پن چکی : آٹا پیسنے کی قدیم ترین مشین
اسپیشل فیچر
پن چکی جسے مقامی زبان میں ’’جندر ‘‘کہا جاتا ہے۔جندر پتھر کے پاٹوں سے بنی ہوئی آٹا پیسنے کی مشین ہے جسے مختلف علاقوں میں گراٹ بھی کہتے ہیں۔جندر یا گراٹ تیز رفتاری کے ساتھ بہنے والے ندی نالوں پر بنائی گئی پن چکیاں ہیں انہیں بجلی پٹرول اور ڈیزل کی ضرورت نہیں۔ یہ پتھر کے 2گول پاٹوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ جندر کے نیچے لگے ہوئے، پنکھے پانی کی تیز دھار سے حرکت میں آتے ہیں اور اس کے اُوپر والا حصہ ایک مخصوص رفتار سے چلتا ہے جو پتھر کے بڑے بڑے پاٹوں کو چلاتا ہے جس سے آٹا پستا رہتا ہے جبکہ پریشر کم ہونے کی صورت میں اس کی رفتارکم ہوجاتی ہے۔ پتھر اور لکڑی کے روایتی اوکھلوں میں دیودار کی لکڑی سے بنائے گئے موسلوں کے ذریعے دانوں (گندم) کو پیس پیس کر آٹا تیار کرتے تھے لیکن جندر کی رفتار زمانے کی رفتار کے ساتھ مقابلہ نہیں کرپائی اور بجلی سے چلنے والی چکیوں کے چلنے سے بالآخر یہ آہستہ آہستہ اپنی اہمیت کھو کر لوگوں کی زندگی سے باہر ہونے لگی ہیں، البتہ کچھ دیہی علاقے موجود ہیں جہاں لوگ اب بھی جندر کے آٹے کی روٹی کھانا پسند کرتے ہیں اور بچے کھچے جندر اب بھی مقامی لوگوں کی ضروریات پورا کرتے ہیں۔ جن کی تعداد انتہائی کم ہے۔ اسی طرح یہاںپہلے وقتوں میں تقریباً ہر دوسرے گھر میں ہتھ چکی ہوا کرتی تھی جو گھریلو ضروریات پوری کرتی تھی۔اسی طرح ہتھ چکی عموماً گھرکے کونے میں نصب ہوتی تھی اور یہ پتھر کے 2گول پاٹوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ماضی میں خواتین صبح سویرے اٹھ کر ہتھ چکی چلا کر روزمرہ ضرورت کے مطابق تازہ آٹا حاصل کرتیں اورگھرکے سب لوگ یہ تازہ اورصحت بخش آٹا استعمال کرتے تھے۔ پن چکیوں کے مقابلے میں ہتھ چکی چلانازیادہ مشکل اورمحنت طلب کام تھا۔ نئی نسل کو جندر یا ہتھ چکی کے بارے میں معلوم ہی نہیں کیونکہ میدہ، سوجی، چوکر، آٹا ہم بازارسے خریدنے کے عادی ہوچکے ہیں تاہم جندر اورہتھ چکی ماضی قریب تک ہماری تہذیب وثقافت کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ اب تو ہتھ چکی دور کہیں دیہات کے کسی گھر میں موجود ہو تو ہو، شہری زندگی نے تو اپنی زندگی سے نکال دیا۔ ہاں! مانسہرہ کے مضافات ،تاریخی شہر بفہ میں اب بھی جندر موجود ہے شوق رکھنے والے بفہ جا کر کسی مقامی کی مدد سے اپنے ثقافتی ورثے کو دیکھ کر اپنی تشنگی ختم کر سکتے ہیں۔٭…٭…٭