ڈرامے کی اقسام
اسپیشل فیچر
ڈرامے کی دو بڑی قسمیں حزنیہ (ٹریجڈی) اور طربیہ (کامیڈی) ہیں۔ ارسطو نے حزنیہ اور طربیہ کو یوں ممیز کیا ہے کہ حزنیہ غم آگیں اور اندوہناک واقعات پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کے کردار سنجیدہ، عظیم اور بالائی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس طربیہ کے واقعات مسرت اور خوشی کے جذبات کو ابھارتے ہیں۔ ان کا انجام بخیر ہوتا ہے اور اس کے کردار نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں کرداروں کی طبقاتی تقسیم ہی حزنیہ اور طربیہ کے مابین سب سے بڑی وجۂ امتیاز رہی ہے۔ چنانچہ سترہویں صدی عیسوی تک یہی کلیہ کار فرما رہا ہے کہ حزنیہ صرف اس وجہ سے حزنیہ نہیں کہ وہ تباہی و بربادی پر منتج ہو بلکہ ہر وہ ڈراما جس میں بادشاہوں اور عظیم انسانوں کو پیش کیا جائے اسے حزنیہ کہا جا سکتا ہے اور طربیہ صرف ادنیٰ طبقے کے کرداروں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن سترہویں صدی عیسوی کے بعد اس نظریے سے اختلاف ظاہر ہونا شروع ہوا۔ اٹھارہویں صدی تک ارسطو کی تقسیم بالکل باطل قرار دے دی گئی اور یہ نظریہ محکم صورت اختیار کر گیا کہ حزنیہ میں نہ صرف اونچے طبقے کے کرداروں سے ہمدردی کے جذبات پیدا کیے جا سکتے ہیں بلکہ زیریں طبقے کے کردار بھی جذبات کو ابھارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ موجودہ عہد میں حزنیہ کے لیے اعلیٰ طبقے کے کرداروں کی کوئی شرط نہیں ہے۔ البتہ حزن و ملال کا عنصر اس میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ اردو کے ممتاز نقاد، محقق اور ڈراما نویس عشرت رحمانی نے حزنیہ کی تین اقسام بیان کی ہیں۔ ایک وہ جس میں ’’حزن و ملال اور غم و الم کے سوا انجام تک طرب و نشاط کا کوئی عنصر شامل نہیں ہوتا۔‘‘ دوسری وہ ’’جس میں حزن قصے کا اصل جزو ضرور ہوتا ہے مگر سامعین کی خاطر یا تدبیر گری کے لحاظ سے شادمانی و طرب کا خفیف شائبہ شریک کر کے رنج و غم کے بار گراں کو کسی حد تک کم کر دیا جاتا ہے۔ مگر انجام غم ناک ہوتا ہے۔‘‘ اور حزنیہ کی تیسری قسم ان کی نگاہ میں طرب انگیز حزنیہ ہے ’’جس میں رنج و الم کے بھر پور پہلو نمایاں ہوتے ہوئے بھی انجام نیک اور طرب انگیز ہوتا ہے۔‘‘اور یہی ڈراما نویسی کی وہ صنف ہے جس سے ڈراما اپنے منتہائے کمال تک پہنچتا ہے۔ جرمن شاعر اور نقاد اے ڈبلیو شلیگل نے اسے ’’تخیل کی معراج‘‘ کہا ہے۔ دنیا بھر کے نقاد شلیگل کے اس نظریے کی تائید میں رطب اللسان نظر آتے ہیں۔ طربیہ ڈرامے عموماً ایسے واقعات پر مبنی ہوتے ہیں جن کی ابتدا خواہ کسی انداز میں ہوئی ہو وہ انتہا میں آ کر خوشی اور راحت پر منتج ہوتے ہیں۔ ان میں سنجیدہ اور شگفتہ پلاٹ ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور طنزیہ اور مزاحیہ عنصر بھی شامل ہوتا ہے، لیکن یہ مزاح اور طنز نہایت بلند پایہ اور اعلیٰ ہوتا ہے اور ابتذال و سوقیت کی حدوں کو نہیں چھوتا۔ ڈرامے کی ان دو بڑی اقسام کے علاوہ بعض ڈرامے ایسے بھی ہیں جو ان دونوں کی آمیزش سے وجود میں آتے ہیں۔ انہیں ’’ٹریجڈی کامیڈی‘‘ یا المطربیہ ڈرامے کہا جاتا ہے۔ میلو ڈراما اور فارس بھی انہیں سے ملتی جلتی اصناف ہیں۔ میلو ڈراما یونانی لفظ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں گیت۔ اس قسم کے ڈراموں میں گانوں کی کثرت ہوتی ہے اور بعض خصوصیات میں انہیں اوپیرا سے مشابہ کہا جا سکتا ہے۔ ’’فارس‘‘ میں مضحکہ خیز واقعات اور مبالغہ آمیز ظرافت سے تفریح و تفنن کا کام لیا جاتا ہے۔دونوں قسم کے ڈراموں میں کردار نگاری اور تاثر مفقود ہوتے ہیں، حالانکہ ہر دو اصناف المیہ اور طربیہ میں نہایت اہم مقام رکھتی ہیں۔ مزاحیہ ڈرامے کی ایک قسم ’’براسک‘‘ بھی ہے جس میں گھٹیا قسم کا مزاح پیش کیا جاتا ہے۔ کمتر درجے کے لوگ اعلیٰ اور شریف اشخاص کی نقلیں اتارتے ہیں اور اعلیٰ شخص رذیلوں کی حرکات اختیار کرتے ہیں۔ ان ڈراموں کا مقصد عام تماشائیوں کو سستی تفریح بہم پہنچانا ہوتا ہے۔ اوپیرا منظوم ڈراما ہے اور غنائیہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے، چاہے قصہ المناک ہو یا طربناک۔ ڈریم بھی مخلوط قسم کے ڈراموں کی ایک شاخ ہے۔ یہ نہ تو طربیہ کی طرح تفریح و تفنن کا سامان بہم پہنچاتے ہیں اور نہ المیہ کی طرح دہشت اور خوف کے جذبات بیدار کرتے ہیں۔ طربیہ سے یہ ڈراما اس لحاظ سے جدا ہوتا ہے کہ اس میں طربیہ کے مثالی کرداروں کی بجائے منفرد کردار ہوتے ہیں۔ حزنیہ سے یوں ممیز ہوتا ہے کہ اس میں جذبات و شخصیات کی پیش کش تو ہوتی ہے لیکن انجام غم ناک نہیں ہوتا اور نہ اس کے پلاٹ میں حزنیہ کی طرح عظمت و جلال کے احساسات پیدا ہوتے ہیں۔ ٭…٭…٭