صحت کی قدر کریں
اسپیشل فیچر
ذہنی و جسمانی صحت اللہ تعالیٰ کی بہترین نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ صحت کی نعمت کی قدر نہ کرنے والے افراد نہ صرف گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ اپنے ذہنی و جسمانی سکون کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ صحت و تندرستی اللہ تعالیٰ کی وہ بہت بڑی نعمت ہے جس سے دین و دنیا کے کام انجام پاتے ہیں۔ جو شخص اس دولت سے محروم ہوتا ہے وہ بہت سے دوسرے وسائل کے باوجود زندگی کی حقیقی لذت اور مسرت سے بے بہرہ ہوتا ہے۔ اس کے لیے سرشاری اور فکرو عمل کا وہ موقع نہیں رہ جاتا جو اسے روحانی سرور عطا کرسکے۔ صحت کی نعمت سے محروم شخص اپنی ذاتی قوت و صلاحیت کے استعمال سے معاشرے کی اصلاح و فلاح کے لیے خدمات انجام دینے کے قابل نہیں ہوتا۔ صحت کا فقدان صرف جسم ہی نہیں بلکہ دل ودماغ، خیالات و افکار، اعمال و افعال سب کو متاثر کرتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ صحت نعمت خداوندی اور دولت بے بہا ہے۔ جس کے پاس یہ دولت ہے وہ دنیا کا سب سے دولت مند انسان ہے اور جس کے پاس صحت نہیں ہے وہ سب سے بڑا مفلس ہے۔ صحت مند رہنے کے لیے دنیا بھر کے محققین نے کئی اصول وضع کیے ہیں۔ ان میں سے کچھ اصول ایسے ہیں جو کہ بظاہر عام سے ہیں لیکن ان کی افادیت مسلمہ ہے اور ان اصولوں پر عمل پیرا ہو کر نہ صرف صحت مند رہا جا سکتا ہے بلکہ لمبی زندگی بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ لمبی عمر پانے والوں پر امریکا کی ایک یونیورسٹی میں ایک تحقیق ہوئی جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ایسے افراد جن میں صحت کے معاملات کی سمجھ بوجھ زیادہ ہے، ان میں تمام وجوہ بشمول دل کے امراض اور دیگر خطرناک عوارض سے مرنے کی شرح کم ہے۔ محقق نے 65 برس اور اس سے زائد عمر کے افراد کی ایک فہرست مرتب کی اور ان کا انٹرویو کیا۔ دوران انٹرویو اس نے تقریباً ساڑھے تین ہزار افراد سے یہ باتیں معلوم کیں:ان کی تعلیم کتنی ہے؟، کیا کسی مزمن (طویل عرصہ سے جاری) بیماری کا شکار ہیں؟، صحت سے متعلق کس طرح کا رویہ رکھتے ہیں؟، صحت سے متعلق کتنی معلومات رکھتے ہیں؟، صحت سے متعلق معلومات پر کس حد تک عمل کرتے ہیں؟ان افراد کو اگلے پانچ سال تک زیر مطالعہ رکھا گیا اور اس عرصے میں جو افراد کم پڑھے لکھے تھے ان میں سے 29 فیصد فوت ہوئے جب کہ اس معاملے میں مکمل ان پڑھ افراد میں موت کی شرح تقریباً 40 فیصد تھی۔ محقق نے اپنے تجزیے سے یہ واضح کرنے کی کوشش بھی کی کہ شرح اموات کا تعلق سکول یا کام میں گزرے سالوں یعنی سکول و کالج کی تعلیم سے اتنا نہیں تھا جتنا اس بات سے کہ یہ افراد کتنی سرعت سے کسی تحریر کو پڑھ کر اور کس قدر اس پر عمل کرتے تھے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ ایسے ممالک جہاں پر شرح تعلیم زیادہ ہے وہاں پر صحت کی دیکھ بھال بھی آسان ہے اور وہاں کے لوگوں کی عمریں بھی لمبی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں نکالا جا سکتا ہے کہ پاکستان جیسے ملک، جہاں شرح خواندگی بہت کم ہے، میں صحت اور طویل العمری کے لیے کوئی قدم نہ اٹھایا جائے۔ شرح تعلیم تو بڑھنی ہی چاہیے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں بہت سا وقت درکار ہے تب تک بیماریوں کی شرح بڑھتی گئی تو اس میں بہت زیادہ نقصان ہے اور اس کی وجہ محض یہ نہیں ہونی چاہیے کہ افراد زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ میڈیا کے حوالے سے بھی صحت سے متعلق معلومات کی فراہمی بہتر عمل ہے لیکن میڈیا پر صحت سے متعلق چلنے والے پروگرام بہت کم ہیں اور جو ہیں وہ بھی بہت سے لوگ دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات، رسائل وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جو عوام الناس تک بآسانی پہنچ کر محفوظ رہ سکتی ہیں اور انہیں کسی بھی وقت پڑھا جا سکتا ہے۔ ان کے ذریعے آگہی پھیلائی جا سکتی ہے۔ ذیل میں ایسی علامات بیان کی جار ہی ہیں جو کہ صحت مند جسم کی نشان دہی کرتی ہیں۔تاکہ ہر انسان اپنے جسم کا بغور جائزہ لے کر اپنی صحت و تندرستی کا اندازہ کر سکے۔ صحت مندی کی علاماتنیند بھرپور ہوتی ہے۔ صبح جاگنے پر پھرتی اور امنگ ہوتی ہے۔ بھوک کی نوعیت نارمل رہتی ہے۔ تمام دن کے افعال و مشاغل میں دلچسپی برقرار رہتی ہے۔ پیٹ چھاتی سے کم ہوتا ہے۔ نشیلی اور متحرک کرنے والی اشیا کی خواہش پیدا نہیں ہوتی۔ انسان کو دلی طور پر خوشی محسوس ہوتی ہے اور روحانی طور پر مطمئن رہتا ہے۔ بغیر تھکاوٹ کے کئی گھنٹے تک کام کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ انسان بڑھ چڑھ کر تعمیری کاموں میں حصہ لیتا ہے۔ زبان میں شیرینی قائم رہتی ہے یعنی چڑاچڑا پن نہیں ہوتا۔ چہرہ پُررونق اور ہشاش بشاش ہوتا ہے۔ آنکھوں میں چمک اور بے خوفی نمایاں ہوتی ہے۔ چہرے پر مسکراہٹ رہتی ہے۔ جسم میں ہمیشہ جواں ہمتی اور قوت کا احساس رہتا ہے۔ پاخانہ باقاعدہ، صاف اور بندھا ہوا آتا ہے۔ تمام جسمانی افعال بآسانی ہوتے ہیں۔ ٭…٭…٭