زردوزی ریشم کا خلعت اور کپڑے کے کئی تھان دیئے گئے۔ جو عورتیں مہمان بن کر جاتیں وہ بھی اپنے ساتھ طرح طرح کے نذرانے لے جاتیں، ابن بطوطہ کی بیوی نذرانے میں ایک ترکی لونڈی لے گئی تھی۔محل کے عہدہ دارمحل کے اندرآنے جانے میں بڑی سختی تھی، محل کا کلید بردار وکیل درکہلاتا، جس پر کوئی معزز درباری ہی مامور کیا جاتا اور اسی کی اجازت سے محل کا دروازہ کھلتا، وہ بیگمات شہزادوں، باورچی خانہ، شراب خانہ وغیرہ کا نگران اعلان ہوتا، بیگمات اور شہزادے اسی کے ذریعہ سے سلطان کی خدمت میں پیش کرتے، اسی لئے وہ بڑا بااثر اور بااقتدار عہدہ دار سمجھا جاتا، اس کے ماتحت نائب وکیل در اور بہت سے ملازم ہوتے۔محل کے مختلف دروازوں پر پہرہ دار ہوتے، پہرہ داروں کے افسر کو پردہ دار کہا جاتا، اس عہدہ پر بھی امرا ہی مامور کئے جاتے، شاہی محل کے دروازہ پر کوئی واقعہ ہو جاتا تومتصدی اس کی بھی تفصیل لکھ لیتے، سلطان رات کے وقت ان تمام اندراجات کو روزانہ پڑھتا۔

حکایت سعدیؒ:موت

حکایت سعدیؒ:موت

ایک شخص مر گیا تو دوسرے آدمی نے اس کے غم میں گریبان پھاڑ لیا۔ سمجھ دار آدمی نے اس کا رونا دھونا اور کپڑے پھاڑنا دیکھا تو کہا کہ اگر مردے کے ہاتھ حرکت کر سکتے تو وہ یہ دیکھ کر اپنا کفن پھاڑ لیتا اور کہتا تم میری موت کی وجہ سے اتنے پیچ تاب کیوں کھارہے ہو۔ میں ایک دن پہلے آ گیا ہوں تم ایک دن پیچھے آؤ گے۔ میری موت کو تو روتے ہو مگر اپنی موت بھلا رکھی ہے کہ کل تمہیں بھی یہ سفر درپیش ہوگا۔ صاحب بصیرت آدمی جب مردے پر مٹی ڈالتا ہے تو وہ یہ سوچ کر آبدیدہ ہو جاتا ہے کہ کل میرے اوپر بھی مٹی ڈالی جائے گی۔ اگر چھوٹا بچہ مر گیا تو اس کے غم میں کیا روتے ہو کہ وہ جیسا معصوم دنیا میں آیا تھا ویسا ہی معصوم یہاں سے چلا گیا۔ فکر کی بات تو یہ ہے کہ تم پاک آ کر ناپاک جاؤ۔ روح کے پرندے کو صالح اعمال کا پابند کر لو ورنہ جب یہ اڑ جائے گا تو کچھ بھی نہ ہو سکے گا۔ جب تم کسی کی نماز جنازہ پڑھو تو سوچ لو کہ ایک دن تمہاری بھی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ موت سے کوئی شخص نہیں بچ سکتا۔ اس لیے جب دوسروں کو دفناؤ تو سوچ لو کہ ایک دن ہمیں بھی یوں ہی دفنایا جائے گا۔ مُردوں پر رونے کی بجائے اپنی موت کی تیاری کرو۔ ٭٭٭٭٭