سندھ میں اردو کی ابتدا
اسپیشل فیچر
کلہوڑوں سے پہلے ارغون، ترخان اور مغل حکمرانوں کے دور میں سندھی زبان عوام کی زبان تو تھی لیکن ادبی مجلسوں میں اس کا گزر نہیں تھا۔ ہر جگہ اور ہر شعبہ میں فارسی کا دخل تھا۔ دفتری اور سرکاری زبان فارسی ہی تھی۔ بقول پروفیسر عبدالمجید سندھی: ’’اس زمانہ (ترخانی عہد) میں فارسی کا دور دورہ تھا۔ جو فارسی جانتا تھا اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا… سندھی شاعری کو گویا علمی اور امیروں کی محفلوں سے نکال دیا گیا تھا۔ جب امیروں نے اسے نکال دیا تو فقیروں اور عوام نے سندھی کی روحانی اور اخلاقی شاعری کو اپنے دل میں جگہ دی۔‘‘کلہوڑوں کے دور حکومت میں سندھی زبان کا نشاۃ الثانیہ شروع ہوا اور سندھی زبان و ادب کی ہر صنف میں ترقی ہونے لگی۔ لیکن اس کے ساتھ انہوں نے فارسی اور اردو سے بھی بے اعتنائی نہیں برتی۔ اسی دور میں شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ جیسا صوفی شاعر پیدا ہوا جس نے سندھی شاعری کو مالا مال کر دیا۔ مہدویہ اور درازا تحریک نے بھی اسی دور میں جنم لیا۔ تالپوروں کے عہد میں اردو کی خاص طور پر ترقی شروع ہوئی۔ تالپور حکمران خود اردو کے شاعر تھے اور ان میں سے اکثر صاحب دیوان بھی تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی ان کے امرا اور درباریوں نے بھی اردو کی جی کھول کر سرپرستی کی، لیکن سندھ میں اردو نثر کی ترقی دراصل ان سیاسی اور سماجی تحریکات کی مرہون منت ہے جو 1857ء کے بعد سے یہاں مسلسل چلتی رہیں۔ شمالی ہند کی طرح سندھ کے علما اور عوام کو انگریزوں سے شدید نفرت ہو گئی تھی کیوں کہ ان فرنگیوں نے نہ صرف شاہان دہلی اور لکھنو کو پابند سلاسل کر کے ان کا تاج و تخت چھینا تھا بلکہ سندھ کے مقبول حکمران میران تالپور پر بھی ظلم و ستم ڈھائے تھے۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود وہ حالات کے سامنے بے بس تھے۔ سر سید احمد کی تعلیمی تحریک سے کراچی کے ایک بزرگ حسن علی آفندی نے متاثر ہو کر ’’نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن‘‘ کی شاخ قائم کی اور پھر 1885ء میں سر سید کے خیال کے مطابق مدرسۃ الاسلام کی بنیاد ڈالی۔ اس کو مزید تقویت پہنچانے کے لیے 1907ء میں کراچی میں مولانا الطاف حسین حالی کے زیرصدارت ’’آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس علی گڑھ‘‘ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں اور کئی تجاویز کے ساتھ وہ تجویز بھی منظور ہوئی جس کے تحت تعلیمی مقصد کے لیے سندھ کے مسلمان زمین داروں سے مال گزاری پر ایک پیسہ فی روپیہ ٹیکس کی درخواست کی گئی تھی۔ 1917ء میں سندھ میں مسلم لیگ کے قائم ہونے کے بعد وقتاً فوقتاً کانگریس اور مسلم لیگ کے اجلاس یہاں منعقد ہوتے رہے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران برصغیر کے تمام مسلمانوں کی ہمدردیاں ترکی اور دوسرے اسلامی ممالک کی طرف تھیں۔ فطری طور پر ترکی کے مسلمانوں پر اتحادیوں کے مظالم کی داستان سن سن کر سندھی عوام برطانوی سامراج سے متنفر ہو گئے۔ اور اس طرح برصغیر کے مسلمانوں کی جنگ آزادی میں سندھی عوام بھی دوش بدوش حصہ لینے لگے اور شمالی ہند سے ان کا گہرا رابطہ قائم ہو گیا۔ تحریک خلافت جو ترکی خلیفہ کی حمایت میں برصغیر کے مسلمانوں نے چلائی تھی، سندھی عوام نے اس میں بھی تن من دھن سے شرکت کی۔ تحریک خلافت کے علاوہ ’’خاکسار‘‘ اور ’’احرار‘‘ تحریکیں جب شروع ہوئیں تو اس میں بھی سندھی عوام کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ 1908ء میں مسلمانوں کو ہندوؤں کے استحصال سے بچانے کے لیے سندھ کو الگ صوبہ بنانے کی تحریک شروع ہوئی جو 1936ء میں کامیاب ہوئی اور سندھ کو ممبئی سے علیحدہ کر کے ایک صوبہ کی شکل دی گئی۔ اسی زمانہ میں سوشلسٹ تحریک کے تحت ’’ہاری‘‘ تحریک ظہور پذیر ہوئی جس کے روح رواں کامریڈ عبدالقادر تھے۔ غرض یہ دور تحریکوں کا دور تھا اور ان تمام تحریکات کی زبان اردو تھی۔ اردو ہی برصغیر کے تمام مسلمانوں کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک دھاگے میں پرونے کا کام دے رہی تھی۔ اس لیے 1885ء سے اردو نثر کا رواج سندھ میں زوروں پر ہوا۔ سندھی لیڈران تقریریں اردو میں کرتے اور مضامین بھی اخبارات اور رسائل میں اردو ہی میں کثرت سے شائع کراتے تھے۔ سندھی اور اردو اخبارات و رسائل کا بھی سندھ سے اجرا ہوا۔ بہت سی کتابیں مذہبی، ادبی، تنقیدی، سماجی اور فنی موضوعات پر اردو میں لکھی جانے لگیں۔ پیر جھنڈو کا خاندان اردو نثر نگاری میں اس لیے زیادہ قابل توجہ ہے کہ ان کے آباؤ اجداد پیر صبغت اللہ شاہ راشدی (متوفی 1830ئ) بہت عرصہ پہلے سید احمد شہید کی جہاد تحریک میں شامل ہو چکے تھے۔ اور اسی وقت سے ان کا گہرا تعلق برصغیر کے مجاہدین اسلام سے ہو چکا تھا۔ مذہب کے سلسلے میں پیر سید رشداللہ شاہ، پیر سید فضل اللہ شاہ، پیر سید بدیع الدین شاہ، مرزا قلیچ بیگ، مولانا عبیداللہ سندھی۔ مولانا عبداللہ لغاری، پیر صبغت اللہ شاہ ایرانی، مولانا محمد صاحب داد خان، آغا تاج محمد خان، مولانا فضل احمد غزنوی اور پروفیسر علی نواز جتوئی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان بزرگوں نے مذہب کے موضوع پر متعدد کتابیں لکھیں۔ ان میں خصوصیت کے ساتھ مرزا قلیچ بیگ ایسی شخصیت ہے جس نے اردو نثر میں مختلف اصناف پر متعدد کتابیں لکھیں ہیں۔ مولانا فضل احمد غزنوی نے تفسیر و احادیث کے موضوع پر بھی کتابیں لکھیں۔ ٭…٭…٭