تحریک علی گڑھ: وجوہات اور مقاصد
اسپیشل فیچر
برصغیر پاک و ہند میں 1857ء کی ناکام جنگ آزادی اور سقوطِ دہلی کے بعد مسلمانان برصغیر کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے جو کوششیں کی گئیں، عرف عام میں وہ ’’علی گڑھ تحریک ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ سر سید احمد خان نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کار فرما تھے۔ مثلاً راجا رام موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔لیکن سب سے بڑا واقعہ سقوطِ دلی کا ہی ہے۔ اس واقعے نے ان کی فکر اور عملی زندگی میں ایک تلاطم برپا کر دیا۔ اگرچہ اس واقعے کا اولین نتیجہ یا ردعمل تو مایوسی، پژمردگی اور ناامیدی تھا تاہم اس واقعے نے ان کے اندر چھپے ہوئے مصلح کو بیدار کر دیا علی گڑھ تحریک کا وہ بیج جو زیر زمین پرورش پا رہا تھا۔ اب زمین سے باہر آنے کی کوشش کرنے لگا چنا نچہ اس واقعے سے متاثر ہو کر سرسید احمد خان نے قومی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔ابتدا میں سرسید احمد خان نے صرف ایسے منصوبوں کی تکمیل کی جو مسلمانوں کے لیے مذہبی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس وقت سر سید احمد خان ’’قومی‘‘ سطح پر سوچتے تھے۔ اور ہندوئوں کو کسی قسم کی گزند پہنچانے سے گریز کرتے تھے۔ لیکن ورینکلر یونیورسٹی کی تجویز پر ہندوئوں نے جس متعصبانہ رویے کا اظہار کیا، اس واقعے نے سرسید احمد خان کی فکری جہت کو تبدیل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اب ان کے دل میں مسلمانوں کی الگ قومی حیثیت کا خیال جاگزیں ہو گیا تھا اور وہ صرف مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود میں مصروف ہو گئے۔ اس مقصد کے لیے کالج کا قیام عمل میں لایا گیا اور رسالے نکالے گئے تاکہ مسلمانوں کو ترقی کے دھارے میں شامل کیا جائے۔1869 ء میں سرسید احمد خان کو انگلستان جانے کا موقع ملا۔ یہاں پر وہ اس فیصلے پر پہنچے کہ ہندوستان میں بھی کیمبرج کی طرز کا ایک تعلیمی ادارہ قائم کریں گے۔ وہاں کے اخبارات سپکٹیٹر اور گارڈین سے متاثر ہو کر سرسید نے تعلیمی درس گاہ کے علاوہ مسلمانوں کی تہذیبی زندگی میں انقلاب لانے کے لیے اسی قسم کااخبار ہندوستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اور ’’رسالہ تہذیب الاخلاق‘‘ کا اجرا اس ارادے کی تکمیل تھا۔ اس رسالے نے سرسید کے نظریات کی تبلیغ اور مقاصد کی تکمیل میں اعلیٰ خدمات سر انجام دیں۔اس تحریک کے مقاصد کے بارے میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ مثلاً احتشام حسین اس تحریک کے مقاصدکا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس تحریک کے کئی پہلوئوں میں نئے علوم کا حصول، مذہب کی عقل سے تفہیم، سماجی اصلاح اور زبان و ادب کی ترقی اور سربلندی شامل ہیں۔ جبکہ رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ اس تحریک کے مقاصد میں مذہب، اردو ہندو مسلم تعلقات، انگریز اور انگریزی حکومت، انگریزی زبان، مغرب کا اثر اور تقاضے وغیرہ چند پہلو شامل ہیں۔سیاسی زاویے سے دیکھا جائے تو جنگ آزادی کے بعد اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد مسلمان قوم جمود اور اضمحلال کا شکار ہو چکی تھی۔ جبکہ ہندوئوں نے انگریزوں سے مفاہمت کی راہ اختیار کر لی اور حکومت میں اہم خدمت انجام دے رہے تھے۔ ان کے برعکس مسلمان قوم جو ایک صدی پہلے تک ساری حکومت کی اجارہ دار تھی اب حکومتی شعبوں میں اس کا تناسب کم ہوتے ہوتے ایک اور تیس کا رہ گیا۔ علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں کی اس پسماندگی کو سیاسی انداز میں دور کرنے کی کوشش کی۔ کالج اور تہذیب اخلاق نے مسلمانوں کی سیاسی اور تمدنی زندگی میں ایک انقلاب برپا کیا۔ اور انھیں سیاسی طور پرایک علیحدہ قوم کا درجہ دیا۔مذہبی حوالے سے سرسید احمد خان نے مذہب کو فعال بنانے کی کوشش کی۔ ایک ایسے زمانے میں جب مذہب کے روایتی تصور نے ذہن کو زنگ آلود کر دیا تھا، سرسید احمد خان نے عقل سلیم کے ذریعے اسلام کی مدافعت کی اور ثابت کر دیا کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو نئے زمانے کے نئے تقاضوں کو نہ صرف قبول کرتا ہے بلکہ نئے حقائق کی عقلی توضیح کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔