نوین تاجک
کوئی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ 70ء اور 80ء کی دہائی میں سرکاری ٹی وی سے اعلیٰ درجے کے ڈرامے پیش کیے جاتے تھے۔ ان میں ڈرامہ سیریز بھی ہوتی تھیں اور طویل دورانیے کے ڈرامے بھی ہوتے تھے۔ ان ڈراموں کی مقبولیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کی مشہور فلم اکیڈمی پونا انسٹیٹیوٹ میں یہ ڈرامے دکھائے جاتے تھے۔ 70ء کی دہائی میں اشفاق احمد نے ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ کے عنوان سے طویل دورانیے کے ڈرامے تحریر کرنا شروع کیے۔ ان میں ایک معرکہ آرا ڈرامہ ’’قراۃ العین‘‘ بھی تھا۔ اس ڈرامے کو اب بھی ٹی وی کے بہترین ڈراموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس ڈرامے میں جس اداکارہ نے بہت شہرت حاصل کی ان کا نام ہے نوین تاجک جو عیسائی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔نوین تاجک نے اس کے بعد بھی کئی اور ٹی وی ڈراموں میں کام کیا اور اپنی خوبصورت اداکاری سے ان گنت لوگوں کو متاثر کیا۔ ’’قراۃ العین‘‘ میں ان کے ساتھ جس نے مرکزی کردار ادا کیا ان کا نام تھا جمیل ربانی۔ یہ جمیل ربانی بعد میں کہاں گئے اس کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔ ان کی فطری اداکاری کو بھی بہت پسند کیا گیا۔ ٹی وی ڈرامہ پروڈیوسرز نے نوین تاجک کی خداداد صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انہیں بڑے اچھے کردار دئیے۔ ان کی خوش بختی تھی کہ انہیں ٹی وی پر بہت اچھے اداکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ نوین تاجک کو فلموں میں بھی کاسٹ کیا گیا۔ انہوں نے سب سے پہلے سید کمال کی مشہور پنجابی فلم ’’اج دیاں کڑیاں‘‘ میں 1977ء میں کام کیا۔ یہ ایک مزاحیہ فلم تھی۔ اس میں وہ کمال کی بیٹی بنی تھیں اور وہ فلم میں اپنی پانچ بہنوں کے ساتھ کالج میں پڑھ رہی ہیں۔ اس میں ان کے ساتھ جمشید انصاری مرحوم تھے۔ اس فلم میں انہوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں اداکاری کی۔سید کمال کی یہ فلم 1976ء میں ریلیز ہونے والی ان کی فلم ’’جٹ کڑیاں توں ڈردا‘‘ کا دوسرا حصہ تھا۔ ’’جٹ کڑیاں توں ڈردا‘‘ کی طرح ان کی یہ فلم بھی سپرہٹ ثابت ہوئی۔ 1978ء میں انہیں ہدایتکار ایس سلیمان نے اپنی سپرہٹ فلم ’’پرنس‘‘ میں کاسٹ کیا۔ اس میں انہوں نے ندیم کی چھوٹی بہن کا کردار ادا کیا تھا۔ ان پر مہناز کا گایا ہوا یہ گانا بہت ہٹ ہوا تھا ’’یہ دل کی صدا ہے‘‘۔ 1978ء میں ہی ان کی فلم ’’پرکھ‘‘ نے بھی کامیابی حاصل کی۔ یہ جان محمد کی فلم تھی۔ اسی سال ان کی پنجابی فلم ’’غازی علم الدین شہید‘‘ بھی کامیاب ہوئی۔ اس فلم میں ان کے ساتھ اداکار حیدر تھے۔ پہلے عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ نوین تاجک شائد پنجابی فلموں میں کامیاب نہ ہو سکیں لیکن انہوں نے ثابت کیا کہ اگر انہیں مناسب کردار دئیے جائیں تو وہ پنجابی فلموں میں بھی اپنے فن کی دھاک بٹھا سکتی ہیں۔1979ء میں ان کی سب سے اہم فلم ’’خاک اور خون‘‘ ریلیز ہوئی۔ یہ نیف ڈیک کے زیراہتمام بنائی گئی تھی اور یہ تحریک پاکستان کے حوالے سے تھی۔ اس فلم میں ان کے ساتھ کئی منجھے ہوئے اداکار تھے۔ ان کے ساتھ ہیرو کا کردار اداکار فراز نے ادا کیا تھا۔ یہ بھی بعد میں اچانک غائب ہو گئے۔ بعد میں علم ہوا کہ وہ شوبز چھوڑ گئے۔ شجاعت ہاشمی نے بھی اس فلم میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ’’خاک اور خون‘‘ کے ہدایتکار مسعود پرویز تھے۔ایس اے بخاری کی فلم ’’کس نام سے پکاروں‘‘ میں بھی نوین تاجک نے اچھا کام کیا۔ وہ ٹی وی کے ان فنکاروں میں شامل ہو گئیں جو فلموں میں بھی کامیاب ہوئے۔ 1979ء میں بننے والی یہ فلم اگرچہ باکس آفس پر زیادہ کامیاب نہ ہو سکی لیکن نوین تاجک کی اداکاری کو سراہا گیا۔ اسی سال ان کی فلم ’’پاکیزہ‘‘ بھی ریلیز ہوئی۔ جس کے ہدایتکار تھے پرویز ملک۔ اس میں نوین تاجک کے ساتھ ندیم اور شبنم تھے۔نوین تاجک کا فلمی سفر کامیابی سے جاری تھا کہ یکایک انہوں نے شوبز کو خیرباد کہہ دیا۔ ان کے والد فوجی افسر تھے اور انہیں کرنل تاجک کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ہدایتکار ایس سلیمان کے مطابق نوین تاجک امریکہ چلی گئی تھیں اور انہوں نے وہیں شادی کر لی۔ وہ امریکہ میں ہی مقیم ہیں۔ البتہ ان کے ڈرامے اور فلمیں ابھی تک لوگوں کو یاد ہیں۔ انہوں نے جتنا کام کیا‘ بہت اچھا کیا جس پر انہیں ہمیشہ خراج تحسین پیش کیا جاتا رہے گا۔