علامہ ابن خلدون کو فلسفۂ تاریخ کا موجد و بانی ہی نہیں تسلیم کیا جاتا بلکہ عمرانیات، سیاسیات اور اقتصادیات کے کئی مبادی اصول بھی اُن سے منسوب ہیں۔ ان کے اجداد نے یمن سے اندلس کے شہر قرمونہ ہجرت کی تھی۔ بعد میں وہ تیونس پہنچے اور وہیں اس خاندان کے ایک گھرانے میں 27 مئی 1332ء کو ابن خلدون نے آنکھ کھولی۔ محققین کے مطابق ابن خلدون کے خاندان میں علم و دانش کا چرچا تھا اور علّامہ نے بھی جیّد علمائے کرام کی صحبت سے فیض اٹھایا۔ حفظ قرآن اور ضروری دینی تعلیم کے ساتھ انھوں نے باقاعدہ علومِ اصول و فقہ کی تعلیم حاصل کی اور پھر فلسفہ، منطق، ریاضی اور لسانیات کا درس لیا۔ابن خلدون وہ پہلا شخص ہے جس نے تاریخ پر ایک مستقل سائنس کی حیثیت سے قلم اٹھایا اور یہ حقیقت اس کی معرکہ آرا تصنیف'' مقدمہ ابن خلدون‘‘ کے سرسری مطالعہ سے واضح ہو جاتی ہے۔ مابعد الطبیعات اور ایسے دیگر مسائل میں ابن خلدون عقل و خرد پراعتماد نہیں کرتا بلکہ الہام اور وجدان پر تکیہ کرتا ہے۔ ابن خلدون تاریخ کے اصول تاریخی حقائق کی مدد سے وضع کرتا ہے، علاوہ ازیں اس کی بصیرت افروز نظر کمال ہوشیاری سے سماجی مسائل کی گہرائیوں تک اُتر جاتی ہے اور وہ ان کے باہم ربط و دیگر کوائف کا سراغ لگانے میں خداداد ملکہ رکھتا ہے۔''مقدمہ‘‘ علّامہ ابن خلدون کی علمیت اور قابلیت کا ایک شاہکار ہے۔ مصنّف کو اسلامی تاریخ کی ایک عبقری شخصیت مانا جاتا ہے جنھیں مغرب اور دنیا بھر میں آج بھی ان کے علم و فضل اور تصانیف کی وجہ سے بڑا امتیاز حاصل ہے۔''مقدمہ ابن خلدون‘‘ دیباچہ تمہید اور چھ ابواب پر مشتمل ہے، جس میں اس نے فلسفہ ٔتاریخ سے متعلق یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ تاریخ بادشاہوں، سلطنتوں اورجنگوں ہی کا نام نہیںبلکہ تاریخ نام ہے ان وجوہات کے تجسس اور تفتیش کا جو سماجی انقلابات اور اقوام عالم کے رستخیز کے عقب میں کار فرما رہتی ہیں۔ تاریخ پر اس نقطہ نگاہ سے بحث کرنے سے ابن خلدون کا مقصد تاریخ کو ایک محدود اور تنگ دائرے سے اٹھا کر سائنس کے بلند اور ارفع مقام پر لاکھڑا کرتا ہے اور یہ وہ مقصد ہے جسے ابن خلدون کے اپنے الفاظ میں'' پہلے کسی مصنف نے مستقل، منظم اور علمی طور پر سرانجام دینے کی زحمت گوارا نہیں فرمائی‘‘۔''مقدمہ ابن خلدون‘‘ کی تمہید کا بیشتر حصہ مورخین کی تاریخی لغزشوں کی پردہ دری پر مشتمل ہے اور حیرت کا مقام ہے کہ ابن خلدون جب کسی مورخ کی تحقیقات کو تنقید کی زد میں لاتا ہے تو وہ اس کے بطلان اور اثبات کے لئے جو اصول اور معیار وضع کرتا ہے وہ کم و بیش وہی ہیں جو دورِ حاضر کے نقاد ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ابن خلدون نے نوجوانی میں ہجرت بھی کی اور سیّاحت کا شوق بھی پورا کیا جس کے ساتھ ساتھ انھوں نے سیکھنے سکھانے کا مشغلہ بھی جاری رکھا، گھومنے پھرنے کے شوق اور مطالعہ کے ساتھ غور و فکر کی عادت نے انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کیا اور سیاحت کے دوران وہ جن مختلف شاہانِ وقت اور امرا سے ملے، وہ ان کی شخصیت اور فکر سے متاثر ہوئے۔ وہ بڑی عزت اور شرف سے نوازے گئے اور مختلف منصب پر فائز ہوئے۔ لیکن اسی عرصہ میں ابن خلدون اپنے بعض نظریات اور خیالات کے سبب مطعون بھی کیے گئے اور ان کے حاسدین اور مخالفین نے ان کو قید خانے میں بھی پہنچانے میں اپنا منفی کردار ادا کیا۔محققین کے مطابق علّامہ ابن خلدون کی کئی کتابوں کا آج نام و نشان بھی نہیں ملتا، لیکن مقدمہ ابن خلدون کا یورپ کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور اہل علم اسے دنیا کی چند بڑی بڑی کتابوں میں شمار کرتے ہیں۔ '' تاریخ ابن خلدون‘‘ کے علاوہ انھوں نے روزنامچے اور مشاہدات بھی رقم کیے ہیں۔خلافتِ عبّاسیہ کے زمانے میں جب علّامہ ابنِ خلدون اسکندریہ اور بعد میں قاہرہ گئے تو انھیں شہرہ آفاق جامعہ ازہر میں مدرّس مقرر کر دیا گیا۔ اسی زمانے میں انھوں نے اپنے اہلِ خانہ کو تیونس سے قاہرہ اپنے پاس بلوایا، مگر تاریخ بتاتی ہے کہ وہ سب جس جہاز میں سوار تھے، اسے سمندر میں حادثہ پیش آیا جس میں اہلِ خانہ لقمہ اجل بن گئے۔ اس حادثے کی اطلاع ملنے کے بعد صدمے سے دوچار ابنِ خلدون نے فوری سب کچھ چھوڑ کر حج کا قصد کیا۔ تاریخی تذکروں میں آیا ہے کہ وہ ایک سال مکّہ مکرمہ میں رہے اور پھر مصر لوٹے جہاں 1406ء میں ان کا انتقال ہوا۔ بعض کتابوں میں ان کی تاریخ وفات 16 اور بعض جگہ 19 مارچ لکھی ہے۔ عالم اسلام کے اس مشہور و معروف مؤرخ، فقیہ اور فلسفی کے علمی کارنامے آج بھی دنیا کے مفکرین، قابل شخصیات کے درمیان زیر بحث آتے ہیں۔ابن خلدون کو اگر محض ایک مورخ کی حیثیت سے لیا جائے تو خود عربوں میں اس سے کہیں برتر اور فائق مصنفین کا وجود مل سکے گا لیکن ہم تاریخ کے واضح اصول کے اعتبار سے اس کی برتری مسلمہ امر ہے۔ جدت طرازی‘ فکری گہرائی اور وسعتِ نظر وہ امتیازی خصوصیات ہی جن میں ان خلدون کی عظمت کا راز مضمر ہے، جس طرح دانتے کو دنیائے شاعری کا شہنشاہ مانا جاتا ہے، اسی طرح ابنِ خلدون فلسفہ ٔتاریخ کا پیشواہے۔جہاں تک سائنس اور فلسفۂ تاریخ کا تعلق ہے عربی لٹریچر میں ابن خلدون کا نام بقائے دوام کی سند حاصل کر چکا ہے۔ ازمنہ متوسط میں اگر چراغ لے کر بھی ڈھونڈا جائے تو دنیائے کلیسا میں اس پائے کا فاضل آدمی نہ مل سکے گا۔