علم کے بحر بیکراں۔۔۔ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم
اسپیشل فیچر
ڈاکٹر عبدالحکیم ڈار خاندان کی شاخ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس خاندان کے آباؤ اجداد چونکہ مقبوضہ کشمیر کے دروں کی حفاظت کرتے تھے لہٰذا انہیں دریا ڈار کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ خلیفہ بھی ان کا خاندانی نام تھا۔ خلیفہ عبدالحکیم ۱۳ جولائی ۱۸۹۴ء کو اپنے جدی مکان مبارک حویلی واقع اندرون اکبری دروازہ لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام خلیفہ عبدالرحمان تھا۔ خلیفہ عبدالحکیم نے ابتدائی تعلیم انجمن حمایت اسلام سکول واقع اندرون موچی گیٹ سے حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ دروازہ سے پاس کیا۔ میٹرک کے بعد ایف سی کالج میں ایف ایس سی میں داخلہ لیا لیکن سائنس سے رغبت نہ ہونے کی وجہ سے اس کالج کو چھوڑ کر علی گڑھ کالج میں آرٹس گروپ میں داخلہ لے لیا۔ یہاں سے ایف اے کرنے کے بعد سینٹ سٹیفن کالج دلی میں داخلہ لیا۔ آپ کا مضمون فلسفہ تھا۔ ۱۹۱۵ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی میں اول آئے۔ اس امتحان کے بہت سے ممتحنوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے فلسفے کا ایسا شاندار پرچہ آج تک نہیں دیکھا تھا۔ ۱۹۱۷ء میں اسی کالج سے فلسفہ میں ایم اے کیا اور پنجاب بھر میں اول آئے۔ اس کے بعد آپ نے لاہور کے لاء کالج میں داخلہ لیا اور ساتھ انگریزی اخبار ابزرور کی ادارت کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے۔ بعد ازاں ایل ایل بی کا امتحان پاس کرنے کے بعد وکالت کے بجائے تدریس کا شعبہ اپنایا اور عثمانیہ یونیورسٹی کالج حیدرآباد دکن میں فلسفے کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے۔ اس کالج میں علامہ اقبالؒ کو پروفیسر فلسفہ کے طور پر تقرر کی دعوت ملی تھی۔ مگر آپ نے اپنی جگہ خلیفہ عبدالحکیم کی سفارش کی اور وزیراعلیٰ حیدر آباد کے نام خط لکھا کہ جو آدمی میں بھیج رہا ہوں آپ محسوس کریں گے کہ یہ بھی اقبالؒ ہی ہے۔ اقبالؒ کے یہ الفاظ بلاشبہ خلیفہ عبدالحکیم کی ذہانت و قابلیت کی سند ہیں۔ دو سال بعد آپ عثمانیہ یونیورسٹی سے وظیفہ لے کر پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے کے لیے ہائیڈل برگ یونیورسٹی جرمنی میں داخل ہو گئے۔ آپ کے مقالے کا عنوان ’’رومی کے مابعدالطبیعات‘‘ تھا۔ آپ ۱۹۲۵ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر کے وطن واپس آئے اور عثمانیہ یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض سر انجام دینے لگے۔ ۱۹۴۳ء میں امرسنگھ کالج سری نگر (مقبوضہ کشمیر) کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ کچھ عرصہ وہیں پر ناظم تعلیمات بھی رہے۔ مہاراجہ کشمیر سے اختلاف کی بنا پر ۱۹۴۷ء میں اس عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور عثمانیہ یونیورسٹی میں شعبہ فنون کے ڈین آف آرٹس کے طور پر کام کرنے لگے۔ ملازمت سے سبکدوش ہوکر ۱۹۴۹ء میں لاہور آ گئے اور ادارہ ثقافت اسلامیہ کی بنیاد رکھی۔ اس ادارے کا مقصد تھاکہ اسلامی نظریات کو عملی شکل دی جائے۔ اس عرصے میں آپ دنیا کی مختلف یونیورسٹیوں کی دعوت پر مختلف تقریبات میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے اور اسلامی تشخص کو اجاگر کرتے رہے۔ آپ کی قابل ذکر تصانیف درج ذیل ہیں:افکار غالب، فکر اقبالؒ، تشبیہات رومی، حکمت رومی، داستان دانش۔ابتدائی کتب میں انہوں نے غالب، اقبالؒ اور رومی کے افکار کی تشریخ نہایت دل کش انداز میں کی ہے۔ بطور شاعر انہیں نظم گو کے طور پر بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ اقبالؒ، آغا حشر کاشمیری اور محمد علی جوہر جیسی عظیم شخصیات نے آپ کی فکر اور نظموں کے فنی حسن کی دل کھول کر داد دی۔ علم و ادب کا یہ بحر بیکراں ۳۰ جنوری ۱۹۵۹ء کو کراچی میں خالق حقیقی سے جا ملا۔٭…٭…٭