جذبات اور احساسات
اسپیشل فیچر
ہمارے ذہنی اعمال کا ایک اہم مرحلہ یا پہلو ہمارے احساسات سے مرتب ہوتا ہے۔ ہم سوچتے ہیں، محسوس کرتے ہیں۔ ہم محض ذی شعور ہی نہیں ہیں بلکہ جذبات بھی رکھتے ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جدید نفسیات ہمارے احساسات کے بارے میں کیا کہتی ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ احساسات زندگی میں عظیم قوت محرکہ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ احساسات وہی کام کرتے ہیں جو پٹرول کسی کار کے لیے یا بھاپ ریل کے انجن کے لیے کرتی ہے۔ کوئی شخص جذبات کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ بلاشبہ ایسے لوگ ضرور موجود ہیں جو جذبات کی مذمت کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اپنی زندگی سے جذبات کو بے دخل کر دینا ہرگز مفید نہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ سماجی اور معاشرتی نظم و ضبط کا مقصد ہر قسم کے احساسات کے اظہار سے پرہیز کرنا ہے کیونکہ ایسا کرنا شائستگی کے لیے ضروری ہے۔ اگرچہ اس قسم کے نظریات میں تھوڑی بہت سچائی تو ہے لیکن یہ جذبات کے خلاف ایک بغاوت ہے جس کے مفید نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ حد سے زیادہ جذباتیت بھی خطرناک ہے، کیونکہ یہ ہمیں دانش مندانہ اقدامات کرنے سے روکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غصے کے عالم میں انسان ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے۔ غصہ ایک شدید جذبہ ہے۔ غصے کے عالم میں آپ نہ صرف یہ بات ظاہر کر رہے ہوتے ہیں کہ آپ کو خود پر قابو نہیں رہتا، بلکہ آپ خود کو اس ناگوار صورت حال سے نمٹنے کے لیے عملی طریقے سے سوچنے سے بھی محروم کر لیتے ہیں۔ جب آپ غصے میں بے قابو ہوتے ہیں تو اپنی شخصیت پر آپ کی گرفت ڈھیلی ہو جاتی ہے۔اسی طرح غیر ضروری خوف بھی نقصان دہ ہے۔ خوف کی انتہائی صورتوں میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ آپ کے ہاتھ پاؤں شل یا مفلوج ہو جاتے ہیں اور آپ اسی مقام پر کھڑے رہ جاتے ہیں جہاں خطرے کے امکانات ہوتے ہیں۔ یہی وہ طے شدہ بات تھی جس سے بعض مفکرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ غیر ضروری جذباتیت خطرناک ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے جذبات کے اظہار سے گریز کرنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے جس کے باعث بعض حلقے ہر قسم کے جذباتی اظہار کی مذمت کرتے تھے۔ اس دنیا کو بہتر اور خوش گوار بنانے کے لیے جن لوگوں نے بھی کام کیا ہے ان کے کارناموں کے پیچھے جذباتی محرکات ضرور تھے، جذبات کو بے دخل کر دینا گویا ایک عظیم قوت محرکہ سے محروم ہونے کے مترادف ہے۔ جہاں دلچسپی کا عنصر موجود ہو گا وہاں مشکل اور ناگوار کام بھی آسان اور خوشگوار بن جائے گا۔ ذرا سوچیں کہ عشق کس طرح انسانی شخصیت کو تبدیل کر کے رکھ دیتا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ حب الوطنی کا جذبہ کس طرح انسان کو شجاعت پر ابھارتا ہے اور اس کی قوت برداشت میں اضافہ کر دیتا ہے۔ مذہبی جذبات ہی کو لیجیے کہ آدمی اپنی جدوجہد کے دوران موت تک کو قبول کرنے میں بھی ذرا نہیں ہچکچاتا۔ عمدہ اور پسندیدہ جذبات ہمیں عظمت کی ان بلندیوں تک پہنچاتے ہیں جہاں منطقی دلائل کے پَر جلتے ہیں۔ چنانچہ اس بحث سے یہ ثابت ہوا کہ احساسات اور جذبات کی قوت انسانی زندگی میں اہم کر دار ادا کرتی ہے۔ تاہم احساسات اور جذبات کو اعتدال کی حدود میں رکھنا بے حد ضروری ہے۔ ہمیں اپنے جذبات کو مکمل طور پر دبانا بھی نہیں چاہیے اور نہ ہی انہیں کھلی چھٹی دے دینی چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں اپنے جذبات کو معتدل رکھنے کے لیے اپنی عقل اور ذہانت کو استعمال کرنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم عقل کی مدد سے غور کریں لیکن عمل کرتے ہوئے جذبات اور احساسات کی قوت کی مدد سے مقصد کے حصول کے لیے آگے بڑھا جائے۔ یاد رکھیں دنیا میں جتنے بڑے آدمی گزرے ہیں انہوں نے یہی طریقہ اختیار کیا تھا۔ یعنی پہلے انہوں نے نصب العین کے بارے میں خوب غور کیا اور پھر اس پر اپنے تمام تر جذبات کی مددسے عمل پیرا ہوئے۔ آپ نے دیکھا کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب رہے۔ ہمیں اپنے عمدہ جذبات کی قدر کرنی چاہیے۔ یہ بات سب پر واضح ہے کہ ہمارے بعض جذبات اور احساسات بعض دوسرے جذبات اور احساسات کے مقابلے میں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ بہتر ہے کہ ہم نفرت کی بجائے محبت سے، خوف کی بجائے شجاعت سے، مایوسی کی بجائے امید سے، غصے کی بجائے تحمل مزاجی سے اور تنگ نظری کی بجائے فراخ دلی سے زندگی گزاریں۔ ٭…٭…٭