دکنی زبان
اسپیشل فیچر
اردو زبان کے ارتقا کی تاریخ کے مطالعہ سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ اس زبان نے شمالی ہند میں جنم لیا اور اس کے ابتدائی نام ہندوی، ہندی، ہندوستانی، ریختہ اور اردوئے معلی وغیرہ رہے۔ اس کے برعکس جنوبی ہند کے جس علاقہ میں اس کی نشوونما ہوئی وہ دکن کہلاتا تھا۔ لہٰذا یہاں اردو کو دکنی کہا گیا۔ چودہویں صدی عیسوی میں دکن میں بہمنی سلطنت کے قیام کے ساتھ یہ سارا علاقہ علم و دانش کا اہم مرکز بن گیا اور دکنی زبان بول چال کی حیثیت سے آگے بڑھ کر افہام و تفہیم اور تصنیف کی زبان بن گئی۔ نتیجتاً اس کو صوفیائے کرام نے جہاں مذہب اسلام کی اشاعت کے لیے اختیار کیا، وہیں شعرائے کرام نے شعرو سخن کے لیے اس کو اپنایا۔ سلطنت بہمنیہ کا پائے تخت ابتدا میں گلبرگہ رہا۔ بعدازاں بیدر (محمد آباد) قرار پایا۔ محمود شاہ بہمنی کے دور حکومت میں بیدر نے تہذیبی اور سیاسی اعتبار سے بہت ترقی کی۔ اس نے حافظ شیرازی کو اپنے دارالحکومت مدعو بھی کیا تھا۔ بہمنیوں کا وہ عہد جو بیدر سے متعلق ہے 1430ء سے 1525ء کے دور کا احاطہ کرتا ہے۔ اس دور کو دکنی زبان و ادب کا بہترین دور قرار دیا جا سکتا۔ اس دور کی سب سے اہم تصنیف فخر دین نظامی کی مثنوی ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ ہے۔ نظامی کے علاوہ قریشی، ہاشمی، فیروز اور محمود نے دکنی شاعری میں نام کمایا۔ 1525ء میں بہمنی سلطنت کو زوال ہو گیا۔ جس کے بعد دکن میں پانچ خود مختار ریاستیں قائم ہوئیں۔ ان میں سلطنت بیجا پور اور گولکنڈہ دکنی زبان کے اہم مرکز ثابت ہوئے۔ سلطنت بیجا پور کے شعرا میں نصرتی نے نظامی بیدری کی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے طویل عشقیہ اور رزمیہ مثنویاں لکھیں۔ ’’گلشن عشق‘‘ کے علاوہ اس نے اپنے عہد کی تاریخ کو ’’علی نامہ‘‘ اور تاریخ اسکندری‘‘ کے نام سے منظوم کیا۔ وہ علی عادل شاہ ثانی کے دربار کا ملک الشعرا تھا۔ خود بادشاہ بھی ایک اچھا شاعر تھا اور شاہی تخلص کرتا تھا۔ عادل شاہی دور میں شاہی سرپرستی کی بنا پر نامور شعرا پیدا ہوئے جن میں ہاشمی، مقیمی، شوقی، صنعتی، رستمی، عبدل، ملک خوشنود وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس دور میں نثر نگاری کو فروغ حاصل ہوا۔ مذہبی رسالے جیسے ’’کلمۃ الحقائق‘‘ اور ’’گنج مخفی‘‘ لکھے گئے۔ مذہبی اور صوفیانہ مثنویاں لکھی گئیں۔ دکنی شعروادب کا دوسرا اہم مرکز گولکنڈہ تھا۔ سلطان محمد قلی نے 1517ء میں گولکنڈہ میں قطب شاہی سلطنت کی داغ بیل ڈالی۔ اس کا عہدِ حکومت، دکنی شعروادب اور دکنی کلچر کی نشوونما کے لیے ساز گر رہا۔ بہمنی حکومت کے زوال کے بعد بیدر کے دو اہم شعرا محمود اور فیروز بیدری گولکنڈہ آ کر بس گئے اور اپنی شاعرانہ فضیلت کے باعث اساتذہ کا درجہ پا گئے۔ سلاطین گولکنڈہ میں سلطان قلی کے علاوہ محمد قلی قطب شاہ نے علم پروری اور سخن نوازی کے لیے شہرت حاصل کی۔ محمد قلی قطب شاہ نے جسے دکنی زبان کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے ’’معافی‘‘ تخلص اختیار کیا۔ اس بادشاہ نے دکنی کلچر کو اپنی تلگو نوازی اور تلگو شاعری سے نیا آب و رنگ دیا۔ 1687ء میں اورنگ زیب عالمگیر نے گولکنڈہ فتح کیا تو اس نے نہ صرف سلطنت کی تسخیر کی بلکہ یہاں کے کلچر کو ضرب کاری لگائی۔ دکن کی پرانی تہذیبی بستیاں گلبرگہ، بیدر، بیجا پور اور حیدر آباد اجڑ گئیں اور ساری رونق اورنگ آباد منتقل ہو گئی۔ 1724ء میں آصف جاہ اول نے اپنی مطلق العنان سلطنت کی بنیاد ڈالی تو اورنگ آباد کے نشاۃ الثانیہ کا آغاز ہوا۔ آصف جاہ ثانی میر نظام علی خاں نے جب اپنا دارالسلطنت حیدرآباد منتقل کیا تو وہ لسانی اور تہذیبی دھارے جو اورنگ زیب عالمگیر اور آصف جاہ اول کے زمانے میں اورنگ آباد میں رواں تھے وہ حیدر آباد منتقل ہو گئے اور یہاں کی اجڑی بستی پھر سے آباد ہوگئی۔ اورنگ آباد کی مرکزیت گو مختصر عرصے کے لیے قائم رہی مگر اس قلیل عرصے میں اس نے تہذیبی اعتبار سے گہری چھاپ چھوڑی۔ اسی زمانے میں ولی دکنی نے اپنی شاعری کا جادو جگایا۔ اس کی شاعری فارسی اور دکنی زبانوں کا حسین امتزاج ہے۔ اس کی غزلوں میں دکنی مزاح کا احساس ہوتاہے اوردکنی ماحول کا عکس نظر آتا ہے۔ ولیؔ نے دکن سے گجرات اور گجرات سے دہلی کا سفر کیا۔ دہلی کے فارسی گو شعرا نے جب ولیؔ کا کلام سنا تو اس قدر متاثر ہوئے کہ اسی کے رنگ میں غزلیں کہنے لگے۔ آبرو، حاتم آرزو کے یہاں ایسی غزلیں ملتی ہیںجن میں دکنی الفاظ اور محاورے استعمال کیے گئے ہیں۔ ولی دکنی کے علاوہ دکن کے صوفیائے کرام و بزرگان دین نے جنوب میں دکنی اردو کو بڑا سہارا دیا۔ ان کے ارشادات اور ملفوظات اسی زبان میں قلم بند ہوئے ہیں۔ بحری کی ’’من لگین‘‘، وجدیؔ کی ’’پنچھی باچھا‘‘ اور ولی ویلوری کی ’’روضۃ الشہدا‘‘ اس کی مثال ہیں۔ بہت ممکن تھا کہ شمال اور جنوب کی ادبی روایتوں کے اختلاط سے اردو بہت جلد ایک مکمل اور ترقی یافتہ زبان بن جاتی مگر فارسی زبان کی درباری حیثیت نے شمالی ہند کے شعرا کو دیسی الفاظ ترک کر کے فارسی الفاظ اور محاوروں کے استعمال کی جانب راغب کیا۔ زبان کی اصلاح کی تحریکیں شروع ہوئیں تو بہت سارے دکنی الفاظ اور محاورے خارج از ادب قرار دیے گئے۔ سادگی اور حقیقت نگاری کی جگہ تکلف اور تصنع نے لے لی۔ خاص کر لکھنوی شعرا نے اردو شاعری میں صنعت کاری کو داخل کر اس کی اصل سے دور کر دیا۔