جھوٹ :حق و سچ کی ضد
اسپیشل فیچر
مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، دین کے ارکان کے علاوہ یہ حقیقت بھی ظاہر کی جاتی تھی کہ جھوٹ سچائی کی ضد ہے۔آج سے تم سچائی اپنا رہے ہواور جھوٹ جیسی لعنت کو چھوڑ رہے ہو۔جھوٹ کفر کی چھوٹی شکل نہیں ہے بلکہ بڑی شکل ہے۔جب کوئی جھوٹ چھوڑتا ہے تو وہ سچائی اپناتا ہے اور جب کوئی سچائی چھوڑتا ہے تو جھوٹ کو اوڑھنا بچھونا بنا لیتا ہے۔ جھوٹ کو اسلام یا حق کی ضد بتایا گیا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ جھوٹا سب کچھ ہو سکتا ہے مگر وہ قابل اعتبار نہیں ہوتا۔جھوٹا جھوٹا ہوتا ہے وہ حق کے خلاف محاذنہیں سنبھال سکتا، حق کی ہر بات اس پر ناگوار گزرتی ہے۔جب کوئی اس سے کہتا ہے کہ میاں (مسلمان) ہوکر تم جھوٹ بولتے ہو۔تو وہ صاف کہتا ہے کہ ’’ میں جھوٹ نہیں بولتا‘‘وہ اس حد تک گر جاتا ہے کہ جھوٹ کو لعنت کے طور پر اختیار کر لیتا ہے ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے سو جتن کرتا ہے بلکہ سو جھوٹ بولنا گوارا کر لیتا ہے مگر سچائی کو اپنے سے دور رکھنا پسند کرتا ہے۔ان بیچاروں کی مجبوری ہوتی ہے کیونکہ خاندان میں جب سچ کا چلن نہیں ہوتاتو وہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ سچ بولنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔جھوٹ بولنے والا وعدہ خلاف بھی ہوتا ہے اور خائن بھی ۔ جھوٹ ، خیانت اور وعدہ خلافی منافقوں کی پہچان بتائی گئی ہے ایک اور پہچان ہے کہ کسی سے ان بن ہوجائے تو گالی گلوچ پر اتر آتا ہے یعنی ساری حدیں پار کر جاتا ہے۔جب کسی شخص میں یہ بری عادتین جمع ہو جاتی ہیں تو وہ پکا منافق کہلاتا ہے جب ان ساری بری عادتوں کو ترک کرنے والے کی جان بھی چلی جاتی ہے جب بھی جھوٹ نہیں بولتا تووہ پکا مومن کہلاتا ہے اور ایسا شخص عزیمت کی زندگی گزارتا ہے۔ عظمت اور عزت صرف اسی کا حصہ ہوا کرتی ہے اسی لئے یہ عزت دائمی ہوتی ہے۔ زندگی جو دو حصوں میں تقسیم ہے ایک عارضی اوردوسری مستقل وہ دونوں زندگیوں میں فلاح یاب اور کامیاب ہوتا ہے اورعزت و عظمت سے ہمکنار ہوتا ہے۔جھوٹ اگر کسی معاشرے میں نہ ہو تو وہ معاشرہ کیسا ہو سکتا ہے اسی حقیقت کوبیان کرکے میں اپنی بات ختم کرنا چاہتا ہوں۔دعا کیجئے کہ یہ مضمون جس حصہ پر ختم کرنے جا رہا ہوں اسے پڑھ کر کچھ لوگ جھوٹ بولنا بند کردیں سچائی اور صداقت کو گلے لگالیں اور جھوٹ بولنے سے سچی توبہ کر لیں کہ اب زندگی بھر جھوٹ نہیں بولیں گیں چاہے کچھ بھی ہو جائے۔دیکھئے سماج میں جھوٹی گواہی کا چلن عام ہے۔ جھوٹی گواہی کے لئے کرائے کے لوگ عدالتوں کے دروازوں پر کھڑے رہتے ہیں کوئی مقدمہ گواہی کے بغیر مضبوط نہیں ہو تااگر جھوٹے گواہ سماج میں نہ ملیں تو وارداتیں کم ہو جائیں اور سچے گواہ ملنا آسان ہو جائیں تو وارداتوں میں اور بھی کمی ہو جائے سچائی عام ہو جائے تو وارداتوں کا خاتمہ ہو جائے۔ دیکھئے جھوٹ کی لعنت سے پاک سماج کتنا اچھاہو سکتا ہے۔لوگ سچ اس لئے کم بولتے ہیں کہ سچائی پر ان کا یقین کمزور ہوتا ہے۔جھوٹ اس لئے زیادہ بولتے ہیں کہ اس کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ فائدہ مند ہے۔اسی عارضی فائدہ پرجان دیتے ہیں اور حق سے کوسوں دور ہوجاتے ہیں ۔حق بھی ان سے دور رہتا ہے حق پرستی کی بجائے ہرپرستش کو گلے لگائے رہتے ہیں۔دنیا پرستی، دولت پرستی،منصب پرستی،تعصب پرستی ،خود پرستی،خاندان پرستی،ملک پرستی سب میں انھیں عزت ہی عزت دکھائی دیتی ہے۔حق پرستی ان کے لئے گھاٹے کا سودا ہوتا ہے جبکہ حق یہ ہے کہ حق سے دور رہنے والا اللہ سے دور رہتا ہے۔شیطان سے قریب ہوتا ہے اور بسا اوقات شیطان سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے۔٭…٭…٭