معروف ماہرِ عمرا نیات , ایمائل درکھائم
اسپیشل فیچر
ایمائل درکھائم دور جدید کا عظیم فرانسیسی ماہر عمرانیات یا سماجیات گزرا ہے جس نے سماجی علوم میں تحقیقی فکر و نظر کی ترقی میں نمایاں حصہ لیا۔ وہ اہم ترین ماہرین سماجیات یا عمرانیات میں شمار ہوتا ہے۔ وہ 15 اپریل 1858ء کو پیدا ہوا۔ اس نے عمرانیات میں ڈبلیو، ای، بی ڈوبس، کارل مارکس اور میکس ویبر کی طرح ایک مکتب فکر کی بنیاد رکھی۔ اسے جدید سماجی سائنس کا معمار تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے کام کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ دور جدید میں کس طرح معاشروں کو مربوط رکھا جا سکتا ہے۔ اس کی چار تصانیف اساسی نوعیت کی ہیں۔ ’’سماج میں طبقاتی تقسیم، سماجی تحقیق کے اصول، خودکشی، مذہبی زندگی کی ابتدا‘‘۔ ان کے علاوہ اس نے بہت بڑی تعداد میں مضامین اور مقالے لکھے اور لیکچر دیے۔ پہلے بورڈیوکس یونیورسٹی میں اور بعد میں سوربون یونیورسٹی میں درکھائم عمرانیات کا پروفیسر رہا۔سماجی حقیقت (سوشل فیکٹ) کی جتنی سائنسی اور جامع تشریح درکھائم نے کی ہے اس سے عمرانیات کی تحقیق کے طریقوں میں جدید زاویوں کی تلاش میں مدد ملی۔عمرانی تحقیق میں درکھائم نے تجزیاتی فکر و انداز پر بڑی عالمانہ روشنی ڈالی۔ درکھائم کو سمجھنے کے لیے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اس کی فکر پر انگریزی تجرباتی انداز اور افادیت پسندی کے ساتھ ساتھ جرمن مثالیت کا گہرا اثر ہے۔ ان دونوں کے بین بین درکھائم نے ایک نئے انداز فکر کی بنیاد ڈالی۔ درکھائم کا ایک اہم کارنامہ نظریہ تمدن ہے جس میں اس نے اجتماعی نمائندگی (Collective Representation) کے تصور سے بحث کی ہے۔ درکھائم کی عمرانی یا سماجیاتی فکر کو سمجھنے کے لیے یہ پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ اس کی تحریروں میں تمدن کے تقابلی اور ارتقائی پہلو دونوں اہمیت کے حامل ہیں۔ جدید سماجیاتی فکر کی تشکیل و ارتقا میں درکھائم کی تخلیقات کا سب سے زیادہ اثر رہا ہے۔ اس کی وفات کے بعد ’’تعلیم کی سماجیات‘‘ اور تعلیم میں اخلاقیات‘‘ وغیرہ اور کچھ مقالے شائع ہوئے۔ درکھائم کے سماجی تصورات میں سماجی حقیقت کو ایک ایسی چیز یا شے سمجھا گیا ہے، جس کی دو خصوصیات ہیں۔ ایک خارجی ساخت اور دوسری اس کی موضوعی (سبجیکٹوو) نہ ہوتے ہوئے ٹھوس سائنسی حقیقت ہونا۔ اس کا مفہوم ہے کہ سماجی حقیقت کسی عالم کی اپنی سوچ نہیں ہے بلکہ وہ کئی لوگوں کے ذریعہ محسوس کی گئی ہے اور اجتماعی شعور پر مبنی ہے۔ اجتماعی نمائندگی (collective representation)کا فلسفہ بھی اسی کا ایک پہلو ہے۔ ہر سماج میں کئی نظریے، جذبات اور احساسات دوسرے سماج سے الگ ہوتے ہیں اور وہ سماج کی اکثریت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ ہر سماج کے لیے معیار مقرر کرتے ہیں اور سماجی دباؤ اور کنٹرول قائم رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ کچھ افراد ان معیارات کو رد کر سکتے ہیں لیکن اکثر کی اہمیت غالب رہتی ہے اور ان معیاروں کا کنٹرول قائم رہتا ہے۔ سماج میں طبقاتی تقسیم نامی مقالے میں اس نے الگ الگ کاموں کے لیے الگ الگ طبقے کی ضرورت ظاہر کی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ یہ تقسیم کاری علیحدگی پسندی کو جنم دیتی ہے لیکن سماج کے تمام گروہوں اور اکائیوں کے درمیان ایک دوسرے سے تعلق اور انحصار بھی پیدا کرتی ہے۔ ’’مذہبی زندگی کی ابتدائی اشکال‘‘ میں اس کے خیال میں مذہب سماج میں ایکتا پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس نے خود کشی کی جو تھیوری پیش کی وہ اس کی کتاب ’’خودکشی‘‘ میں موجود ہے۔ اس کے نزدیک خود کشی ایک سماجی واقعہ ہے صرف غریبی اور مایوسی سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ اس کے نظریہ کے مطابق مندرجہ ذیل خود کشی کی شکلیں ہو سکتی ہیں۔ انا پر منحصر خودکشی: جب معاشرہ انسان کو اکھاڑ پھینکتا ہے اور کسی خطا یا جرم کے سبب اس کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے تو وہ اکثر سماج کو چھوڑ کر اس کی نفی کر سکتا ہے اور پوری طرح معاشرے سے دوری صرف خودکشی کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ بے غرض خود کشی: یہ وہ صورت حال ہوتی ہے جب کوئی فرد واحد کسی خاص مقصد کے حصول کے لیے ایسا کرتاہے۔ ستی، خودکش حملہ وغیرہ اس قسم ہی کی خودکشی ہوتی ہے۔ غیر فطری دباؤ کے تحت خودکشی: زندگی میں اچانک ہونے والی تبدیلیاں کچھ لوگوں کے لیے بے حد گھٹن پیدا کرتی ہیں۔ اچانک کسی امیر آدمی کے لیے دیوالیہ بن جانا ایسا ہی صدمہ ہوتاہے اوروہ اسے جھیل نہ پانے کے سبب دنیا چھوڑ سکتا ہے۔ درکھائم کے کچھ اور نظریے بھی بہت مشہور ہوئے مثلاً ’’علم کی سماجیات‘‘ اور ’’سماجی تبدیلی‘‘۔ علم کی سماجیات میں اس نے اجتماعی انداز فکر کو ہر قسم کے علم اور تحقیق کی بنیاد بتایا ہے۔ سماجی بدلاؤ کے لیے اس نے انحرافی برتاؤ اور سماج میں ہونے والی غیر منظم تحریکات کو ذمے دار قرار دیا ہے۔ سماج میں گڑبڑ سے انسان کے اندر بھی مایوسی اور منفی انداز فکر پیدا ہوتا ہے اور وہ انحرافی برتاؤ پر اتر آتا ہے۔ مختصراً درکھائم وہ مفکر ہے جس نے سماج کو سب سے اہم اور مرکزی قوت کی شکل میں پیش کیا۔ عمرانیات کے مفکر کے طور پر اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عمرانیات کو ایک تحقیقی سائنس کی شکل دینے میں اس کی کوششوں کا خصوصی کردار ہے۔