بچوں میں نظم و ضبط، مگر کیسے؟
بچوں سے والدین کی محبت غیر مشروط ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے لیے وہ آگ میں سے بھی گزر سکتے ہیں۔ ان کی زندگی کو خوشگوار اور صحت مند بنانے کے لیے بطور والدین آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن ہمیشہ آپ کامیاب نہیں ہوتے، بالخصوص جب بات نظم و ضبط (ڈسپلن) کی ہوتی ہے۔ والدین جانتے ہیں کہ بچے کوکچھ کرنے کا حکم دے کر چند منٹوں میں تیسری عالمی جنگ کو دعوت دی جاسکتی ہے۔ یہاں تک کہ ہاتھ دھونے کا کہنے سے بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ آپ نہیں چاہتے کہ ایسا ہو لیکن بچہ مان بھی نہیں رہا ہوتا۔ پھر ایسی صورت حال میں کیا کیا جائے؟ دراصل بہت سے والدین نظم و ضبط کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں۔ بہت سوں کا خیال ہوتا ہے کہ نظم و ضبط اور سزا لازم و ملزوم ہیں۔ روایتی خیالات کے مطابق وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک سزا نہیں دی جاتی بچے کہا نہیں مانتے۔ ساتھ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ سزا دینے کا مقصد بچوں کی بہتری ہے۔ لیکن نظم وضبط کو قائم کرنے کے یہ پرانے طریقے ہیں، جدید طریقے مختلف ہیں۔ ان کی بنیاد تین اصولوں پر ہیں۔۱۔ وضاحت کریں: اس کا مطلب ہے کہ بچے کے سامنے یہ وضاحت کی جائے کہ اس سے کیا توقع کی جا رہی ہے لیکن بہت سے والدین ایسا نہیں کرتے۔ زیادہ تر والدین یہی کہتے سنے جاتے ہیں کہ ’’میں نے تمہیں کہا تھا نا۔۔۔۔‘‘ یا ’’بس اب سونے کا وقت ہو گیا ہے چلو سو جاؤ!‘‘یہ وضاحت نہیں حکم اور مطالبہ ہے۔ اور یہ ایسا کہنے سے مختلف ہے ’’کیا تم دروازہ بند کر سکتے ہو کیونکہ جب تم دروازہ کھلا چھوڑ دیتے ہو تو مکھیاں اندر آ جاتی ہیں اور کھانے پر بیٹھتی ہیں۔‘‘ یا ’’اپنی جوتی باہر اتار کر مت رکھو، یہ دھوپ سے خراب ہو جائے گی اور ہو سکتا ہے بعد ازاں تلاش کرنے میں تمہیں مشکل ہو۔‘‘ اگر آپ سبب کی وضاحت کریں گے تو زیادہ امکان ہے کہ بات کو مان لیا جائے گا۔ ایسا نہیں کہ لازماً مان لیا جائے لیکن آپ جتنا بہتر انداز میں وضاحت کریں گے بات کے مانے جانے کا امکان اتنا زیادہ ہو گا۔ بلاشبہ کچھ والدین کہیں گے کہ انہوں نے ایک بار نہیں کئی بار وضاحت کی لیکن ان کی بات نہیں مانی گئی۔ وضاحت کے دو حصے ہیں۔ اول، آپ کی وضاحت ۔ دوم، بچے کی وضاحت۔ اگر آپ ہر وقت اپنی ہی وضاحت کرتے رہیں گے، تو ہو سکتا ہے کہ بچہ اسے سنجیدگی سے لینا چھوڑ دے۔ ۲۔کھوج لگائیں: جب والدین کی حیثیت سے آپ کہتے ہیں ’’ٹھیک ہے، میں تو یہی چاہ رہا ہوں لیکن تم بتاؤ اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘ یا یہ کہنا ’’میں تم سے یہ کرنے کا کہہ رہا ہوں لیکن تم مخالفت کر رہے ہو، تمہارے لیے یہ اتنا بڑا مسئلہ کیوں بنا ہوا ہے؟‘‘ اس کا مطلب ہے کہ آپ اس کی ہمدردی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا مؤقف اور پس منظر جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک مرتبہ یوں ہوا کہ ایک بچی نے نئے بیگ کے بغیر سکول جانے سے انکار کر دیا۔ جب والدین نے اس بارے میں گفتگو کی تو اس نے بتایا ’’مجھے نیا سکول بیگ اس لیے چاہیے کیونکہ سکول میں میری کوئی سہیلی نہیں۔ ماں کا فوری ردعمل تھا ’’مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔ تم نے کہا کہ تمہاری سہیلی نہیں، مگر تمہیں نیا سکول بیگ آخر کیوں چاہیے؟‘‘ اس بچی نے کہا ’’اگر ہم ابھی دکان سے ایک خوبصورت بیگ لے کر آئیں تو کل جب میں سکول جاؤں گی تو بچے نئے بیگ کو دیکھ کر مجھ سے بات کرنے آئیں گے اور میں مقبول ہو جاؤں گی۔‘‘جب وہ نئے بیگ کے بغیر سکول جانے سے انکار کر رہی تھی تو اس کا رویہ بظاہر نامناسب تھا اور والدین کے لیے پریشانی کا باعث تھا۔ اسے زبردستی سکول بھیجا جا سکتا تھا، لیکن اس کی بجائے والدین نے وجہ تلاش کرنے کی کوشش کی اور انہیں وہ سمجھ بھی آ گئی۔ اس سے والدین کو پتا چلا کہ سکول میں دوست بنانے میں اسے مشکلات درپیش ہیں۔ سکول کو بار بار بدلنے سے یہ مسئلہ پیدا ہوا تھا۔ بالآخر والدین نے ایسا کرنا چھوڑ دیا اور اس سے بچی کی آئندہ زندگی کا رخ بدل گیا۔ ۳۔ اختیار دیں: اختیار دینے یا خود مختاری کو اس طرح کے جملوں سے سمجھا جا سکتا ہے ’’میںسمجھ گیا ہوں تم کیا چاہتے ہو، تم جانتے ہو میں کیا چاہتا ہوں۔ اب بتاؤ اس سے آگے کیسے جایا جائے؟‘‘ خود مختاری کا مطلب ہے کہ بچے میں خود فیصلہ کرنے کا احساس پیدا کیا جائے۔ یہ آسان نہیں ہوتا اور کئی دفعہ اس میں ناکامی ہوتی ہے۔ مثلاً بچہ غلط فیصلے پر اصرار کر سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اسے کسی دوسرے آپشن کے بارے میں سوچنے کا موقع دیں۔ خود مختاری کا مطلب یہ نہیں کہ بچہ جو فیصلہ کرے اسے اس پر عمل درآمد کرنے دیا جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ جو فیصلہ کرے اس کے بارے میں بات کی جائے کہ آیا وہ درست ہے یا نہیں اور بہتر سے بہتر حل کو اس کے ساتھ مل کر تلاش کیا جائے۔ اس سے اس میں ذمہ داری کا احساس اور فہم پیدا ہو گا اور وہ غصے میں آنا چھوڑ دے گا۔ ٭…٭…٭