گلوکارہ مہناز
مجھے دل سے نہ بھلاناچاہے روکے یہ زمانہتیرے بن میرا جیون کچھ نہیںفلم آئینہ کا یہ نغمہ جب بھی کانوں سے ٹکراتا ہے تو وجد طاری ہو جاتا ہے۔ یہ تاریخ ساز فلم 1977ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے ہدایت کار نذرالاسلام تھے جبکہ سنگیت کار روبن گھوش تھے۔ اس فلم کے گیت سرور بارہ بنکوی اور تسلیم فاضلی نے تحریر کیے تھے۔ یہ فلم کراچی کے ایک سنیما میں مسلسل پانچ سال تک نمائش پذیر رہی۔ مذکورہ بالا گیت جس گلوکارہ نے گایا وہ تھیں مہناز بیگم۔ مہناز 1950ء میں کراچی میں پیدا ہوئیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق وہ 1958ء میں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ کجن بیگم برصغیر پاک و ہند کی نامور گلوکارہ تھیں۔ مہناز کا اصل نام تسنیم تھا لیکن جب پلے بیک گائیکی سے انہیں شہرت ملی تو انہوں نے اپنا نام مہناز رکھ لیا۔ مہناز کا کمال یہ تھا کہ پلے بیک گائیکی کے علاوہ وہ غزل، ٹھمری، دادرا اور خیال بھی بڑی عمدگی سے گاتی تھیں۔ وہ سلام، مرثیے اور نوحے بھی باکمال طریقے سے پڑھتی تھیں۔ ان کا خاندان اتر پردیش (بھارت)سے تعلق رکھتا تھا جو 50ء کی دہائی میں پاکستان آ گیا۔ مہناز نے پلے بیک سنگر کی حیثیت سے 70ء کی دہائی میں اپنا کیرئیر شروع کیا۔ ان کی سریلی آواز نے شروع سے ہی سنگیت کاروں اور موسیقی کے مداحوں کو متاثر کیا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں سُر پر بہت کنٹرول تھا۔ انہیں سب سے پہلے پرویز ملک کی فلم ’’پہچان‘‘ سے شہرت ملی۔ یہ فلم 1975ء میں ریلیز ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب ناہید اختر، مہناز، نیرہ نور اور اے نیّر اپنے فن کا جادو جگا رہے تھے۔ رونا لیلیٰ تقریباً آؤٹ ہو چکی تھیں۔ پہچان کا یہ گیت ’’تیرا پیار میرے جیون کے سنگ رہے گا‘‘ بہت مشہور ہوا۔ اس کے بعد 1976ء میں فلم ’’تلاش‘‘ کے اس گیت نے بھی مہناز کو بہت شہرت دی جس کے بول تھے ’’پیار کی یاد نگاہوں میں سجائے رکھنا‘‘۔ اس سے پہلے ان کی فلم ’’روشنی‘‘ کا گیت ’’بولو نا‘‘ بھی مقبول ہو چکا تھا۔ 1977ء میں ’’آئینہ‘‘ کے گیتوں نے ہر طرف دھوم مچا دی۔ اس میں مہناز، نیّرہ نور، مہدی حسن اور عالمگیر نے سحر انگیزگیت گائے۔ مہناز کا یہ گانا ’’مجھے دل سے نہ بھلانا‘‘ اور ’’وعدہ کرو ساجنا‘‘ فلم کے باقی گیتوں کی طرح بہت پسند کیے گئے۔ اس کے بعد فلم ’’بندش‘‘ میں ان کے گیت بڑے ہٹ ہوئے۔ مہناز کا مہدی حسن کے ساتھ یہ دو گانا ’’دو پیاسے دل ایک ہوئے ایسے‘‘ اور پھر ’’تجھے دل سے لگا لوں‘‘ بہت پسند کیے گئے۔ اس فلم کی موسیقی بھی روبن گھوش نے مرتب کی تھی۔ 1978ء میں ایس سلیمان کی فلم ’’پرنس‘‘ سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اس کے تمام گیت خواجہ پرویز نے تحریر کیے تھے اور انہوں نے ثابت کیا کہ وہ پنجابی گیتوں کے علاوہ بڑے عمدہ اردو گیت بھی لکھ سکتے ہیں۔ ’’پرنس‘‘ میں ناہید اختر اور مہناز نے بڑے شاندار گیت گائے۔ مہناز کا یہ گیت جو بابرہ شریف پر پکچرائز ہوا تھا، بہت پسند کیا گیا۔ اس کے بول تھے ’’کوئی چہرہ میرے خوابوں میں سجا رہتا ہے‘‘۔ 1987ء میں مہناز نے پنجابی فلم ’’غازی علم دین شہید‘‘ کے لیے یہ گیت گا کر سب کو چونکا دیا۔ اس کے بول تھے ’’دل لائیے ناں عشق گل پائیے ناں‘‘ انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ بڑے شاندار طریقے سے پنجابی گیت بھی گا سکتی ہیں۔ فلم ’’انوکھا داج‘‘ (1980ئ) میں بھی ان کے گائے ہوئے گانے بڑے ہٹ ہوئے جو دردانہ رحمان پر پکچرائز کیے گئے۔ اس کے بعد فلم ’’چن وریام‘‘ میں انہوں نے میڈم نورجہاں کے ساتھ یہ گیت گایا ’’سن سن سن بھابھی ڈھول پیا وجدا‘‘ اس گیت کو بھی بہت سراہا گیا۔ مہناز کی فلموں میں ’’روشنی، تلاش، آئینہ، بندش، پرنس، غازی علم دین شہید، کالے چور، روٹی، شیشے کا گھر، پلے بوائے، بلندی، انمول محبت، امبر، قربانی، آبشار، بدلتے موسم، پرستش، پہلی نظر، دامن‘‘ اور کئی دوسری فلمیں شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مہناز کو سب سے پہلے 1973ء میں ریڈیو پاکستان کراچی کے سلیم گیلانی نے متعارف کرایا۔ اس کے بعد ٹی وی پروڈیوسر امیر امام نے انہیں ٹی وی پر گانے کا موقع فراہم کیا۔ 1981ء میں انہوں نے امریکہ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے شکاگو، نیویارک اور لاس اینجلس میں فنِ موسیقی کے متوالوں کے سامنے اپنی بے مثل گائیکی کا مظاہرہ کیا۔ تین سال بعد جب وہ برطانیہ گئیں تو وہاں بھی ان کے مداحوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ مہناز نے ریڈیو، ٹی وی اور فلموں کے لیے 2500 گانے گائے۔ ان کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔ فلم ’’خوشبو‘‘ میں ان کا گایا ہوا یہ گیت ’’میں جس دن بھلا دوں ترا پیار دل سے‘‘ کلاسیک کا درجہ رکھتا ہے۔ فلم ’’بازارِ حسن‘‘ میں ان کا یہ گیت بہت پسند کیا گیا ’’لہروں کی طرح تجھ کو بکھرنے نہیں دیں گے‘‘ اور پھر ’’شیشے کا گھر‘‘ میں مہدی حسن کے ساتھ گایا ہوا ان کا دو گانا ’’یہ سفر تیرے میرے پیار کا‘‘ بہت شاندار تھا۔ ’’پلے بوائے‘‘ میں یہ گیت بھی زبان زدِ عام تھا ’’تیرا میرا کوئی نہ کوئی ناتا ہے‘‘۔ ’’دلہن ایک رات کی‘‘ میں بھی انہوں نے ورسٹائل ہونے کا ثبوت دیا جب انہوں نے یہ گیت گایا ’’آ جا آ جا کر لے پیار‘‘۔ ناگ اور ناگن‘‘ میں ان کا گایا ہوا گیت بھلا کون بھلا سکتا ہے ’’من جھومے من گائے‘‘۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی ایسے گیت ہیں جو انہیں زندہ رکھیں گے۔ مہنازواحد گلوکارہ ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ نگار ایوارڈ حاصل کیے۔ 19 جنوری 2013ء کو ان کاانتقال ہوگیا۔ ان کے فن کا آفتاب ہمیشہ چمکتا رہے گا۔