بچوں میں نظم و ضبط، مگر کیسے؟

بچوں میں نظم و ضبط، مگر کیسے؟

اسپیشل فیچر

تحریر : ترجمہ و تلخیص: رضوان عطا


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

بچوں سے والدین کی محبت غیر مشروط ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے لیے وہ آگ میں سے بھی گزر سکتے ہیں۔ ان کی زندگی کو خوشگوار اور صحت مند بنانے کے لیے بطور والدین آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن ہمیشہ آپ کامیاب نہیں ہوتے، بالخصوص جب بات نظم و ضبط (ڈسپلن) کی ہوتی ہے۔ والدین جانتے ہیں کہ بچے کوکچھ کرنے کا حکم دے کر چند منٹوں میں تیسری عالمی جنگ کو دعوت دی جاسکتی ہے۔ یہاں تک کہ ہاتھ دھونے کا کہنے سے بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ آپ نہیں چاہتے کہ ایسا ہو لیکن بچہ مان بھی نہیں رہا ہوتا۔ پھر ایسی صورت حال میں کیا کیا جائے؟ دراصل بہت سے والدین نظم و ضبط کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں۔ بہت سوں کا خیال ہوتا ہے کہ نظم و ضبط اور سزا لازم و ملزوم ہیں۔ روایتی خیالات کے مطابق وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک سزا نہیں دی جاتی بچے کہا نہیں مانتے۔ ساتھ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ سزا دینے کا مقصد بچوں کی بہتری ہے۔ لیکن نظم وضبط کو قائم کرنے کے یہ پرانے طریقے ہیں، جدید طریقے مختلف ہیں۔ ان کی بنیاد تین اصولوں پر ہیں۔۱۔ وضاحت کریں: اس کا مطلب ہے کہ بچے کے سامنے یہ وضاحت کی جائے کہ اس سے کیا توقع کی جا رہی ہے لیکن بہت سے والدین ایسا نہیں کرتے۔ زیادہ تر والدین یہی کہتے سنے جاتے ہیں کہ ’’میں نے تمہیں کہا تھا نا۔۔۔۔‘‘ یا ’’بس اب سونے کا وقت ہو گیا ہے چلو سو جاؤ!‘‘یہ وضاحت نہیں حکم اور مطالبہ ہے۔ اور یہ ایسا کہنے سے مختلف ہے ’’کیا تم دروازہ بند کر سکتے ہو کیونکہ جب تم دروازہ کھلا چھوڑ دیتے ہو تو مکھیاں اندر آ جاتی ہیں اور کھانے پر بیٹھتی ہیں۔‘‘ یا ’’اپنی جوتی باہر اتار کر مت رکھو، یہ دھوپ سے خراب ہو جائے گی اور ہو سکتا ہے بعد ازاں تلاش کرنے میں تمہیں مشکل ہو۔‘‘ اگر آپ سبب کی وضاحت کریں گے تو زیادہ امکان ہے کہ بات کو مان لیا جائے گا۔ ایسا نہیں کہ لازماً مان لیا جائے لیکن آپ جتنا بہتر انداز میں وضاحت کریں گے بات کے مانے جانے کا امکان اتنا زیادہ ہو گا۔ بلاشبہ کچھ والدین کہیں گے کہ انہوں نے ایک بار نہیں کئی بار وضاحت کی لیکن ان کی بات نہیں مانی گئی۔ وضاحت کے دو حصے ہیں۔ اول، آپ کی وضاحت ۔ دوم، بچے کی وضاحت۔ اگر آپ ہر وقت اپنی ہی وضاحت کرتے رہیں گے، تو ہو سکتا ہے کہ بچہ اسے سنجیدگی سے لینا چھوڑ دے۔ ۲۔کھوج لگائیں: جب والدین کی حیثیت سے آپ کہتے ہیں ’’ٹھیک ہے، میں تو یہی چاہ رہا ہوں لیکن تم بتاؤ اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘ یا یہ کہنا ’’میں تم سے یہ کرنے کا کہہ رہا ہوں لیکن تم مخالفت کر رہے ہو، تمہارے لیے یہ اتنا بڑا مسئلہ کیوں بنا ہوا ہے؟‘‘ اس کا مطلب ہے کہ آپ اس کی ہمدردی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا مؤقف اور پس منظر جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک مرتبہ یوں ہوا کہ ایک بچی نے نئے بیگ کے بغیر سکول جانے سے انکار کر دیا۔ جب والدین نے اس بارے میں گفتگو کی تو اس نے بتایا ’’مجھے نیا سکول بیگ اس لیے چاہیے کیونکہ سکول میں میری کوئی سہیلی نہیں۔ ماں کا فوری ردعمل تھا ’’مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔ تم نے کہا کہ تمہاری سہیلی نہیں، مگر تمہیں نیا سکول بیگ آخر کیوں چاہیے؟‘‘ اس بچی نے کہا ’’اگر ہم ابھی دکان سے ایک خوبصورت بیگ لے کر آئیں تو کل جب میں سکول جاؤں گی تو بچے نئے بیگ کو دیکھ کر مجھ سے بات کرنے آئیں گے اور میں مقبول ہو جاؤں گی۔‘‘جب وہ نئے بیگ کے بغیر سکول جانے سے انکار کر رہی تھی تو اس کا رویہ بظاہر نامناسب تھا اور والدین کے لیے پریشانی کا باعث تھا۔ اسے زبردستی سکول بھیجا جا سکتا تھا، لیکن اس کی بجائے والدین نے وجہ تلاش کرنے کی کوشش کی اور انہیں وہ سمجھ بھی آ گئی۔ اس سے والدین کو پتا چلا کہ سکول میں دوست بنانے میں اسے مشکلات درپیش ہیں۔ سکول کو بار بار بدلنے سے یہ مسئلہ پیدا ہوا تھا۔ بالآخر والدین نے ایسا کرنا چھوڑ دیا اور اس سے بچی کی آئندہ زندگی کا رخ بدل گیا۔ ۳۔ اختیار دیں: اختیار دینے یا خود مختاری کو اس طرح کے جملوں سے سمجھا جا سکتا ہے ’’میںسمجھ گیا ہوں تم کیا چاہتے ہو، تم جانتے ہو میں کیا چاہتا ہوں۔ اب بتاؤ اس سے آگے کیسے جایا جائے؟‘‘ خود مختاری کا مطلب ہے کہ بچے میں خود فیصلہ کرنے کا احساس پیدا کیا جائے۔ یہ آسان نہیں ہوتا اور کئی دفعہ اس میں ناکامی ہوتی ہے۔ مثلاً بچہ غلط فیصلے پر اصرار کر سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اسے کسی دوسرے آپشن کے بارے میں سوچنے کا موقع دیں۔ خود مختاری کا مطلب یہ نہیں کہ بچہ جو فیصلہ کرے اسے اس پر عمل درآمد کرنے دیا جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ جو فیصلہ کرے اس کے بارے میں بات کی جائے کہ آیا وہ درست ہے یا نہیں اور بہتر سے بہتر حل کو اس کے ساتھ مل کر تلاش کیا جائے۔ اس سے اس میں ذمہ داری کا احساس اور فہم پیدا ہو گا اور وہ غصے میں آنا چھوڑ دے گا۔ ٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
دنیا کی خوبصورت مساجد

دنیا کی خوبصورت مساجد

الفاتح مسجد( بحرین)بحرین کے دارالحکومت منامہ میں واقع الفاتح مسجد کا شمار دنیا کی انتہائی خوبصورت اور چند بڑی مساجد میں ہوتا ہے، مسجد کی لمبائی 330 فٹ اور چوڑائی246فٹ ہے۔ اس طرح اس کا کل رقبہ81180مربع فٹ ہے۔ اس میں 7ہزارنمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ پورے بحرین میں یہ سب سے بڑی عبادت گاہ ہے۔ منامہ کے جنوب مشرق میں شاہ فیصل ہائی وے کے پاس جفیر ٹائون میں یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے۔ مسجد کا مرکزی گنبد فائبر گلاس کا بنا ہوا ہے۔ اس کا وزن 60فٹن (60ہزارکلو گرام)ہے۔ گنبد کا قطر 79 ہزارفٹ ہے۔ اس وقت فائبر گلاس سے بنایا گیا یہ گنبد دنیا کا سب سے بڑا گنبد ہے۔ مسجد کے فرش میں لگا ہوا سنگ مر مر اٹلی سے منگو ایا گیا جبکہ ہال کے اندر گنبد کے نیچے لٹکا ہوا شاندار فانونس آسٹریا سے درآمد کیا گیا ہے۔ مسد کے دروازے ساگوان کی قیمتی لکڑی سے تیار کئے گئے ہیں جو بھارت سے منگوائی گئی تھی۔ مسجدکے مرکزی ہال میں قرآنی آیات خطِ کوفی میں لکھی ہوئی ہیں۔یہ مسجد بحرین کے سابق حکمران شیخ عیسیٰ بن سلمان الخلیفہ نے 1987ء میں تعمیر کروائی اور بحرین کے فاتح احمد الفاتح کے نام سے سا کو موسوم کیا۔ مسجد سے ملحق بہت بڑی نیشنل لائبریری بنائی گئی ہے۔ اس مسجد کے دومینار ہیں۔جامع الازہر، قاہرہ(مصر)یہ مسجد قاہرہ کے مرکزی چوک الحسین سکوائر میں واقع ہے۔ اس مسجد کی تعمیر970ء میں شروع ہوئی اور دو سال بعد میں یہ مکمل ہوئی۔ اس طرح یہ مسجد 1055 سال پرانی ہے۔ خلفائے راشد کے دور میں 642ء میں جب مسلمانوں کے نامور جرنیل حضرت عمر و بن العاصؓ نے رومیوں کو شکست دی تو فسطاط( قدیم قاہرہ) میں ایک مسجد تعمیر کی تھی، جو جامع عمرو بن العاض ؓ کہلاتی ہے۔ جب970ء میں فاطمی سلطنت کا نیا دارالخلافہ قاہرہ آباد ہوا تو فاطمی سپہ سالار جو ہر الصقلی نے خلیفہ المعزلدین اللہ کے حکم کی تعمیل میں جامع الازہر کی بنیاد رکھی۔ یہ مسجد دنیا کی ایک اوّلین یونیورسٹی جامعہ الازہر کا مرکزی مقام تھی۔پہلے پہل اس مسجد کا نام جامع المنصور رکھا گیا جو تیسرے فاطمی خلیفہ اسماعیل المنصور (المعز کے والد) کے نام پر تھی۔ اس کا نام حضرت فاطمۃ الزہراؓکے نام سے منسوب کر کے جامع الازہر رکھ دیا گیا اور آج تک یہ مسجد اسی نام سے مشہور ہے۔جامع الازہر کا رقبہ 84000مربع فٹ ہے اور اس میں 20ہزار نمازی ایک ہی وقت میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔مسجد کے پانچ مینار ہیں مسجد کا صحن 275فٹ طویل اور 112فٹ چوڑا سفید مر مر کے درجنوں ستون بنائے گئے ہیں۔ اس کے علماء ہمیشہ حکومت وقت کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔

رمضان کے پکوان:دال قیمے کے سموسے

رمضان کے پکوان:دال قیمے کے سموسے

اجزاء:بھنا ہوا قیمہ ایک پیالی، مونگ کی دھلی دال آدھی پیالی، پیاز دو عدد درمیانی، سویا تین سے چار ڈنٹھل، ہری مرچیں تین سے چار عدد، سموسے کی پٹیاں حسب ضرورت، کوکنگ آئل حسب ضرورت۔ترکیب: دال کو دھو کر بیس سے پچیس منٹ کیلئے بھگو کر رکھ دیں۔ پھر اسے پانی سے نکال کر قیمے میں ڈالیں اور اچھی طرح بھون لیں۔ جب یہ مکسچر ٹھنڈا ہو جائے تو اس میں باریک کٹی ہوئی پیاز، نمک، باریک کٹی ہوئی ہری مرچیں اور سویا ڈال کر ملا لیں۔ سموسے کی پٹیوں سے تکونے سموسے بنا کر اس میں یہ مکسچر بھر دیں۔ آٹے کی لئی سے چپکا کر کوکنگ آئل میں سنہری فرائی کر لیں۔لیمن گراس اور لائم کولرکھانے کے بعد کی تازگی بخش ٹریٹ کیلئے، اس مشروب کا ایک گھونٹ ہی کسی کو بھانے کیلئے کافی ہے۔ ریسیپی میں شامل ہے چینی، پانی، لیمن گراس اور کنور پروفیشنل لائم سیزننگ، جنہیں ابالنے کے بعد برف کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ کھٹے لائم اور خوشبودار لیمن گراس کا امتزاج ایک کامیاب کومبی نیشن ہے۔ اس کو مستند بنانے کیلئے لیمن گراس کی ڈنڈی کے اندرونی رِنگز کو باہر کی جانب نکال کے اسٹرا کی طرح استعمال کریں۔ 

حکایت سعدیؒ :سلوک

حکایت سعدیؒ :سلوک

بیان کیا جاتا ہے کہ ملکِ شام کے رہنے والے ایک بزرگ، جن کا لقب خدا دوست تھا، آبادی سے نکل کر ایک غار میں آباد ہوگئے تھے۔ اللہ کی یاد کے سوا اب انہیں کسی بات سے غرض نہ تھی اور ان کی یہی بے غرضی ان کی مقبولیت کا سبب بن گئی تھی۔ لوگ دور دور سے ان کی زیارت کے لیے آتے تھے اور دعاؤں کے تحفے لے کر لوٹ جاتے تھے۔ اس علاقے کا جاگیردار ایک بہت ہی سنگ دل اور ظالم شخص تھا۔ کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنا تو جیسے اس نے سیکھا ہی نہ تھا۔ غریبوں کو ستانا اور رُلانا گویا اس کا خاص مشغلہ تھا۔ خدا جانے اس کے دل میں کیا خیال آیا کہ ایک دن وہ بھی بزرگ کی زیارت کے لیے پہنچ گیا۔ بزرگ خدا دوست سب سے مروت اور مہربانی کا برتاؤ کرتے تھے لیکن جب اس ظالم جاگیردار کو اپنے قریب پایا تو نفرت سے منہ پھیر لیا۔ اس ظالم نے بھی یہ بات محسوس کی کہ میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔ وہ قریب بیٹھ گیا اور شکایت بھری آواز میں کہا، کیا بات ہے حضرت نے میری طرف التفات نہیں فرمایا؟ کم از کم میں اس سلوک کا تو مستحق تھا جو جناب دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں۔ بزرگ نے فرمایا، اے شخص! تو حسنِ سلوک کا مستحق کس طرح ٹھہر سکتا ہے؟ تُو خدا کی مخلوق کو ستانے اور پریشان کرنے والا ہے اورہمیں مخلوقِ خدا کی پریشانی سے پریشانی ہے۔ تو ہمارے دوستوں کا دشمن ہے۔ پھر ہمارا دوست کیسے بن سکتا ہے؟ترے ظلم سے دل گرفتہ ہیں لوگبرستا ہے ہر اک کے چہرے سے سوگجنہیں ظلم نے کر دیا سوگوارہمیں ہے انہی بے نواؤں سے پیاررلاتا ہے مخلوق کو اے شقیسمجھ لے یہ خالق سے ہے دشمنیحضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ مخلوقِ خدا کا دشمن دراصل خدا کا دشمن ہے۔ اس لیے خدا کے دوستوں کا فرض ہے کہ مخلوق کے دشمنوں سے بیر رکھیں۔ انسان کو انسان کے کام آنا چاہیے، اسے حسن سلوک کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی ظلم کرے تو اس سے نفرت کا اظہار کر کے اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ اس میں اختیار اور عہدے کا خیال بھی نہیں کرنا چاہیے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

ٹوکیو پر تباہ کن فائر بمبنگ10 مارچ 1945ء کی رات کو، ریاستہائے متحدہ کی آرمی ایئر فورس نے جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو پر ایک تباہ کن حملہ کیا۔ اسے جاپان میں عظیم ٹوکیو فضائی حملے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ بھاری بمباری سے مشرقی ٹوکیو کا بیشتر حصہ جل گیا۔ اس کے نتیجے میں آگ لگنے سے ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔10 لاکھ افراد بے گھر ہو گئے تھے۔یورینس کے حلقے دریافت ماہرین فلکیات نے یورینس کے حلقے دریافت کئے۔ یورینس کے حلقے زحل کے گرد زیادہ وسیع، مشتری اور نیپچون کے گرد درمیانی ہیں۔ یورینس کے حلقے 10 مارچ 1977ء کو جیمز ایل ایلیٹ، ایڈورڈ ڈبلیو ڈنہم اور جیسیکا منک نے دریافت کیے تھے۔ ولیم ہرشل نے 1789ء میں رنگز کے مشاہدے کی اطلاع دی تھی۔ جدید ماہرین فلکیات اس بات پر منقسم ہیں کہ آیا وہ انہیں دیکھ سکتا تھا۔روسی فوج کا باکو سے انخلاء1735ء میں آج کے روز ایران کے سب سے زیادہ طاقتور بادشاہ نادر شاہ اور روس کے پاؤل اوّل کے درمیان آذر بائیجان کے شہر گنجا کے مقام پر ایک معاہدے پر دستخط ہوئے۔ جس کے تحت روسی فوجوں کا باکو سے انخلاء ہوا۔ اس متنازع علاقے پر قبضے کیلئے روس کو آذر بائیجان کی افواج کی طرف سے مزاحمت کا سامنا تھا اور دونوں افواج کئی ماہ سے حالت جنگ میں تھیں۔  

انوئک:جہاں رات کے آخری پہر روزہ افطار کیا جاتا ہے

انوئک:جہاں رات کے آخری پہر روزہ افطار کیا جاتا ہے

ہمارا یہ کرۂ ارض اس قدر وسیع، عریض اور عجیب و غریب ہے جس کے ہر کونے میں ہر لمحہ کچھ نہ کچھ نیا ہو رہا ہوتا ہے۔ انوئک نامی ایسا ہی ایک قصبہ کینیڈاکے شمال مغرب میں آرکٹک کے برفیلے علاقے میں واقع ہے۔ آرکٹک کے اس علاقے کا شمار دنیا کے سرد ترین علاقوں میں کیا جاتا ہے جہاں کا موسم گرما ٹھنڈا اور موسم سرما انتہائی سرد ہوتا ہے۔ موسم سرما کا اوسط درجۂ حرارت منفی 37ڈگری سینٹی گریڈ جبکہ یہ بعض اوقات منفی 68 ڈگری تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ یہاں موسم گرما کے 50 سے 55 دن سورج غروب ہی نہیں ہوتا اور یوں سارا دن روشنی رہتی ہے جبکہ موسم سرما کے 30 دن سورج طلوع ہی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے سارا دن اندھیرا رہتا ہے۔ یہاں سردیوں کا دورانیہ انتہائی طویل جبکہ گرمیوں کا موسم بہت مختصر ہوتا ہے۔ انوئک کی آبادی لگ بھگ 3500 نفوس پر مشتمل ہے جس میں 120 کے لگ بھگ مسلم برادری کے لوگ آباد ہیں۔ یہاں کے مسلمان اپنی اسلامی اقدار اور دین کے ضابطوں پر سختی سے کاربند رہتے ہیں۔ اگرچہ یہاں سخت اور تکلیف دہ موسموں سے مسلم برادری کو متعدد مسائل کا سامنا سارا سال رہتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی یہاں کی واحد خوبصورت مسجد ''مڈ نائٹ سن مسجد ‘‘ میں پانچ وقت با جماعت نماز اور ماہ صیام میں افطار کے وقت یہاں کے مسلم باسیوں کا اجتماع قابل دید ہوتا ہے۔ماہ صیام کے حوالے سے آج سے کچھ سال پہلے تک یہاں کی مسلم برادری کو خاص طور پر موسم گرما میں اپنی عبادات کو قائم رکھنے کیلئے بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا جب موسم گرما میں 50سے 55 دنوں تک ہر وقت سورج چمکتا رہتا تھااور ایسی ہی مشکل ان کیلئے موسم سرما میں ہوتی تھی جب سارا دن مسلسل اندھیرا رہتا تھا۔ چنانچہ اس مسئلے کا حل نکالنے کیلئے یہاں کی مسلم برادری نے متفقہ طور پر اپنے نظام اوقات جن میں نمازیں اور روزے شامل ہیں ان کو سعودی عرب کے شہر مکہ سے منسلک کردیا ہے۔چنانچہ اب یہاں کی نمازوں کے اوقات اور روزوں کے شیڈول کو مکہ کے اوقات کار کے مطابق طے کیا جاتا ہے۔ ماہ صیام میں آدھی رات کے وقت سورج چمک رہا ہوتا ہے اور یہاں کی واحد مسجد میں اس قصبے کے سارے مسلمان اپنے اپنے گھروں سے لائے کھانوں سے مل کر روزہ افطار کر رہے ہوتے ہیں۔ جو یہاں کی مسلم برادری کے اتفاق، اتحاد اور بھائی چارے کی دلیل ہے۔ یہاں قائم خوبصورت '' مڈ نائٹ سن مسجد‘‘ کو 2010ء میں 4000 کلومیٹر کی دوری سے کینیڈا کے صوبے مینی ٹوبا کے شہر ونی پیگ میں تیار کر کے ایک بہت ٹرالے کے ذریعے یہاں لایا گیا تھا۔یہاں کے مسلمانوں کو اب کچھ عجیب نہیں لگتا کہ سال کے بیشتر دنوں میں وہ پانچوں وقت کی نمازیں چمکتے سورج کے سائے میں یا بعض اوقات مکمل اندھیرے میں ادا کرتے ہیں۔اسی طرح اب وہ اس بات کے بھی عادی ہو گئے ہیں جب سورج چمک رہا ہوتا ہے یا بعض اوقات نصف شب کے وقت مکمل اندھیرے میں وہ روزہ افطار کر رہے ہوتے ہیں۔یہاں زیادہ تر مسلمان کینیڈا کے وہ مہاجر مسلمان ہیں جو دنیا کے مختلف کونوں سے کینیڈا کی شہریت لے کر آباد ہوئے ہوتے ہیں اور پھر تلاش رزق انہیں انوئک لے آتی ہے۔ یہاں چونکہ آرکٹک کے آس پاس معدنیات تلاش کرنے والی کمپنیاں سارا سال اپنا کام جاری رکھے ہوتی ہیں اس لئے یہاں آئے مسلمان بھی کم و بیش اسی سلسلے کی کڑی ہوتے ہیں۔ انوئک کا تاریخی پس منظر انوئک 1953ء سے دریائے میکنزی کے کنارے اکلاوک نامی وادی میں آباد چلے آ رہے تھے جب رفتہ رفتہ موسمیاتی تبدیلیوں کے ذریعے سیلاب یہاں کا معمول بنتے چلے گئے۔ جس کے سبب یہاں کے باسی یہاں سے ہجرت کر کے ایک محفوظ مقام پر منتقل ہوئے ، جسے نیو اکلاوک کانام دیا گیا۔ 1958ء میں اس قصبے کا نام بدل کر انوئک رکھ دیا گیا۔ رفتہ رفتہ آبادی میں اضافہ ہوا تو 1959ء میں یہاں پہلا سکول قائم کیا گیا جبکہ 1960ء میں یہاں ایک اسپتال، سرکاری دفاتر اور ملازمین کی رہائش گاہیں تعمیر کی گئیں۔1967 ء تک انوئک ایک دیہات کے طور پر جانا جاتا تھا جبکہ 1969ء میں اسے ایک گاؤں کا درجہ دے دیا گیا۔ 1970ء میں آبادی کے اضافے کے ساتھ اسے باقاعدہ طور پر ایک قصبے کا درجہ دے کر یہاں کیلئے ایک مئیر اور کونسل کا انتخاب کیا گیا۔1979ء میں انوئک کو بذریعہ شاہراہ کینیڈا کی ڈمپسٹر ہائی وے سے ملا دیا گیا جہاں بذریعہ شاہراہ گرمیوں میں پہنچا جا سکتا ہے۔سردیوں میں دریائے میکزی پر بننے والے برفانی پل کے ذریعے اس قصبے تک پہنچا جا سکتا تھا۔یہاں کا سفر زیادہ تر پلوں اور کشیوں کا محتاج ہوتا ہے۔لیکن عام طور پر یہاں کی شاہراہ کو تین ماہ کیلئے اکتوبر سے دسمبر تک بند رکھا جاتا ہے تاکہ برف اچھی طرح جم جائے اور لوگ آسانی سے برفانی راستوں پر سفر کر سکیں۔اسی طرح جب موسم گرما میں برف پگھلنا شروع ہوتی ہے تو مئی اور جون میں ایک مرتبہ پھر اس سڑک کو بند کر دیا جاتا ہے۔ اس دوران زمینی ذرائع سے یہ علاقہ ملک کے باقی حصوں سے کٹ جاتا ہے۔

آرٹیفشل انٹیلی جنس اور مستقبل میں ملازمت کے مواقع

آرٹیفشل انٹیلی جنس اور مستقبل میں ملازمت کے مواقع

آرٹیفشل انٹیلی جنس (AI) کو جدید ٹیکنالوجی کا سب سے انقلابی کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی نہ صرف صنعتوں کو تبدیل کر رہی ہے بلکہ معاشروں کے سماجی اور معاشی ڈھانچے پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ ایک اہم سوال جو اکثر اٹھایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا AI کے پھیلاؤ سے ملازمت کے مواقع کم ہوں گے اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا؟ اس مضمون میں ہم AI کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لیں گے، نوکریوں کے ضائع ہونے اور نئے مواقع کے درمیان توازن تلاش کریں گے، اور مستقبل کے لیے تجاویز پیش کریں گے۔ نوکریوں کا ضیاع: خطرات اور شواہد AI کی بنیاد پر مشین لرننگ، روبوٹکس، اور آٹومیشن نے پہلے ہی کئی شعبوں میں انسانی محنت کی جگہ لینی شروع کر دی ہے۔ مثال کے طور پر: مینوفیکچرنگ: روبوٹس تیزی سے اسمبلی لائنوں پر کام کر رہے ہیں۔ کسٹمر سروس: چیٹ بوٹس اور ورچوئل اسسٹنٹس انسانی نمائندوں کی جگہ لے رہے ہیں۔ ٹرانسپورٹیشن: خودکار گاڑیوں سے ڈرائیوروں کی مانگ کم ہونے کا خدشہ ہے۔ مک کنسے گلوبل انسٹی ٹیوٹ کا اندازہ ہے کہ 2030ء تک دنیا بھر میں 40 سے 80 کروڑ افراد کو نوکریاں بدلنے یا نئی مہارتیں سیکھنے کی ضرورت پڑے گی۔ خاص طور پر وہ کام جو بار بار دہرائے جاتے ہیں (جیسے ڈیٹا انٹری، سادہ حساب کتاب)، AI کے ذریعے آسانی سے خودکار ہو سکتے ہیں۔ نئے مواقع AI کا دوسرا رخ ہر ٹیکنالوجی کی طرح AI کابھی دہرا کردار ہے۔ جہاں یہ کچھ پیشوں کو ختم کرے گی وہیں نئی صنعتیں اور ملازمت کے شعبے پیدا بھی کرے گی۔ مثال کے طور پر سافٹ ویئر انجینئرز، ڈیٹا سائنٹسٹس اور AI ماہرین کی مانگ بڑھے گی۔ مشینوں کی دیکھ بھال اور ٹربل شوٹنگ کے لیے نئے ٹیکنیشنز درکار ہوں گے۔ AI کے ساتھ کام کرنے والے ڈاکٹرز مریضوں کی بہتر تشخیص کر سکیں گے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق 2025ء تک AI اور آٹومیشن سے نو کروڑ70 لاکھ نئی نوکریاں پیدا ہوں گی، خاص طور پر ٹیکنالوجی، صحت، اور توانائی کے شعبوں میں۔ نوکریوں کے بدلتے ہوئے تقاضوں کا مطلب ہے کہ موجودہ اور مستقبل کی لیبر فورس کو نئی مہارتیں سیکھنی ہوں گی۔ ری سکلنگ اور اپ سکلنگ کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پرہر شعبے میں کم از کم بنیادی AI اور ڈیٹا انالیٹکس کی سمجھ ضروری ہوگی۔ مشینوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے انسانوں کو تنقیدی سوچ، تخلیقی حل اور جذباتی ذہانت پر توجہ دینی ہوگی۔ حکومتوں اور تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالیں خصوصاً STEM (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، ریاضی) پر توجہ بڑھائیں۔ AI کے معاشی اثرات کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ معاشرے اس تبدیلی کو کتنی احتیاط سے بروئے کار لاتے ہیں۔ اگر آمدنی اور مواقع میں عدم مساوات بڑھی تو سماجی بے چینی پیدا ہو سکتی ہے۔ یونیورسل بیسک انکم (UBI) یعنی خودکار معیشتوں میں شہریوں کو بنیادی آمدنی کی ضمانت اس کاممکنہ حل ہو سکتی ہے۔ علاوہ ازیں AI سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں پر ٹیکس عائد کر کے ری ٹریننگ پروگراموں کو فنڈ کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر صنعتی انقلاب (سٹیم انجن، بجلی، کمپیوٹر) نے ابتدا میں بے روزگاری کا خوف پیدا کیا لیکن نئی صنعتوں نے زیادہ نوکریاں دیں۔ مثال کے طور پر 19ویں صدی میں کھیتی باڑی کی جگہ فیکٹریوں نے لی مگر لوگوں نے نئے ہنر سیکھے۔ اسی طرح AI بھی انسانوں کو زیادہ پیچیدہ اور تخلیقی کاموں پر مرکوز ہونے کا موقع دے سکتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں جہاں لیبر فورس زیادہ اور مہارتیں کم ہیں AI کا اثر مختلف ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کال سینٹرز اور ٹیکسٹائل انڈسٹری میں آٹومیشن سے بے روزگاری بڑھ سکتی ہے۔ تاہم ان ممالک میں ڈیجیٹل انفراسٹرکچر اور تعلیمی اصلاحات پر توجہ دی جائے تو وہ AI سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔جیسے زراعت میں AI کے استعمال سے پیداوارمیں اضافہ وغیرہ۔ AI کے استعمال میں شفافیت اور انصاف کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ڈیٹا پرائیویسی اور ملازمت کے تحفظ کے قوانین بنائیں۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت کمپنیاں اور حکومتیں مل کر ری ٹریننگ پروگرام چلائیں۔ آرٹیفشل انٹیلی جنس کو روکا نہیں جا سکتا لیکن اس کے اثرات کو منظم کیا جا سکتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اگرچہ کچھ نوکریاں ختم کرے گی لیکن نئے شعبے بھی جنم دے گی۔ اصل چیلنج یہ ہے کہ ہم اپنی لیبر فورس کو اس قابل بنائیں کہ وہ تبدیلیوں کے ساتھ قدم ملا سکے۔ تعلیم، حکومتی پالیسیاں اور سماجی شعور ہی وہ ستون ہیں جو AI کے دور میں بے روزگاری کے طوفان سے بچا سکتے ہیں۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی انسانوں کا بنایا ہوا ایک آلہ ہے، اس کا استعمال ہمارے ہاتھ میں ہے۔