والدین کا سایہ
اسپیشل فیچر
والدین کی مثال گلشن کے مالی کی مانند ہے جن کے وجود سے ہی بہار ہے۔ جن کی محنتوں و مشقتوں، فکر وخیال سے ایک سر سبز وشاداب، مہکتا لہکتا، دلوں کو سرور بخشتا باغ جنم لیتا ہے۔ ایسے ہی ظاہری اسباب میں والدین انسان کے وجود اور پھر اس کی بقا اور ارتقا کے ضامن ہوتے ہیں۔ وہ اولاد میں علم و عمل، اعلیٰ اخلاق، بلند کردار، رشد و ہدایت اور صدق و صفا کے تخم ڈال کر بہترین تعلیم و تربیت کے ذریعے پروان چڑھاتے ہیں۔ جہاں جہاں کانٹ چھانٹ کی ضرورت ہوتی ہے وقت و حالات کی مناسبت سے کرتے رہتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ان پھولوں کو تکلیف تو ہوتی ہے مگر درحقیقت وہ سنور و نکھر جاتے ہیں اور ہر دیکھنے والی آنکھ کو بھاتے ہیں۔ ماں رحمتوں کی کہکشاں ہے تو باپ شفقتوں کا سائباں۔ ماں کے قدموں تلے جنت ہے تو باپ اس جنت کا دروازہ ہے۔ اولاد کو پیاس لگتی ہے تو بیتابی ماں کو ہوتی ہے، بھوک سے بچہ بلبلاتا ہے تو روزی باپ ڈھونڈ کر لاتا ہے۔ زخم اس کو لگتا ہے تکلیف ماں کو ہوتی ہے، بیمار یہ ہوتا ہے تو باپ طبیبوں کے در کھٹکھٹاتا ہے۔ جب خوشیاں آتی ہیں تو والدین اپنی خواہشات کو قربان کرکے ہمیں خوش کرتے ہیں۔ والدین کے وجود کو ایک بے بدل سرمایہ جان کر ان کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے۔ ہمارے والدین کا سایہ ہم پر مولا کا بے پایاں انعام و اکرام ہے۔ یہ وہ انمول خزانہ ہے جو بہت ہی نایاب اور قیمتی ہے۔ والدین وہ عظیم الشان ہستیاں ہیں جن پر نظر پڑتے ہی دل کو چین اور روح کو قرار حاصل ہوجاتا ہے۔ زندگی کے رنگ انہی کے سنگ ہیں۔ یہ نعمت جس کے پاس موجود ہے وہ دنیا کا امیر ترین انسان ہے بھلے اس کے پاس دنیا کی کوئی آرائش و آسائش کا سامان نہ ہو۔ اس کے مقابلے میں وہ شخص جو دنیا کی آسائشوں اور آسانیوں میں گھراہو، مالا مال ہو لیکن والدین کی نعمت سے محروم ہو، درحقیقت وہی اصلی محروم ہے ۔اسی بات کو زیادہ بلاغت سے شاعر نے کہا،اے ضیا! ماں باپ کے سائے کی ناقدری نہ کردھوپ کاٹے گی بہت جب یہ شجرکٹ جائے گا قرآن مجید فرقانِ حمید میں والدین سے متعلق کئی مقامات پر احکام ارشاد ہوئے ۔ 1۔ والدین پر خرچ کیجیے ۔ 2 ۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کیجیے ۔3 ۔ انہیں اف نہ کہیے۔ 4 ۔ والدین کو نہ جھڑکیں ۔ 5۔ والدین سے نرمی سے بات کریں ۔ 6۔ والدین کی اطاعت میں اپنے بازو محبت سے بچھا دیں ۔ 7۔اگر والدین اللہ کی نافرمانی کا کہیںتو اس صورت میں والدین کی اطاعت نہ کریں ۔ 8۔ ان کیلئے رحمت خداوندی طلب کریں۔ 9۔ مرنے کے بعد ان کیلئے بخشش طلب کریں ۔ پیارے آقا ﷺ نے والدین کو اعلیٰ وبالا مقام و مرتبہ عطا کر کے ان کی شان کو بلند فرمایا ۔ ان کی عظمت کو اجاگر کرتے ہوئے اولاد کو ان سے حسن سلوک کا معاملہ کرنے کا حکم دیا۔احادیث میں آتا ہے کہ والدین کے ساتھ بہترین سلوک رزق و عمر میں برکت کا سبب ہے۔ (بخاری ومسلم)آپ ﷺنے فرمایا جو اولاد اپنے والدین کی فرمانبردار ہو اور اپنے والدین کو عزت ومحبت کی نظر سے دیکھے تو اسے ہر نظر کے بدلے مقبول حج کا ثواب ملتا ہے۔ (شعب الایمان و البیہقی )حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا ’’دنیا میں میرے حسن سلوک کے مستحق کون لوگ ہیں‘‘ آپؐ نے فرمایا : ’’تیری ماں‘‘ اس نے عرض کی ’’پھر کون ؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا ’’تیری ماں‘‘، اس نے عرض کیا پھر کون؟ فرمایا : ’’تیری ماں‘‘۔ چوتھی مرتبہ اس نے پوچھا تو آپ ﷺنے فرمایا ’’تمھارا باپ‘‘۔ ( صحیح البخاری)جن لوگوں کے ساتھ ان کے والدین کی دعائیں ہوتی ہیں وہ ترقیوں کی منازل خود بخود طے کرتے چلے جاتے ہیں۔ کامیابیاں ان کے قدم چومتی ہیں۔ وہ مٹی میں ہاتھ ڈالیں تو سونا بن جاتی ہے۔ آئیے!عہد کریں کہ جب تک ہمارے والدین زندہ ہیں ان کی تابعداری ، فرمانبرداری اور اطاعت گزاری سے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائیں گے۔ اور ان کی نافرمانی اور معصیت سے اجتناب کر کے ان کی دعائیں سمیٹیں گے۔