صحرائے اعظم
اسپیشل فیچر
قدرت نے کائنات کے بعض خطوں میں کچھ ایسے سربستہ راز پوشیدہ کر رکھے ہیں جو انسانی نظر سے باہر ہیں۔ وہ اپنی تمام تر ترقی کے باوجود ان سے بے خبر رہا ہے۔ ان میں ایک صحارا کا لق و دق ریگستان ہے۔ دنیا کے اس سب سے بڑے صحرا کا زیادہ حصہ شمالی افریقہ کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہ علاقہ مصر سے سوڈان تک جبکہ مغرب میں ماریطانیہ اور سپین کی سرحدوں تک چلا جاتا ہے۔ درمیان میں کئی اور ممالک آتے ہیں جیسے الجزائر، چاڈ اور نائیجر وغیرہ۔ صحرائے صحارا کا رقبہ 92 لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔ اس کی وسعت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا رقبہ پورے ریاست ہائے متحدہ امریکا سے تھوڑا سا ہی کم ہے۔ ایک طرف اس کی سرحد بحیرۂ روم سے ملتی ہے۔ شمالی میں یہ صحرا اطلس کی پہاڑیوں تک پھیلا ہوا ہے۔ مغرب میں اس کی سرحد بحرالکاہل تک ہے اور مشرق میں یہ بحیرۂ احمر تک جاتا ہے۔ صحرائے صحارا کی سرحدی پٹی ہزاروں میل لمبی ہے۔ شمال اور جنوب میں اس صحرا کی کوئی واضح سرحدی لائن نہیں ہے لیکن یہاں میلوں چوڑا ایک ایسا چٹیل میدان ہے جو آہستہ آہستہ صحرا میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جنوب میں صحارا اور سوانا کے سرسبز میدان کے درمیان سوڈان کا وہ علاقہ ہے جو ’’ساحل‘‘ کہلاتا ہے۔ اس بے آب و گیاہ بنجر زمین پر نہ صرف خشک پہاڑ ہیں بلکہ اس کی سنہری ریت پر موجودہ چند نخلستان یوں دکھتے ہیں جیسے زیورات پر سبز پتھر جڑے ہوں۔ صحرائے صحارا مختلف ہموار میدانوں پر مشتمل ہے جو سطح سمندر سے کئی سو فٹ تک بلند ہیں۔ اس ریگستان میں ایسے میدان اور نشیب بھی ہیں جو سطح سمندر سے بہت نیچے ہیں۔ مثلاً نشیبی میدان ’’قطارا‘‘ سطح سمندر سے دو سو فٹ نیچے ہے۔ مجموعی طور پر صحارا باقی براعظم افریقہ سے نشیب میں واقع ہے۔ اس ریگستان میں پہاڑوں کے دو سلسلے ہیں۔ صحارا عربی لفظ ’’صحرا‘‘ کی جمع ہے جس کے معنی ’’ریگستان‘‘ کے ہیں لیکن اس صحرا کے مختلف حصوں کے اپنے علیحدہ علیحدہ نام بھی ہیں۔ یہ صحرا افریقہ کے دس ملکوں میں منقسم ہے۔ شمال میں مراکش، الجزائر، تیونس، لیبیا اور مصر ہیں۔ جنوب میں ماریطانیہ، مالی، نائیجر، چاڈ اور سوڈان ہیں۔ اس صحرا کا ایک 11 واں علاقہ بھی ہے جس کے بارے میں ماریطانیہ اور مراکش میں تنازعہ ہے۔ یہ علاقہ ’’مغربی صحارا‘‘ ہے۔ اکثر لوگ صحارا کو ریت کا ایک نہ ختم ہونے والا سمندر سمجھتے ہیں جس میں اڑتی ہوائیں، اس ریت کو ٹیلوں میں تبدیلی کرتی رہتی ہیں۔ درحقیقت ہوا جس انداز میں ریت کو ٹیلوں میں تبدیل کرتی ہے۔ اس سے یہ ایک حسین منظر بن جاتا ہے۔ یہ ٹیلے کئی سو فٹ کی بلندی تک ہوتے ہیں۔ ان کی اشکال بھی مختلف ہوتی ہیں۔ زیادہ تر علاقے کا موسم گرم اور خشک ہے جہاں ریت کے ٹیلے آگ کی مانند تپتے رہتے ہیں۔ خاص کر باہر سے داخل ہونے والی نسبتاً ٹھنڈی ہوائیں، خشک اور مرطوب ماحول کے باعث گرم جھکڑوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ دن کے وقت یہاں درجہ حرارت بہت بڑھ جاتا ہے۔ صحارا میں سب سے گرم مہینے جولائی اور اگست کے ہوتے ہیں جبکہ جنوبی حصے میںمئی اور جون سب سے زیادہ گرم ہوتے ہیں۔ ایک طرف دن کے وقت موسم اتنا گرم ہوتا ہے تو دوسری طرف راتیں بہت ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ رات کو درجہ حرارت غیر معمولی طور پر گر جاتا ہے اور شمالی کے بلند علاقوں میں کہرا اور برف تک جم جاتی ہے۔ تیز دھوپ کے علاوہ صحارا کے موسم کی ایک اہم خصوصیت وہ تیز ہوا ہے جو روز چلتی ہے اور اپنے ساتھ ریت اور مٹی لے کر آتی ہے۔ اس ریگستان میں ایسے مقامات بھی ہیں جو متعدد دنوں تک طوفان کی زد میں رہتے ہیں۔ یہاں موجود پہاڑوں اور دریاؤں کے باعث کچھ علاقوں پر بادل بھی برستے ہیں جو بادل نخواستہ بارش کے چند قطرے گراتے ہیں لیکن بعض اوقات سخت گرمی انہیں زمین تک پہنچنے سے قبل ہی خشک کر دیتی ہے۔ جبکہ ایک بڑے علاقے پر بادل نہ ہونے کی وجہ سے سورج کی تیز شعاعیں آسمان سے ریتلی زمین پر براہ راست پڑتی ہیں تو تپش کو مزید بڑھا دیتی ہیں۔ اس کے برعکس جب سورج غروب ہو جاتا ہے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صحرا کی ریت بھی ٹھنڈی ہوتی چلی جاتی ہے۔ صحارا بالکل چٹیل بھی نہیں ہے۔ اس میں کہیں کہیں پودے بھی اگتے ہیں۔ ایسے پودے جو صحرا میں پرورش پا سکتے ہیں اور جنہیں زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ صحارا کے شمالی علاقے میں کھجور کے درخت ہوتے ہیں جبکہ جنوبی حصہ میں کیکر اور مختلف قسم کی جھاڑیاں پائی جاتی ہیں۔ یہاں عام طور پر وہ کیڑے ہوتے ہیں جو زمین کھود کر اپنا گھر بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے جانور مثلاً ہرن، لومڑی، چیتا اور جنگلی کتے بھی پائے جاتے ہیں۔ بے آب و گیاہ اس صحرا میںیوں تو زندگی کا تصور خام خیالی محسوس ہوتا ہے لیکن یہاں صدیوں سے خانہ بدوش آباد ہیں۔ یہاں چار قسم کے لوگ آباد ہیں۔ ان میں زیادہ تر ’’بربر‘‘ نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ شمالی علاقہ میں عرب اور بربروں کی تعداد زیادہ ہے۔ مغرب میں مورز نسل کے افراد رہتے ہیں۔ جنوبی وسطی پہاڑیوں کے نزدیک توریگ آباد ہیں۔ جبکہ کچھ پہاڑیوں اور جنوبی صحارا میں ٹیڈا کی تعداد زیادہ ہے۔ ان لوگوں نے یہاں کے موسم اور حالات سے سمجھوتہ کر رکھا ہے۔ ٭…٭…٭